Month: November 2022

آرمی چیف تقرری ;آرمی چیف کے عہدے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل نعمان پرویز راجہ اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر فیورٹ ;سمری وزیراعظم شہباز 18 نومبر کو ارسال کریں گے.؟

Posted on

آرمی چیف تقرری ; سمری وزیراعظم شہباز 18 نومبر کو ارسال کریں گے.؟………(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)………………………پاکستان کے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کی سمری وزیراعظم شہباز شریف 18 نومبر کو صدر مملکت کو ارسال کریں گے۔ یہ روایت بن گئی ہے کہ بحریہ اور فضائیہ کے چیفس کی تعیناتی کے برعکس پاکستان آرمی سے ہر تین سال بعد پاکستان آرمی سے دو فور سٹار جنرلز ترقی پاتے ہیں۔

ان میں سے ایک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر تعینات ہوتا ہے جبکہ دوسرا آرمی چیف بنتا ہےآرمی چیف کے عہدے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل نعمان پرویز راجہ اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر فیورٹ ہیں۔جبکہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر آرمی چیف اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدوں کے دعویدار ہیں۔ اگر وزیراعظم 27 نومبر کو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے پہلے ترقی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کی ترقی اس دن سے شروع ہو جائے گی جس دن وزیراعظم انہیں نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی کی سمری سیکریٹری دفاع کے دفتر سے ہی وزیراعظم کو بھیجی جاتی ہے یہ روایت بھی موجود ہے کہ عام طور پر اگر ایک ’آسامی ہے تو تین نام بھیجے جاتے ہیں اور اگر دو عہدے ہیں تو پانچ نام بھیجے جاتے ہیں مگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب خود نواز شریف نے ہی سمری میں شامل ناموں کی بجائے خود فیصلہ کیا کہ کس افسر کو سربراہ کے عہدے پر تعینات کرنا ہے۔ وزیر اعظم کی صوابدید ہے کہ وہ کب نئے چیف کا اعلان کریں۔ جنرل باجوہ نے تو کہہ دیا ہے کہ انھیں توسیع نہیں چاہیے۔‘ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ طاقت کا کھیل بنتا ہے جس میں ایک نام شہباز شریف، دوسرا عمران خان اور تیسرا نام جنرل قمر باجوہ کا آتا ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ سب آرمی چیف کی تعیناتی کی وجہ سے ہے سیاسی میدان میں جاری ہلچل اور عمران خان کی سرگرمیاں دراصل نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ جس قدر جلد اور میرٹ پر ہو جائے، اتنا ہی جلدی یہ سیاسی گرد و غبار بیٹھ جائے گا۔‘ اس تعیناتی کے اعلان کا فائدہ صرف یہ ہو گا کہ آج کل جو بے یقینی پھیلی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور دوسرا پاکستانی سیاست کا رخ متعین ہو جائے گا۔ سیاستدان اپنے مسائل پر بات کریں گے، اور فوجی سربراہ اپنا کام کریں گےیہ ایک غلط تاثر ہے کہ ’جو آرمی چیف بنے گا ” ہمارا بندہ ہو گا”۔ ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ نیا آرمی چیف فوج کا مفاد اور اپنے کور کمانڈرز کو دیکھتا ہے۔‘ اگر تاریخ دیکھی جائے تو گذشتہ چند دہائیوں میں ایک مخصوص طریقہ کار تو نظر آتا ہے مگر یہ بھی ہوا کہ فوجی سربراہ کی تعیناتی چند گھنٹوں سے چند مہینوں کے وقفے تک کے دوران بھی کی گئی ہے۔ اب تک صرف ایک بار ایسا ہوا ہے جب نئے آرمی چیف دو ماہ پہلے تعینات کر دیے گئے تھے۔جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ سروس چیف کی تعیناتی کا طریقہ آئین میں درج ہے او ر یہ تعیناتی خود وزیراعظم نے کرنی ہوتی ہے۔ مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی کا اعلان عام طور پر سبکدوش ہونے والے سربراہان کی ریٹائرمنٹ سے کم از کم ایک دن جبکہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ پہلے کیا جاتا ہے تاہم اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں..1991 میں جب نواز شریف کی ہی حکومت تھی تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز کی تعیناتی کا اعلان پرانے آرمی چیف کی سبکدوشی سے دو ماہ پہلے کر دیا گیا تھا مگر نواز شریف نے ہی ایئر فورس کے سربراہ ایئرچیف مارشل ریٹائرڈ سہیل امان کی تعیناتی سبکدوش ہونے والے ایئرچیف کی ریٹائرمنٹ سے چند گھنٹے پہلے کی تھی۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے حکمران اتحاد میں شامل اتحادیوں سے مشاورت کی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 243(3) کے مطابق صدر وزیراعظم کی سفارش پر چیفس آف سروسز کا تقرر کرتا ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر 2022 کو پوری ہو رہی ہے جب کہ انہوں نے بطور آرمی چیف اپنی دوسری تین سالہ مدت ملازمت میں مزید توسیع نہ لینے کا اعلان کیا ہے کیونکہ وہ سروس سے ریٹائر ہونے والے ہیں۔ جنرل باجوہ نے دورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ظہرانے کے دوران اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر بات کی تھی کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع نہیں کریں گے۔
اس سے قبل اپریل میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے بھی واضح کیا تھا کہ جنرل باجوہ نہ تو توسیع چاہتے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ بیان عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے چند روز بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران سامنے آیا۔
دفاعی حکام کی جانب سے ایک سمری بھی تیار کی گئی ہے جس میں فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری کے لیے تھری اسٹار جنرلز کے نام شامل ہیں۔ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے کہ وہ سینئر جرنیلوں میں سے آرمی چیف اور جن کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات کرتی ہے۔ وزیراعظم نے نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے اپنے بھائی نواز شریف سے مشاورت کی ہے۔ اس پریسر کے دوران فوج کے میڈیا ونگ کے سربراہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فوج “غیر سیاسی” ہے۔ آرمی چیف کی تقرری کو بعض اوقات ملک میں جاری سیاسی بحران میں ایک اہم ذیلی سازش قرار دیا جاتا تھا۔ جس کا آغاز اس سال کے شروع میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد ہوا۔ تاہم، فوج نے ستمبر میں پی ٹی آئی کے سربراہ کے ریمارکس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی سینئر قیادت کے بارے میں “ہتک آمیز اور غیر ضروری” بیانات سے ناراض ہے۔

اپنی برطرفی کے بعد کے مہینوں میں، عمران نے اپنی سیاسی ریلیوں کے دوران ملکی سیاست میں مداخلت کرنے پر فوجی قیادت پر کھل کر تنقید کی ہے، اور ان سے “غیر جانبدار” رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد چند مہینوں میں فوج اور عمران کی پارٹی کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے۔

علاوہ ازیں نئے آرمی چیف کی پاکستان کے دورے کے دوران 21 نومبر کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات متوقع ہے۔ شہزادے کے دورہ اسلام آباد سے قبل سیکیورٹی ٹیم اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کرے گی۔ سعودی ولی عہد سے ملاقات کرنے والے دیگر حکام میں پاکستان کے مستقبل کے آرمی چیف بھی ہوں گے۔یاد رہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کا عہدہ محض رسمی ہے کیونکہ کوئی آپریشنل اتھارٹی نہیں ہے۔
پاک فوج کے موجودہ ڈھانچے میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کا عہدہ تکنیکی طور پر آرمی چیف سے زیادہ ہے جسے تینوں افواج آرمی، نیوی اور ایئر فورس پر اختیار حاصل ہے لیکن عملی طور پر آرمی چیف زیادہ طاقتور ہیں۔ اور اس عہدے کی تقرری پر عوام۔ سود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اصولی طور پر، چیف آف جوائنٹ اسٹاف مسلح افواج کا سب سے سینئر افسر ہے جو دفاع اور سلامتی کے معاملات میں حکومت کے مشیر کے طور پر کام کرتا ہے، جس میں ‘جوائنٹس’ کی ترقی اور انٹر سروس تعاون کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔
اس عہدے پر تقرری سے جڑا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ تینوں افواج کے سربراہ کی حیثیت سے یہ عہدہ تینوں سروسز کے پاس ہونا چاہیے لیکن اب تک اس پر فوج بالخصوص نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA) کی اجارہ داری رہی ہے۔ قیام کے بعد ایٹمی کمانڈ اور سٹریٹجک اثاثوں کے اہم معاملات پاک فوج کے زیر کنٹرول ہیں۔
اب تک 17 میں سے 14 چیئرمین آرمی، 2 نیوی اور ایک ایئر فورس سے تھا جب کہ آرمی میں یہ عہدہ انفنٹری کے ایک افسر کو بھی دیا جاتا ہے۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کے لیے اصولی طور پر تینوں مسلح افواج سے افسر تعینات ہونے چاہییں جو اس عہدے کا مقصد بھی تھا اور ایسا ماضی میں ہوا بھی تاہم اب یہ روایت بن گئی ہے کہ یہ عہدہ بھی پاکستان آرمی کے حصے میں آتا ہے۔

سات اکتوبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو وائس چیف آف دی آرمی سٹاف اورجنرل طارق مجید کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کیا تھا۔

تاہم اس تعیناتی کے ڈیڑھ مہینے بعد یعنی 28 نومبر کو پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور یوں جنرل اشفاق پرویز کیانی سینیئر ترین اور وائس چیف ہونے کی وجہ سے آرمی چیف تعینات ہو گئے۔

یہاں ان دونوں عہدوں پر تعیناتی جو عام طور پر ایک ہی دن ہوتی تھی، اب بدل گئی۔2010 میں جنرل طارق مجید سات اکتوبر کو اپنے عہدے کی مدت پوری کر کے ریٹائر ہوئے اور اسی دن ان کی جگہ جنرل ریٹائرڈ خالد شمیم نے لے لی تاہم اس بار جنرل اشفاق پرویز کی توسیع کا اعلان اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسی سال جولائی میں قوم سے خطاب میں بھی کیا تھا۔

تقریبا چار ماہ بعد 28 نومبر کو جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت مکمل ہونے پر انھیں مزید تین سال کی توسیع دے دی گئی۔

سنہ 2013 میں جب نواز شریف ملک کے وزیر اعظم تھے تو سات اکتوبر کو جنرل خالد بھی ریٹائر ہو گئے لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بطور آرمی چیف مدت ملازمت مکمل ہونے میں ابھی اکتوبر اور نومبر کے مہینے باقی تھے۔

اس موقع پر نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں عہدوں کی تاریخ ایک ہی کر دی جائے گی۔ چنانچہ انھوں نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے نام کا اعلان مؤخر کر دیا۔

