…وزیراعظم کا ’سیاسی استحکام‘ پر زور; وفاقی وزرا کا عزم………..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)

Posted on

…وزیراعظم کا ’سیاسی استحکام‘ پر زور; وفاقی وزرا کا عزم………..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)………وزیراعظم نےایک بار پھر ’سیاسی استحکام‘ پر زوردیا ہے جس پر وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیر داخلہ راناثنا الله اوراسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف دیگر نے اتحادی حکومت کے عزم کا اظہار کیا ہے جو عوامی امنگوں کی بھر پور ترجمانی ہے جبکہ عمران خان جمہوری تسلسل پرمسلسل حملےکر رہے ہیں جو کہ اتحادی حکومت کیلئے ناقابل قبول ہے اور اتحادی جماعتوں نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان کے دباؤ میں ہرگز نہیں آئیں گے عمران خان جمہوری تسلسل پرمسلسل حملےکر رہے ہیں جو کہ اتحادی حکومت کیلئے ناقابل قبول ہے اور اتحادی جماعتوں نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان کے دباؤ میں ہرگز نہیں آئیں گے .”اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو پی ڈی ایم الیکشن لڑے گی”، وزیراعظم شہباز شریف نے سیاسی حریفوں پر ملک میں ’انارکی پھیلانے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے سیاسی استحکام پر زور دیا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے مشاورت کر رہے ہیں۔عمران خان نے پاکستان کے اداروں کا وہ حشر کیا ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی،کون سا ایسا ادارہ بچا ہے جس پر عمران خان نیازی حملہ آور نہیں ہوے کہنے کو تو خان صاحب ..بس خان صاحب ہیں جو سیاسی بصیرت سے نابلد نظر آتے ہیں اقتدار کھو جانے کے غم میں اتنے دکھی ہوگے ہیں کہ اخلاقیات کو بھول ہی چکے ہیں انکے بارے میں مشہور ہے کہ یو ٹرن کے ماسٹر ہیں ”عوام سے خطاب کو قومی خطاب قرار دینے کیلئے آج بھی وزیر اعظم والا اسٹائل اپنانے کی ناکام کوشش میں ہیں سیاست میں حماقت سے ماضی میں درجنوں سیاسی شخصیات کا دھڑن تختہ ہوتے دنیا دیکھ چکی ہے ،اور تازہ کوشش میں موصوف سیاسی شہید بننے کیلئے پارلیمانی نظام پر حملہ آور ہونے کے درپے ہیں انکا کہنا ہے کہ” اگلے جمعے (23 دسمبر) کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے” . خیر یہ کوئی نئی بات نہیں فوج،عدلیہ ،میڈیا ،الیکشن کمیشن پر حملوں کے بعد انکا نیا ہدف پارلیمان ہے جس کی توقیر سے موصوف لا علم نظر آتے ہیں، عمران خان کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد ہم الیکشن کی تیاری کریں گے۔” ہماری 123 قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں، ہم قومی اسمبلی جا کر اسپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں گے کہ ہمارے استعفے قبول کرو”۔
اس کا مطلب ہے خان صاحب بند گلی میں آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں دوبارہ واپس آجائیں لیکن کوئی راہ نہیں مل رہی تھی اعلی عدلیہ کے کہنے پر واپسی کا اعلان کو الیکشن سے مشروط کررہے ہیں ،شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کسی کی کوشش ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے تو ایسا نہیں ہوگا اور نہ ہی ایسا کرنے دیں گےمعیشت کی بنیادوں میں بارودی سرنگیں بچھانے والے اب سیاسی نظام کی بنیادوں میں بارودی سرنگیں بچھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جس طرح آئین کی طاقت سے ملک کو جھوٹی اور راشی حکومت سے نجات دلائی تھی، اب عوام کو روٹی، روزگار کی پریشانیوں سے نجات دلائیں گے۔سیاسی شرپسند انتشار پھیلا کر دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کریں اور سیلاب متاثرین اپنے گھروں میں آباد نہ ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کو سردی، بھوک اور بیماری سے بچانے میں سیاسی شریروں کا کوئی حصہ نہیں، یہ سیاسی مطلب پرست اور خود غرض ہیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ ایک ایجنڈے کے تحت معاشی تباہی کی گئی، سیاسی عدم استحکام بھی اسی کا تسلسل ہے، عوام کا اعتماد توڑنے والے اب اسمبلیاں توڑ رہے ہیں، مقصد سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔نوجوانوں کو روزگار دلانے کے لیے سیاسی بے روزگاروں سے نجات لازم ہے، قوم کو سوچنا ہوگا کہ جب جب ملک معاشی ترقی کی طرف چلنا شروع ہوتا ہے تو فسادی لشکر کیوں متحرک ہوجاتا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ سیاسی استحکام اور میثاق معیشت ہی پاکستان کی قومی سلامتی کو مضبوط کر سکتے ہیں۔خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نےپہلے ہی اعلان کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے پر عمل کرتی ہے تو وہ انتخابات کے لیے تیار ہیں، حکومتی اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے عمران خان کے فیصلے پر اعتراض بھی کیا تھا۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا ٹوئٹر پر بیان میں کہنا تھا کہ ’فتنہ، فساد اور انتشار صرف پاکستان کی معیشت کا نقصان کر رہا ہے، پارلیمنٹ کا تسلسل پاکستان اور معیشت کی ضرورت ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’الیکشن ہو بھی جائیں تب بھی عمران کی فسادی سوچ تبدیل نہیں ہوگی، ایجنڈا الیکشن نہیں بلکہ معیشت کا دھڑن تختہ کرنا ہے‘۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ ہی معیشت کی تباہی اور سیاسی عدم استحکام ہے۔یاد رہے کہ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی دو اسمبلیوں کو اپنے ملک کے لیے قربان کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ جب اسمبلیوں سے نکلیں گے تو 66 فیصد پاکستان میں انتخابات ہوں گے،” وکیلوں سے پوچھ لیا ہے، یہ الیکشن کمیشن کے ذریعے کوشش کریں گے کہ کسی طرح انتخابات میں تاخیر ہو جائے لیکن آئین اس کی بالکل اجازت نہیں دیتا کہ انتخابات 90 دن سے آگے ہوں”۔