economy

وزیراعظم کا کرغزستان میں پاکستانی طلباء پر تشدد کے واقعات پراظہار تشویشPrime Minister expressed concern over the incidents of violence against Pakistani students in Kyrgyzstan

Posted on

وزیراعظم کا کرغزستان میں پاکستانی طلباء پر تشدد کے واقعات پراظہار تشویش
Prime Minister expressed concern over the incidents of violence against Pakistani students in Kyrgyzstan

وزیراعظم شہباز شریف کا کرغزستان میں پاکستانی طلباء پر تشدد پراظہار تشویش…………………..اصغر علی مبارک…. وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کرغزستان سے جو طلبا پاکستان آنا چاہیں، سرکاری خرچ پر ان کی فوری واپسی یقینی بنائیں، طلبہ اور والدین کے درمیان رابطے کےلیے سفارتخانہ ہر قسم کی معاونت فراہم کرے۔ اعلامیہ وزیر اعظم آفس میں کہا گیا کہ امیر مقام بشکیک میں اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات کریں گے، انجینئر امیر مقام پاکستانی طلبا سے بھی ملاقات کریں گے، ان کے مسائل سنیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کرغزستان میں غیر ملکی طلبا مخالف فسادات پر گہری تشویش ہوئی، پاکستانی سفارتخانہ زخمی طلبا کو علاج معالجے کی بہترین سہولتوں کی فراہمی میں معاونت یقینی بنائے، مشکل وقت میں پاکستان کے بیٹے اور بیٹیوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بشکیک میں پاکستانی سفیر کو پاکستانی طلبہ کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایت کردی ہے وزیراعظم نے کرغزستان میں پاکستانی اور دیگر ممالک کے طلبہ کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ مسلسل اپنے آپ کو صورت حال سے آگاہ رکھے ہوئے ہیں۔شہباز شریف نے کرغزستان میں پاکستانی سفیر حسن علی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور پاکستانی طلبہ کو ہر قسم کی مدد و معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کی۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں 13 مئی کو بودیونی کے ہاسٹل میں مقامی اور غیرملکی طلبہ میں لڑائی ہوئی تھی، جھگڑے میں ملوث 3 غیرملکیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔17مئی کی شام چوئی کرمنجان دتکا کے علاقے میں مقامیوں نے احتجاج کیا، مقامی افراد نے جھگڑے میں ملوث غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ، بشکیک سٹی داخلی امور ڈائرکٹریٹ کے سربراہ نے مظاہرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔میڈیا کے مطابق حراست میں لیے گئے غیرملکیوں نے بعد میں معافی بھی مانگی لیکن مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کیا اور وہ مزید تعداد میں جمع ہوگئے، پبلک آرڈر کی خلاف ورزی پر متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔کرغز وفاقی پولیس کے سربراہ سے مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے۔کرغزستان میں پاکستانیوں سمیت غیرملکی طلبہ کے خلاف تشدد کے واقعات کے بعد کرغز سفارتخانے کے ناظم الامور کو ڈیمارش کیلئے دفتر خارجہ طلب کیا گیا تھا جبکہ وزیراعظم نے بھی پاکستانی طلبہ کی ہر ممکن مدد کرنیکی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو کرغزستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ کے ہمراہ، وفاقی وزیر امیر مقام بھی کرغزستان جائیں گے۔ دونوں وزراء آج صبح خصوصی طیارے کے ذریعے بشکیک روانہ ہوں گے۔وزیر خارجہ بشکیک میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ وزیر خارجہ زخمی طلباء کو علاج کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔وزیر خارجہ پاکستانی طلبہ کی وطن واپسی کے معاملات کا جائزہ لیں گے۔وزیراعظم بشکیک میں پاکستانی سفیر سے بھی رابطے میں رہے اور پورا دن صورتحال کا جائزہ لیتے رہے۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پاکستانی طلبہ پر تشدد اور حملوں کی حقیقت سامنے آگئی۔پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ جھگڑا کرغز طلبہ کے مصری طالبات کو ہراساں کرنے پر شروع ہوا، مصری طلبہ کے ردعمل کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔کرغز طلبہ نے غیرملکی طلبا و طالبات پر حملے کیے اور سوشل میڈیا پر بھی حملوں کے لیے اکسایا گیا، ہاسٹل میں لڑکوں اور لڑکیوں پر تشدد بھی کیا گیا۔بشکیک میں 13 مئی کو بودیونی کے ہاسٹل میں مقامی اور غیرملکی طلبہ میں لڑائی ہوئی تھی، جھگڑے میں ملوث 3 غیرملکیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔کرغز میڈیا کے مطابق 17مئی کی شام چوئی کرمنجان دتکا کے علاقے میں مقامیوں نے احتجاج کیا، مقامی افراد نے جھگڑے میں ملوث غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ، بشکیک سٹی داخلی امور ڈائرکٹریٹ کے سربراہ نے مظاہرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔ میڈیا کے مطابق حراست میں لیے گئے غیرملکیوں نے بعد میں معافی بھی مانگی لیکن مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کیا اور وہ مزید تعداد میں جمع ہوگئے، پبلک آرڈر کی خلاف ورزی پر متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔وفاقی پولیس کے سربراہ سے مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے۔پاکستانی سفیر حسن ضیغم نے کرغزستان کے نائب وزیر خارجہ امنگازیف الماز سے ملاقات کر کے پاکستانی طلبہ اور ان کے اہلخانہ کے خدشات سے آگاہ کیا۔پاکستانی سفیر نے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر ملاقات کی۔پاکستانی سفیر حسن ضیغم نے کہا کہ کرغز حکومت پاکستانی شہریوں کے تحفظ کو ترجیح دے۔کرغز نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ کرغز حکام نےصورتحال پر قابو پالیا ہے، پولیس تمام ہاسٹلز کو سیکیورٹی فراہم کر رہی ہے، معاملے کی براہ راست نگرانی کرغز صدر کر رہے ہیں۔