سات اکتوبر سے 27 نومبر 2013 تک یہ عہدہ خالی رہا۔ 27 نومبر یعنی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے محض دو دن قبل نواز شریف نے جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس اور جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف کے لیے نامزد کر دیا۔مسلح افواج میں عہدے پر تعیناتی عہدہ خالی ہوتے ہی ہو جاتی ہے، اسی لیے اس بار بھی جنرل راشد محمود کو اگلے دن ہی چارج سنبھالنا پڑا جبکہ راحیل شریف نے جنرل اشفاق کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہوئے 29 نومبر کو عہدے کا چارج سنبھالا۔

یہی وجہ ہے کہ آج ان دونوں فور سٹار عہدوں پر تعیناتی کی تاریخ مختلف ہے۔اسی طرح 26 نومبر کو نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف اور جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نامزد کیا جنھوں نے دو دن بعد عہدے کا چارج سنبھالا۔

تین سال بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے تین سال کی توسیع دی اور ساتھ ہی 28 نومبر کو جنرل ندیم نے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا۔ب 28 نومبر کو نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جبکہ 29 نومبر کو آرمی چیف عہدہ سنبھالیں گے۔ اس طرح اب تک کی ان تعیناتیوں کے اعلان میں چند دن ہی نظر آتے ہیں اس بارے میں کوئی قانونی یا آئینی رکاوٹ نہیں۔اس کی ایک وجہ سبکدوش ہونے والے چیف کا احترام ہے۔دوسری وجہ کسی حد تک ’آپریشنل‘ ہے۔فوجی سربراہ کا عہدہ کمانڈنگ عہدہ ہے اور پالیسی تیار کرتا ہے۔ ایک وقت میں دو سربراہان ہونا مفاد میں نہیں۔یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ پالیسی معاملات پر افسران نئے آرمی چیف کی رائے کو زیادہ وقعت دے سکتے ہیں کہ اب آئندہ تین سال تو نئے سربراہ کی پالیسی اور سوچ نمایاں ہو گی۔ ’اسی وجہ سے اس عہدے کی نامزدگی میں جان بوجھ کر تاخیر برتی جاتی ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ سبکدوش ہونے والے سربراہ کی الوداعی ملاقات مکمل ہونے کے بعد اعلان کیا جائے۔‘یہ فیصلہ وزیراعظم کی صوابدید پر منحصر ہے اور وزیر اعظم ہی فیصلہ کرتے ہیں۔آئین میں آرٹیکل 243 سروسز چیفس کی تعیناتی سے متعلق ہے اور ’کہیں بھی کوئی ٹائم فریم نہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں ریٹائرمنٹ سے تین ماہ سے چند گھنٹے پہلے تک بھی نامزدگیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ تو سبکدوشی سے ایک گھنٹہ پہلے بھی یہ اعلان ہو تو یہ غیر آئینی نہیں ہو گا۔‘وزیراعظم کا حتمی فیصلہ18 نومبر کو ہو گا کہ وہ نئے فوجی سربراہ کا اعلان کب کرتے ہیں مگر یہ با ت ضرور واضح ہو جائے گی کہ عمران خان لانگ مارچ کے پیچھے اصل مسئلہ کیا ہے فوجی سربراہ کی تعیناتی یا یا کچھ اور18 نومبر کو فیصلہ ہو جائےگا….

COAS appreciated the formation for monumental efforts in achieving peace and stability during visit Peshawar Corps Headquarters

Posted on Updated on

COAS appreciated the formation for monumental efforts in achieving peace and stability during visit Peshawar Corps Headquarters
Asghar Ali Mubarak
Peshawar; General Qamar Javed Bajwa, Chief of Army Staff (COAS) visited Peshawar today. On arrival at Corps Headquarters, COAS laid floral wreath at Shahuada monument. Later, COAS addressed officers and men of Peshawar corps.
COAS appreciated the formation for monumental efforts in achieving peace and stability. We owe it to the sacrifices of our Shuhada for providing secure and enabling environment for socio – economic development in Newly Merged Districts in particular and KP in General, COAS said. Always stay focused on your professional duties in the service of nation, COAS concluded.
Earlier, on arrival at Corps Headquarters, COAS was received by Lieutenant General Hassan Azhar Hayat, Commander Peshawar Corps.

Pak- Army Official Meets Commander of Security Operations of FIFA World Cup

Posted on

Pakistan Army Official Meets Commander of Security Operations of FIFA World Cup

Brigadier Sajjad Hassan has officially assumed charge of the Pakistan Army’s contingent providing security during the FIFA World Cup 2022 in Qatar starting later this month.Brigadier Sajjad recently called upon Sheikh Khalifa bin Hamad Al Thani, Commander of the Security Operations of the FIFA World Cup 2022. He also received a souvenir from the Qatari official.Earlier on October 11, 2022 a contingent of Pakistan Army depart for Qatar to assume security duties for the FIFA World Cup 2022,The contingent consisting of officers, junior commissioned officers and other Pakistan Army personnel departed from Nur Khan Airbase in Rawalpindi.The federal cabinet had in August approved a draft agreement to send troops at the request of the government of Qatar, and Information Minister Marriyum Aurangzeb had said that Qatar is expecting the arrival of 1.2 million visitors for the tournament.

The government of the Gulf nation has already signed agreements with the US, the UK, Morocco and Turkey to provide troops, assistance and training.

Turkey will send 3,250 security officers while Nato will also provide security during the event. Additionally, South Kor­ea will send five police officers specialising in counterterrorism to Qatar, Al Jazeera reported.

Meanwhile, the UK has also announced that it would provide military support to “deliver a safe and secure” World Cup.

“The Ministry of Defence will support Qatar with military capabilities to counter terrorism and other threats to the tournament. This will include maritime security support from the Royal Navy, advanced venue search training, operational planning and command and control support, and further specialist advice,” the UK government said in a statement.

The Gulf nation has also called up hundreds of civilians, including diplomats summoned back from overseas, for mandatory military service

They will be trained to manage stadium security queues, frisk fans and detect contraband such as alcohol, drugs or weapons.

The event will begin on Nov 20, with the final to be played on Dec 18, 2022.

FIR registered of Imran Khan’s container firing case

Posted on

FIR registered of Imran Khan’s container firing

asgharalimubarakblog

FIR registered of Imran Khan’s container firing

Asghar Ali Mubarak

Islamabad: The FIR of firing on the container of Chairman Tehreek-e-Insaf Imran Khan has been registered in police station City Wazirabad under the sections 302, 224, 440 and 7ATA by the complainant Punjab Police Sub-Inspector Aamir Shehzad of Police Station City Wazirabad. According to the text of the FIR number 691/22, firing was done from the left side of the container, by one accused Naveed son Bashir. In the text of the case, it is said that Chairman PTI Imran Khan along with other leaders was coming from Wazirabad on a container from Allahwala Chowk, around 4 pm, the accused Naveed opened fire with a pistol from the left side of the container. Chairman PTI Imran Khan was injured on the container. The FIR mentions 11 known and some unknown injured including Muhammad Ahmed Chatha, Hamza Altaf. In the text…

View original post 98 more words

FIR registered of Imran Khan’s container firing case

Posted on

FIR registered of Imran Khan’s container firing

Asghar Ali Mubarak

Islamabad: The FIR of firing on the container of Chairman Tehreek-e-Insaf Imran Khan has been registered in police station City Wazirabad under the sections 302, 224, 440 and 7ATA by the complainant Punjab Police Sub-Inspector Aamir Shehzad of Police Station City Wazirabad. According to the text of the FIR number 691/22, firing was done from the left side of the container, by one accused Naveed son Bashir. In the text of the case, it is said that Chairman PTI Imran Khan along with other leaders was coming from Wazirabad on a container from Allahwala Chowk, around 4 pm, the accused Naveed opened fire with a pistol from the left side of the container. Chairman PTI Imran Khan was injured on the container. The FIR mentions 11 known and some unknown injured including Muhammad Ahmed Chatha, Hamza Altaf. In the text of the FIR, it is said that one of the worker in the rally, Hasan Ibtisam, tried to catch the shooter’s head, due to which the shooter could not fire any more, Imran Khan left for Lahore after receiving medical aid.

Earlier it was said that the FIR will be presented in the Supreme Court today. Police sources said that the FIR will be made public after it is submitted to the Supreme Court.

It should be remembered that Tehreek-e-Insaf Chairman Imran Khan was injured in the assassination attack during the long march in Wazirabad on November 3.