ادھر اسپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے قومی اسمبلی جا کر استعفوں کی منظوری سے متعلق بیان پر کہا ہے کہ” اگر عمران خان نے قومی اسمبلی آکر استعفے دینے ہیں تو وہ تاریخ کیوں دے رہے ہیں”، ” تمام اراکین اسمبلی آجائیں تو بھی ایک ایک رکن کی تصدیق کے بغیر کسی رکن کا استعفی منظور نہیں کروں گا ”۔اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ”میرے لیے پرائیوسی ضروری ہے، میں ایک ایک رکن سے استعفے کی منظوری پر خود بات کروں گا”۔ان کا مزید کہنا تھا کہ” میرے سامنے آ کر سارے استعفے دیں یہ درست نہیں، اراکین کو تصدیق کے لیے ایک ایک کر کے میرے چیمبر آنا پڑے گا”۔سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ ”استعفوں کے معاملے پر جلسہ تو نہیں ہو سکتا،” اراکین ایک دوسرے کے سامنے شرماتے ہیں”، اس لیے سب کے سامنے دئیے گئے استعفے منظور نہیں کروں گا”۔مزید برآں وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ” اسمبلیاں توڑنے کے لیے تاریخیں نہیں بلکہ حوصلہ کرنا پڑتا ہے”۔ عمران خان نے ایک گھنٹے کا میڈیا اور عوام کا وقت ضائع کیا کیونکہ انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کی” انہوں نے کہا کہ عمران خان کی گفتگوکے دوران ان کے دائیں اور بائیں جانب سے بیٹھے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی دلچسپی سب کو نظر آرہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں توڑنے کے لیے تاریخیں نہیں دینی پڑتیں بلکہ حوصلہ کرنا پڑتا ہے، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان سے قومی اسمبلی خالی کروالی گئی ہے، اب خیبرپختونخوا اور پنجاب کی اسمبلی توڑنے کی ایک اور تاریخ دے کر ثابت کردیا ہے کہ جس وقت ان کا اقتدار ختم ہوجائے تو سائفر کا ڈراما کرکے ملک کے قومی مفاد اور خارجہ پالیسی پر حملہ کردیں۔ اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کریں گے اور قومی اسمبلی میں جا کر اسپیکر کے سامنے اپنے استعفے پیش کریں گے۔
کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جب اقتدار ختم ہو رہا تھا تو اپنے وزرا سے خطوط لکھوا کر آئی ایم ایف کا معاہدہ سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، جس پر انہوں نے خود دستخط کیے تھے۔ جب کرسی سے ہٹے تو 4 سال کے ڈاکے، لوٹ مار پکڑے جانے پر شور مچا رہے ہیں، یہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے پاکستان کے عوام پر حملہ کر سکتے ہیں، اپریل میں تحریک عدم اعتماد آئی تو آئین پر حملہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کے جمہوری تسلسل پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، ملک میں معاشی استحکام لانے پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، کہیں عوام کو ریلیف مل جائے اس پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔عمران خان پر الزام عائد کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ تمام منصوبہ اس لیے ہو رہا ہے کہ معیشت سمت پر چل پڑی ہے اور عوام کو ریلیف مل گیا تو کہیں 4 سال کی حکومت کے اعمال نامہ پر سوالات شروع نہ ہوجائیں۔ پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ یہ شور اس لیے ہے کہ ان کی چوری کا شور کم ہوسکے، فارن فنڈنگ کا جواب دینا پڑے گا، جس کا 8 سال تک جواب نہیں دیا تاکہ اس کا شور کم ہوسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ شور اس لیے ہے کہ 6 ارب کے جو ہیرے جواہرات جمع کیے ہیں، اس کا شور کم ہو سکے، توشہ خانہ میں ڈکیتیاں ہوئی ہیں، یہ صرف ایک گھڑی کا معاملہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کو کسی جمہوری تسلسل اور عوام سے کسی قسم کا کوئی سروکار نہیں ہے اور شور اس لیے کر رہے ہیں 190 ملین کا جواب دینا پڑے گا، ان کی کوشش ہے کہ 4 سال ملک کے اندر اپنے مافیاز بیٹھا کر جو ڈاکے ڈالے گئے ہیں اس کا شور کم ہوسکے۔ عمران خان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018 میں ان کو جو معیشت ملی تھی وہ ان کے اعداد وشمار کے مطابق 6.1 فیصد پر ملک ترقی کر رہا تھا اور کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی 2.3 فیصد کی کم ترین سطح پر تھی اور 3.6 فیصد ملک کی مہنگائی کی شرح تھی۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سی پیک سے 14 ہزار میگاواٹ بجلی دے کر لوڈ شیڈنگ صفر کی، دہشت گردی ختم کی، ملک میں موٹرویز بچھا کر ترقی کرتا ملک ان کے حوالے کیا گیا تھا۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ملک میں ترقی، صحت کارڈ، وزیراعظم یوتھ پروگرام، آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کرکے خود مختار معیشت ان کے حوالے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف ملک میں دہشت گردی ختم کرکے گیا، ترقی، استحکام اور نوجوانوں کو روزگار دے کر گیا تھا لیکن 2018 میں یہ آیا اور اپنے فرنٹ مینوں سے چوریاں کروائیں۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں توڑنے کے لیے حوصلہ چاہیے جو آپ کے پاس نہیں ہے، وہ حوصلہ نواز شریف اور شہباز شریف کے پاس تھا۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے 40 سال کا حساب دیا، اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے بھی جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا، آپ کے پاس کسی چوری یا کرپشن کا جواب نہیں ہے اس لیے آپ شور مچا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں۔ عمران خان جتنی مرضی سیاسی عدم استحکام کی باتیں کریں ہم اور اتحادی حکومت ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر 2018 سے 2022 کے اوائل تک بجلی، گیس اور ہر چیز پر ڈاکے ڈالتے رہے، اگر انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کام کیے ہوتے تو آج وہ عوام کے سامنے ان کی باتیں کرتے، بی آر ٹی پشاور کرپشن میں دبی ہوئی ہے۔