کرغزستان حکومت مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی، پاکستانیوں سمیت 14 غیر ملکی شہریوں کو ابتدائی طبی امداد دی گئی ہےبشکیک میں پاکستانی طلبہ اب بھی مشکل میں ہیں طلبہ ہاسٹلز میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور حکومت سے بحفاظت واپسی کی اپیل کی ہے۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں موجود پاکستانی طالبہ نےبتایا ہے کہ یہاں ہنگامہ آرائی جاری ہے، غیرملکی طلبہ محصور ہیں, پاکستانی طالبہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی لڑکے اور لڑکیاں ہاسٹلز سے باہر پانی اور کھانا لینے بھی نہیں جاسکتے، 13 مئی کو جھگڑا مصری طلبہ سے ہوا تھا مگر غصہ کل رات پاکستانی اور بھارتی طلبہ پر نکالا گیا۔طالبہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبات کو بھی ہراساں کیا گیا، پاکستانی لڑکیوں نے واش رومز میں چھپ کر اپنی جانیں اور عزتیں بچائیں، کرغز پولیس اور پاکستانی سفارتخانے نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔طالبہ کا کہنا ہے کہ مناس انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر شرپسند کرغز نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں، ہمیں ہاسٹل اور رہائش گاہوں سے نہ نکلنے کا کہا گیا ہے۔طالبہ نے کہا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے سے کوئی جواب نہیں مل رہا ہم پریشان ہیں، ایئر پورٹ جانے والے غیرملکی طلبہ پر بھی حملے کیےجارہے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ جھگڑا کرغز طلبہ کے مصری طالبات کو ہراساں کرنے پر شروع ہوا اور پھر مصری طلبہ کے ردعمل کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔کرغزستان کی حکومت نے بشکیک میں ہونے والے ہنگاموں میں کسی بھی پاکستانی طالب علم کے جاں بحق نہ ہونے کی تصدیق کردی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ کرغزستان کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ غیرملکی طلبا کے خلاف پُرتشدد ہنگاموں میں کسی پاکستانی طالب علم کی موت نہیں ہوئی۔ کرغزستان کی وزارت داخلہ نے بھی پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صورتحال کنٹرول میں ہےاس سے قبل کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں مقامی اور غیرملکی طلبہ میں لڑائی اور ہنگامہ آرائی کا واقعہ پیش آیا تھا۔
بعدازاں پاکستانی طلبہ کے ہاسٹلز پر حملے اور توڑ پھوڑ کے واقعے میں متعدد طلبہ زخمی بھی ہوئے۔بشکیک میں میڈیکل کے پاکستانی طالبعلم محمد عبداللہ نے کہا کہ جھگڑا کرغز طلبہ کی جانب سے مصری طالبات کو ہراساں کرنے پر شروع ہوا۔پاکستانی طالبعلم کا کہنا ہے کہ کرغز طلبہ کے خلاف مصری طلبہ کے ردعمل کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے، کرغز طلبہ پورے بشکیک میں غیرملکی طلبا و طالبات پر حملے کر رہے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستانی طلبہ سے متعلق پاکستان کرغز حکام سے رابطےمیں ہے۔ پاکستانیوں کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کرغزستان میں پاکستان کے سفیر اور انکی ٹیم ایمرجنسی نمبروں پر موجود ہے۔جمہوریہ کرغزستان وسط ایشیا میں واقع ایک ترکستانی ریاست ہے۔ اس کے شمال میں قازقستان، مغرب میں ازبکستان، جنوب میں تاجکستان اور مشرق میں عوامی جمہوریہ چین واقع ہیں۔ اس کا دار الحکومت اس کا سب سے بڑا شہر بشکیک ہے ۔ اس کا رقبہ تقریبا 198,500 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی ساٹھ لاکھ کے قریب ہے جس میں سے 90 فیصد مسلمان ہیں۔ کرغیز کے علاوہ یہاں روسی، ازبک، ایغور اور زونگار بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔کرغیز کے معنی ہیں “ہم چالیس” جس سے مراد کرغز کے وہ چالیس قبیلے ہیں جو ترک روایت کے مطابق زمانہ قدیم میں متٌحد ہو کر ایک قوم بن گئے تھے۔ کرغیزستانی جھنڈے پر اس اتحاد کی نشان دہی چالیس کرنیں ہیں۔ جبکہ درمیان میں دائیرہ مقامی خیمے، یرت کے مرکز کی نشان دہی کرتا ہے۔ بعض تاریخ دانوں اور زبان شناسوں کے مطابق قرقیز کے اصل لفظی معنی لال ہیں جو اس علاقہ میں مقیم ترک قبیلوں کا قومی رنگ ہوا کرتا تھا۔ کرغزستان کی تاریخ مختلف ثقافتوں اور سلطنتوں پر محیط ہے۔ اگرچہ جغرافیائی طور پر اپنے انتہائی پہاڑی علاقے کی وجہ سے الگ تھلگ ہے، لیکن کرغزستان دیگر تجارتی راستوں کے ساتھ شاہراہ ریشم کے حصے کے طور پر کئی عظیم تہذیبوں کے سنگم پر رہا ہے۔ قبائل اور خاندانوں کی پے در پے آباد ہونے کی وجہ سے کرغزستان کا ماضی بہت بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے، مثال کے طور پر ترک خانہ بدوش، جو بہت سی ترک ریاستوں سے اپنا نسب جوڑتے ہیں۔ یہ سب سے پہلے یینیسی کرگی خاقانیت کے طور پر قائم کیا گیا۔ بعد میں، 13ویں صدی میں، کرغزستان کو منگولوں نے فتح کر لیا۔ اس نے دوبارہ آزادی حاصل کر لی، لیکن بعد میں زونگار خاقانیت نے اس پر حملہ کر دیا۔ زونگاروں کے زوال کے بعد، کرغیز اور کپچاک خوقند خاقانیت کا لازمی حصہ رہے۔ 1876ء ​​میں، کرغزستان روسی سلطنت کا حصہ بن گیا اور 1936ء میں، کرغیز سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کو سوویت یونین کا ایک جزوی جمہوریہ بننے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ سوویت روس میں میخائل گورباچوف کی جمہوری اصلاحات کے بعد، 1990ء میں آزادی کے حامی امیدوار عسکر آکایف صدر منتخب ہوئے۔ 31 اگست 1991ء کو کرغزستان نے ماسکو سے آزادی کا اعلان کیا اور ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ کرغزستان نے 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک قومی ریاست کے طور پر خود مختاری حاصل کی۔ آزادی کے بعد، کرغزستان باضابطہ طور پر ایک واحد صدارتی جمہوریہ تھا۔ ٹیولپ انقلاب کے بعد یہ ایک وحدانی پارلیمانی جمہوریہ بن گیا، حالانکہ اس نے بتدریج ایک ایگزیکٹو صدر بنایا اور 2021ء میں صدارتی نظام میں واپس آنے سے پہلے ایک نیم صدارتی جمہوریہ کے طور پر حکومت بنی۔ اپنی آزادی کے ساتھ ہی کرغیزستان اقتصادی مشکلات، عبوری حکومتوں اور سیاسی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ کرغزستان آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ، یوریشین اکنامک یونین، اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم، شنگھائی تعاون تنظیم، اسلامی تعاون تنظیم، یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم، ترک ریاستوں کی تنظیم ، ترکسوئے کمیونٹی اور اقوام متحدہ کا رکن ہے۔ یہ ایک ترقی پزیر ملک ہے جو انسانی ترقی کے 118 ویں نمبر پر ہے اور پڑوسی ملک تاجکستان کے بعد وسطی ایشیا کا دوسرا غریب ترین ملک ہے۔ ملک کی عبوری معیشت سونے، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
