Month: December 2022

داعش پاکستان میں قدم جمانے کیلئے کوشاں ;نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری…..

Posted on

داعش پاکستان میں قدم جمانے کیلئے کوشاں ;نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری….
.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…
داعش افغانستان کے راستے پاکستان میں قدم جمانے کیلئے کوشاں نظرآ رہی ہے۔ تاہم سیکورٹی فورسز داعش اور اسکی اتحادی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں مصروف عمل ہے اس مقصد کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری ہوگیا ہے پاک فوج کے نومنتخب آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے توقع ہے آپریشن ردالفساد کی طرز پر کوئی بڑا آپریشن جلد شروع کر دیں گے تاکہ داعش پاکستان میں قدم نہ جما سکے اس سلسلے میں گزشتہ روز سی ٹی ڈی نے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن میں داعش کمانڈر سمیت 4 دہشتگردوں کوہلاک کردیا ، دہشتگرد اافغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔
وزارت داخلہ کے زرائع مطابق دہشت گردوں کی افغانستان بارڈرپار کرنے کی اطلاع پر سیکورٹی فورسز اور سی ٹی ڈی نے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا۔ آپریشن کے دوران انٹیلی جنس بیسڈآپریشن ٹیم کا سامنا ہونے پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی ، جوابی فائرنگ میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔

ہلاک دہشت گردوں میں داعش کا مقامی کمانڈر محمد داؤد بھی شامل تھا جبکہ 2ہلاک دہشت گردوں کی شناخت عبداللہ اورمحمد لائق کےنام سے ہوئی ہے تاہم ایک ہلاک دہشت گرد کی شناخت تاحال نہ ہوسکی۔ ہلاک دہشت گردوں سے دو ہینڈ گرنیڈ، 2 کلاشنکوف،6 میگزینز اور،2 پستول برآمد بھی کیےگئے ہیں جبکہ درجنوں کارتوس ،شناختی کارڈ سمیت پاکستانی کرنسی دیگر سامان برآمد ہوا ھے،
خیال رہے داعش کا اصل ہدف پاکستان میں فرقہ وارایت کو ہوا دینا ہے۔ ماضی میں داعش جتنے بھی حملے کیے گئے ہیں، ان حملوں میں اکثریت میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں بھی بڑے پیمانے پر داعش ملوث رہی ہے۔

قبل ازیں کوئٹہ زرغون روڈ پر قائم گرجا گھر پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی ،
افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد سے وہاں داعش کافی کمزور ہوچکی ہے۔
افغانستان میں سابقہ دور حکومت میں پاکستانی طالبان بھی داعش کے ساتھ مل کر اپنے اہداف ہر حملے کرتے رہے ہیں۔ اس وقت جن جن علاقوں میں ٹی ٹی پی کے لوگ روپوش ہیں انہیں وہاں ماضی کی طرح افغان حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ۔
جب تک پاک افغان سرحد پر دونوں اطراف سے حفاظتی معاملات بہتر نہیں بنائے جاتے افغانستان سے دہشتگردوں کے پاکستان میں داخلے کو مکمل طور کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ داعش کے دہشتگرد بلوچستان میں دہشت گردی میں بڑے پیمانے پر ملوث رہے ہیں۔
ماضی میں انٹیلی جنس آپریشنز میں داعش کے کئی بڑے رہنما بھی مارے جا چکے ہیں۔ داعش پاکستان کا سربراہ ابو عمر بھی بلوچستان کے علاقے چاغی میں انٹیلی جنس کے ایک آپریشن کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔

بدامنی میں ملوث تنظیمیں ایک منظم منصوبے کے تحت پاکستان قیام امن کی صورتحال کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب تک جو بھی کارروائیاں ہوئی ہیں، ان میں مقامی قبائل کا سیکورٹی فورسز سے تعاون بھی سرفہرست رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاک افغان سرحدی علاقوں کی سیکورٹی میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا ہے۔
افغانستان سے دہشتگردوں کے پاکستان میں داخلے کو روکنا ہماری اولین ترجیح رہی ہے۔
افغانستان کے جن علاقوں میں افغان طالبان کا اثرو رسوخ کم ہے وہاں داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیمیں فعال ہوتی جا رہی ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران داعش نے کئی بار بلوچستان میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی ہے تاہم شدت پسند اپنی حکمت عملی میں ناکام رہے ہیں۔