وزیراعظم شہباز شریف متاثرین سیلاب کیلئے کاوشوں پر عالمی کانفرنس میں مرکز نگاہ…

Posted on Updated on

وزیراعظم شہباز شریف متاثرین سیلاب کیلئے کاوشوں پر عالمی کانفرنس میں مرکز نگاہ…………..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)………………………..شرم الشیخ، مصر میں جاری موسمیاتی تبدیلیوں کی عالمی کاپ 27 سربراہی کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف پاکستان میں سیلاب اور متاثرین کی مدد کے لئے کاوشوں پر مرکز نگاہ بن گئےہیں,سربراہی اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیث اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید آل نہیان سے ملاقات کی ہے۔
دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچاؤ کے لیے بھرپور تعاون پر اتفاق کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیث نے دو طرفہ تعاون اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم کی جانب سے عرب لیگ کے چارٹر اور اس کے حصول کے لیے سیکریٹری جنرل کے عزم کی تعریف کی۔ متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید آل نہیان کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کی فراخ دلانہ امداد پر یو اے ای کی قیادت اور عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کاپ 27 کے عزم کو نیک شگون قرار دیا۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنا تنہا ترقی پزیر ممالک کے بس میں نہیں۔ عالمی برادری کو مل کر کرہ ارض کی بقا کا مشترکہ چارٹر بنانا ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کاپ 27 کانفرنس کے اغراضِ ومقاصد کے لیے عالمی برادری بالخصوص اسلامی دنیا کے عزم کا خیرمقدم کیا۔
دونوں راہنماؤں نے باہمی مفاد کے مشترکہ مقاصد کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
دریں اثنا شرم الشیخ کلائمیٹ امپلی منٹیشن کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں پہنچنے پر مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتیرس نے وزیر اعظم شہبازشریف کا استقبال کیا۔
اس موقع پر وزیراعظم کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں، جن میں عراقی صدر عبداللطیف راشد، تاجک صدر امام علی رحمن، انڈونیشیائی صدر جوکو ویدودو اور لبنانی وزیراعظم نجیب میکاتی شامل ہیں۔ .پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہےکلائمیٹ چینج یا آب و ہوا میں تبدیلی کے بارے میں اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس مصر میں شروع ہے جہاں عالمی رہنما دنیا کو درپیش آب و ہوا میں تبدیلی کے مسئلے پرگفت و شنید کریں گے۔.شرم الشیخ، مصر میں جاری موسمیاتی تبدیلیوں کی عالمی کاپ 27 سربراہی کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف پاکستان میں سیلاب اور متاثرین کی مدد کے لئے کاوشوں پر مرکز نگاہ رہے ہیں عالمی راہنماؤں نے وزیراعظم کی سیلاب متاثرہ علاقوں میں مسلسل موجودگی کو غیرمعمولی جذبہ قرار دیاوزیراعظم شہباز شریف کی کاپ 27 سربراہی کانفرنس کے موقع پر شرم الشیخ انٹرنیشنل کانگریس سینٹر میں اہم عالمی رہنماؤںعراق کے صدر عبداللطیف راشد، تاجکستان کے صدر امام علی رحمن، انڈونیشیا کے نائب صدر معروف امین لبنان کے وزیراعظم نجیب میکاتی نے الگ الگ ملاقات کی غیرملکی راہنماؤں نے پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں اور جانی نقصانات پر افسوس کا اظہار کیا سربراہی اجلاس اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی27 ویں کانفرنس (COP-27) کے ایک حصے کے طور پر ہو رہا ہے۔ کوپ۔ 27کی مصری صدارت کی دعوت پر، وزیر اعظم 8 نومبر 2022 کو اپنے نارویجن ہم منصب کے ساتھ ”کلائمیٹ چینج اینڈ سسٹین ابیبلٹی آف ولنرایبل کمیونٹیز” پر ایک اعلی سطحی گول میز مباحثے کی شریک صدارت بھی کریں گے۔گزشتہ 8 سال دنیا کی تاریخ کے گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں جس سے عالمی سطح پر درجہ حرارت میں ڈرامائی اضافے کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ بات اقوام متحدہ کی جانب سے مصر میں شروع ہونے والی کوپ 27 کلائمیٹ کانفرنس کے آغاز کے موقع پر جاری رپورٹ میں بتائی گئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سمندروں کی سطح میں اضافے، گلیشیئر پگھلنے، طوفانی بارشوں، ہیٹ ویوز اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق زمین کا درجہ حرارت 19 ویں صدی کے اختتام کے مقابلے میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے اور 50 فیصد اضافہ گزشتہ 30 برسوں میں ہوا ہے۔اس کانفرنس میں 197 ممالک کے وفود شرکت کررہے ہیں تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے ہدف کے حصول کے حوالے سے مشاورت کی جاسکے۔ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کی مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سمندری پانی کا درجہ حرارت 2021 میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا تھا جبکہ بحری ہیٹ ویوز کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔مجموعی طور پر سمندری سطح کے 55 فیصد حصے کو 2022 میں کم از کم ایک بار ہیٹ ویو کا سامنا ہوا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ گلیشیئرز اور برفانی پرت پگھلنے سے سمندروں کی سطح میں اضافے کی رفتار میں گزشتہ 30 برسوں میں دوگنا اضافہ ہوا جس سے مختلف ساحلی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں افراد کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ڈبلیو ایم او کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ریکارڈ سطح پر ہورہا ہے۔ڈبلیو ایم او کے سربراہ Petteri Taalas نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی موسمیاتی خطرات کا سامنا ہورہا ہے جیسے 2022 کے دوران یورپ کے بیشتر حصوں کو ہیٹ ویوز اور خشک سالی کا سامنا ہوا۔
1992 میں اقوام متحدہ نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ارضی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا جس میں موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کی منظوری دی گئی اور اس حوالے سے رابطہ دفتر قائم کیا گیا جسے یو این کلائمیٹ چینج سیکرٹریٹ کا نام دیا گیا۔1994 کے بعد سے ہر سال اس حوالے سے عالمی کانفرنس ہورہی ہے اور کوپ بنیادی طور پر کانفرنس آف پارٹیز کا مخفف ہے۔اب تک ہونے والے ان اجلاسوں میں دنیا بھر کے ممالک نے بنیادی معاہدے کو بہتر بنانے پر مشاورت کی ہے تاکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو قانونی طور پر روکا جا سکے۔ 1997 میں طے پانے والا کیوٹو پروٹوکول اور 2015 کے پیرس معاہدے میں دنیا کے تمام ممالک نے عالمی درجہ حرارت کو قبل از صنعتی دور کے زمینی درجہ حرارت کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد میں رکھنے کی کوشش کرنے اور ایسا ممکن بنانے سمیت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مالی وسائل مہیا کرنے کی کوششوں میں اضافے پر اتفاق کیا تھا۔اس سال ایسی 27ویں سالانہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اسی لیے اسے کوپ 27 کا نام دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم اعلی سطحی تقاریب بشمول اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ایگزیکٹیو ایکشن پلان کے ابتدائی وارننگ سسٹمز کے آغاز کے لیے گول میز اجلاس میں بطور سپیکر شرکت کریں گے جبکہ 7 نومبر کو “مڈل ایسٹ گرین انیشیٹو سمٹ”؛ جس کی میزبانی سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کر رہے ہیں میں بھی شرکت کریں گے ۔ وزیر اعظم سمٹ کی سائیڈ لائنز پر کئی عالمی رہنمائوں کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے۔کوپ-27 ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب پاکستان کے لاکھوں شہری اور دنیا کے دیگر حصوں میں کروڑوں افراد ماحولیاتی تبدیلی کے شدید منفی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس رجحان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر، پاکستان ماحولیاتی یکجہتی اور موسمیاتی انصاف کی فوری ضرورت کے لیے ایک مضبوط کال کرے گا، جو مساوات اور مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں کے قائم کردہ اصولوں پر مبنی ہے۔ 77 گروپ کے موجودہ چیئر کی حیثیت سے، جو کہ اقوام متحدہ کے نظام میں ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا مذاکراتی بلاک ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات بشمول موضوعاتی شعبوں جیسے کہ موسمیاتی مالیات، موافقت، تخفیف، اور صلاحیت کی تعمیر میں گروپ کی قیادت بھی کرے گا۔

کوپ -27اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کانفرنس(یو این ایف سی سی سی ) کے تحت فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کا جائزہ لینے اور آگے بڑھانے کے لیے سالانہ بنیادوں پر اجلاس منعقد کرتا ہے۔ ایک اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر، پاکستان عالمی ماحولیاتی تبدیلی پر بحث، مذاکرات اور اجتماعی کارروائی میں مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔

شرم الشیخ میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں دو سو سے زیادہ حکومتوں کو دعوت دی گئی ہے یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب گذشتہ ایک برس کے دوران دنیا میں کئی قدرتی آفات آئیں اور کئی ملکوں میں بلند ترین درجۂ حرارت کے پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ کلائمیٹ چینج کے موضوع پراقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک سربراہی کانفرنس ہر سال منعقد کی جاتی ہے جس کا مقصد رکن ممالک کی حکومتوں کے مابین ان اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے جس سے بڑھتی ہوئی عالمی حدت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اس کانفرنس کو ’سی او پی‘ یا ’کانفرنس آف دی پارٹیز‘ یا کوپ کہا جاتا ہے۔ یہاں پارٹیز سے مراد وہ ممالک ہیں جو کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں اور جنھوں نے آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے سنہ 1992 کے پہلے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ مصر میں ہونے والی اس کانفرنس کو ’کوپ 27‘ کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ اس موضوع پر اقوام متحدہ کی 27ویں کانفرنس ہے۔ یہ کانفرنس شرم الشیخ کے مقام پر 6 سے 18 نومبر تک منعقد ہو گی۔ رواں سال 14جون کو شروع ہونے والی مون سون بارشوں نے پاکستان میں ملکی تاریخ کی بدترین تباہی مچاہی ہے سیلاب سے ملک بھر میں 320 دکانیں اور 139 بڑی مارکیٹیں تباہ ہو گئیں، ملک بھر میں بارش اور سیلاب سے ہلاک اور متاثر ہونے والے مویشیوں کی تعداد 15 لاکھ سے زیادہ ہے اعداد وشمار کے مطابق بارش اور سیلاب کے باعث ملک بھر میں تقریباً 2 کروڑ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں، نومبر 2021 میں کہا تھا کہ عالمی تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ نے ایک رپورٹ میں فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثر ملک ہے۔اور اس کے بعددنیا نے دیکھا کہ سیلاب کی وجہ سے کتنا نقصان ہوا۔عالمی تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں 2000 سے 2019 تک دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کے موسمی حالات اور قدرتی آفات کا جائزہ لیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اس مدت کے دوران عالمی معیشت کو 2.56 کھرب امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا لیکن پاکستان کا حالیہ سیلاب اس سے بڑی تباہی ہے۔ گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو عالمی تنظیموں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا تھالیکن افسوس حکومت پاکستان نے اس پیش گوئی کو نظر انداز کر دیا۔20 سالوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 174 قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں۔حالیہ سیلاب 2022 سے پہلےموسمیاتی تبدیلیوں کے ماہرین پاکستان میں موسمی حالات کے سبب آنے والی قدرتی آفات میں سے سیلاب کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھےاور ان کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی,2010 میں آنے والے سیلاب جسے ’پاکستان سپر فلڈ 2010‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سیلاب نے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے ساتھ پاکستانی معشیت کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق 2010 کے سیلاب سے پنجاب کے 80 لاکھ افراد متاثر ہونے کے ساتھ صوبے کو 900 ملین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریباً ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیشگی اندازہ نہ لگائے جانے اور مون سون کی شدید بارشوں اور گلوبل وارمنگ کے باعث پگھلتے گلیشیئرز پاکستان میں شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی آفات میں سے ایک سیلاب پاکستان کے لیے سب سے بڑا یا نمبر ون خطرہ بن گیا ۔پاکستان کے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق بارشوں کے باعث 588 بچوں اور 332 خواتین سمیت 1638 افراد ہلاک اور 12 ہزار 865 زخمی ہوئےاکستان میں 14 جون سے موثر ہونے والی مون سون بارشوں سے ہونے والی آفات میں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 1638 ہے۔بارشوں کے باعث جہاں 2 ملین 49 ہزار 482 مکانات کو نقصان پہنچا اور ان میں سے 8 لاکھ 24 ہزار 169 مکمل طور پر تباہ ہو گئے وہیں 13 ہزار 74 کلومیٹر سڑکیں اور 392 پل تباہ ہو گئے۔بارشوں سے 33.4 ملین افراد متاثر ہوئے جبکہ 10 لاکھ 103 ہزار 800 مویشی تلف ہوگئے ہیں ۔اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب زدہ علاقوں میں مدد کی فوری ضرورت کے طلبگار متاثرین کی تعداد دستیاب اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔حکومت پاکستان، اقوام متحدہ اور امداد کے لیے سرگرم دیگر معاون اداروں کی جانب سے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تباہ کن سیلاب کے بعد بہت سے لوگوں کو امداد کی فوری ضرورت ہے۔60 کروڑ سے 80 کروڑ ڈالر امداد پر مبنی نظرثانی شدہ ‘پاکستان فلڈ رسپانس پلان 2022’ کا جنیوا میں اجرا کیا جاگیا یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اب تک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیلاب کے سبب چاروں صوبوں میں اب تک کم از کم 25 ہزار 993 اسکولوں کو نقصان پہنچ چکا یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اب تک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیلاب کے سبب چاروں صوبوں میں اب تک کم از کم 25 ہزار 993 اسکولوں کو نقصان پہنچ چکا ۔اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نےکہا کہ سیلاب زدگان کو فوری امداد فراہم کرنے کے لیے 16 کروڑ ڈالر کی ہنگامی اپیل کے بعد ایک ماہ کے اندر 9 کروڑ ڈالر موصول ہو ئے ہیں۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس وقت 5 ہزار سے زائد اسکولوں کو بے گھر سیلاب متاثرین کے لیے بطور پناہ گاہ استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ سیلاب کے سبب اندازاً 23 ہزار 900 اسکولوں کو نقصان پہنچا ۔پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کی نمائندہ ڈاکٹر پالیتھا ماہی پالا نے کہا کہ سیلاب کے سبب 2 ہزار سے زائد طبی مراکز کو نقصان پہنچاپاکستان میں یونیسیف کی نائب نمائندہ ڈاکٹر انوسا کبور نے کہا ہےکہ 23 لاکھ لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں اور تقریباً 30 لاکھ لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔سیلاب کے باعث ملکی زراعت کو اب تک تقریباً 750ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ اور ملک کے طول و ارض میں سیلاب کے باعث 30 لاکھ ایکٹر ( 8300 مربع کلومیٹر) رقبے پر فصلیں تباہ ہو گئیں، این ڈی ایم اے کے مطابق رواں سال کے سیلاب نے 2004کے بدترین سیلاب کا ریکارڈ بھی توڑ دیا اور رواں سال زرعی پیداوار میں 20 فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔سیلاب نے 3 لاکھ ایکٹر پر چاول، 6 لاکھ ایکڑ پر کپاس، 3 لاکھ ایکڑ پر گنے، 6 لاکھ ایکڑ پر چنے، مکئی، پھلیاں، کالی مرچ، سرچ چنے، دالوں، کو تباہ کیا۔ سرکاری اداروں کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بارش و سیلاب نے پانچ لاکھ ٹن اسٹاک کی گئے گندم کے ذخیرے کو بھی متاثرہ کیاپاکستان کے 34اضلاع میں تقریباً 10لاکھ گھر یا تو مکمل تباہ ہو گئے یا جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں، دریائے چناب، کابل، جہلم ، سندھ اور دیگر پہاڑی نالوں سے جنم لینے والے سیلابی ریلوں نے 3500 کلومیٹر سے زائد سڑکوں اور شاہراہوں کو تباہ یا متاثر کیا۔ اعداد و شمار کے مطابق سیلاب کی وجہ سے 280کے قریب چھوٹے اور بڑے پل زمین بوس ہو گئے یا سیلابی ریلوں میں بہہ گئے، تباہ ہونے والوں پلوں میں 21 ریلوے کے پل بھی شامل ہیں۔بلوچستان کے تقریباً ایک درجن کے قریب چھوٹے ڈیموں کو بھی نقصان پہنچا پانچویں مرتبہ اقوام متحدہ کی یہ کانفرنس کسی افریقی ملک میں منعقد ہو رہی ہے۔اس خطے کی حکومتوں کو امید ہے کہ یہ کانفرنس دنیا کی توجہ کلائمیٹ چینج کے ان تباہ کن اثرات کی جانب مبذول کرائے گی جو ان کے براعظم پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے لحاظ سے افریقہ دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جہاں اس کے برے اثرات سب سے زیادہ ہوں گے۔کانفرنس سے پہلے تمام رکن ممالک سے کہا گیا تھا کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے اپنے اپنے قومی منصوبے اقوام متحدہ کے پاس جمع کرائیں۔ اب تک صرف 25 ممالک نے اس پر عمل کیا ہے۔

کوپ 27 میں تین بڑے اہداف پر بات کی جائے گی:

آلودگی میں کمی
آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے کے لیے رکن ممالک کی تیاری میں مدد کرنا
ان اقدامات کے لیے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا اور مالی و تکنیکی معاونت کا بندوبست کرنا
اس کے علاوہ ان اہداف کے بارے میں بات کرنا جن پرگزشتہ کانفرنس (کوپ 26) میں اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔

قدرتی آفات سے سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ آفات سے متاثر ہونے والے ممالک کی مالی معاونت کا بندوبست کرنا۔

عالمی سطح پر ’کابن مارکیٹ‘ کا قیام کرنا جس کے تحت فضائی آلودگی کے اثرات کےعوض عالمی سطح پر مختلف مصنوعات اور سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

کوئلے کا استعمال کم کرنے کے وعدوں پر عمل کو مضبوط بنانا۔کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک کی کم سے کم خواہش یہ ہوگی کہ انھیں قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے مالی مدد کی فراہمی کی بات ضرور ہو۔

اس کے علاوہ ان ممالک کی کوشش یہ بھی ہوگی کہ انہیں مالی امداد کی فراہمی کی کوئی حتمی تاریخ دے دی جائے۔

دوسری جانب، ترقی یافتہ ممالک کوشش کریں گے کہ چین، انڈیا، برازیل، انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ جیسے بڑے بڑے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ زیادہ آلودگی پیدا کرنے والا ایندھن (کوئلہ) استعمال کرنا بند کر دیں۔

اس کے علاوہ اس کانفرنس میں ان اہداف پر بھی بات ہوگی جن کا وعدہ گزشتہ برس کیا گیا تھا۔ ان میں جنگلات کا تحفظ، کوئلہ اور میتھین گیس جیسے موضوعات شامل ہیں اور امید ہے کہ اس برس مزید ممالک ان حوالوں سے اپنی رضامندی کا اظہار کر دیں گے۔

تاہم، کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ عالمی رہنماؤں نے بہت دیر کر دی ہے اور اس کانفرنس میں جس بات پر بھی چاہے اتفاق ہو جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کا ہدف پھر بھی حاصل نہیں ہوگا۔ عالمی ادارے ’جرمن واچ‘ نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے جائزے پر مبنی اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق، پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو ان تبدیلیوں کے باعث بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اسی طرح، برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق بتاتی ہے کہ موسموں کی شدت کے پاکستان اور شمال مغربی بھارت میں ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات سو گنا سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹوں اور جائزوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کا سلسلہ رکنے والا نہیں اور مستقبل میں ہمیں مزید قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اندریں حالات، ہماری معیشت بھی بری طرح متاثر ہوگی اور ہمیں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی سہنا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں اور پالیسی سازوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ اور بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اس حوالے سے ہماری کتنی اور کیسے مدد کرسکتے ہیں؟اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اپنے حالیہ دورہ¿ پاکستان کے موقع پر ملک کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گئے اور وہاں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ’پاکستان دوسرے ملکوں کی پیدا کردہ آلودگی سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرنا اکیلے پاکستان کے وسائل سے ممکن نہیں، دنیا کی ذمہ داری ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دے۔‘ انتونیو گوتریس کا یہ بیان کئی حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے جہاں انھوں نے ایک طرف پاکستان سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے وہیں انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا موسمیاتی تبدیلیوں میں اتنا حصہ نہیں ہے جتنی قیمت انھیں ادا کرنا پڑرہی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک دنیا میں مختلف قسم کی آلودگیوں کے بڑھنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ذمہ دار ہیں لیکن وہ طاقتور ہیں اس لیے ان کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا۔پاکستان اگر چاہے تو دنیا کے سب سے بڑے اور اہم ادارے کے سربراہ کے مذکورہ بیان کو مختلف بین الاقوامی فورمز پر اپنے حق میں استعمال کر کے دنیا کو احساس دلانے کی کوشش کرسکتا ہے کہ ہمارے مسائل کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کی بنیاد ترقی یافتہ ممالک نے رکھی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف آئندہ چند روز میں اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک جارہے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہاں اس مسئلے پر نہ صرف مذکورہ اجلاس میں بات کریں بلکہ مختلف ممالک اور حکومتوں کے سربراہوں اور ان کے نمائندوں سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی اس کا ذکر کریں۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ کئی اور ممالک کو بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایسے تمام ممالک اگر پاکستان کے ساتھ مل کر اس مسئلے پر ٹھیک سے آواز اٹھاتے ہیں تو بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کر کے ایک تحریک کا آغاز کیا جاسکتا ہے جس کا مختصر سا ایجنڈا یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا کے جو بڑے ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں وہ ان ملکوں کے نقصان کی تلافی بھی کریں جو ان تبدیلیوں سے منفی طور پر متاثر ہورہے ہیں,سیلاب نے پاکستان کے بڑے حصے کو جس بری طرح متاثر کیا ہے اور اس سے جو نقصان ہوا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے بحال ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں جو نقصان ہوا وہ اکتوبر 2005ءمیں آنے والے زلزلے سے ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی قیادت اور دیگر سٹیک ہولڈرز اس حوالے سے متفق ہوں کہ پاکستان کو قدرتی آفات کے نقصانات سے بچانے کے لیے ہم نے جلد از جلد ایک جامع اور قابلِ عمل پالیسی وضع کرنی ہے تاکہ ملک کی معیشت کو ہر تھوڑے عرصے بعد لگنے والے بڑے دھچکے سے محفوظ رکھا جاسکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کے بارے میں مسلسل بین الاقوامی سطح پر بات کرنا اور مذکورہ پالیسی کی تشکیل کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانا ہمارے مقتدر حلقوں کی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ان کا فرض ہے جو انھیں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ادا کرنا ہی پڑے گا۔

اقوام متحدہ کا انتباہ…عالمی حدت کے خلاف جنگ; مل کر کام یا ’اجتماعی خودکشی‘’………………………(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)………..