کرغیز ترک زبان کے لفظ جس کے معنی ہیں،”ہم چالیس ہیں” سے ماخوذ ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ماناس کے چالیس قبیلوں کا حوالہ سے ہے، جو ایک افسانوی ہیرو تھا جس نے چالیس علاقائی قبیلوں کو متحد کیا۔ -ستان فارسی میں ایک لاحقہ ہے جس کا مطلب ہے “کا ملک”۔ کرغزستان کے جھنڈے پر 40 شعاعوں کا سورج انہی چالیس قبائل کا حوالہ ہے اور سورج کے مرکز میں تصویری عنصر لکڑی کے تاج کو دکھایا گیا ہے، جسے تندوک کہا جاتا ہے، یہ ایک یرت – ایک خیمہ گاہ جسے روایتی طور پر خانہ بدوش وسطی ایشیا کے میدانوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ملک کا سرکاری نام جمہوریہ کرغیز ہے، جو بین الاقوامی طور پر اور خارجہ تعلقات میں استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی بولنے والی دنیا میں، کرغزستان کے ہجے عام طور پر استعمال ہوتے ہیں، جبکہ اس کا سابقہ ​​نام کرغیزیا شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے۔
آٹھویں صدی میں جب عرب افواج نے وسط ایشیا فتح کیا تو یہاں مقیم آبادی مسلمان ہونے لگی۔ بارہویں صدی میں چنگیز خان نے اس علاقے کا قبضہ کر لیا اور یوں چھ صدیوں تک یہ چین کا حصہ رہا۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں دو معاہدوں کے تحت یہ علاقہ روسی سلطنت کا مفوّضہ صوبہ کرغزیہ بن گیا۔ اس دور میں کئی سرکش کرغیز چین یا افغانستان منتقل ہو گئے۔ 1919ء سے یہاں سوویت دور شروع ہوا جو 31 اگست 1991ء میں جمہوریہ کرغیزستان کی آزادی کے ساتھ اپنے اختتام پر پہنچا۔
کرغیزستان کا رقبہ 198,500 مربع کلومیٹر ہے جس میں سے 80 فیصد تیان شان اور پامیر کے پہاڑی سلسلوں کا علاقہ ہے۔سب سے نچلا نقطہ کارا دریا میں 132 میٹر گہرا ہے اور سب سے اونچی چوٹیاں کاکشال۔تو رینج میں ہے، جو چینی سرحد کو تشکیل دیتی ہیں۔ چوٹی جینگش چوکسو سب سے اونچا مقام ہے۔ موسم سرما میں شدید برف باری موسم بہار کے سیلاب کا باعث بنتی ہے جو اکثر نیچے کی طرف شدید نقصان کا باعث بنتی ہے۔ پہاڑوں سے نکلنے والے پانی کے بہاؤ کو پن بجلی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کے شمال مشرق میں اسیک کول کی نمکین جھیل واقع ہے جو دنیا میں اس نوعیت کی ٹٹی کاکا کے بعد دوسری سب سے بڑی جھیل ہے۔ کرغیز زبان میں اس کے معنی “گرم جھیل” ہیں کیونکہ اتنے برفانی علاقے میں اور اس بلندی پر ہونے کے باوجود یہ سال بھر جمتی نہیں ہے۔ اس نمکین جھیل کے علاوہ کرغیزستان باقی کئی وسط ایشیائی ممالک کی طرح مکمل طور پر خشکی سے محصور ہے۔ اس کی سرحدیں کسی سمندر سے نہیں ملتیں۔ کرغزستان کی آبادی گذشتہ دہائیوں میں پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے تاہم بیشتر کرغیزستانی اب بھی کسان یا خانہ بدوش ہیں۔ اسی فیصد کرغیزستانی ترک نژاد کرغز قوم سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ بقیہ پچیس فیصد نسلاً ازبک اور روسی ہیں۔ ان کے علاوہ زونگار، تاتار، اوغر، قزاق، تاجک اور یوکرینی قومیں بھی یہاں آباد ہیں۔ اگرچہ یہاں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، سرکاری زبانیں صرف کرغیز اور روسی ہیں۔نوے فیصد کرغیزستانی مسلمان ہیں۔ ان میں سے اکثریت حنفی فقہ سے منسلک ہیں جو یہاں سترہویں صدی میں رائج ہوا۔ شہروں سے باہر اسلامی روایات مقامی ترک قبائلی روایات اور عقائد سے ملی ہوئی ہیں۔ بقیہ کرغیزستانی زیادہ تر روسی یا یوکرینی چرچ کے مسیحی ہیں۔ سوویت دور میں یہاں سرکاری لامذہبیت عائد تھی اور کرغیزستان کا آئین اب بھی حکومت میں دین کی مداخلت کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ تاہم آزادی کے بعد اسلام معاشرتی اور سیاسی سطحوں پر بتدریج اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ اس کے باوجود کچھ سیاسی اور معاشرتی گروہ اب بھی سوویت دور کی دہریت کے حامی ہیں۔کرغیزستان سات صوبوں میں مقسوم ہے جو اوبلاست کہلاتے ہیں دار الحکومت بشکیک اور وادئ فرغانہ میں واقع شہر اوش انتظامی طور پر خود مختار علاقے ہیں جو “شار” کہلاتے ہیں۔ صوباؤں کے نام ہیں: باتکین، چوئی، جلال آباد، نارین، اوش، تالاس اور ایسیک کول۔کرغیزستان کی بھاری اکثریت مسلمان آبادی پر مشتمل ہے، 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کرغیزستان کی کل آبادی کا 86.3 فیصد اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور ان کی اکثریت اہلسنت ہے۔ مسلمان پہلے پہل یہاں آٹھویں صدی عیسوی میں وارد ہوئے۔آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ کرغزستان ایک کثیر النسلی اور اسلام کے ساتھ کثیر مذہبی ملک ہے ، بدھ مت، بہائیت، مسیحیت یہودیت اور دیگر مذاہب سب ملک میں موجود ہے۔ سنی اسلام ملک کا سب سے بڑا مذہب ہے،

Prime Minister Shehbaz Sharif expresses concern over violence against Pakistani students in Kyrgyzstan
Asghar Ali Mubarak
Prime Minister Shehbaz Sharif says that the students from Kyrgyzstan who want to come to Pakistan should ensure their immediate return at government expense, and the embassy should provide all kinds of support for communication between students and parents. The statement in the Prime Minister’s Office said that Amir Maqam will meet with senior government officials in Bishkek, Engineer Amir Maqam will also meet Pakistani students and listen to their problems.