بلوچستان میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف سیکورٹی فورسز کا بڑا آپریشن جاری ہے۔
مستونگ اور ملحقہ علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے میں داعش خراسان کے متعدد اہم کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات بھی ہیں،

بلوچستان کے شہرکوئٹہ کے قریب اسپلنجی اور کابو کےعلاقے میں جاری عسکری آپریشن میں داعش کے پانچ اہم کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں
بتایا گیا ہے کہ اس آپریشن میں تین پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے.

اطلاعات کے مطابق ہلاک شدگان میں داعش کے تین ایسے سرغنہ کمانڈر بھی شامل ہیں جو کہ افغانستان کے صوبہ کنڑ سے حال ہی میں بلوچستان منتقل ہوئے تھے۔
یہ خصوصی آپریشن انٹیلی جنس اداروں کی نگرانی میں کیا گیا جس مقام پر داعش کے عسکریت پسند مارے گئے تھے وہ ایک ایسا کمپاونڈ تھا جوکہ مقامی آبادی کے اندر قائم کیا گیا تھا۔
ہلاک عسکریت پسندوں کے ٹھکانے سے کئی اہم دستاویزات بھی برآمد ہوئیں۔ جن کی روشنی میں دیگر علاقوں میں بھی آپریشن کیا گیا

