داعش پاکستان میں قدم جمانے کیلئے کوشاں ;نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری…..

Posted on

داعش پاکستان میں قدم جمانے کیلئے کوشاں ;نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری….
.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…
داعش افغانستان کے راستے پاکستان میں قدم جمانے کیلئے کوشاں نظرآ رہی ہے۔ تاہم سیکورٹی فورسز داعش اور اسکی اتحادی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں مصروف عمل ہے اس مقصد کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری ہوگیا ہے پاک فوج کے نومنتخب آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے توقع ہے آپریشن ردالفساد کی طرز پر کوئی بڑا آپریشن جلد شروع کر دیں گے تاکہ داعش پاکستان میں قدم نہ جما سکے اس سلسلے میں گزشتہ روز سی ٹی ڈی نے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن میں داعش کمانڈر سمیت 4 دہشتگردوں کوہلاک کردیا ، دہشتگرد اافغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔
وزارت داخلہ کے زرائع مطابق دہشت گردوں کی افغانستان بارڈرپار کرنے کی اطلاع پر سیکورٹی فورسز اور سی ٹی ڈی نے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا۔ آپریشن کے دوران انٹیلی جنس بیسڈآپریشن ٹیم کا سامنا ہونے پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی ، جوابی فائرنگ میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔

ہلاک دہشت گردوں میں داعش کا مقامی کمانڈر محمد داؤد بھی شامل تھا جبکہ 2ہلاک دہشت گردوں کی شناخت عبداللہ اورمحمد لائق کےنام سے ہوئی ہے تاہم ایک ہلاک دہشت گرد کی شناخت تاحال نہ ہوسکی۔ ہلاک دہشت گردوں سے دو ہینڈ گرنیڈ، 2 کلاشنکوف،6 میگزینز اور،2 پستول برآمد بھی کیےگئے ہیں جبکہ درجنوں کارتوس ،شناختی کارڈ سمیت پاکستانی کرنسی دیگر سامان برآمد ہوا ھے،
خیال رہے داعش کا اصل ہدف پاکستان میں فرقہ وارایت کو ہوا دینا ہے۔ ماضی میں داعش جتنے بھی حملے کیے گئے ہیں، ان حملوں میں اکثریت میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں بھی بڑے پیمانے پر داعش ملوث رہی ہے۔

قبل ازیں کوئٹہ زرغون روڈ پر قائم گرجا گھر پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی ،
افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد سے وہاں داعش کافی کمزور ہوچکی ہے۔
افغانستان میں سابقہ دور حکومت میں پاکستانی طالبان بھی داعش کے ساتھ مل کر اپنے اہداف ہر حملے کرتے رہے ہیں۔ اس وقت جن جن علاقوں میں ٹی ٹی پی کے لوگ روپوش ہیں انہیں وہاں ماضی کی طرح افغان حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ۔
جب تک پاک افغان سرحد پر دونوں اطراف سے حفاظتی معاملات بہتر نہیں بنائے جاتے افغانستان سے دہشتگردوں کے پاکستان میں داخلے کو مکمل طور کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ داعش کے دہشتگرد بلوچستان میں دہشت گردی میں بڑے پیمانے پر ملوث رہے ہیں۔
ماضی میں انٹیلی جنس آپریشنز میں داعش کے کئی بڑے رہنما بھی مارے جا چکے ہیں۔ داعش پاکستان کا سربراہ ابو عمر بھی بلوچستان کے علاقے چاغی میں انٹیلی جنس کے ایک آپریشن کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔

بدامنی میں ملوث تنظیمیں ایک منظم منصوبے کے تحت پاکستان قیام امن کی صورتحال کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب تک جو بھی کارروائیاں ہوئی ہیں، ان میں مقامی قبائل کا سیکورٹی فورسز سے تعاون بھی سرفہرست رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاک افغان سرحدی علاقوں کی سیکورٹی میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا ہے۔
افغانستان سے دہشتگردوں کے پاکستان میں داخلے کو روکنا ہماری اولین ترجیح رہی ہے۔
افغانستان کے جن علاقوں میں افغان طالبان کا اثرو رسوخ کم ہے وہاں داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیمیں فعال ہوتی جا رہی ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران داعش نے کئی بار بلوچستان میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی ہے تاہم شدت پسند اپنی حکمت عملی میں ناکام رہے ہیں۔