The Prime Minister said that he was deeply concerned about the riots against foreign students in Kyrgyzstan, the Pakistani Embassy should ensure support in providing the best treatment facilities to the injured students, and they will not leave the sons and daughters of Pakistan alone in difficult times. Prime Minister Shehbaz Sharif has instructed the Pakistani ambassador in Bishkek to provide all possible help to Pakistani students. Shehbaz Sharif contacted the Pakistani Ambassador to Kyrgyzstan Hasan Ali by phone and instructed to provide all kinds of support to Pakistani students. In Bishkek, the capital of Kyrgyzstan, on May 13, in the hostel of Bodiuni, among local and foreign students. There was a fight, 3 foreigners involved in the dispute were detained. On the evening of May 17, local people protested in Choi Kermanjan Datka area, the local people demanded action against the foreigners involved in the dispute, Bishkek City Internal Affairs Directorate. The chief asked for the demonstration to end. According to the media, the detained foreigners later apologized, but the protesters refused to disperse and gathered in larger numbers, arresting several people for violating public order. After negotiations with the head of the Kyrgyz Federal Police, the protestors dispersed. After the incidents of violence against foreign students including Pakistanis in Kyrgyzstan, the affairs manager of the Kyrgyz Embassy was summoned to the Foreign Office for a demarche, while the Pakistani Prime Minister also It has been directed to help the students in every possible way.

Prime Minister Shahbaz Sharif has decided to send Deputy Prime Minister and Foreign Minister Ishaq Dar to Kyrgyzstan. Along with the Foreign Minister, Federal Minister Amir Makam will also visit Kyrgyzstan. The two ministers will leave for Bishkek this morning by a special plane. The foreign minister will hold meetings with top officials in Bishkek. The Foreign Minister will ensure the provision of treatment facilities to the injured students. The Foreign Minister will review the repatriation of Pakistani students. The reality of violence and attacks on Pakistani students in Bishkek has come to light. Pakistani students say that the dispute started due to the harassment of Egyptian students by Kyrgyz students. Riots broke out after the reaction of Egyptian students. Attacks were made and incited to attacks on social media, boys and girls were also tortured in the hostel. In Bishkek on May 13, there was a fight between local and foreign students in the hostel of Bodiuni, 3 foreigners involved in the fight were detained. According to Kyrgyz media, on the evening of May 17, locals protested in Choi Kermanjan Datka area, local people demanded action against the foreigners involved in the dispute, the head of Bishkek City Internal Affairs Directorate requested to end the demonstration. . According to the media, the detained foreigners later apologized, but the protesters refused to disperse and gathered in more numbers. Several people were also detained for violating public order. After the talks, the protestors dispersed. Pakistani Ambassador Hasan Zaigham met Deputy Foreign Minister of Kyrgyzstan Umangazif Almaz and informed about the concerns of Pakistani students and their families. Pakistani Ambassador met on the instructions of Deputy Prime Minister and Foreign Minister Ishaq Dar. Pakistani Ambassador Hassan Zaigham said that the Kyrgyz government should prioritize the protection of Pakistani citizens. The Kyrgyz Deputy Foreign Minister said that the Kyrgyz authorities have controlled the situation, the police are providing security to all the hostels, and the issue is being directly monitored by Kyrgyz. Kyrgyzstan government will take legal action against criminals, 14 foreign nationals, including Pakistanis, have been given first aid. Pakistani students in Bishkek are still in trouble. The Pakistani student in Bishkek, the capital of Kyrgyzstan, has said that there is a commotion here, foreign students are surrounded, the Pakistani student says that Pakistani boys and girls cannot even go outside the hostels to get water and food. The fight was with the Egyptian students, but the anger was directed at the Pakistani and Indian students last night. The student says that the Pakistani students were also harassed, the Pakistani girls saved their lives and dignity by hiding in the washrooms, the Kyrgyz police and the Pakistani embassy. did not help us. The student says that there are a large number of mischievous Kyrgyz youths at Manas International Airport, we have been told not to leave the hostels and residences. The student has said that there is no response from the Pakistani embassy. Not getting it, we are worried, foreign students going to the airport are also being attacked. The students say that the dispute started when the Kyrgyz students harassed the Egyptian students and then the riots broke out after the response of the Egyptian students. Confirmed. The Kyrgyz government has confirmed that no Pakistani students have died in violent riots against foreign students, officials say. The Ministry of Interior of Kyrgyzstan has also issued a press release stating that the situation is under control. Earlier, there was an incident of fighting and rioting between local and foreign students in Bishkek, the capital of Kyrgyzstan.
