شہداء کی قربانیوں کو نہیں بھولے،سانحہ اے پی ایس پرزیراعظم شہباز شریف کا پیغام

Posted on

شہداء کی قربانیوں کو نہیں بھولے،سانحہ اے پی ایس پرزیراعظم شہباز شریف کا پیغام
اصغر علی مبارک
اے پی ایس پشاور کے سانحہ کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سانحہ اے پی ایس کا غم برسوں گزرنے کے باوجود نہیں بھولا، پاکستانی قوم اپنے شہداء کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولے گی۔
وزیراعظم نے سوشل میڈیا پیغام میں کہا کہ 16 دسمبر دہشتگردی کے خلاف پورے پاکستان کے ایک آواز ہونے کا دن ہے، یہ دن پوری دنیا کے لیے پیغام ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں، ہماری یہ جدوجہد جاری ہے جو اس عفریت کے مکمل خاتمے تک اسی آہنی ارادے اور ثابت قدمی سے جاری رہے گی۔
ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 16 دسمبر اس دکھ کو ذہن میں لاتا ہے جب دہشت گردوں نے ظلم کی داستان رقم کی، آج سانحہ اے پی ایس کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے اہل خانہ سے دکھ بانٹنے کا دن ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی قوم اپنے شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی، 16 دسمبر دہشت گردی کے خلاف پورے پاکستان کے یک آواز ہونے کا دن ہے، یہ دن دنیا کے لیے پیغام ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ عظیم قربانیاں دی ہیں۔
سانحہ اے پی ایس پشاور کو آج 8 سال بیت گئے، پورے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی سانحہ میں شہید ہونے والے بچوں اور اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ کہ برسوں بعد بھی وہ غم ہے جو بھلایا نہیں جا سکتا۔کیا اسے محض اتفاق قرار دیا جا سکتا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں کو خاک و خون میں نہلانے کے لئے دشمن نے اُسی تاریخ کا انتخاب کیا جس تاریخ پر 43 برس قبل دسمبر 1971میں دشمن نے متحدہ پاکستان کو دو لخت کرنے کا غیر معمولی مشن کامیابی سے مکمل کیا تھا؟۔پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ’’ زمین وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو‘‘اور یہ آگ آج بھی اے پی ایس کے معصوم شہداء کے والدین اور عزیز واقارب کے دلوں میں جل رہی ہے۔ ویسے بھی انسانی تاریخ میں یہ ایک ناقابل فراموش سانحہ ہے مگر جب بھی یہ دن اور یہ تاریخ آئے گی تو ان شہداء کے والدین بہن بھائیوں اور رشتہ داروں پر کیا اور کیسے گزرے گی۔

یہ درد و غم صرف وہ لوگ جان اور محسوس کرسکتے ہیں جو خود صاحب اولاد ہیں۔جو انسانیت سے پیار کرتے ہیں جن کے سینوں میں دل دھڑکتا ہے اور دورسروں کا درد و غم محسوس کرسکتا ہے۔ نو برس قبل آج ہی کے دن جب معمول کے مطابق بچے تیار ہو کر سکول جا ر ہے تھے تو ان معصوم کلیوں اور پھولوں کو کیا معلوم تھا کہ انسانیت اور مذہب کے دشمن انہیں اپنے پیروں تلے روند دیں گے۔انہیں کیا خبر تھی کہ اپنے اپنے گھروں سے جاتے اور نکلتے وقت انہیں الوداع کہنے والے والدین،بہن بھائیوں کا یہ الوداع ان کی زندگی کا آخری الوداع ثابت ہوگا،انسانیت کے دشمنوں،اور سفاک دہشت گردوں نے ان معصوم بچوں پر جو قیامت ڈھائی اس کی چھاپ اور درد آج بھی ان بچوں کے والدین، رشتہ داروں اور پوری پاکستانی قوم کے دلوں میں تازہ ہے۔

