اداروں کے درمیان اختیارات کیلئے کشمکش..سوموٹو اختیارات کا بل کابینہ سے منظور، قومی اسمبلی میں پیش.اصغر علی مبارک…….

Posted on Updated on

اداروں کے درمیان اختیارات کیلئے کشمکش..سوموٹو اختیارات کا بل کابینہ سے منظور، قومی اسمبلی میں پیش.اصغر علی مبارک………………..پاکستان میں اداروں کے درمیان اختلافات کے بعد اب اختیارات کیلئے کشمکش سامنے آچکی ہے اس سلسلہ میں وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے اور سپریم کورٹ کے بینچوں کی تشکیل کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے بل کی منظوری دے دی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کی جانب سے اصل دائرہ اختیار کے استعمال کا موضوع مختلف فورمز پر زیر بحث تھا۔

ایک روز قبل، سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارات پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ ایک آدمی کے تنہا فیصلے پر انحصار نہیں کر سکتی۔

پیر کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے چیلنج کی گئی درخواست کی سماعت کے چند گھنٹوں دونوں ججوں نے یہ ریمارکس اپنئے تفصیلی اختلافی نوٹ میں دیے تھے۔دونوں ججوں نے کہا تھا کہ صوبائی انتخابات کے حوالے سے سوموٹو کی کارروائی 3-4 کی اکثریت سے مسترد کر دی گئی اور کہا کہ چیف جسٹس کو متعلقہ ججوں کی رضامندی کے بغیر بینچوں کی تشکیل نو کا اختیار نہیں ہے۔

اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے آج قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اختلافی نوٹ کو امید کی کرن قرار دیتے ہوئے اس تناظر میں متعلقہ قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کل سپریم کورٹ کے دو ججز کا فیصلہ آیا، عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں امید کی نئی کرن ہیں، اگر کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہیں کی تو مؤرخ ہمیں معاف نہیں کرے گا، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔

وزیراعظم نے چیف جسٹس سے حال ہی میں سامنے آنے والی ایک جج کی آڈیو کی فرانزک کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔

قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئین نے اداروں کے درمیان اختیارات کو واضح کردیا ہے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا کون کون سے اختیارات ہیں اور ریڈ لائن لگادی کہ اسے کوئی عبور نہیں کرسکے گا لیکن بعد میں تاریخ میں کیا کیا واقعات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں۔