Later, many students were injured in the incident of attack and vandalism on the hostels of Pakistani students. Mohammad Abdullah, a Pakistani medical student in Bishkek, said that the dispute started due to the harassment of Egyptian students by the Kyrgyz students. The Pakistani student says. After the reaction of Egyptian students against Kyrgyz students, riots broke out, Kyrgyz students are attacking foreign students all over Bishkek. Spokesperson of the Foreign Office Mumtaz Zahra Baloch said that Pakistan is in contact with the Kyrgyz authorities regarding the Pakistani students. The safety of Pakistanis is of utmost importance, the Ambassador of Pakistan in Kyrgyzstan and his team are on emergency numbers. The Republic of Kyrgyzstan is a Turkestan state located in Central Asia. It is bordered by Kazakhstan to the north, Uzbekistan to the west, Tajikistan to the south and the People’s Republic of China to the east. Its capital is Bishkek, its largest city. It has an area of about 198,500 square kilometers and a population of about six million, of which 90 percent are Muslims. In addition to Kyrgyz, Russians, Uzbeks, Uighurs and Zungars also live here in large numbers. Kyrgyz means “we forty”, which refers to the forty tribes of Kyrgyz who, according to Turkish tradition, united and became a nation in ancient times. were The Kyrgyz flag symbolizes this unity with forty rays. while the circle in the middle marks the center of the local tabernacle, the Yart. According to some historians and linguists, the original literal meaning of Kyrgyz is red, which used to be the national color of the Turkic tribes living in this region.

Prime Minister’s Vision Pakistan’s economic development with Saudi investment وزیر اعظم کا ویژن سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معاشی ترقی.

Posted on

Prime Minister’s Vision Pakistan’s economic development with Saudi investmentوزیر اعظم کا ویژن سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معاشی ترقی.
(Asghar Ali Mubarak)………..

وزیر اعظم کا ویژن سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معاشی ترقی….
.( اصغر علی مبارک)………..ملکی معیشت کو بہتر بنانا سول و عسکری قیادت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ وزیراعظم پاکستان ملکی معیشت کی بحالی اور مضبوطی کے خواہاں ہیں تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیراقتصادی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ پاک فوج کے ہر ممکن تعاون کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا ویژن سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معاشی ترقی ہے سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے سعودی سرمایہ کاروں کا وفد آج پاکستان پہنچے گا خیال رہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی سعودی عرب کی دلچسپی ہمارے ملک کے معدنیاتی منظرنامے کو کافی تبدیل کرسکتی ہے۔ سعودی عرب اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ جس کی مالیت ایک کھرب ڈالرز سے زائد ہے، اس کے ساتھ اب وہ پاکستان کی مائننگ انڈسٹری کی ترقی میں تعاون کے لیے سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔وزیراعظم نے نئی حکومت کی تشکیل کے بعد سب سے پہلے سعودیہ کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں سعودی عرب کے وزیر اعظم کی ہدایت پر یکے بعد دیگرے سعودی عرب کے وفود نے پاکستان کادورہ کیا اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر پیش رفت ہوئی جوپاکستان کی معاشی بحالی کیلئے اہم قدم ہے , پاکستان کا مقصد سعودی سرمایہ کاری سےاپنی معدنیات پر مبنی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔پاکستان کے پاس معدنیاتی وسائل کے انبار ہیں جبکہ سعودی عرب کے پاس ان معدنیات کو زمین سے نکالنے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دولت اور تجربہ ہے۔ فوکل پرسن پاک سعودی شراکت داری اور وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہےکہ سعودی عرب سے ہمارا پرانا رشتہ ہے، اس رشتے کو ہم استحکام کے رشتے میں تبدیل نہیں کر سکے، کبھی اکٹھی ترقی کے حوالے سے ہم نے بات چیت نہیں کی، ہمیں سعودی عرب سے مدد نہیں بلکہ ترقی چاہیے، ہم خود دار قوموں کی طرح گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں،ہم ترقی کے لیے گفتگو کر رہے ہیں، اس سلسلے میں سعودی عرب کے وزرا آئے، پھر ہمارا وفد بھی سعودی عرب گیا، ہمارے آنے کے بعد آ ج سعودی عرب کا وفد ارہا ہے اور تین دن بعد ہم پھر وہاں جائیں گے۔ ہماری در آمدات اور برآمدات میں عدم توازن ہے، ہم نے اپنے ایکسپورٹس پر توجہ دینی ہے، ہماری پیداواری قوت میں دیگر ممالک کے مقابلے فقدان ہے، ہمیں شرح ترقی بڑھانی ہے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے۔حکومت کا سب سے بڑا صارف عوام ہے اور ان کے راستے میں ہم ریڈ ٹیپ کو ختم کر کے ریڈ کارپٹ کی طرف لے کر جائیں گے، یہ وزیر اعظم کا ویژن ہے، ان کا حکم ہے کہ ان چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ بیرونی سرمایہ کاری سے متعلق مجھے ذمہ داریاں دی گئی ہیں، ہمارے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جب بچے بچیاں اسکول، کالجز سے نکلیں تو وہ نا امید نا ہوں، ان کو معلوم ہو کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے، اور آنے والے وقت میں جب وہ باہر نکلیں گے تو نوکریاں بھی ہوں گی اور اگر اللہ نے موقع دیا تو وہ لوگوں کو نوکریاں بھی دے رہے ہوں گے، اس عمل کے لیے وزیر اعظم نے ایک خاکہ تیار کیا ہے۔