ملک کی تاریخ میں یہ دن ایک سیاہ دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ سانحہ اے پی ایس سے قبل یہ دن 1971ء میں بنگلہ دیش کی جدائی کا دن تھا۔ دسمبر کا مہینہ پاکستان کیلئے ہر سال کچھ ایسی غمگین صورتحال لے کر آتا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج بھی طلبہ کی یاد دلوں کو افسردہ کر رہی ہے اور دنیا بھر کے کروڑوں لوگ اس واقعہ کو یاد کر کے دل گرفتہ ہو جائیں گے۔

سانحہ آرمی پبلک سکول کو آٹھ سال بیت گئے لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہ مل پایا اور کیسے مل پاتا یہ تو زندگی بھر کا ایسا گھاؤ ہے جو ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ پر پھر سے ہرا ہو جائے گا، اس اندوہناک سانحے نے ناصرف ان بچوں کے والدین کوگھائل کر رکھا ہے بل کہ ہر پاکستانی کو خون کے آنسورلایا ہے ، اس الم ناک اور غم ناک سانحے نے اگر ایک طرف پاکستانی قوم کے دل چھلنی چھلنی کردیئے ہیں تودوسری جانب ہمیں یہ پیغام بھی دیاہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا۔لازوال قربانی دے دی لیکن اے ہم وطنوہماری ان قربانیوں کو آپس کی اختلافات میں ضائع نہ کرنا اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنے دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا، دوسری بات یہ بھی کہ ان شہداء کے والدین یا عزیز و اقارب کو تب تک چین نہ آسکے گا جب تک من الحیث القوم ہم دہشت گردی کے اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکتے اوران کی دلجوئی کے لیے حقائق سامنے نہیں لاتے،حقیقیت میں یہ پھول جیسے بچے ہی ہمارے ہیرو ہیں اور ان کے والدین کی ہمت وحوصلے سے ہمیں اتحاد و اتفاق کا سبق ملناچاہیے، کیوں کہ ان شہداء کے والدین آج عزم و حوصلے اور عظمت و استقلال کااستعارہ بن چکے ہیں، بچوں کی جدائی کا غم، ان کی پرنم آنکھوں اور افسردہ مگر پرعزم چہروں نے پوری قوم کوجگا دیا ہے۔

اے پی ایس پشاور میں پیش آنے والے المناک واقعات کو 8 برس بیت گئے، دردناک سانحہ کے شہید بچوں کے والدین کی آنکھیں آج بھی نم ہیں۔
16 دسمبر 2014 کو یاد کر کے آج بھی روح کانپ جاتی ہے کہ صبح 6 دہشت گرد آرمی پبلک سکول پشاور میں داخل ہوئے، طلباء اور اساتذہ کو یرغمال بنا کر اندھا دھند سفاک درندوں نے فائرنگ کر دی جو سامنے آنے والوں کی جانیں لیتے رہے۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز نے اسکول کو گھیرے میں لے لیا اور طویل آپریشن کے بعد خودکار ہتھیاروں سے لیس کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 خودکش حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔

سکول کو 6 گھنٹے سے زائد آپریشن کے بعد کلیئر کر دیا گیا اور اس سانحے میں 150 افراد، 132 طلباء، اساتذہ اور عملہ شہید ہو گئے۔ اس واقعے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نئی جان ڈال دی۔
اس کے بعد حکومت اور دیگر اداروں نے مل کر نیشنل ایکشن پلان بنایا اور آپریشن ضرب عضب کے ذریعے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا۔

حملے میں ملوث 4 دہشت گردوں کو دسمبر 2015 میں سزائے موت سنائی گئی تھی، ان ملزمان کو فوج نے سزا سنائی تھی، اس وقت کے آرمی چیف نے تصدیق کی تھی۔پاکستان کی 73 سالہ تاریخ مختلف حادثات و سانحات سے بھری پڑی ہے تاہم کچھ واقعات ایسی بھی ہیں جو ہم شاید کبھی بھلا نہ پائیں۔

16 دسمبر کا دن بھی تاریخ کے انہی واقعات میں سے ہے جہاں ایک طرف 1971 میں دو لخت ہوئے پاکستان کا غم منایا جاتا تھا وہی سال 2014 میں اسی روز ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔

16 دسمبر 2014 کی صبح صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس)پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے حملہ کردیا اور وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ کو نہ صرف یرغمال بنایا بلکہ ان پر فائرنگ کرکے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو شہید کردیا تھا۔

اس واقعے کے بعد پاک فوج کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کیا گیا تھا اور یہی نہیں بلکہ واقعے کے کچھ دن بعد ہی اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔نواز شریف نے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کا اعلان کیا تھا اور اس پر ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کے بعد اتفاق رائے ہوا تھا۔

حکومت نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نہ صرف قومی لائحۂ عمل ترتیب دیا تھا بلکہ دہشت گردوں کو سزائیں دلانے کے لیے ملک میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جب کہ سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد غیر اعلانیہ پابندی بھی اٹھالی گئی تھی۔

جہاں ایک طرف دہشت گردی کے خلاف مؤثر حکمت عملی مرتب کی گئی تھی وہیں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہید طلبہ و دیگر افراد کے لواحقین انصاف کے متلاشی تھے اور ان کا یہی مطالبہ تھا کہ ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

ابتدائی طور پر پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سانحے کی مختلف زاویوں سے تحقیقات کی تھی جسے 2016 میں سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں متاثرین نے انصاف کی فراہمی اور معاملے کی عدالتی تحقیقات کے لیے پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا اور فروری 2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے سانحہ اے پی ایس میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو پولیس تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری کیا تھا۔

اپریل 2018 آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

بعد ازں بچوں کے والدین کی درخواست اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے ہر ازخود نوٹس بھی لے لیا تھا۔

9 مئی 2018 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سانحے کی تحقیقات کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بنانے کے لیے زبانی احکامات جاری کیے تھے تاہم ہائی کورٹ کو تحریری احکامات موصول نہیں ہوئے تھے جس کے باعث کمیشن تشکیل نہیں پایا تھا۔

بعد ازاں5 اکتوبر 2018 کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا تحریری حکم جاری کردیا تھا۔

جس کے بعد 14 اکتوبر 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں اے پی ایس سانحے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

جسٹس ابراہیم خان کی معاونت کے لیے 3 دیگر افسران بھی کمیشن میں شامل تھے۔

کمیشن کے قیام کے تقریباً 2 سال بعد جون 2020 کے آغاز میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کرلی جس کی رپورٹ 30 جون تک عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی جائے گی۔

اس بارے میں ترجمان کمیشن نے بتایا تھا کہ کمیشن کی جانب سے سانحہ میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین سمیت 135 سے زائد افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔

علاوہ ازیں کمیشن کے اراکین نے پاک فوج، پولیس اور سی ٹی ڈی کے اعلیٰ افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جبکہ ’کمیشن کی جانب سے اب تک کی گئی تحقیقات اور کارروائیوں کے ریکارڈ کا بھی جائزہ لیا گیا‘۔

9 جولائی 2020 کو یہ بات سامنے آئی کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کرلی جس کی سربمہر رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرادی گئی۔

اے پی ایس کمیشن کے ترجمان عمران اللہ نے بتایا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول انکوئری کمیشن نے سر بمہر رپورٹ سپریم کورٹ بھیج دی جو 3 ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔

بعد ازاں 4 اگست 2020 کو سانحہ اے پی ایس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لینے کا حکم دیا تھا۔

اس موقع پر والدین کی جانب سے انصاف کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پہلے دن سے ہی انصاف مانگ رہے ہیں لیکن ابھی تک انصاف نہیں ملا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں والدین سے بے حد ہمدردی ہے، اب کیس سپریم کورٹ کے پاس ہے، والدین کو ضرور انصاف ملے گا۔