Posted on Updated on

اقوام متحدہ کا انتباہ…عالمی حدت کے خلاف جنگ; مل کر کام یا ’اجتماعی خودکشی‘’………………………(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)……….. شرم الشیخ، مصر میں جاری موسمیاتی تبدیلیوں کی عالمی کوپ 27 سربراہی کانفرنس میں پاکستان میں اہم سٹیک ہولڈر ہے, مصر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کا کیس پیش کریں گے کہ ہمیں دنیا کی وجہ سے سیلاب کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔تقریباً 90 ممالک اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے بھی اس اجلاس میں شریک ہیں۔ اگر پاکستان نے اپنا کیس بہتر انداز میں پیش کیا تو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سنجیدہ اور نیوٹرل ممالک پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں۔امید ہے کہ دنیا پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور کچھ کامیابی حاصل کی جا سکے گی۔ گلوبل گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے جبکہ ان کے باعث ہونے والی نقصانات میں پاکستان پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ تین بڑے ممالک گلوبل گرین ہاؤس گیسز کا 42 فیصد خارج کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے نقصانات کی مدد کریں۔۔وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو اس کانفرنس کا نائب صدر نامزد کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو اس کانفرنس کا نائب صدر نامزد کیا گیا ہے اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے عالمی رہنماؤں کو متنبہ کیا کہ انسانیت کو عالمی حدت کے خلاف جنگ میں مل کر کام کرنے یا ’اجتماعی خودکشی‘ میں سے کسی ایک کے سخت انتخاب کا سامنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جو کاربن کے اخراج کو پھیلانے میں سب سے آگے ہیں، انہیں پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنا چاہیے کیوں کہ پاکستان تاریخ کے بد ترین سیلاب سے دوچار ہے۔ امیر آلودگی پھیلانے والے ممالک جو کہ ڈسٹوپیئن موسمیاتی خرابی کے لیے بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں، نے اخراج کو کم کرنے اور ترقی پذیر ممالک کو گلوبل ہیٹنگ کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرنے کے اپنے وعدے توڑ دیے ہیں پاکستان انوائرمنٹ ٹرسٹ کے مطابق کاربن کے اثرات کو 2030 تک صفر کرنے کے لیے اور پاکستان میں کپاس کی فصل کی تباہی کے نتیجے میں اور عالمی برادری کی سپلائی چین میں رہ جانے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی کارپوریشنز اور صنعت کاروں کو مل کر پاکستان میں کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پاکستان سے کاربن کریڈٹ خریدا جائے تاکہ فطرت پر مبنی حل میں سرمایہ کاری کی جا سکے اور ان کے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کیا جا سکے۔ دنیا بھر میں کاربن کے اخراج کو اگر دیکھیں تو پاکستان کل عالمی کاربن اخراج میں صرف ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے، اس کے برعکس چین دنیا کے کاربن اخراج میں 32 جبکہ امریکہ 12.6 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جسے ہم سادہ زبان میں کاربن فٹ پرنٹ کہتے ہیں۔

اپنے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے کے لیے ان ممالک کو صنعتی اخراج کم کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسا کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے کاربن اخراج سے شدید متاثرہ ممالک جیسے کہ پاکستان میں ان ممالک کو کاربن کریڈٹ خریدنا چاہیے۔ ایسی انڈسٹریزجیسے کہ سیمینٹ، ایوی ایشن، سٹیل اور گیس کے کاربن فٹ پرنٹس سب زیادہ ہیں یعنی یہ کمپنیاں ماحولیاتی آلودگی میں سب سے زیادہ ملوث ہیں، تو انہیں کاربن کریڈٹ فراہم کرنا ہوگا اور یہاں پاکستان میں پھر ان پیسوں سے ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں جیسے کہ ڈی آئی خان اور چترال میں جنگلات کے منصوبے اور کے پی میں ہائیڈرو گرڈز لگانا۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس تقریباً 100 سربراہان مملکت سے حکومت شرم الشیخ کے بحیرہ احمر کے ریزورٹ میں دو دن سے ملاقات کر رہے ہیں جنہیں ماحول دشمن گیسوں کے اخراج میں کمی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات سے تباہ حال ترقی پذیر ممالک کو مالی طور پر واپس لانے کے مطالبات کا سامنا ہے۔قوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مندوبین کو بتایا کہ دنیا ’موسمیاتی جہنم کی طرف جانے والی شاہراہ پر ہے اور ہمارا پیر ایکسلیریٹر پر ہےمندوبین سے خطاب میں انتونیو گوتریس نے کہا جو الفاظ کو چبانے کے حوالے سے شہرت نہیں رکھتے کہ دنیا تیزی سے اس مقام کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں موسمیاتی تباہی کو ’واپس پلٹانا ناممکن ہو جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’موسمیاتی تبدیلی ایک مختلف ٹائم لائن اور پیمانے پر ہے۔ یہ ہمارے دور کے مسئلے کو واضح کر رہی ہے۔ یہ ناقابل قبول، غیر معمولی اور اپنے آپ کو شکست دینا ہے کہ اسے پس پشت ڈال دیا جائے۔‘

موسمیاتی تبدیلی پر سربراہ کانفرنس کوپ 27 مصر کا تفریحی مقام پر آغاز ہوا برطانیہ نے کوپ کی صدارت مصر کے حوالے کی۔کانفرنس کے دوسرے روز عالمی رہنما جن میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے بھی خطاب کیاکوپ27 کو ’عملدرآمد کوپ‘ کا نام دیا گیا ہے کیوں کہ اس کا مقصد وعدوں کو زمین پر عملی شکل دینا اور بحران پر قابو پانے کے لیے عزم کو مضبوط بنانا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ہدف سب کے لیے قابل تجدید اور سستی توانائی فراہم کرنا ہونا چاہیے، خاص طور پر انہوں نے امریکہ اور چین سے اس کی رہنمائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ اخلاقی طور پر لازم ہے کہ زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک کمزور ممالک کی مدد کریں۔

چینی رہنما شی جن پنگ، جن کا ملک دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والا ملک ہے، سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کی مد میں دنیا پاکستان کی مالی مدد نہیں کر رہی۔امریکہ نے 2010 کے سیلاب میں پاکستان کو تقریباً چھ سو ملین ڈالرز امداد دی تھی جبکہ 2022 کے سیلاب میں صرف 53 ملین ڈالرز کے وعدے کیے گئے ہیں۔ 2010 کے سیلاب میں پہلے 15 دنوں میں تقریباً 60 ممالک نے امداد کا اعلان کر دیا تھا لیکن 2022 کے سیلاب میں تقریباً 12 ممالک نے ہی امداد کے وعدے کیے ہیں عالمی طاقتیں اس وقت خود مالی بحران کا شکار ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں سینٹرل بینک شرح سود بڑھا رہے ہیں تا کہ معیشت کی رفتار سست رکھی جا سکےجہاں تک بات ہے مصر کی جانب سے پاکستان کی امداد کی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ مصر کی اپنی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ وہ خود عالمی طاقتوں سے مالی مدد کی درخواست کر رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے باعث اس وقت سعودی عرب کی معاشی حالت بہتر ہے اور ممکن ہے کہ وہ اس کانفرنس میں پاکستان کی مالی امداد کر سکے۔کوپ 27 ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں لاکھوں لوگ موسمیاتی تبدیلی کے شدید منفی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔عالمی رہنماؤں پر دباؤ ہے کہ وہ مضر گیسوں کے اخراج میں بڑی کمی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات سے پہلے ہی تباہ حال ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد کریں۔پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں لاکھوں لوگ موسمیاتی تبدیلی کے شدید منفی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔پاکستان نے، جو کہ 130 سے زائد ترقی پذیر ممالک کے طاقتور جی 77+ چین مذاکراتی بلاک کا صدر بھی ہے، اس مسئلے کو ترجیح بنایا ہے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر، پاکستان ماحولیاتی یکجہتی اور موسمیاتی انصاف کی فوری ضرورت کے لیے ایک مضبوط کال دے گا، جو مساوات اور مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں کے قائم کردہ اصولوں پر مبنی ہے۔ 77 گروپ کے، جو کہ اقوام متحدہ کے نظام میں ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا مذاکراتی بلاک ہے، موجودہ صدر کی حیثیت سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات بشمول موضوعاتی شعبوں جیسے کہ موسمیاتی مالیات، موافقت، تخفیف، اور صلاحیت کی تعمیر میں گروپ کی قیادت بھی کرے گا۔ ایک اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر، پاکستان عالمی موسمیاتی تبدیلی پر بحث، مذاکرات اور اجتماعی کارروائی میں مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔دنیا کو 2030 تک گرین ہاؤس کے اخراج میں45 فیصد کمی لانی ہوگی تاکہ گلوبل وارمنگ کو19ویں صدی کے آخر کی سطح سے اوپر 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کیا جا سکے۔ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے نتائج کے مطابق موجودہ دہائی کے اختتام تک کاربن آلودگی میں 10 فیصد اضافہ ہوگا اور زمین کی سطح 2.8 سینٹی گریڈ تک گرم ہوجائے گی۔ترقی پذیر ممالک کے سربراہوں نے ’نقصان‘ کے لیے رقم کے تنازع کو سربراہی اجلاس کے ایجنڈے پر ڈالنے پر اتفاق کیا کہ ’موسمیاتی بحران کے اثرات کا بوجھ کمزور ممالک اکیلے نہیں اٹھا سکتے۔‘ امیر ممالک سے یہ بھی توقع کی جائے گی کہ وہ ہر سال 100 ارب ڈالر دینے کے لیے ایک ٹائم ٹیبل مقرر کریں گے تاکہ ترقی پذیر ممالک اپنی معیشتوں کو ماحول دوست اور مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کر سکیں۔انتونیو گوتیرش نے کہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی ہمارے دور کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ مجھے اس بارے میں بہت زیادہ تشویش ہے کیونکہ یوکرین میں جاری جنگ اور متعدد دیگر واقعات کے ہوتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں بہت سے فیصلہ سازوں کی ترجیحات میں دکھائی نہیں دیتی اور اس طرح گویا ہم خودکشی کر رہے ہیں۔ ہمارے سامنے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم معدنی ایندھن کا استعمال ایک مرتبہ پھر عام ہوتا دیکھ رہے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ معدنی ایندھن فطرت کے خلاف اس بڑھتی ہوئی جنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے جو ہم اپنی پوری تاریخ میں لڑتے چلے آئے ہیں۔

اِس وقت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے اگرچہ ہمیں 2030 تک اس اخراج میں 45 فیصد کمی لانا چاہیے لیکن اس کے بجائے ہمیں 2030 تک اس میں 14 فیصد اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے ہمیں اس رحجان کو واپس موڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ایک تباہ کن صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہمارے پاس واپس پلٹنے کےلیے زیادہ وقت نہیں ہے۔