یاد رہے کہ معدنیات جیسے کاپر لیتھیم بیٹریز کے لیے ضروری ہیں اور توانائی کی منتقلی اور قابلِ تجدید معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مخصوص معدنیات بشمول تانبے کے حصول کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ انہیں قابلِ تجدید توانائی کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم ان میں سے بہت سی معدنیات ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو جغرافیائی سیاسی طور پر غیرمستحکم ہیں جس کی وجہ سے وہاں کان کنی میں دشواری ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے پاس بھی تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں جس نے سعودی عرب کی توجہ حاصل کی۔ وہ پاکستان کے وسائل کو عالمی تناظر میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے لیےایک اچھی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتا ہے۔سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کان کنی کو اہم سمجھتا ہے اور ان کے نزدیک سرمایہ کاری کے 13 اہم شعبہ جات میں سے کان کنی میں سرمایہ کاری ایک کلیدی اقدام ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان دونوں کو مل کر کام کرنے سے مشترکہ فوائد حاصل ہوں گے جبکہ اس سے پاکستان کی کان کنی کی مہارت اور صلاحیتوں کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ ریکو ڈک، تنابے اور سونے کی کان کنی کا پروجیکٹ بلوچستان کے معدنیات سے مالامال علاقے میں واقع ہے جوکہ ٹیتھیان میگمیٹک آرک کا حصہ ہے۔ سرمایہ کاری سے متعلق متعدد نشستوں کے بعد حتمی مرحلہ اب اس پر مرکوز ہے کہ اس منصوبے میں معاشی شراکت داری کے تناسب میں توازن کیسے رکھا جائے۔حکومت پاکستان سعودی عرب سے ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے بدلے انہیں ریکو ڈک میں وفاق کے شیئرز کا ایک معقول حصہ دینے پر غور کررہی ہے۔ اگرچہ ان مذاکرات سے سامنے آنے والے باتیں ابھی قیاس آرائی پر مبنی ہیں بیرک گولڈ جس کی اس منصوبے میں 50 فیصد کی شراکت ہے، اپنے شیئرز کم کرنا نہیں چاہتی لیکن وہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس منصوبے میں سعودی عرب کی شمولیت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ بیرک کی جانب سے خیرمقدم کیے جانے کے پیچھے اہم وجہ وہ سیکورٹی اور استحکام ہے جو سعودی عرب جیسے بڑے سرمایہ کار کی شمولیت سے اس منصوبے میں شامل ہوگا۔بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی اس تعاون کے حق میں ہے لیکن وہ اپنے شیئرز سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ اگر سمجھوتہ ہوجاتا ہے تو سعودی عرب کو او جی ڈی سی ایل اور بی بی ایل کے تحت موجودہ وفاقی شیئرز مل جائیں گے جس سے اس منصوبے میں شراکت داروں کے شیئرز کا تناسب تبدیل ہوجائے گا۔ دوبارہ بتاتے چلیں کہ شیئرز کی تقسیم کے حوالے سے مذاکرات ابھی جاری ہیں جو ابھی حتمی شکل اختیار نہیں کرپائے ہیں۔سعودی سرمایہ کو پاکستان کے مائننگ سیکٹر میں متعارف کروائیں گے تو یہ متوقع طور پر پاکستان کو معدنیاتی وسائل پر مبنی معیشت کی اہمیت اجاگر کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔ اس حوالے سے طویل مدتی فوائد اور کسی بھی طرح کے ممکنہ جغرافیائی سیاسی یا معاشی فیصلوں میں انتہائی محتاط ہونا ہوگا اور یہ صرف سرمایہ کاری اور شیئرز کی تقسیم کی بات نہیں ہے۔ تانبے کے وسائل کے نام پر ایک ارب ڈالرز میں وفاقی شیئرز کا بڑا حصہ سعودی عرب کے حوالے کردیں گے تو اقتصادی طور پر اچھا فیصلہ ہے۔ یہ اسٹریٹجک طور پر کسی حد تک درست ہوسکتا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہ دونوں ممالک مالیاتی امداد یا کمرشل شراکت داری کے بغیر صرف اقتصادی وعدوں کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے۔ یوں توپاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے جن میں کان کنی کے علاوہ دیگر اہم اقدامات بھی شامل ہیں قومی ایئرلائنز کی نجکاری، زراعت، فارمنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوں گے۔ یہ شراکت داری پاکستان کی معیشت کے لیے ایک تبدیلی کے دور کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے جس میں مائننگ سیکٹر ممکنہ طور پر سب سے آگے ہے۔سعودی عرب کی دلچسپی سے پاکستان کی کان کنی کا مستقبل روشن ہوگا یہ ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسٹریٹجک ہینڈلنگ پر زیادہ منحصر ہے جو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے پاکستان کے معاشی معاملات کو براہ راست سنبھال رہی ہے۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے مثبت نتائج پوری قوم کو دیکھنے کو ملیں گے۔کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد خلیج تعاون کونسل جی سی سی رکن ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فرو غ دیتے ہوئے ملک کے اندر بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنااور معیشت کو بہتر بنانا تھا تاکہ وطن عزیز پاکستان میں معاشی خوشحالی لائی جاسکے۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو پاکستان میں فروغ دینا وطن عزیز کی اقتصادی بحالی کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ اسے پاکستان کی معاشی ترقی و خوشحالی کا ضامن منصوبہ کہا جا سکتا ہے ۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کاوشوں سے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنے کے ملکی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کونسل کے قیام کے بعد سے سرمایہ کاری کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔ مقامی بالخصوص عالمی سرمایہ کاروں کے پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ برادر ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مختلف شعبوں کے اندر سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہےہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے وژن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں 25،25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ مجموعی طور پراس سرمایہ کاری کا حجم 50 ارب ڈالر بنتا ہے ۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اراکین اور اسٹیک ہولڈرز نے سرمایہ کاری کے لیے موزوں مختلف شعبوں کی نشان دہی بھی کر دی ہے جن پر ہنگامی بنیادوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔سعودی حکومت آئندہ دو سے پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں کان کنی، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں 25 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرنے کی خواہاں ہے جو بلاشبہ پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کی کوششوں کی طرف ایک اہم پیش رفت ہو گی ۔ یہ اب تک کی پاکستان میں عرب ممالک کی جانب سے کی جانے والی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو گی۔خیال رہے کہ اس سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر بھی سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی اس سرمایہ کاری کی تصدیق کر چکے ہیں۔ ان کے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے آرمی چیف کوپاکستان میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی تھی ۔ جنرل عاصم منیر نے تاجروں کے ساتھ ایک ملاقات میں اس عزم کا اعادہ بھی کیا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس کی خاطر اپنے اگلے دورے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت سے مجموعی طور پر 75 سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دیں گے ۔