انکا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاس اپنی کرپشن اور چوری کا کوئی جواب نہیں، عمران خان کی وجہ سے آج عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ آج عمران خان کو اپنی کارکردگی کے بارے میں عوام کو بتانا چاہیے، عمران خان شور کر کے پاکستان کے عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور اکتوبر 2023 میں عام انتخابات ہوں گے، اگر انہوں نے اسمبلیاں توڑ دیں تو ہمارے پاس آپشن اوپن ہے اور ہم بھی ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان کی اپنی کرسی نہ ہو تو وہ ملک کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے، ترقی کو روکتا ہے اور پاکستان کے اندر افراتفری پھیلاتا ہے جس طرح 2013 میں ڈی چوک میں بیٹھ کر دھاندلی کا نعرہ لگا کر انتشار پھیلایا۔ ملک کے اندر اتحادی جماعتوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، 75 سال سے جمہوریت قائم ہے، عمران خان اس کے تسلسل کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں، وہ فاشسٹ اور آمرانہ سوچ رکھتے ہیں۔یاد رہے کہ اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی اراکین نے مشترکہ طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسمبلی سے بڑے پیمانے پر مستعفی ہونے کے فیصلے کا اعلان پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 11 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے انتخاب سے چند منٹ قبل اسمبلی کے فلور پر کیا تھا۔
29 جولائی کو قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری سمیت پاکستان تحریک انصاف کے 11 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے تھے۔قومی اسمبلی کے ترجمان نے کہا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے آئین پاکستان کی آرٹیکل 64 کی شق (1) کے تحت تفویص اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے استعفے منظور کیے ہیں۔اسپیکر کی جانب سے جاری فہرست کے مطابق پی ٹی آئی کے جن اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے تھے، ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے-24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے-31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے-45 کرم ون سے فخرزمان خان شامل ہیں۔پی ٹی آئی کے دیگر اراکین میں این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد بھی شامل ہیں۔ اسپیکر نے خواتین کی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کرلیے تھے۔

One thought on “…وزیراعظم کا ’سیاسی استحکام‘ پر زور; وفاقی وزرا کا عزم………..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)

    Asghar Ali Mubarak responded:
    December 17, 2022 at 8:50 pm

    Reblogged this on asgharalimubarakblog.

    Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.