اطلاعات کے مطابق داعش کے روپوش عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے سیکیورٹی فورسز نے کئی شورش زدہ علاقوں کا گھیراؤ کیے رکھا ۔ پہاڑی علاقوں میں ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں ہیلی کاپٹرکا بھی استعمال کیا گیا
کابل میں امارت اسلامی خراسان کی طرف سے خونریز حملوں کے بعد پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سلامتی امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ داعش کے ابھرنے سے پاکستان کی سکیورٹی کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک تاریخ رہی ہے اور ملک میں کئی ایسے مذہبی طبقات ہیں، جو اس فرقہ پرست تنظیم کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے کچھ رہنماؤں نے چند برس پہلے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس کے بعد پاکستان میں داعش نے کئی حملے مزارات اور اہل تشیع افراد پر کیے تھے۔
داعش کے ابھرنے سے پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام کے خطرات بڑھیں گے۔کچھ برس پہلے طالبان کے کچھ سرکردہ رہنماؤں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس شدت پسند تنظیم نے پاکستان میں مزارات اور شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملے کیے تھے۔ اب اس کے ایک بار پھر ابھرنے سے ایسے حملوں کے خطرات بڑھ جائیں گے، جن سے پاکستان میں عدم استحکام کا بھی خطرہ ہے اور اس کے علاوہ اس تنظیم کی وجہ سے ملک کے سماجی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے میں داعش کے لیے کام کرنے والے چین، روس، ایران اور پاکستان کے مخالف ہیں، اس کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے، جس میں ازبک ،تاجک چیچن، داغستان سے تعلق رکھنے والے اور چین کے مغربی علاقے سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند شامل تھے، جو شام میں لڑنے کے لیے بھی گئے تھے اور بعد میں انہیں واپس افغانستان لایا گیا۔
ماضی میں لشکر جھنگوی کے عناصر نے بھی داعش سے مل کر افغانستان میں اہل تشیع افرد پر حملے کیے تھے ۔ پاکستان میں بھی یہ خطرہ ہے کہ یہ ان کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ کارروائی کریں، جس سے پاکستان میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے افراد ہیں، جو کسی بھی مذہبی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں لیکن وہ داعش کے نظریات سے متاثر ہیں اور ان کے لیے کام کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں اورکزئی ایجنسی کے علاوہ کچھ علاقوں میں داعش کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی ہے گو کہ وہ افرادی طور پر بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں،
داعش کے نظریات انتہائی خطرناک فلسفے پر مبنی ہے، ”وہ اپنے علاوہ سب کو مرتد سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا یہ فلسفہ انتہائی تکفیری ہے اور یہ بہت تقسیم پیدا کر سکتا ہے۔
داعش کے لوگوں میں منتخب افراد کو ٹارگٹ کرنے اور چھوٹے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سلیپر سیل بھی ہیں، جو پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔
داعش کے نظریاتی ساتھی یہاں بھی ہیں اور اس سے پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اور ملک میں مزارات اور مذہبی اقلیتوں پر حملے ہو سکتے.
داعش کی وجہ سے پاکستان کی سکیورٹی کو چیلنجز کا سامنا ہے لیکن یہ ایسے چیلنجز ہیں جن پر پاک فوج قابو پانے کیلئےکوشاں ہے اور قربانیاں دے کر ملک و قوم کی حفاظت کر رہی ہے ، کیونکہ پاکستانی فوج پہلے بھی اس صورت حال کا سامنا کر چکی ہے اورپاک فوج برسوں سےدہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے. واضح رہے کہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر مختلف علاقوں میں چینی انجینئرز اوردیگر رہنماؤں پر ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری بھی داعش قبول کرچکی ہے ۔ دریں ا ثنا بلوچستان کے علاقے آواران میں واقع بازار کے شاپنگ مال میں ہونے والے دھماکے میں ایک شخص جاں بحق جب کہ خواتین اور بچوں سمیت 7 افراد زخمی ہوگئے۔
واضح رہے کہ 30 نومبر کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے بلیلی میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک کے قریب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کیے گئے خود کش دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت 4 افراد جاں بحق جب کہ متعدد اہلکار اور شہری زخمی ہوگئے تھے۔ خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے امن مذاکرات اور افغانستان سے امریکی انخلا کا فائدہ اٹھا کر پاکستان میں پھر سے اپنے قدم جمالیے اس سلسلے میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ’نیکٹا‘ کی جانب سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مالاکنڈ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا کہ امریکی انخلا اورامن مذاکرات کے باعث طالبان دوبارہ سوات میں متحرک ہوئے، متعلقہ علاقوں میں 200 سینیٹائزیشن سرچ آپریشن کیے گئے، انٹیلی جنس کی بنیاد پر 77 آپریشنز میں کئی افرادکوگرفتارکیا گیا۔رپورٹ کے مطابق امن مذاکرات کے وقفے میں کالعدم ٹی ٹی پی نے خود کو مستحکم کیا، سوات میں ڈیرے ڈالے، نتیجے میں آگے چل کر دہشتگردی بڑھ گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں عوام نے طالبان کا خیرمقدم نہیں کیا، ان لوگوں کو ادارہ جاتی میکنزم سے تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔
سینیٹ کمیٹی داخلہ نےکالعدم تحریک طالبان سے متعلق ان کیمرااجلاس طلب کرلیا اورکہا کہ طالبان سے متعلق پیدا ہونے والی صورت حال انتہائی حساس ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے نیکٹا کو آئندہ اجلاس میں طالبان کے بارے میں ان کیمرہ بریفنگ کی ہدایت کردی۔ دوسری جانب ملک بھر بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی لہر کے باوجود دو سال تک نیکٹا بورڈ کا اجلاس منعقد نہ ہوا۔
اب کے پی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے اور سوات میں طالبان کے نمودار ہونے کے بعد نیکٹا نے ملک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی روک تھام کیلئے مختلف امور پر غورشروع کر دیا ہےاس مقصد کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری ہوگیا ہےپاک فوج کے نومنتخب آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے توقع ہے آپریشن ردالفساد کی طرز پر کوئی بڑا آپریشن جلد شروع کر دیں گے تاکہ داعش پاکستان میں قدم نہ جما سکے .