سپریم کورٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ کل 2 ججز نے کہا کہ الیکشن سے متعلق فیصلہ 3 کے مقابلے 4 کی اکثریت کا تھا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں کئی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس ایوان میں بیٹھیں اور اپنی معروضات پیش کریں کہ کل جو فیصلہ آیا اس کے حوالے سے پارلیمان کیا قانون سازی کر سکتی ہے کیوں کہ پارلیمان کو ملکی مفاد میں ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی یہ آوازیں امید کی نئی کرن ہیں، جب عدل نظر آئے تو اس ملک میں تمام خطروں کے بادل چھٹ جائیں گے اور ترازو کا توازن جنگل کے قانون کو بدلے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ججز کے نام گلی محلوں کے بچوں کے منہ پر ہیں اگر ہمیں اسے ختم کرنا ہے تو انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے اس کے لیے قانون، آئین ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم قانون سازی کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہیں کی تو مؤرخ ہمیں معاف نہیں کرے گا، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی، اس لیے ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کروڑوں عوام کو ریلیف دلانا ہے یا ایک لاڈلے کو ریلیف دینا ہے، آئین و قانون پر عمل کرنا ہے یا جنگل کے قانون کو ملک میں چلتے رہنا ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ایک آڈیو میں سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں انکشافات کیے گئے، معلوم نہیں کہ وہ حقائق پر مبنی ہیں کہ نہیں لیکن میں چیف جسٹس سے گزارش کروں گا کہ اس آڈیو کا فرانزک کرائیں کہ اگر (آڈیو) جھوٹی ہے تو قوم کو پتا چلنا چاہیے اور اگر سچی ہے تو سچ سامنے آنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اس آئین کا سنگین مذاق اڑایا جارہا ہے، اس آئین میں موجود اختیارات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں، ایک لاڈلا کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا، جتنے اسے حاضری کے نوٹس ملتے ہیں اس پر مختلف عدالتوں سے توسیع حاصل کرلی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو کس طرح اپوزیشن اراکین اور ان کے خاندان کی وچ ہنٹنگ کی گئی، جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ایک لاڈلا تحکمانہ انداز میں بات کرتا ہے اور آئین و قانون کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتا ہے لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا، یہ وہی لاڈلا ہے جس نے اسی پارلیمنٹ پر دھاوا بولا تھا جس کے حواریوں نے گندے کپڑے سپریم کورٹ پر لٹکائے، قبریں کھودیں اور ایوان کو گالیاں دی تھیں لیکن اس کے باوجود تنخواہ جیب میں ڈالتا رہا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کہا گیا کہ یہ حکومت امریکی سازش کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے، کئی ماہ یہ شخص یہ جھوٹ پوری قوم کے آگے بولتا رہا اور ایک طبقہ یہ سمجھنا شروع ہوگیا کہ واقعی یہ امریکا کی سازش ہے اور یہ حکومت امپورٹڈ حکومت ہے لیکن چند ہفتے قبل قلابازی کھائی اور کہا کہ امریکا کی سازش نہیں تھی اپنوں کی سازش تھی۔

انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے افلاطون آئے ہوں گے ڈرامے باز آئے ہوں گے لیکن اس طرح کا ٹوپی ڈراما شاید ہی کسی نے کیا ہو اور پاکستان کی بنیادیں ہلادیں۔ شہباز شریف نے کہا ہے پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تمام شرائط مکمل کردی ہیں اور اب ہمیں دوست ممالک سے وعدوں کو پورا کرانے کا کہا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاڈلے کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس کی خلاف ورزی ہم نے نہیں بلکہ عمران نیازی نے کی اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا، بڑی مشکل سے اس مخلط حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ پوری طرح رابطے میں ہیں لیکن جو وعدوں کی خلاف ورزیاں ہوئیں آج آئی ایم ایف ہم سے قدم قدم پر ضمانتیں لینا چاہتا ہے جو دی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی کوششوں کی بدولت آئی ایم ایف کی تمام شرائط مکمل کردی گئی ہیں لیکن اب ہمیں یہ کہا جارہا ہے دوست ممالک سے جو وعدے ہیں انہیں پورا کیا جائے اسے بھی ہم پورا کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی کے 4 سالہ دور میں پاکستان کا قرض 70 فیصد بڑھ گیا، ایک نئی اینٹ نہیں لگائی البتہ اکھاڑی ضرور گئی، کروڑوں نوکریوں اور مکانات کا وعدہ کیا گیا اور کرپشن، مہنگائی کے انبار لگادیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت کے وزیر خارجہ اور درجہ بدرجہ سب 11 ماہ بعد بھی دوست ممالک کو راضی کرنے میں لگے ہیں، امریکا سے بہتر تعلقات پر دن رات کوششیں کر رہے ہیں، لیکن جو تباہی اس شخص نے خارجہ محاذ پر کی اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ برادر ممالک کے زعما کو ناراض کیا گیا، ہم 11 ماہ سے انہیں راضی کرنے پر لگے ہیں کہ وہ ایک غیر سنجیدہ آدمی تھا جس نے پاکستان کے تعلقات کو تباہ و برباد کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج اسی عمران نیازی نے لاکھوں ڈالر سے لابنگ کمپنیز ہائر کرلی ہیں جن کے ذریعے پاکستان کے خلاف کیا کیا ناٹک رچایا جارہا ہے، وہاں کچھ لوگوں کو تیار کر کے بیانات دلوائے جارہے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ایک شخص جس کا میں نام نہیں لینا چاہتا اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہی شخص تھا جو کہتا کہ اپوزیشن والے چور ڈاکو ہیں انہیں سفارت کاروں سے ملنے کا کوئی حق نہیں آج دن رات میٹنگز ہورہی ہیں، کس منہ سے یہ شخص دن رات یہ باتیں کرتا ہے جس کی تردید بھی خود کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ حالات ہیں کہ قوم کے اندر تقسیم در تقسیم کردی گئی ہے اور اس لاڈلے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس لاڈلے کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے، قانون بہر حال اپنا راستہ بنائے گا، بہت ہوگیا، پلوں سے بہت پانی بہہ گیا۔