یاد رہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قیام کے وقت ابتدائی طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے جو ہدف مقرر کیا گیا تھا وہ صرف 5 ارب ڈالر تھا لیکن اسلامی ممالک کے تعاون اور پاکستان کی سول و عسکری قیادت کی پر خلوص کاوشوں سے یہ ہدف بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ امید ہے کہ ہماری اعلی قیادت اپنا یہ حدف بہت جلد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ غیر ملکی سرمایہ کار ماضی میں پاکستا ن میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی مارکیٹ ہے جہاں وہ سرمایہ کاری کے ذریعے کثیر زر مبادلہ کما سکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان ان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھا کر اپنی معیشت سنوار سکتی ہے جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی اورزراعت جیسے شعبوں میں مزید بہتری آنے کے امکانات ہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ایس آئی ایف سی کے قیام سے قبل غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کرنے سے قبل ایک کچھ اداروں سے این او سیز اور اجازت نامے حاصل کرنے پڑتے تھے ،پھر ان کو صوبائی سطح پر تو کبھی وفاقی سطح پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے سبب ملک میں بڑی سرمایہ کاری ممکن نہیں ہو پارہی تھی۔ ایس آئی ایف سی کے قیام سے یہ مسئلہ حل ہوا ہے کیونکہ اس کونسل میں وفاقی اور صوبائی وزارتیں ، چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز سمیت اہم وزراء اور وزیر اعظم بھی شامل ہیں جبکہ سول حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ اس میں عسکری قیادت بھی شامل ہے۔ سول و عسکری قیادت کے ایک پیچ پر ہونے سے عالمی برادری کے پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان میں ایسا ادارہ موجود نہیں تھا۔کونسل نے سرمایہ کاری کے طریقہ کارکو انتہائی سہل بنادیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر کئی ممالک اب آسانی کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت جن شعبوں میں بہتری آئے گی ان میں زراعت ،لائیو سٹاک، کان کنی،معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے کلیدی شعبے سر فہرست ہیں۔ ان شعبوںمیں بہتری لانے کے لیے سول و عسکری قیادت کے غیر ملکی دوروں پر خاصی توجہ دی جا رہی ہے کیونکہ یہ دورے دیگر ممالک کیساتھ باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ان کی بدولت باہمی محبت اور بھائی چارے کی فضا پروان چڑھتی ہے۔حال ہی میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی نے عالمی سطح پر رسائی حاصل کرنے کی حکمت عملی اور دوست ممالک کے ساتھ جاری تعاون کو سراہا ہے ۔ دو طرفہ دوروں میں سعودی عرب اور اسلامک آرگنائزیشن فار فوڈ سکیورٹی کے اعلی سطحی وفود کے نتیجہ خیز دورے شامل ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے دنوںمیں ان مربوط اقدامات اور کوششوں کی بدولت ملکی معیشت میں مزید بہتری آئے گی ۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مختلف شعبوں کے اندر سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے بعد ایک بیان میں کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے وژن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ مجموعی طور پراس سرمایہ کاری کا حجم 50 ارب ڈالر بنتا ہے ۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ان مربوط اقدامات اور کوششوں کی بدولت ملکی معیشت میں مزید بہتری آئے گی ۔


The Prime Minister of Pakistan Muhammad Shehbaz Sharif’s vision is Pakistan’s economic development with the investment of Saudi Arabia. The Saudi Arabia has always supported Pakistan in difficult times. The Saudi investors’ delegation will arrive in Pakistan today.
Keep this in mind that Saudi Arabia’s interest in investing in Pakistan can significantly change the mineral landscape of our country. Saudi Arabia is now ready to invest with its public investment fund worth more than one trillion dollars to support the development of Pakistan’s mining industry.
As a result of which Saudi Arabian delegations visited Pakistan one after the other under the direction of the Prime Minister of Saudi Arabia and progress was made on investment projects worth billions of dollars, which is an important step for the economic recovery of Pakistan.
Saudi investment is to improve its mineral-based economy. Pakistan has abundant mineral resources, while Saudi Arabia has the wealth and experience to invest in extracting these minerals from the ground.
Focal Person of Pak-Saudi Partnership and Federal Minister of Petroleum Dr. Mosaddeq Malik says that we have an old relationship with Saudi Arabia, we could not change this relationship into a relationship of stability, we have never discussed about joint development. We don’t want help from Saudi Arabia but development. He said that we want to talk like independent nations. We are talking for development. After that, today the delegation of Saudi Arabia is arriving and after three days we will go there again. We have an imbalance in our imports and exports, we have to focus on our exports, our productivity is lacking compared to other countries, and we have to increase the rate of growth so that people get jobs. The biggest consumer of the government is the people and in his way, we will eliminate the red tape and lead to the red carpet, this is the vision of the Prime Minister, PM ordered that these things should be taken into consideration. He said that related to foreign investment.
Note that minerals such as copper are essential for lithium batteries and play an important role in the energy transition and the development of a renewable economy. There is a global effort to extract certain minerals, including copper, because they are considered important for renewable energy. However, many of these minerals are found in places that are geopolitically unstable, which can make mining difficult. Pakistan also has copper and gold deposits which attracted the attention of Saudi Arabia. They sees Pakistan’s resources as a good investment for achieving renewable energy in the global context. Saudi Arabia’s Public Investment Fund considers mining important and among its 13 key investment sectors, mining. Investing in mining is a key move both Saudi Arabia and Pakistan working together will have mutual benefits while it can also boost Pakistan’s mining skills and capabilities.