اسی دوران جب ہم پاکستان میں آنے والی تباہی کی شدت کو دیکھیں تو وہاں سیلاب میں زیرآب آنے والا علاقہ میرے اپنے ملک پرتگال سے تین گنا زیادہ ہے۔ ہمیں ناصرف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے معاملے میں ترقی پذیر ممالک کی مدد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں انہیں موسمیاتی تبدیلی کے مقابل مضبوط بنانے اور ایسے پائیدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد دینے کی بھی ضرورت ہے جس سے یہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے ان اثرات سے نمٹ سکیں جو پہلے ہی انہیں تباہ کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ اثرات ایسے ممالک میں دکھائی دیتے ہیں جن کا موسمیاتی تبدیلی میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔”

پاک فوج کی جانب سے ادارے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کی مذمت

Posted on

پاک فوج کی جانب سے ادارے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کی مذمت
؛ اصغر علی مبارک
راولپنڈی؛ پاک فوج نے ادارہ کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے صرف افواہیں اور پروپیگنڈہ پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ادارے اور خاص طور پر ایک اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف غیر ذمہ دارانہ الزامات قطعی طور پر ناقابل قبول اور غیر ضروری ہیں۔ پاکستان آرمی اپنے آپ کو ایک انتہائی پیشہ ور اور نظم و ضبط رکھنے والا ادارہ ہونے پر فخر کرتی ہے جس کا ایک مضبوط اور انتہائی موثر اندرونی احتسابی نظام ہے جو کہ وردی پوش اہلکاروں کے ذریعے کی جانے والی غیر قانونی کارروائیوں کے لیے پورے بورڈ پر لاگو ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ذاتی مفادات کے ذریعے اس کے عہدے اور فائل کی عزت، حفاظت اور وقار کو داغدار کیا جا رہا ہے تو یہ ادارہ اپنے افسران اور سپاہیوں کی حفاظت کرے گا، چاہے کچھ بھی ہو۔ . بیان میں کہا گیا کہ آج ادارے/اہلکاروں پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات انتہائی افسوسناک اور پرزور مذمت ہیں۔ آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ آئی ایس پی آر نے کہا کہ حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے” اور ” بغیر کسی ثبوت کے ادارے اور اس کے اہلکاروں کے خلاف ہتک عزت اور جھوٹے الزامات کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے”۔ فورٹریس چیک پوائنٹ لاہور پر احتجاج کے بارے میں درج ذیل ہیں۔
▪️ ابتدائی طور پر فورٹریس چیک پوائنٹ لاہور پر 30-40 لوگ جمع ہوئے (پہلے گورنر ہاؤس کے قریب جمع ہوئے) IK نیازی کی حمایت میں احتجاج کے لیے۔ پولیس نے افراد کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ طاقت زیادہ سے زیادہ 300 – 400 افراد تک بڑھ گئی۔ گیریژن سیکیورٹی فورس کوئیک ری ایکشن فورس (کیو آر ایف) کی مدد سے جو گیریژن سیکیورٹی اپریٹس کے تحت چوبیس گھنٹے کام کرتی ہے اس میں گاڑیاں شامل ہیں اور آرمر پرسنل کیریئر (کیو آر ایف کا حصہ) پہنچے اور ہجوم کو منتشر کرنے میں کامیاب رہے۔ ہجوم جناح ہاؤس کے سامنے احتجاج کرنا چاہتا تھا لیکن پولیس نے 30 منٹ کے اندر اندر وہاں سے کلیئر کرادیا۔

Pak Army condemns‘baseless and irresponsible allegations by Chairman PTI Imran Khan against the institution’ campaign

Posted on

Pak Army condemnsbaseless and irresponsible allegations by Chairman PTI against the institution’ campaign*

BY;ASGHAR ALI MUBARAK

Rawalpindi; Pakistan Army condemns ‘baseless and irresponsible allegations by Chairman PTI against the institution’ campaign*in a statement issue by ISPR said” Lot of baseless propaganda is being done on social media just to spread rumors and propaganda in this regard” .The baseless and irresponsible allegations by Chairman PTI against the institution and particularly a senior army officer are absolutely unacceptable and uncalled for”. Pakistan Army prides itself for being an extremely professional and well-disciplined organization with a robust and highly effective internal accountability system applicable across the board for unlawful acts, if any, committed by uniformed personnel. However, if the honor, safety and prestige of its rank and ”file is being tarnished by vested interests through frivolous allegations, ”the institution will jealousy safeguard its officers ”and” soldiers no matter what’ ‘said ISPR statement.  The baseless allegations hurled at the institution/officials today are highly regrettable and strongly condemned” said statement. Further the statement said that ” No one will be allowed to defame the institution or its soldiers with impunity’’.” Keeping this in view, the  government of Pakistan has been requested to investigate the matter ”and ”initiate legal action against those responsible for defamation and false accusations against the institution and its officials without any evidence whatsoever ” said ISPR. More over ” the Facts about Protest at Fortress Check Point Lahore are as under;- 

Initially 30-40 people gathered at Fortress Check point Lahore (gathered near governor house before) for protest in support of IK Niazi. Police tried to disperse the individuals. The strength increased to 300 – 400 individuals at the maximum. Garrison Security Force with help of Quick Reaction Force (QRF) which is employed under Garrison security apparatus round the clock includes vehicles and Armor Personnel Carrier (part of QRF) arrived and managed to disperse the crowd. Mob wanted to protest in front of Jinnah House but Police cleared the are within 30 minutes.               

.وزیر اعظم شہباز شریف 7 نومبر کو موسمیاتی کانفرنس کاپ 27میں شرکت کریں گے…….(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…

Posted on Updated on

.وزیر اعظم شہباز شریف 7 نومبر کو موسمیاتی کانفرنس کوپ 27میں شرکت کریں گے…….(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…………….. اقوام متحدہ کی سالانہ عالمی موسمیاتی کانفرنس 6 سے 18 نومبر تک شرم الشیخ، مصر میں منعقد ہو رہی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف 7 نومبر کو موسمیاتی کانفرنس کوپ 27میں شرکت کریں گے. پاکستان نے اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں، کوپ 27 کے نام سے پکاری جانے والی اس کانفرنس میں آلودگی پھیلانے والے ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کو نقصانات کی ادائیگی کا پابند کیا جائے گا۔موسمیاتی تبدیلی پر کوپ 27 اقوام متحدہ کی 27 ویں کانفرنس ہوگی، جو 6 سے 18 نومبر 2022 کو شرم الشیخ مصر میں منعقد ہوگی، وزیر اعظم شہباز شریف کانفرنس میں شرکت کرینگے،۔

موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار حل کی ضرورت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کانفرنس میں عالمی رہنما، تھنک ٹینکس، حکومتی سربراہان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے شرکت کریں گے۔

پاکستان کو اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے یہ اعزاز وزیر اعظم شہباز کی طرف سے عالمی اور علاقائی فورمز پر ماحولیاتی بحران اور عملی اقدامات کی ضرورت کے بارے میں بھرپور آواز اٹھانے پر ملا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ کاپ27 (COP27) میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے ایسے طریقوں پر فوری ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے جو اس مسئلے کے حجم سے مطابقت رکھتے ہوں، تو کیا عالمی رہنما ایسا کر پائیں گے؟کاپ دنیا میں موسمیاتی امور سے متعلق سب سے بڑی اور اہم ترین سالانہ کانفرنسیں ہیں۔

1992 میں اقوام متحدہ نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ‘ارضی کانفرنس’ کا انعقاد کیا تھا جس میں موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کی منظوری دی گئی اور اس حوالے سے رابطہ دفتر قائم کیا گیا جسے اب ہم ‘یو این کلائمیٹ چینج سیکرٹریٹ’ کے نام سے جانتے ہیں۔

اس معاہدے میں ممالک نے اتفاق کیا کہ وہ ”موسمیاتی نظام میں انسانی سرگرمی کے ذریعے ہونے والی خطرناک مداخلت کو روکنے کے لیے فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے ارتکاز کو معتدل رکھیں گے۔” اب تک 197 فریقین اس پر دستخط کر چکے ہیں۔

1994 میں یہ معاہدہ طے پانے کے بعد اقوام متحدہ ہر سال موسمیاتی امور پر عالمی کانفرنسیں منعقد کرتا ہے جن میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک شریک ہوتے ہیں۔ ان کانفرنسوں کو ”کاپ” کہا جاتا ہے جو کہ ‘کانفرنس آف پارٹیز’ کا مخفف ہے۔

اب تک ہونے والے ان اجلاسوں میں دنیا بھر کے ممالک نے بنیادی معاہدے میں بہت سے اضافوں پر بات چیت کی ہے تاکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو قانونی طور پر روکا جا سکے۔ 1997 میں طے پانے والا کیوٹو پروٹوکول اور 2015 کا پیرس معاہدہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں جن میں دنیا کے تمام ممالک نے عالمی حدت کو قبل از صنعتی دور کے زمینی درجہ حرارت کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کی کوشش کرنے اور ایسا ممکن بنانے نیز موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مالی وسائل مہیا کرنے کی کوششوں میں اضافے پر اتفاق کیا تھا۔

اِس سال ایسی 27ویں سالانہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اسی لیے اسے کاپ 27 کا نام دیا گیا ہے۔ پیرس معاہدے سے پانچ سال کے بعد گزشتہ برس ہونے والی کاپ 26 (کووڈ وباء کے باعث ایک سال کو نہیں شمار نہیں کیا گیا) کا اختتام ‘گلاسگو کلائمیٹ پیکٹ’ پر ہوا۔ جیسا کہ اس وقت برطانوی صدارت میں کہا گیا ‘یہ پیکٹ یا معاہدہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے ہدف کو برقرار رکھتا ہے لیکن اس ہدف کے حصول کی جانب سفر سست رہے گا’۔

پیرس معاہدے کو پوری طرح فعال کرنے کے لیے اس میں اضافے کیے گئے جس کے لیے اس کے عملی نفاذ سے متعلق تفصیلات کو حتمی شکل دی گئی جنہیں ‘پیرس رول بُک’ بھی کہا جاتا ہے۔

کاپ 26 میں ممالک نے 2022 کے لیے مضبوط وعدے کرنے پر اتفاق کیا جن میں مزید پُرعزم اہداف کے حامل نئے قومی منصوبے بھی شامل ہیں۔ تاہم 193 میں سے صرف 23 ممالک نے ہی اب تک اقوام متحدہ کو اپنے منصوبے جمع کروائے ہیں۔