16 دسمبر 2014 پاکستان کی تاریخ کا وہ دردناک دن ہے جس میں شہید بچوں کے لواحقین کے ساتھ پوری قوم درد میں ڈوب گئی۔سانحہ اے پی ایس میں چار گھرانے ایسے ہیں جن کے دو دو بیٹے اس سانحے میں شہید ہوئے۔ یہ ایک ایسا غم ہے جو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ بچے سکول گئے تھے لیکن واپس نہیں آسکے۔ یہ دہشتگردی کتنے ہی گھرانوں کو اجاڑ گئ۔.پندرہ سال کے شاویل طارق اور تیرہ سال کے نگیال طارق نے بھی اس سانحے میں جام شہادت نوش کیا.شاویل نویں کلاس اور نگیال آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے.سانحے سے دو سال پہلے ہی دونوں کو اچھی تعلیمی سہولیات کے باعث آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں داخل کروایا گیا ۔ انکی بہن کہتی ہیں کہ گیارہ بجے کے قریب میری آنٹی کا فون آیا کہ اے پی ایس پر حملہ ہوگیا ہے .میرے دونوں چھوٹے بھائی تو خیریت سے گھر آگئے .لیکن ہمیں شاویل اور نگیال نہیں مل رہے تھے.پھر سی ایم ایچ میں شاویل اور اس سے تھوڑا دور نگیال کے جسد خاکی ملے۔نور اللہ سیف اللہ دونوں بھائی آرمی پبلک سکول میں نویں کلاس اور آٹھویں کے طالب علم تھے۔ دونوں بہت پیارے اور شرارتی تھے ۔ پڑھائی کے ساتھ خوب کھیلتے اور شرارتیں کرتے۔دونوں بچپن سے ہی آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں زیر تعلیم تھے.انکو کو مسلح افواج میں جانے کا بہت شوق تھا نور کو بری فوج میں اور سیف کو پاک فضائیہ جوائین کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا.شہید طالب علموں کے اہل خانہ کہتے ہیں کہ ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ وہ یاد نا آتے ہوں ہم بس دعاگو ہیں اللہ تعالی سب والدین کو صبر دے۔اس سانحے میں ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار ر اکرام اللہ نے دو بیٹوں نے بھی جام شہادت نوش کیا ۔ ذیشان ۱۰ ویں کلاس میں تھے اور اویس ۸ ویں کے طالب علم تھے وہ دونوں پلے گروپ سے اے پی ایس کے طالب علم تھے اور دونوں ہی پڑھائی میں اچھے تھے ۔ اکرام اللہ کے خاندان نے بہت صبر سے اس دکھ کا سامنا کیا۔

اس ہی سانحے میں دو بھائی سید عبداللہ شاہ اورسید حسنین شاہ بھی شہید ہوئے انکے والد کے مطابق اب گھر ایک قبرستان کا سا سماں پیش کرتا ہے انکے جانے سے ہمارے گھر سے رونق چلی گئ اور ہم سب آج بھی روتے ہیں ۔ عبداللہ پوزیشن ہولڈر تھا اور ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ دعا ہے کہ ایسا سانحہ پھر کبھی نا ہو اور اس ملک کے والدین پھر کبھی ایسا غم نا دیکھیں۔16 دسمبر کا دن بھی تاریخ کے انہی واقعات میں سے ہے جہاں ایک طرف 1971 میں دو لخت ہوئے پاکستان کا غم منایا جاتا تھا وہی سال 2014 میں اسی روز ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔

16 دسمبر 2014 کی صبح صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس)پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے حملہ کردیا اور وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ کو نہ صرف یرغمال بنایا بلکہ ان پر فائرنگ کرکے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو شہید کردیا تھا۔

اس واقعے کے بعد پاک فوج کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کیا گیا تھا اور یہی نہیں بلکہ واقعے کے کچھ دن بعد ہی اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔علاوہ ازیں 25 ستمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) سے متعلق تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور اٹارنی جنرل کے کمنٹس کو پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اوپر سے کارروائی کا آغاز کریں، ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچ سکیں۔