Firing at the Pakistani Embassy; Afghan Chargé d’Affaires summoned at the Foreign Office……………….Asghar Ali Mubarak

Posted on

Firing at the Pakistani Embassy; Afghan Chargé d’Affaires summoned at the Foreign Office
Asghar Ali Mubarak
ISLAMABAD: The Afghan Minister of Foreign Affairs was summoned to the Foreign Office for the Firing incident at the Pakistani embassy in Kabul and there was a strong protest over the shooting incident. The security guard has been injured, according to the spokesman of the foreign office, the Afghan governor of affairs was summoned to the foreign office to protest the incident.
Afghan authorities have assured to ensure security, according to the spokesman, the security of the embassy in Kabul has been improved, the spokesman of the Foreign Office said that “there is no truth in the news of closing the Pakistani embassy or recalling the staff”. ‘
The security of other diplomatic missions including Pakistan has been tightened in Kabul. In this regard, the Foreign Minister of the Afghan Interim Government has spoken to the Pakistani Affairs Minister.
Afghan Chargé d’Affaires (a.i.) was called in this evening to convey Pakistan’s deep concern and anguish over the attack in Kabul on Pakistan’s Head of Mission, Mr. Ubaid-ur-Rehman Nizamani.

Moreover, Additional Secretary (Afghanistan & West Asia)conveyed Pakistan’s grave concern over the serious incident in which, thankfully, the Head of Mission remained unhurt.
However, the security detail, Sepoy Israr Muhammad, was seriously wounded while valiantly protecting the Head of Mission.
The Chargé d’Affaires (a.i.) was conveyed that security and protection of Pakistan’s diplomatic Missions and personnel was the responsibility of the Afghan Interim Government and that this incident was an extremely serious security lapse

It was underscored that perpetrators of this attack must be apprehended and brought to justice urgently, an investigation be launched into the serious breach of security of the Embassy premises, and that all necessary steps be taken to ensure the security of the diplomatic premises, officers and staff working in Pakistan’s Mission in Kabul and Consulates in Jalalabad, Kandahar, Herat and Mazar-i-Sharif.

Calling the attack “highly unfortunate”, the Afghan Chargé d’Affaires (a.i.) said that the attack was perpetrated by the common enemies of Pakistan and Afghanistan.
The attack has been condemned by the Afghan leadership in the strongest possible terms at the highest level.
He also informed that the security of the Pakistani Diplomatic Missions had already been beefed up and assured that the Afghan authorities would leave no stone unturned in bringing the perpetrators of this dastardly act to justice.

Pakistan’s new ambassador to Afghanistan arrived in Kabul today and officially started his work.

Obaid ur Reh­man Nizamani officially started his mission as Pakistan’s ambassador to Afghanistan today, November 4.

On the day of his orientation as Pakistan’s new ambassador, he said that his priority is to strengthen bilateral and multilateral cooperation between Islamabad and Kabul.

Previously, Mansoor Ahmed Khan was in this position and ended his work in Kabul two months ago.

Pakistan has assigned a new ambassador to Afghanistan, while it has not yet officially recognized the Taliban regime, and the relations between the Taliban and this country have been experiencing tensions to the connection between the Taliban officials and the presence of TTP leaders in Afghanistan.

It should be mentioned that Pakistan is one of the few countries that has an active diplomatic presence in Kabul under the rule of the Taliban.

British High Commissioner praised Pakistan’s excellent hospitality in a short talk at the Pindi Cricket StadiumAsghar Ali MubarakRawalpindi ;The British High Commissioner in Pakistan visited the media center on the second day of the Pakistan vs England Test match, in a brief conversation at the Pindi Cricket Stadium, praised Pakistan’s excellent hospitality and said that the English team’s excellent hospitality is commendable. The British High Commissioner said that “excellent security is being provided in Pakistan.” He surprised the people present by speaking in Urdu, Punjabi and Pothohari languages. He took a selfie with the journalist.