انہوں نے کہا کہ کبھی آپ نے یہ دیکھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے قانونی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے جائیں ان پر پیٹرول بم پھینکے جائیں، ان کی گاڑیوں کو آگ لگادی جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو، ضمانتوں پر ضمانتیں ملیں، یہ تو جنگل کا قانون ہے یہ آئین کو دفن کرنے کی مذموم سازش ہے۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ اس ہاؤس کو ان معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہوگا، 29 نومبر کو پاکستان کے نئے سپہ سالار کا انتخاب ہوا، جو وزیراعظم کا اختیار تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ کابینہ کا اختیار ہے اور بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوری مشاورت کے ساتھ جنرل عاصم منیر کو سپہ سالار بنانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح ہم ہر ہفتے کابینہ میں ہر معاملہ لے کر جاتے ہیں، باقی اداروں کو بھی کابینہ میں فیصلے کرنے چاہئیں، اگر یہ کام ہم کر رہے ہیں تو باقی کیوں نہیں کرسکتے۔

شہباز شریف نے کہا کہ آرمی چیف اور جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کا فیصلہ 100 فیصد میرٹ پر ہوا لیکن آج لندن میں پی ٹی آئی کے ٹرولرز جس طرح افواج کی قیادت کے خلاف وحشیانہ زبان استعمال کر رہے ہیں 75 برس میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت سے زیادہ کون خوش ہوگا ہمارے دشمنوں کو اور کیا چاہیے، جس ملک نے آپ کو بنایا پڑھایا لکھایا آج دشمن سے بھی بڑھ کر اس پر وار کر رہے ہیں، ہم اس کی اجازت نہیں سے سکتے اگر اجازت دی گئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس ایوان کو اس پر ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا قبل اس کے کہ دیر ہوجائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ توشہ خانہ سے گھڑی لے کر دبئی میں بیچی گئی اس کیس کا کیا ہوا؟ دن رات ضمانتیں ہورہی ہیں ایک لمبی لیز ملی ہوئی ہے اگر یہ ہے وہ انصاف کا نظام تو اس ملک کا خدا حافظ ہے، پاکستان کے طول و عرض میں ہر عدالت انہیں ضمانت دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں عدالتوں میں کھڑا کیا جاتا تھا چاہے کوئی بیمار ہو کوئی پرواہ کیے بغیر ہمیں انسداد دہشت گردی عدالتوں کی گاڑیوں میں لے جایا جاتا تھا، وہاں تحکمانہ انداز میں عدالتوں کو ڈکٹیٹ کیا جاتا تھا، واٹس ایپ کے ذریعے ججز تبدیل ہوتے تھے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جن کے خلاف یہ مقدمات بنائے گئے کسی کے سامنے سزا دلوانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں آیا لیکن اگر ان جج صاحب کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، سیاستدان تو ایک منٹ میں جیلوں میں جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں معزز، امانت دار، خوف خدا رکھنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں اور خائن، سازشی برباد کرنے والے اور جھوٹے افراد بھی ہوتے ہیں، آج تک اعلیٰ عدلیہ کے کتنے ججز کرپشن پر نکالے گئے؟ گزشتہ 40 برس میں ماسوائے شیخ شوکت اور چند ایک اور ججز کے کتنے ججز کو کرپشن پر نکالا گیا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کے خلاف آنکھیں بند کر کے آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات بن جاتے ہیں اور وہ سالہا سال رلتے رہتے ہیں، یہ وہ غیر منصفانہ نظام ہے جس سے 70 سال بعد پاکستان کو اس نہج پر پہنچادیا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم آنکھیں بند کر کے گائیں بھینس کی طرح ہانکے جائیں گے یا پھر قانون اور آئین کی حکمرانی پر کاربند ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کیے گئے اگر اپوزیشن کا کوئی بڑے سے بڑا لیڈر اس طرح کی بات کرتا تو آج اسے کالے پانی میں پہنچا دیا گیا ہوتا یا دیوار میں زندہ چن دیا گیا ہوتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ آج لاڈلے کو سب نے دیکھا کہ دہشت گرد آئے انہوں نے سارا کام کیا اور کسی نے چوں تک نہ کی، کس طرح عمران نیازی 2021 میں دہشت گردوں کو واپس لے کر آیا اور انہیں پیشکشیں کی اور انہیں سوات اور دیگر علاقوں میں بسایا گیا جس کے بعد دہشت گردی نے سر اٹھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ کس طرح پاکستان کے بے گناہ بھائی بہن ماؤں، پولیس اہلکاروں، فوج کے افسروں نے جامِ شہادت نوش کیا، تو انہیں کون لے کر آیا اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب اس ایوان میں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا تو اراکین نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ یہ نہ کریں دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے کوئی اچھا برا نہیں، لیکن یہی بتایا گیا کہ ہم طاقت ور ہیں، ہم سنبھال لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کیمرا میٹنگ کی وجہ سے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتا سکتا لیکن آخر کیا مقاصد تھے کہ ان کو لاکر 2018 کے الیکشن کی طرح دوبارہ جھرلو چلوانا تھا اور ایک پارٹی کو فائدہ دلوانا تھا، یہ وہ چھبتے سوال ہیں جن کا جواب ملنے تک قوم اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔ شہباز شریف نے کہا کہ جو ریاست مدینہ کا نام لے کر قوم کو دھوکا دے اور دوسروں کو چور اور ڈکو کہے اور خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی کو بیچ دے جو قانون و آئین کو نہ مانے اس سے بات نہیں ہوسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک کہ وہ قوم کے سامنے یہ تسلیم نہ کرے کہ میرے ماضی کی وجہ سے قوم کو، آئین، جمہور عدلیہ کو زک پہنچی ہے اور اس پر معافی مانگتا ہوں تو پھر ہم سب بیٹھ کر مشورہ کرلیں گے، کیوں کہ ہمارے پاس توپیں، چھڑیاں نہیں صرف شائستہ زبان، آئین و قانون ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم جس آئین پر حلف اٹھا کر یہاں بیٹھتے ہیں کیا اس کی اصل روح کی پاسداری کر رہے ہیں یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے ہر ستون کی حفاظت کی جانی چاہیے، آئین کے نام پر آئین کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے اسی انداز میں چلایا جانا چاہیے جس حالت میں ذوالفقار کی زیر قیادت اسے آئین بنانے والوں نے دیا تھا، بدقسمتی سے ملک میں آنے والے مارشل لا کے ذریعے ایک عرصے تک ہر ادارے پر دوسرے ادارے نے قبضے کیے رکھے۔

انہوں نے کہا کہ ونسٹن چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کہا تھا کہ اگر ملک میں عدالتیں ٹھیک کام کر رہی ہیں تو ملک کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، اسی روح کے تحت عدلیہ کو وہ اختیارات اور حقوق دینے کی جدوجہد شروع ہوئی جو ان کا حق تھا بالخصوص اس وقت جب سابق آمر جنرل مشرف نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اختیارات کو محدود کردیا اور اس موقع پر ان سب نے ایک جدوجہد کا آغاز کیا تھا، وہ ججوں کی بحالی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