The Rico Dick, Coal and Gold Mining Project is located in the mineral-rich region of Baluchistan, which is part of the Tethyan Magmatic Arc. After several meetings on investment, the final phase is now focused on how to balance the proportion of economic participation in the project. In exchange for a billion dollar investment from Saudi Arabia, the government of Pakistan will give those shares of the federation in Rico Duck. Although the outcome of these negotiations is still speculative, Barrick Gold, which has a 50 percent stake in the project, does not want to reduce its stake, but agrees that Saudi Arabia’s involvement in the project would be beneficial. The main reason behind Barrack’s welcome is the security and stability that a major investor like Saudi Arabia will bring to the project. If an agreement is reached, Saudi Arabia will get the existing federal shares under the OGDCL and BBL, which will change the proportion of partners’ shares in the project. Let us repeat that the negotiations regarding the distribution of shares are still going on, which have not yet been finalized. If Saudi capital is introduced in the mining sector of Pakistan, it is expected to highlight the importance of Pakistan’s economy based on mineral resources. In this regard, long-term benefits and any possible geopolitical or economic decisions need to be very cautious and not just about investing and distributing shares. In the name of copper resources, a large part of the federal shares will be handed over to Saudi Arabia in the name of one billion dollars, then it is a good decision economically. This may be somewhat strategically correct. For the first time in history, these two countries are trying to develop mutual relations based on economic commitments only, without financial aid or commercial partnerships. This is a great victory for Pakistan. Thus, the interest of the Gulf countries in Pakistan’s economic sectors has increased, which includes other important initiatives in addition to mining, the privatization of national airlines, the prospects of investment in sectors such as agriculture, farming and information technology will be bright. This partnership could be the beginning of a transformative era for Pakistan’s economy, with the mining sector possibly at the forefront. Saudi Arabia’s interest will brighten the future of Pakistan’s mining sector. This is a strategic move by our security establishment. More depends on the handling which is directly handling the economic affairs of Pakistan through the Special Investment Facility Council.
The whole nation will see the positive results of the Special Investment Facilitation Council. The main purpose of establishing the Council is to increase foreign investment within the country by promoting friendly relations with the GCC member countries, especially Saudi Arabia. Promoting foreign direct investment in Pakistan was an important step towards the economic recovery of the motherland. It can be called a guarantee project for the economic development and prosperity of Pakistan. The efforts of the Special Investment Facilitation Council to attract foreign investors to Pakistan are having far-reaching effects on the country’s economy. Since the establishment of the Council, revolutionary changes have started to take place in the field of investment. Local especially international investors have increased confidence in Pakistan. The brotherly countries of Saudi Arabia and the United Arab Emirates have expressed their desire to invest in various sectors. In total, the volume of this investment is 50 billion dollars. The members of the Special Investment Facilitation Council and the stakeholders have also identified various areas suitable for investment, which are being implemented on an urgent basis. The Saudi government is looking to invest up to 25 billion dollars in mining, agriculture and information technology sectors over the next two to five years, which will undoubtedly be a significant step towards increasing foreign direct investment in Pakistan. This will be the largest investment made by Arab countries in Pakistan so far. It should be noted that earlier Chief of Army Staff General Asim Munir also confirmed this investment made by Saudi Arabia have done during his visit to Saudi Arabia, Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman had assured the army chief of the investment of 25 billion dollars in Pakistan. General Asim Munir, in a meeting with businessmen, also reiterated his commitment that he will make every possible effort to improve the country’s economy and for this purpose, in his next visit, he will meet with Saudi Arabia, United Arab Emirates, Qatar and Kuwait encourage to invest 75 to 100 billion dollars.
It should be remembered that at the time of the establishment of the Special Investment Facilitation Council, the target initially set for foreign investment was only 5 billion dollars, but due to the cooperation of Islamic countries and the sincere efforts of the civil and military leadership of Pakistan. This target has increased to 100 billion dollars. It is hoped that our top leadership will be able to achieve this goal very soon. Foreign investors have preferred to invest in Pakistan in the past because it is a market where they can earn a lot of foreign exchange through investment. Along with this, the government of Pakistan can improve its economy by increasing cooperation with them in various sectors, while there are possibilities of further improvement in sectors like information technology, mining and agriculture. It is noteworthy that prior to the establishment of SIFC, foreign investors had to obtain NOCs and permits from certain institutions before investing within Pakistan, and sometimes at the provincial level. Problems were faced at the federal level due to which large investments in the country were not possible. The establishment of the SIFC has solved this problem as the council includes the federal and provincial ministries, chief secretaries of the four provinces and the Prime Minister as well as the civil government officials as well as the military leadership. With the civil and military leadership on the same page, the confidence of the international community on Pakistan has increased. It should be remembered that there was no such organization in Pakistan before. The Council has made the investment procedure very easy. This is the reason why many other countries including Saudi Arabia and United Arab Emirates can now invest in Pakistan with ease. Among the sectors that will improve under the Special Investment Facility Council are agriculture, livestock, mining, minerals, IT and energy key sectors. In order to improve these areas, special attention is being paid to the foreign visits of the civil and military leadership because these visits are the best means of creating mutual harmony with other countries. Recently the Apex Committee of the Special Investment Facilitation Council has appreciated the strategy of achieving global reach and ongoing cooperation with friendly countries. Bilateral visits include fruitful visits by high-level delegations from Saudi Arabia and the Islamic Organization for Food Security. It is hoped that in the coming days, thanks to these integrated measures and efforts, there will be further improvement in the country’s economy.
Saudi Arabia and the United Arab Emirates have expressed their desire to invest in various sectors. The Prime Minister said in a statement after his recent visit to the Saudi Arabia have expressed their commitment to invest in Pakistan by encouraging the vision of the Special Investment Facilitation Council. In total, the size of this investment is 50 billion dollars. It is hoped that in the coming days, thanks to these integrated measures and efforts, the country’s economy will improve further.