Posted on

British High Commissioner praised Pakistan’s excellent hospitality in a short talk at the Pindi Cricket Stadium
Asghar Ali Mubarak
Rawalpindi ;
The British High Commissioner in Pakistan visited the media center on the second day of the Pakistan vs England Test match, in a brief conversation at the Pindi Cricket Stadium, praised Pakistan’s excellent hospitality and said that the English team’s excellent hospitality is commendable. The British High Commissioner said that “excellent security is being provided in Pakistan.” He surprised the people present by speaking in Urdu, Punjabi and Pothohari languages. He took a selfie with the journalist.

Lieutenant General Babar Iftikhar, Armoured Corps, earlier posted as Director General Inter Services Public Relations, GHQ has been posted as the Corps Commander V Corps, Karachi.

Posted on

asgharalimubarakblog

Lieutenant General Babar Iftikhar, Armoured Corps, earlier posted as Director General Inter Services Public Relations, GHQ has been posted as the Corps Commander V Corps, Karachi.

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار، آرمرڈ کور، جو پہلے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز، جی ایچ کیو تعینات تھے، کو کور کمانڈر وی کور، کراچی تعینات کیا گیا ہے۔

View original post

Lieutenant General Babar Iftikhar, Armoured Corps, earlier posted as Director General Inter Services Public Relations, GHQ has been posted as the Corps Commander V Corps, Karachi.

Posted on

Lieutenant General Babar Iftikhar, Armoured Corps, earlier posted as Director General Inter Services Public Relations, GHQ has been posted as the Corps Commander V Corps, Karachi.

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار، آرمرڈ کور، جو پہلے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز، جی ایچ کیو تعینات تھے، کو کور کمانڈر وی کور، کراچی تعینات کیا گیا ہے۔

Former England captain Mike Atherton took 26 years 9 months and 6 days to say “Sorry”…

Posted on

Former England captain Mike Atherton took 26 years 9 months and 6 days to say “sorry”…

Islamabad; It was the 14th match of the 1996 Wills World Cup in Rawalpindi, which was played on 25 February 1996. In this important match, South Africa won by 78 runs.
Interestingly, this was South Africa’s 6th consecutive win against England.
The South African captain won the toss and decided to bat first, South Africa scored 230 runs for 10 wickets in the limited 50 overs.
In reply, England were bowled out for 152 in 44.3 overs, as opener England captain Mike Atherton was caught behind the wickets by Paul Laframan off Shaun Pollock for a wicket.
Asghar Ali Mubarak, accredited journalist of Pakistan’s World Cup 1996 regarding the reasons for the defeat, asked the English captain about the reasons for the defeat, on which he would be confused and said that someone should take this “…” out of here.

https://www.espncricinfo.com/story/atherton-may-face-court-over-buffoon-comment-93264


Later on, sports journalist Asghar Ali and the rest of the journalist community demanded an apology
Some time later, journalist Asghar Ali filed a defamation suit in the court of the Senior Civil Judge of Islamabad. The matter ended with an apology from the English Cricket Board and the player.
However, in a meeting at Serena Hotel yesterday, the former English captain said “sorry”.However, in a meeting at Serena Hotel yesterday, the former English captain said “sorry” after 26 years, 9 months and six days. This apology took 26 years, 9 months and six days.

۔https://www.espncricinfo.com/series/wills-world-cup-1995-96-60981/england-vs-south-africa-14th-match-65169/full-scorecard

سابق انگلش کپتان مائیک ایتھرٹن کو”سوری” کے لیے 26 سال 9 ماہ اور 6 دن لگے………

Posted on

سابق انگلش کپتان مائیک ایتھرٹن کو”سوری” کے لیے 26 سال 9 ماہ اور 6 دن لگے…………..راولپنڈی میں یہ 1996 کے ولز ورلڈ کپ کا 14 واں میچ تھا جو 25 فروری 1996 کو کھیلا گیا تھا، اس اہم میچ جنوبی افریقہ نے 78 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی ،

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جنوبی افریقہ کی انگلینڈ کے خلاف یہ مسلسل 6ویں جیت تھی۔

جنوبی افریقہ کےکپتان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، جنوبی افریقہ نے محدود 50 اوورز میں 10 وکٹوں پر230 رنز بنائے۔