بلوچستان میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف سیکورٹی فورسز کا بڑا آپریشن جاری ہے۔
مستونگ اور ملحقہ علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے میں داعش خراسان کے متعدد اہم کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات بھی ہیں،

بلوچستان کے شہرکوئٹہ کے قریب اسپلنجی اور کابو کےعلاقے میں جاری عسکری آپریشن میں داعش کے پانچ اہم کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں
بتایا گیا ہے کہ اس آپریشن میں تین پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے.

اطلاعات کے مطابق ہلاک شدگان میں داعش کے تین ایسے سرغنہ کمانڈر بھی شامل ہیں جو کہ افغانستان کے صوبہ کنڑ سے حال ہی میں بلوچستان منتقل ہوئے تھے۔
یہ خصوصی آپریشن انٹیلی جنس اداروں کی نگرانی میں کیا گیا جس مقام پر داعش کے عسکریت پسند مارے گئے تھے وہ ایک ایسا کمپاونڈ تھا جوکہ مقامی آبادی کے اندر قائم کیا گیا تھا۔
ہلاک عسکریت پسندوں کے ٹھکانے سے کئی اہم دستاویزات بھی برآمد ہوئیں۔ جن کی روشنی میں دیگر علاقوں میں بھی آپریشن کیا گیا