گلاسگو میں دیگر اقدامات کے علاوہ نیٹ زیرو ہدف کے حصول، جنگلات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مالی وسائل کی فراہمی کی غرض سے مذاکرات کے دوران اور ان سے ہٹ کر بھی بہت سے وعدے کیے گئے۔

کانفرنس کی صدارت کی جانب سے مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق جاری کردہ بیان کے مطابق کاپ 27 کا مقصد مذاکرات اور ”عملدرآمدی منصوبہ بندی” سے ان تمام وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی جانب منتقلی ہو گا۔

مصر نے اس حوالے سے مکمل، بروقت، جامع اور خاطرخواہ عملی اقدامات کے لیے کہا ہے۔

ماہرین کے مطابق آئندہ کانفرنس میں پیرس رول بُک پر عملدرآمد کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کے علاوہ چند ایسے نکات پر بات چیت بھی ہوگی جو گلاسگو کانفرنس کے بعد بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکے تھے۔

ان امور میں ‘نقصان اور ازالے’کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بھی شامل ہے جس کا مقصد بحران سے براہ راست متاثر ہونے والے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے ایسے اثرات سے نمٹنے میں مدد دینا ہے جنہیں جھیلنے کی وہ صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ ان نکات میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کم آمدنی والے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے ہر سال 100 بلین ڈالر دینے کے وعدے کی تکمیل بھی شامل ہے۔

ان مذاکرات میں تکنیکی امور پر بات چیت بھی شامل ہو گی جیسا کہ ایسے طریقے کا تعین کرنا جس کے ذریعے ممالک عملی طور پر جانچ سکیں کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کا حصہ کتنا ہے۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات کو تمام ممالک کے لیے منصفانہ بنایا جا سکے گا۔

یہ تمام بات چیت 2023 میں ہونے والی کاپ 28 میں پہلے عالمی جائزے کی راہ ہموار کرے گی جس میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج محدود رکھنے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی اہلیت پیدا کرنے اور پیرس معاہدے پر عملدرامد کے ذرائع کے حوالے سے مجموی عالمی پیش رفت کو دیکھا جائے گا۔ موسمیاتی تبدیلی میں تخفیف ایسی کوششوں کا نام ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے یا اسے روکنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ موسمیاتی حوالے سے تخفیف کا مطلب نئی ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے کام لینا، پرانے آلات کو بہتر بنا کر توانائی کی بچت کرنا یا انتظامی طریقہ ہائے کار اور صارفین کے طرزعمل میں تبدیلی لانا بھی ہو سکتا ہے۔

ممالک سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ گلاسگو معاہدے میں کیے جانے والے مطالبے پر عملدرآمد، اپنے موسمیاتی منصوبوں کے جائزے اور تخفیف سے متعلق عملی پروگرام کی تخلیق کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی کو سامنے لائیں۔

اس کا مطلب 2030 تک گرین ہاؤس ہاؤس گیسوں کے اخراج سے متعلق مزید پُرعزم اہداف پیش کرنا ہے کیونکہ اقوام متحدہ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ادارے نے کہا ہے کہ موجودہ منصوبے تباہ کن حدت سے بچنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سر پر ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکنے اور عالمی حدت میں اضافے کی رفتار کم کرنے کے لیے کیے جانے والے ہر اقدام کے علاوہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت بھی پیدا کرنا ہو گی تاکہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے سکیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جگہوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب مزید آگ، سیلاب، قحط، شدید گرمی یا سردی اور سطح سمندر میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

کاپ 26 میں مندوبین نے پیرس معاہدے میں مطابقت پذیری کے حوالے سے عالمی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک عملی پروگرام کی منظوری دی تھی۔

یہ منصوبہ معاشروں اور ممالک کو ایسا علم اور ذرائع مہیا کرنے کے لیے شروع کیا گیا جن کے ذریعے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کو موسمیاتی اعتبار سے مزید بہتر مستقبل کی جانب لے جا رہے ہیں۔

کاپ 27 کی صدارت ممالک سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابل خود کو مزید مضبوط بنانے اور غیرمحفوظ ترین معاشروں کی مدد کرنے کے لیے اپنی پیش رفت کو موثر طور سے جاری رکھیں گے اور اس کا تخمینہ لگائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممالک اپنے موسمیاتی منصوبوں میں مطابقت پذیری کے حوالے سے مزید تفصیلی اور پرعزم وعدے کریں گے۔

گزشتہ برس ترقی یافتہ ممالک نے کم آمدنی والے ممالک کو مطابقت پذیری کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل کو دوگنا بڑھانے پر اتفاق کیا تھا اور بہت سے فریقین اس میں مزید کئی درجے اضافہ کرنے کو کہہ رہے ہیں تاکہ پیرس معاہدے کے مطابق اسے تخفیف پر خرچ ہونے والے مالی وسائل کے برابر لایا جا سکے۔ یقیناً یہ شرم الشیخ میں بات چیت کا اہم موضوع ہو گا۔

‘یو این ایف سی سی سی’ واضح طور پر سمجھتا ہے کہ موسمیاتی حوالے سے موجودہ اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سرکاری و نجی تمام ذرائع سے مطابقت پذیری کی مد میں دیے جانے والے مالی وسائل کا حجم بڑھنا ضروری ہے۔ اس معاملے میں حکومتوں، مالیاتی اداروں اور نجی شعبے سمیت تمام فریقین کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کی COP27، 2022 موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں دنیا بھر سے 40,000 سے زیادہ مندوبین شرکت کریں گے۔ سالانہ عالمی موسمیاتی کانفرنس 6 سے 18 نومبر تک شرم الشیخ، مصر میں جاری رہے گی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کا انعقاد ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پوری دنیا کو غیرمعمولی موسمی حالات کا سامنا ہے، پاکستان آئندہ موسمیاتی تبدیلی کی عالمی کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر زور دے گا۔عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے اخراج میں پاکستان ایک فیصد سے بھی کم کا ذمہ دار ہے۔سیلاب زدگان کی آبادکاری میں وسائل کی کمی اور مواصلاتی نظام بری طرح متاثر ہونے کے باعث امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا ہے۔حکومت متاثرہ علاقوں میں خیمے اور طبی امداد ترجیح بنیادوں پر فراہم کر رہی ہے پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد 20لاکھ سے زائد بچے اب بھی اپنے اسکولوں کی بحالی کے منتظر ہیں ۔ ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے تقریباً 27 ہزار اسکولوں کو جزوی یا مکمل نقصان پہنچایا ہے۔ ’’پاکستان کے لاکھوں بچے راتوں رات انتہائی تکلیف دہ حالات میں اپنے خاندان کے افراد، گھروں، ذاتی تحفظ اور تعلیم کی سہولت سے محروم ہو گئے۔ اب انہیں ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ اسکول واپس آسکیں گے یا نہیں ، حالانکہ وبائی مرض کی وجہ انہیں اسکولوں کی جس بندش کا سامنا کرنا پڑا وہ دنیا کی طویل ترین بندشوں میں سے ایک تھی ،اور اب ان کے مستقبل کو مزید خطرات کا سامنا ہے ۔‘‘

پاکستان کے اکثر علاقوں کے تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے کے دو ماہ بعد اب سیلابی پانی میں ڈوبے اسکولوں کی چھتوں کے کچھ حصے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق سیلابی پانی کو مکمل طور پر اترنے میں اب بھی ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔

تعلیم و تربیت کے علاوہ اسکول بچوں کو صحت کی دیکھ بھال، نفسیاتی مدد، اور حفاظتی ٹیکوں تک رسائی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اسکولوں کی بندش کے دورانیے میں اضافہ سے ، بچوں کے تعلیم ترک کرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا، جس سے مزدوری اور کم عمری کی شادیوں پر مجبور ہونے کے علاوہ استحصال اور بدسلوکی کے امکانات میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔

سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع پہلے ہی پاکستان کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار علاقوں میں سے ہیں۔ موجودہ ہنگامی صورت حال سے قبل بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک تہائی لڑکے اور لڑکیاں اسکولوں سے باہر تھے اور 50 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار تھے۔ طویل عرصے تک اسکولوں کی بندش سے ان محرومیوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

وبائی مرض کے عروج کے دوران بھی ، پاکستان بھر میں اسکولوں کو مارچ 2020 اور مارچ 2022 کے درمیان مکمل یا جزوی طور پر 64 ہفتوں کے لئے بند کردیا گیا تھا ۔ اب چھ ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد، شدید سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی بدولت اسکولوں کے بچے ایک بار پھر تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ کنیکٹوٹی سمیت بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے شدید نقصان نے ریموٹ لرننگ کو بھی بڑی حد تک ناقابل رسائی بنا دیا ہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یونیسف نے ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں 500 سے زائد عارضی تعلیمی مراکز قائم کیے ہیں اور اساتذہ اور بچوں کو تعلیم کی فراہمی شروع کردی ہے۔ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کے فروغ کے لیے یونیسف اساتذہ کو نفسیاتی نگہداشت اور صحت کی نگرانی کی تربیت دے رہا ہے اور ان اسکولوں میں جن کی صفائی اور بحالی کا عمل مکمل ہوگیا ہے ، ان میں ’اسکول واپسی ‘ اور داخلوں کی سرگرمیاں شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے ۔پوری دنیا کو غیرمعمولی موسمی حالات کا سامنا ہے، یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں توانائی کا بحران جنم لے رہا ہے اور سائنسی اعدادوشمار سے واضح ہے کہ دنیا کاربن کے اخراج پر قابو پانے اور زمین کے مستقبل کو تحفظ دینے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہی۔ استوائی طوفانوں، ہریالی کے خاتمے اور سطح سمندر میں اضافے جیسے شدید موسمی واقعات کے نتیجے میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی سے ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔

چونکہ ان ”قدرتی آفات” میں شدت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کے نتیجے میں آتی ہے جس کے زیادہ تر ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہیں، اسی لیے اس تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کا استدلال ہے کہ انہیں اس نقصان کا معاوضہ ملنا چاہیے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے گزشتہ اعلیٰ سطحی ہفتے میں ڈنمارک یہ اعلان کرنے والا پہلا ملک تھا کہ وہ ایسے ترقی پذیر ممالک کو 13 ملین ڈالر دے گا جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ان ادائیگیوں کے معاملے کو ”نقصان اور ازالہ” کا نام دیا جاتا ہے اور ممکنہ طور پر یہ کاپ 27 میں بات چیت کا اہم ترین موضوع ہو گا حالانکہ اسے تاحال باقاعدہ طور پر ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