جواب میں انگلینڈ کی ٹیم 44.3 اوورز میں 152 پر آؤٹ ہوگئی، بطور اوپنر انگلینڈ کے کپتان مائیک ایتھرٹن صفر پر شان پولک کی گیند پر پا لفرا مین کے ہاتھوں وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہوگئے۔

شکست کی وجوہات کے حوالے سے پاکستان کے ورلڈکپ 1996 کے ایکیڈیٹڈ جرنلسٹ اصغر علی مبارک نے انگلش کپتان سے سوال شکست کی وجوہات سے متعلق کیا جس پر وہ سیخ پا ہوگے اور کہا کہ کوئی اس”….” کو یہاں سے نکالے

جس پر بعد ازاں سپورٹس جرنلسٹ اصغر علی اور سا ری صحافی برادری نے معافی کا مطالبہ کیا

کچھ عرصے بعد جرنلسٹ اصغر علی نے اسلام آباد کی سینئر سول جج کی عدالت میں ہتک عزت کا دعوئ کیا انگلش کرکٹ بورڈ اور کھلاڑی کی جانب سے معافی پر معاملہ ختم ہوا

تاہم گزشتہ روز سرینا ہوٹل میں ملاقات میں سابق انگلش کپتان نے ”سوری” کہا اس سوری کے لیے 26 سال 9 ماہ اور 6 دن لگے

Good news for cricket fans ” Pindi Test match Pakistan vs England will be played today at the scheduled time

Posted on Updated on

Good news for cricket fans scheduled Pindi Test match will be played toay

Asghar Ali Mubarak
Rawalpindi ;There is good news for cricket fans that the Pindi Test match between Pakistan and England will be played today at the scheduled time, which was decided by both the cricket boards this morning.
The England and Wales Cricket Board ECB today early has informed the Pakistan Cricket Board PCB that they are in a position to field an XI, and, as such, the first Test will commence as per schedule today (Thursday, 1 December) at the Rawalpindi Cricket Stadium.
The toss will be at 0930 and the first ball will be bowled at 1000 each day. The first Test starts in Rawalpindi on December 1.
The series is very important for Pakistan to qualify for the finals of the ICC World Test Championship 2022-23.
The two boards made the decision after the medical advice from the England doctors.
Earlier England’s cricket team captain Ben Stokes and other important players have fallen ill ahead of the first Test match.
Earlier this year in September-October, the England team toured Karachi and Lahore to play seven T20Is. The English team won the series 4-3 and lifted the trophy. According to the schedule, the three-match test series’ first Test will be played at Rawalpindi from (1-5 December) 2nd test in Karachi (9-13 December) and 3rd test will be played at Multan from (17-21 December).
Pakistan’s Squad:

Babar Azam (capt), Mohammad Rizwan, Sarfaraz Ahmed, Shan Masood, Saud Shakeel, Salman Agha, Naseem Shah, Nauman Ali, Abdullah Shafique, Imam-ul-Haq, Faheem Ashraf, Haris Rauf, Mohammad Wasim Jr, Abrar Ahmed, Zahid Mahmood, Mohammad Nawaz, Azhar Ali, Mohammad Ali.

England team
Ben Stokes (c), Ben Foakes (wk), Joe Root, James Anderson, Harry Brook, Zak Crawley, Ben Duckett, Rehan Ahmed, Will Jacks, Keaton Jennings, Jack Leach, Liam Livingstone, Jamie Overton, Ollie Pope, Ollie Robinson, Mark Wood.

England Management Pakistan Test Series are; Head Coach: Brendon McCullum, Assistant Coach: Paul Collingwood, Assistant Coach: Jeetan Patel, Assistant Coach: Marcus Trescothick, Team Operations Manager: Wayne Bentley, Head of Team Communications: Danny Reuben, Analyst: Rupert Lewis, Strength & Conditioning: Peter Sim, Physio: Steve Griffin, Doctor: Anita Biswas, Massage Therapist: Mark Saxby, Security: Will Carr & Yass Ali, Digital Content: Greg Stobart.