Month: November 2022

آرمی چیف جنرل باجوہ کی شاندار خدمات پرسپریم کمانڈر افواج پاکستان اور وزیراعظم کا خراج تحسین ………..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…………

Posted on

آرمی چیف جنرل باجوہ کی شاندار خدمات پرسپریم کمانڈر افواج پاکستان اور وزیراعظم کا خراج تحسین ………..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…………… سپریم کمانڈر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیرکو پاکستان کا نیا آرمی چیف مقرر کیا ہےآج ایک پروقار تقریب میں سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کمان حوالے کر دیں گے قبل ازیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم شہباز شریف سے علحیدہ علحیدہ الوداعی ملاقاتیں کیں ۔اس ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیر اعظم ہاؤس میں الوداعی ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی پاک آرمی، ملکی دفاع اور قومی مفادات کے لیے خدمات کو سراہا۔واضح رہے کہ آج جنرل باجوہ انپے عہدہ سے سبکدوش ہو جائیں گے جنرل سید عاصم منیر منگل 29نومبر 2022ء کو تقریب تبدیلی کمان پاک آرمی میں آنے سے پہلے فور سٹار جنرل کے شولڈر رینکس اور کالر میڈل لگا کر پاکستان آرمی کے 17ویں چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالیں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف کی کمان نئے آرمی چیف کے حوالے کریں گے وزیراعظم شہباز شریف نے دستور پاکستان مجریہ 1973ء کے تحت حاصل آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 24نومبر کو پاکستان آرمی کے جن دو لیفٹیننٹ جنرل صاحبان کی پروموشن کی ایڈوائس کی تھی اور جن کے نوٹیفکیشن اُسی روز وزارت دفاع نے جاری کئے تھے‘ اُن میں سے ایک فور سٹار جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اتوار کی ہفتہ واری تعطیل کے باوجود جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے18ویں چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
آرمی چیف کی پروقار تقریب آرمی ہاکی اسٹیڈیم جی ایچ کیو میں ہو گی۔ جنرل باجوہ پروقار تقریب میں آرمی کمان کی علامت ’’ملا کا سٹک‘‘ نئے آرمی چیف حافظ قرآن اور اعزازی شمشیر یافتہ جنرل سید عاصم منیر کو دیں گے جس کے بعد سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل باجوہ تقریب گاہ سے اپنی رہائش گاہ چلے جائینگے۔ سپہ سالار پاکستان سبکدوش ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہاکی اسٹیڈیم جی ایچ کیو کے باہر تک جا کر الوداع کہیں گے۔بعدازاں ائرچیف‘ نیول چیف‘ کور کمانڈر صاحبان اور پاکستان آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل صاحبان‘ میجر جنرل صاحبان اپنے نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دینگے۔تقریب میں مسلح افواج کے سینکڑوں سینئر عہدیدار اپنی اپنی فیملی کے ساتھ شرکت کرینگےخیال رہے جنرل قمر جاویدباجوہ نے چھ سال پاک فوج کے 16ویں سربراہ کے طور ذمہ داری نبھائی، اںھوں نے پاک فوج میں اہم عہدوں پر خدمات کی انجام دہی سمیت سفارتی اور اقتصادی محازوں پر بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے تربیت مکمل کرنے کے بعد اپنے فوجی کیریئر کا آغاز 1980ء میں 16 بلوچ ریجمنٹ سے کیا ، جس کی کمانڈ ان کے والد نے کی تھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ 1988 ، بطور میجر آزاد کشمیر میں این ایل آئی میں فرائض کی ادائیگی کے علاوہ بطور لیفٹیننٹ کرنل راولپنڈی کور میں اسٹاف آفیسر خدمات بھی انجام دیں۔ سال 2009 میں بطور میجر جنرل گلگت بلتستان میں کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز خدمات کے علاوہ 2011 ء میں بطور انسٹرکٹر اسکول آف انفینٹری اینڈ ٹیکٹکس، کوئٹہ بھی تعینات رہے۔ انہوں نے 2007ء میں کانگو میں اقوام متحدہ کے مشن میں بریگیڈ کمانڈر فرائص بھی سرانجام دیئے ، اگست 2013ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے بعد انہیں کور کمانڈر راولپنڈی تعینات کیا گیا،جبکہ 2014 میں، انہیں بلوچ رجمنٹ کا کرنل کمانڈنٹ مقرر کیا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ستمبر 2015ء میں جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن بھی تعینات رہے ، 29 نومبر 2016 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقررکیا۔بعد ازاں 19 اگست 2019 ء کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی منظوری دی، جس کیلئے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جنوری 2020 ء کو پارلیمنٹ سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون باقاعدہ منظورکیا گیا۔ بطور سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ نے ضرب غصب کی کامیابیوں کو تقویت دینے کیلئے آپریشن ردالفساد شروع کیا ، جس سے دہشت گرد گروپوں کے سلیپر سیل اور سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن ہوا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کو درپیش قومی سلامتی کے چیلنجز سے نکالنے کیلئے سفارتی محاذ پر خاموش مگر کامیاب کاوشیں کیں، جس کے نتیجے میں خطے اور عالمی سطح پر دشمن کا پاکستان کی تنہا کرنے کا منفی پراپیگنڈہ شکست سے دوچار ہوا۔ اس موثر سفارتکاری پر انہیں سعودی عرب کے اعلی ترین اعزاز کنگ عبدالعزیز میڈل سمیت روس ، یو اے ای ، ترکی ،بحرین اور اردن کی جانب سے اعلی ترین اعزازات سے نوازگیا۔ اس کے علاوہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سی پیک کو آگے بڑھانے کے علاوہ فیٹف اور آئی ایم ایف کے محاذ پر بھی بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج میں میں شمولیت سے قبل راولپنڈی میں سرسید کالج اور گورڈن کالج میں بھی زیر تعلیم رہے، جنر ل قمر جاوید باجوہ کینیڈین آرمی کمانڈ اینڈ سٹاف کالج اور امریکہ کے نیول پوسٹ گریجوایٹ اسکول سمیت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلوانے، کورونا وبا اور سیلاب سمیت مختلف بحرانوں میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آرمی نے مثالی خدمات انجام دیں۔
دہشت گردی کے عفریت کو کچلنے کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آرمی نے بڑی شجاعت و بہادری سے کردار ادا کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے تاریخ کے ایک مشکل مرحلے پر پاک آرمی کی قیادت کی، انہوں نے دفاع پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پیچیدہ علاقائی صورتحال میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے قائدانہ کردار سے سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں سمت کا تعین ہوا۔