نوید قمر نے کہا کہ تحریک کامیاب ہونے کے بعد عدلیہ نے اتنی طاقت حاصل کر لی جو پاکستان کی تاریخ میں کسی نے بھی حاصل نہیں کی تھی اور پھر صورتحال نے بالکل یکسر الٹی ڈگر اختیار کر لی، یہ صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ کوئی بھی ایگزیکٹو فیصلہ عدالتی دائرہ کار سے باہر نہ رہ سکا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں انہوں نے سوموٹو لینا شروع کردیے اور حکومت کے روزمرہ امور میں مداخلت کرنے لگے، وہ ٹرانسفر اور تقرریوں میں بھی مداخلت کرنے لگے جو مکمل طور پر ایگزیکٹو کا اختیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حد سے تجاوز کرنے کا یہ معاملہ اس مقام تک پہنچ گیا کہ سوموٹو اختیارات کے تحت اس وقت کی یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو برطرف کردیا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آئین وزیراعظم کو ہٹانے کا صرف ایک طریقہ بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایوان وزیراعظم کو ووٹ کی طاقت سے باہر کرے لیکن عدالت کے حد سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں وزیراعظم کو برطرف کرنے کے لیے ایک پچھلا دروازہ بھی ڈھونڈ لیا گیا اور یہ شق اصل میں آئین بنانے والوں نے نہیں بلکہ ایک فوجی آمر نے شامل کی تھی اور اس کے نتیجے میں ایک اور وزیراعظم کو ہٹا دیا گیا، کیا یہ عدلیہ کا حد سے تجاوز کرنا نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ بدقسمتی سے عدالتیں سیاسی ہو گئیں اور انہوں نے آئین کی روح پر عمل کرنے کے بجائے ایک سیاسی موقف اختیار کرنا شروع کردیا، سیاستدانوں جیسا رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا، سوموٹو نوٹس کی طاقت کا بار بار غلط استعمال کیا گیا اور میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں بروقت اس حوالے سے کوئی قدم نہ اٹھانے پر ذمے داری قبول کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر ہم ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں ہمیں فیصلہ لینا ہے کہ کیا ہم آئین کی روح کو خاموشی سے روندنے دیں گے یا ہم آگے کی جانب پیشرفت کریں تاکہ حقیقی انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے کیونکہ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ یا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

نوید قمر نے کہا کہ ہماری تاریخ سپریم کورٹ کے غیرمنصفانہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے، ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، ہمیں وہ صفحات پھاڑ دینے چاہئیں جنہوں نے ہمیں نظریہ ضرورت دیا اور جس نے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا اور ایک کے بعد ایک وزیراعظم کو برطرف کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اب ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جنہیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے، یہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ دونوں کے لیے بہترین موقع ہے، دونوں اداروں کو اس موقع سے سامنے آنا چاہیے اور ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جو پوری قوم کے لیے قابل قبول ہوں۔ کابینہ کی طرف سے منظور کردہ بل میں بینچوں کی تشکیل کے بارے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے ہر وجہ، معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے بڑے بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے ان ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک ’منتخب پارلیمنٹ‘ کو تفصیلی بحث کے بعد ایسا کرنے کا حق ہے۔عدالتی اصلاحات کا بل کابینہ سے منظوری کے بعد آج وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔

وزیر قانون نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بار بار معمولی باتوں پر سوموٹو نوٹسز کیے گئے ، یہ سوموٹو ادارے کی تکریم کا باعث نہیں بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی عدالت عظمی کا فیصلہ آیا جس میں ججز صاحبان نے لکھا کہ یہ ضروری ہے کہ کیسز کی تقسیم میں یکسانیت رکھنے کے لیے ایسا میکانزم بنایا جائے جس میں شفافیت ہو

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.