گروپ آف 77 (جس میں تمام ترقی پذیر ممالک شامل ہیں) اور چین نے اسے ایجنڈے میں شامل کرنے کی بات کی ہے جس کے لیے گفت و شنید کے پہلے روز تمام ممالک کا اتفاق رائے درکار ہو گا۔

اب تک ‘نقصان اور ازالے’ کا فنڈ قائم کرنے پر بات چیت ہوتی رہی ہے لیکن اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ انسانی حقوق اور موسمیاتی امور پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ایان فرے جیسے ماہرین کو امید ہے کہ اس معاملے میں پیش رفت کی رفتار تیز ہو جائے گی اور یہ مقصد حاصل کر لیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ”بعض بڑے ترقی یافتہ ممالک کو اس پر واقعتاً تشویش ہے اور وہ اس مسئلے کو آلودگی پھیلانے والے ممالک کی ذمہ داری کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے اور اس کی قیمت چکانے والے ممالک کو اس تبدیلی سے ہونے والا نقصان خود بھگتنا پڑ رہا ہے۔” موسمیاتی مالیات کاپ 27 میں بھی بات چیت کا اہم موضوع ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مالی وسائل مہیا کرنے کے حوالے سے بہت سی بات چیت پہلے ہی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک سے پُرزور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان کے لیے خاطرخواہ اور مناسب مالی مدد یقینی بنائیں۔ ان میں خاص طور پر ایسے ممالک شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے سامنے انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔

اس موقع پر غالباً ہم ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے سالانہ 100 بلین ڈالر مہیا کرنے کے وعدے کے بارے میں بہت کچھ سنیں گے جو تاحال پورا نہیں ہوا۔ 2009 میں کوپن ہیگن میں امیر ممالک نے کم آمدنی والے ممالک کو سالانہ بنیادوں پر یہ رقم دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ ماہرین کو توقع ہے کہ کاپ 27 میں بالاآخر 2023 میں اس وعدے کو حقیقت کا روپ مل جائے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے بڑے ممالک سامنے آئیں اور کہیں کہ ”ہمیں کچھ کرنا ہے، ہمیں غیرمحفوظ ممالک کو تحفظ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔”یوکرین پر روس کے حملے سے دنیا بھر میں مہنگائی بڑھی ہے اور توانائی، خوراک اور تجارتی اشیا کی ترسیل کا بحران پیدا ہوا ہے۔ جرمنی جیسے ممالک مختصر مدت کے لیے اپنے موسمیاتی اہداف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں جبکہ گلاسگو میں اعلان کردہ اپنی نوعیت کا پہلا چین۔امریکہ کلائمیٹ ورکنگ گروپ اب معطل ہو چکا ہے۔

کاپ 27 میں ممکنہ طور پر ایسے وعدوں اور عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ دکھائی دے گی جو بعض ممالک نے گزشتہ برس کیے تھے۔ پرتگال قابل تجدید توانائی پر 100 فیصد اںحصار کی جانب بڑھ رہا ہے اور ڈنمارک بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے دوسرے ممالک کو بھی قابل تجدید توانائی اپنانے اور توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہونے کی تحریک ملے گی۔”اس کانفرنس کا مرکزی اجلاس 6 تا 18 نومبر شرم الشیخ انٹرنیشنل کنونشن سنٹر میں منعقد ہو گا۔

اب تک حکومتوں، کاروباروں، این جی اوز اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے 30 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اس میں شرکت کے لیے اپنے نام لکھوائے ہیں۔

‘یو این ایف سی سی سی’ معاہدے کے 197 فریقین کو اکٹھے بات چیت کے لیے عموماً گروہوں یا ‘بلاکس’ میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں جی77 اور چین، افریقہ گروپ، کم ترین ترقی یافتہ ممالک، امبریلا فورم، چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک اور لاطینی امریکہ اور غرب الہند کا آزاد اتحاد جیسے بلاک شامل ہیں۔

اس موقع پر ہونے والی بات چیت میں مشاہدہ کار بھی شامل ہوتے ہیں جن کا اگرچہ گفت و شنید میں کوئی رسمی کردار نہیں ہوتا لیکن وہ اس میں مداخلت کر سکتے ہیں اور شفافیت برقرار رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ مشاہدہ کاروں میں اقوام متحدہ کے ادارے، بین الحکومتی ادارے، این جی اوز، مذہبی گروہ اور صحافی شامل ہیں۔

کانفرنس میں ہونے والی باقاعدہ بات چیت کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر پروگرام بھی ہوں گے جنہیں موضوعاتی اعتبار سے مختلف ایام میں منعقد کرایا جائے گا۔

اس سال کے موضوعات میں مالیات، سائنس، نوجوان اور آئندہ نسلیں، ازالہ کاربن، مطابقت پذیری اور زراعت، صنف، پانی، اے سی ای اور سول سوسائٹی، توانائی، حیاتی تنوع اور مسائل کا حل (اس سی او پی میں نیا موضوع) شامل ہیں۔

حسب معمول یہ کانفرنس دو حصوں میں منعقد ہو گی جنہیں بلیو زون اور گرین زون کا نام دیا گیا ہے اور اس سال یہ ایک دوسرے مقابل واقع ہیں۔

بلیو زون اقوام متحدہ کے زیرانتظام جگہ ہے جہاں ممالک کے مابین بات چیت اور مذاکرات ہوں گے اور اس میں داخلے کے خواہش مند ہر شخص کے پاس ‘یو این ایف سی سی سی’ کا جاری کردہ اجازت نامہ ہونا چاہیے۔

اِس سال بلیو زون میں 156 پویلین بنائے جائیں گے جو کہ گلاسگو سے دو گنا زیادہ تعداد ہے۔ یہ پویلین اقوام متحدہ کے بہت سے اداروں، دنیا بھر کے ممالک اور خطوں کی نمائندگی کریں گے جبکہ پہلی مرتبہ نوجوانوں اور زرعی خوراک کے پویلین بھی بنائے گئے ہیں۔

گرین زون کا انتظام مصر کی حکومت کے ہاتھ میں ہو گا اور اس میں وہ تمام عام لوگ آ سکیں گے جنہوں ںے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنا نام لکھوا رکھا ہے۔ اس حصے میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات پر بات چیت، آگاہی، تعلیم اور وعدوں کے بارے میں اجلاس، نمائشوں، ورکشاپوں اور بات چیت کا انعقاد ہو گا۔

کانفرنس کی صدارت کے مطابق گرین زون ایک ایسا پلیٹ فارم ہو گا جہاں دنیا بھر سے کاروباری طبقہ، نوجوان، سول سوسائٹی اور مقامی لوگ، ماہرین علم، فنکار اور فیشن کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی آرا کا اظہار کر سکیں گے اور ان کی بات سنی جائے گی۔

اِس سال گرین زون میں ایک خصوصی “احتجاجی زون” اور بہت بڑا بیرون خانہ لاؤنج اور ٹیرس بھی ہو گا۔

کاپ 27 کی مصری صدارت اس وعدے اور گزشتہ تمام کاپ میں کیے گئے عزائم اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتی ہے

پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد 20لاکھ سے زائد بچے اب بھی اپنے اسکولوں کی بحالی کے منتظر ہیں ۔ ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے تقریباً 27 ہزار اسکولوں کو جزوی یا مکمل نقصان پہنچایا ہے۔ یونیسف کے گلوبل ڈائریکٹر آف ایجوکیشن رابرٹ جینکنز نےبتایا ، ’’پاکستان کے لاکھوں بچے راتوں رات انتہائی تکلیف دہ حالات میں اپنے خاندان کے افراد، گھروں، ذاتی تحفظ اور تعلیم کی سہولت سے محروم ہو گئے۔ اب انہیں ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ اسکول واپس آسکیں گے یا نہیں ، حالانکہ وبائی مرض کی وجہ انہیں اسکولوں کی جس بندش کا سامنا کرنا پڑا وہ دنیا کی طویل ترین بندشوں میں سے ایک تھی ،اور اب ان کے مستقبل کو مزید خطرات کا سامنا ہے ۔‘‘

پاکستان کے اکثر علاقوں کے تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے کے دو ماہ بعد اب سیلابی پانی میں ڈوبے اسکولوں کی چھتوں کے کچھ حصے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق سیلابی پانی کو مکمل طور پر اترنے میں اب بھی ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔

تعلیم و تربیت کے علاوہ اسکول بچوں کو صحت کی دیکھ بھال، نفسیاتی مدد، اور حفاظتی ٹیکوں تک رسائی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اسکولوں کی بندش کے دورانیے میں اضافہ سے ، بچوں کے تعلیم ترک کرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا، جس سے مزدوری اور کم عمری کی شادیوں پر مجبور ہونے کے علاوہ استحصال اور بدسلوکی کے امکانات میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔

سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع پہلے ہی پاکستان کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار علاقوں میں سے ہیں۔ موجودہ ہنگامی صورت حال سے قبل بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک تہائی لڑکے اور لڑکیاں اسکولوں سے باہر تھے اور 50 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار تھے۔ طویل عرصے تک اسکولوں کی بندش سے ان محرومیوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

وبائی مرض کے عروج کے دوران بھی ، پاکستان بھر میں اسکولوں کو مارچ 2020 اور مارچ 2022 کے درمیان مکمل یا جزوی طور پر 64 ہفتوں کے لئے بند کردیا گیا تھا ۔ اب چھ ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد، شدید سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی بدولت اسکولوں کے بچے ایک بار پھر تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ کنیکٹوٹی سمیت بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے شدید نقصان نے ریموٹ لرننگ کو بھی بڑی حد تک ناقابل رسائی بنا دیا ہے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یونیسف نے ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں 500 سے زائد عارضی تعلیمی مراکز قائم کیے ہیں اور اساتذہ اور بچوں کو تعلیم کی فراہمی شروع کردی ہے۔ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کے فروغ کے لیے یونیسف اساتذہ کو نفسیاتی نگہداشت اور صحت کی نگرانی کی تربیت دے رہا ہے اور ان اسکولوں میں جن کی صفائی اور بحالی کا عمل مکمل ہوگیا ہے ، ان میں ’اسکول واپسی ‘ اور داخلوں کی سرگرمیاں شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے ۔

رابرٹ جینکنز کا مزید کہنا ہے کہ ’’ جن بچوں نے پہلے کبھی داخلہ نہیں لیا ، یونیسف کے قائم کیے ہوئے اسکول ان کے لیے تعلیم کا پہلا تجربہ ہیں۔ ہم ایسے تمام اقدامات اٹھائیں گے جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ جب بچے اپنے گھروں کو واپس آئیں تو وہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں۔‘‘