اطلاعات کے مطابق داعش کے روپوش عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے سیکیورٹی فورسز نے کئی شورش زدہ علاقوں کا گھیراؤ کیے رکھا ۔ پہاڑی علاقوں میں ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں ہیلی کاپٹرکا بھی استعمال کیا گیا
کابل میں امارت اسلامی خراسان کی طرف سے خونریز حملوں کے بعد پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سلامتی امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ داعش کے ابھرنے سے پاکستان کی سکیورٹی کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک تاریخ رہی ہے اور ملک میں کئی ایسے مذہبی طبقات ہیں، جو اس فرقہ پرست تنظیم کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے کچھ رہنماؤں نے چند برس پہلے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس کے بعد پاکستان میں داعش نے کئی حملے مزارات اور اہل تشیع افراد پر کیے تھے۔
داعش کے ابھرنے سے پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام کے خطرات بڑھیں گے۔کچھ برس پہلے طالبان کے کچھ سرکردہ رہنماؤں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس شدت پسند تنظیم نے پاکستان میں مزارات اور شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملے کیے تھے۔ اب اس کے ایک بار پھر ابھرنے سے ایسے حملوں کے خطرات بڑھ جائیں گے، جن سے پاکستان میں عدم استحکام کا بھی خطرہ ہے اور اس کے علاوہ اس تنظیم کی وجہ سے ملک کے سماجی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے میں داعش کے لیے کام کرنے والے چین، روس، ایران اور پاکستان کے مخالف ہیں، اس کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے، جس میں ازبک ،تاجک چیچن، داغستان سے تعلق رکھنے والے اور چین کے مغربی علاقے سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند شامل تھے، جو شام میں لڑنے کے لیے بھی گئے تھے اور بعد میں انہیں واپس افغانستان لایا گیا۔
ماضی میں لشکر جھنگوی کے عناصر نے بھی داعش سے مل کر افغانستان میں اہل تشیع افرد پر حملے کیے تھے ۔ پاکستان میں بھی یہ خطرہ ہے کہ یہ ان کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ کارروائی کریں، جس سے پاکستان میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے افراد ہیں، جو کسی بھی مذہبی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں لیکن وہ داعش کے نظریات سے متاثر ہیں اور ان کے لیے کام کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں اورکزئی ایجنسی کے علاوہ کچھ علاقوں میں داعش کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی ہے گو کہ وہ افرادی طور پر بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں،
داعش کے نظریات انتہائی خطرناک فلسفے پر مبنی ہے، ”وہ اپنے علاوہ سب کو مرتد سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا یہ فلسفہ انتہائی تکفیری ہے اور یہ بہت تقسیم پیدا کر سکتا ہے۔
داعش کے لوگوں میں منتخب افراد کو ٹارگٹ کرنے اور چھوٹے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سلیپر سیل بھی ہیں، جو پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔
داعش کے نظریاتی ساتھی یہاں بھی ہیں اور اس سے پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اور ملک میں مزارات اور مذہبی اقلیتوں پر حملے ہو سکتے.
داعش کی وجہ سے پاکستان کی سکیورٹی کو چیلنجز کا سامنا ہے لیکن یہ ایسے چیلنجز ہیں جن پر پاک فوج قابو پانے کیلئےکوشاں ہے اور قربانیاں دے کر ملک و قوم کی حفاظت کر رہی ہے ، کیونکہ پاکستانی فوج پہلے بھی اس صورت حال کا سامنا کر چکی ہے اورپاک فوج برسوں سےدہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے. واضح رہے کہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر مختلف علاقوں میں چینی انجینئرز اوردیگر رہنماؤں پر ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری بھی داعش قبول کرچکی ہے ۔ دریں ا ثنا بلوچستان کے علاقے آواران میں واقع بازار کے شاپنگ مال میں ہونے والے دھماکے میں ایک شخص جاں بحق جب کہ خواتین اور بچوں سمیت 7 افراد زخمی ہوگئے۔
واضح رہے کہ 30 نومبر کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے بلیلی میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک کے قریب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کیے گئے خود کش دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت 4 افراد جاں بحق جب کہ متعدد اہلکار اور شہری زخمی ہوگئے تھے۔ خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے امن مذاکرات اور افغانستان سے امریکی انخلا کا فائدہ اٹھا کر پاکستان میں پھر سے اپنے قدم جمالیے اس سلسلے میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ’نیکٹا‘ کی جانب سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مالاکنڈ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا کہ امریکی انخلا اورامن مذاکرات کے باعث طالبان دوبارہ سوات میں متحرک ہوئے، متعلقہ علاقوں میں 200 سینیٹائزیشن سرچ آپریشن کیے گئے، انٹیلی جنس کی بنیاد پر 77 آپریشنز میں کئی افرادکوگرفتارکیا گیا۔رپورٹ کے مطابق امن مذاکرات کے وقفے میں کالعدم ٹی ٹی پی نے خود کو مستحکم کیا، سوات میں ڈیرے ڈالے، نتیجے میں آگے چل کر دہشتگردی بڑھ گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں عوام نے طالبان کا خیرمقدم نہیں کیا، ان لوگوں کو ادارہ جاتی میکنزم سے تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔
سینیٹ کمیٹی داخلہ نےکالعدم تحریک طالبان سے متعلق ان کیمرااجلاس طلب کرلیا اورکہا کہ طالبان سے متعلق پیدا ہونے والی صورت حال انتہائی حساس ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے نیکٹا کو آئندہ اجلاس میں طالبان کے بارے میں ان کیمرہ بریفنگ کی ہدایت کردی۔ دوسری جانب ملک بھر بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی لہر کے باوجود دو سال تک نیکٹا بورڈ کا اجلاس منعقد نہ ہوا۔
اب کے پی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے اور سوات میں طالبان کے نمودار ہونے کے بعد نیکٹا نے ملک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی روک تھام کیلئے مختلف امور پر غورشروع کر دیا ہےاس مقصد کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری ہوگیا ہےپاک فوج کے نومنتخب آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے توقع ہے آپریشن ردالفساد کی طرز پر کوئی بڑا آپریشن جلد شروع کر دیں گے تاکہ داعش پاکستان میں قدم نہ جما سکے .

One thought on “داعش پاکستان میں قدم جمانے کیلئے کوشاں ;نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری…..

    Asghar Ali Mubarak responded:
    December 10, 2022 at 12:56 pm

    Reblogged this on asgharalimubarakblog.

    Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.