عدالت میں موجود شہید بچوں کے والدین نے کہا تھا کہ یہ واقعہ دہشت گردی نہیں ٹارگٹ کلنگ تھی، ہمارے بچے واپس نہیں آسکتے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کسی اور کے بچوں کے ساتھ ایسا واقعہ نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم زندہ دفن ہوچکے ہیں، ساری عمر نیچے والوں کا احتساب ہوا، اس واقعے میں اوپر والے لوگوں کو پکڑا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو ہم چلائیں گے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ المیہ ہے کہ ہر بڑے سانحہ کا ذمہ دار چھوٹے لوگوں کو قرار دے دیا جاتا ہے، بڑوں سے کچھ پوچھا نہیں جاتا، یہ روایت ختم ہونی چاہیے۔

بعد ازاں عدالتی حکم پر سانحے کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ پبلک کردی گئی تھی جس میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا تھا۔یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 دہشت گردوں نے اے پی ایس پر بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو شہید کردیا تھا۔

سانحہ اے پی ایس کے بعد پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا اور حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا۔شہداء کے ناموں سے پہچان والدین کے لیے باعث فخر بن چکی ہے، خاص کر شہداؤں کی ماؤں کے حوصلے قابل دید ہیں، ایسی مائیں بھی منظر پر آئیں جنہوں نے وطن عزیز کے لیے اپنے اکلوتے لخت جگر کو قربان کر دیا، ہر دن ہر پل یاد ستانے کے باوجود شہید کی ماں اور شہید کا والد کہلوانا والدین کے لیے قابل فخر بن گیا ہے لیکن اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ ان کے بچوں نے تو وطن کے لیے قربانی دے دی اب عسکریت پسندوں کا مکمل قلع قمع اور ہر سو امن کے شادیانے بجنے چاہیں،

سانحہ آرمی پبلک سکول کو اگرچہ آٹھ برس بیت توچکے ہیں لیکن16 دسمبر کا دن کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا، سرد اور یخ بستہ صبح کومامتا کی گرم آغوش سے مادر علمی کی گود میں آنے والے کب جانتے تھے کہ آج انہیں واپس جانا نصیب نہیں ہو گا اور چوکھٹ پر منتظرنگاہیں تاقیامت بے خواب ہی رہیں گی، اس دل خراش سانحے نے پوری قوم پر سکتہ طاری کر دیا کہ دشمنوں نے قوم کے دل اور مستقبل پر وار کیا جس کے نتیجے میں پوری قوم، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی،فوجی قیادت کے ساتھ کھڑی ہو گئی، نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر سب متفق ہوئے اور پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے اس ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے راہیں متعین کیں، آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا، شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے لگا۔

اس سانحہ نے پوری قوم کومتحد کیا اور قوم ایک بحرانی کیفیت سے نکل آئی لیکن اسی پر اکتفا کر کے ہمیں مطمئن ہو جانے کی بجائے دہشت گردی کے اس عفریت کا مکمل طور پر قلع قمع کرنے کے لیے ابھی مزید آگے جانا ہے، اب بھی کچھ سوالات تشنہ ہیں جن کے مکمل جوابات ملنے تک شہداء اور غازیوں کے والدین سمیت پوری قوم منتظر رہے گی،جب کہ یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ اس سارے عرصے میں ان شہداء کے والدین اور پوری قوم پر کیا بیتی اور 16 دسمبر 2014ء کے بعد پوری قوم نے جس یک جہتی کامظاہرہ کیا اور جو اہداف رکھے گئے تھے کیا ہم اس جانب اسی رفتار سے آگے بڑھے ہیں اور اسے حاصل کیا ہے؟اتنا عرصہ والدین کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کے مطالبے پر کیوں دیرسے عمل ہوناشروع ہوا؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کی جان کاری کے بعد ہی قوم اورشہداء کے والدین کو قرار مل سکتا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان میں شامل تمام نکات پوری قوم کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہیں اور اس عزم کا اظہار کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیاجائے گا، اپنی جگہ قابل ستائش بات ہے، مگر جہاں اور جن طور طریقوں اور راستوں سے دہشت گردی،انتہاپسندی اور شدت پسندی کی نظریاتی تعلیم پھیلتی ہے اس سپلائی لائن کوکاٹنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.