وزیراعظم نے جیواکنامکس کی اہمیت کے حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو معاشی قوت بنانے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو میثاق معیشت پر دستخط کرکے اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نے آرمی چیف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو دنیا کی بہترین آرمی کی قیادت کا باعث فخر اعزاز حاصل ہوا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک کے لیے خدمات قابل تعریف ہیں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی امور کی انجام دہی میں بھرپور تعاون پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا۔ دوسری جانب، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایوانِ صدر میں سپریم کمانڈر افواج پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے الوداعی ملاقات کی۔
ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے جنرل قمر جاوید باجو ہ کی دفاعی شعبے میں خدمات کو سراہا

بیان میں بتایا گیا کہ صدر مملکت عارف علوی نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک اور پاک فوج کے لیے خدمات کی تعریف بھی کی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ عارف علوی نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ فوج مخالف پروپیگنڈے اور جھوٹی کہانیاں گھڑ کر مسلح افواج کے خلاف کی جانے والی تنقید اور بےجا توہین کے باوجود ادارہ غیرسیاسی رہنے کے عزم پر ثابت قدم رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری فوج کا عوام نے بے پناہ احترام اور بھروسہ کیا ہے اور ملکی سیکیورٹی میں فوج کے تعمیری اور مثبت کردار کی عوام نے ہمیشہ غیر متزلزل حمایت کی ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ فوج کے لیے عوام کی حمایت میں اس وقت کمی آنا شروع ہوئی جب سیاسی امور میں فوج کی مداخلت دیکھی گئی، لہٰذا مجھے یہ احتیاط لازمی لگی تاکہ پاک فوج کو پاکستان کی سیاست کی غیر متوقع تبدیلیوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک پروپیگنڈے کے ذریعے اور جھوٹی کہانیاں گھڑ کر پاک فوج پر تنقید اور بےجا توہین کے باوجود ادارہ غیرسیاسی رہنے کے عزم پر ثابت قدم رہے گا، مجھے یقین ہے کہ مسلح افواج کا یہ سیاسی قرنطینہ آنے والے وقتوں میں پاکستان کے لیے سیاسی استحکام کو فروغ دیتے ہوئے فوج سے عوام کے تعلقات کو مضبوط کرے گا۔

پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ افغانستان میں تنازع کی وجہ سے پاکستان کی مغربی سرحد شدید عدم استحکام سے دوچار ہے، امریکی انخلا کے بعد تشدد میں تھوڑی کمی واقع ہوئی تھی لیکن صورتحال اب بھی غیرمستحکم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ پاکستان کی ہر موسم کی دوستی نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران آنے والے اتار چڑھاؤ کو برداشت کیا ہے لیکن عالمی طاقت کے حصول کا مقابلہ تیز ہو جانے کے پیش نظر اب چین اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کے حوالے سے پاکستان کو نازک صورتحال درپیش ہے، پاکستان اس بڑھتے ہوئے مسابقتی اسٹریٹجک ماحول میں سمجھداری کے ساتھ معاملات انجام دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ ہم مستقبل میں کسی ممکنہ سرد جنگ میں نہ گھسیٹے جائیں۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قوم محض اپنی دفاعی قوتوں کی وجہ سے محفوظ نہیں رہ سکتی، پاکستان کی مسلح افواج ملک پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اپنے عوام بالخصوص 60 فیصد نوجوانوں کی مدد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، فوج کو اپنے عوام کی طاقت اور حمایت سے تقویت ملتی ہے اور یہی سپورٹ ہمیں ملکی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور داخلی سیکیورٹی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تحریک دیتی ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوانوں کے نام پیغام میں کہا کہ اپنا تمام وقت، توانائی، تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت بہتر بنانے پر صرف کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ خود کو تقسیم کرنے والے پروپیگنڈے اور کسی ایسے انفارمیشن وارفیئر سے محفوظ رکھیں جو باہمی بھروسے کو نقصان پہنچائے کیونکہ پاکستان سب سے پہلے ہے اور یہی ہماری اولین شناخت ہے۔واضح رہے کہ جی ایچ کیو میں یوم دفاع اور شہدا کی پُروقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ میں بطور آرمی چیف آپ سے آخری بار خطاب کر رہا ہوں، میں عنقریب ریٹائر ہو رہا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوج پر تنقید عوام اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے، ایک جعلی بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی، اور اب اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ سبکدوش ہونے والے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دراصل 2019 میں ریٹائر ہونا تھا تاہم ان کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل سابق وزیر اعظم عمران خان نے اگست 2019 میں ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی تھی۔

خیال رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد فوج کی قیادت کے حوالے سے چند ہفتوں سے جاری شدید قیاس آرائیوں کا خاتمہ اس وقت ہوگیا تھا جب آپریشنل تجربے اور انٹیلی جنس مہارت سے بھرپور کیریئر کے حامل جنرل عاصم منیر کو ملک کا آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ قابل رشک کیریئر کے حامل ایک اور انفنٹری افسر جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کیا گیا تھا۔ گزشتہ روز 27 نومبر کو جنرل ساحر شمشاد مرزا نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کا چارج سنبھال لیا تھا۔ جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں منعقدہ پروقار تقریب میں جنرل ساحر شمشاد مرزا، نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔جنرل سید عاصم منیر آج 29نومبر 2022 تقریب تبدیلی کمان پاک آرمی میں آنے سے پہلے فور اسٹار جنرل کے شولڈر رینکس اور کالر میڈل لگا کر پاکستان آرمی کے 17ویں چیف آف آرمی 17ویں چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ سنبھالیں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک پروقار عسکری تقریب میں آرمی کمان کی علامت ’’ملاکا اسٹک‘‘ نئے حافظ قرآن اور اعزازی شمشیر یافتہ جنرل سید عاصم منیر کو دیں گے ,
ملاکا اسٹک کو کمانڈ اسٹک بھی کہا جاتا ہے، آرمی کمان کی یہ چھڑی انگریزوں کے دور سے فوجی روایت کا حصہ چلی آ رہی ہے۔

اصل اہمیت آرمی کمان کی اسٹک کی نہیں بلکہ عہدے اور اس سے منسلک ذمہ داریوں کی ہے جو پرانا افسر نئے آنے والے افسر کو یہ چھڑی سونپ کر خود نئی چھڑی تھامے نئے عہدے پر ترقی کرجاتا ہے۔ملاکا اسٹک کو سنگاپور کے ایک جزیرے ملاکا کی ایک خاص کین سے تیار کیا جاتا ہے۔ ملاکا رتن کی ایک قسم ہے جو انڈونیشیا میں سماٹرا کے ساحل پر بھی پائی جاتی ہے۔

رتن کے درخت میں لمبے، پتلے تنے ہوتے ہیں جو واکنگ اسٹکس بنانے کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔

اگر اس چھڑی کی بناوٹ پر غور کریں تو اس میں2، 2 انچ کے فاصلے پر گانٹھ ہوتی ہےجو دیکھنے میں بانس کی لکڑی کی طرح ہی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے مقابلے پتلی ہوتی ہے۔

یہ وزن میں بہت ہلکا لیکن مضبوط ہوتا ہے اور اس میں کوئی دو نمونے ایک جیسے نہیں ہیں۔دنیا بھر کی افواج کے سربراہان اسے کمان اسٹک کے طور پر زیر بازو اور کبھی ہاتھ میں اپنی میعاد کے دوران رکھتے ہیں۔

یہ کوئی معمولی اسٹک نہیں ہوتی، اس کی قیمت 10 ہزار روپے سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔چھڑی کو فوج میں کمانڈ کی علامت سمجھا جاتا ہے، نئے آرمی چیف کو ملاکا چھڑی دینے کی روایت برطانوی دور سے چلی آ رہی ہے۔

ملاکا کی چھڑی سری لنکا، ہندوستان، برطانیہ سمیت کئی ممالک میں فوجی وردیوں کا حصہ ہے۔اس سے قبل سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے راولپنڈی میں ایک تقریب میں کمانڈ اسٹک اپنے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کی تھی۔جنرل شریف کو 2013 میں اس وقت کے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاکا چھڑی ملی تھی جب کہ یہ مشرف ہی تھے جنہوں نے 2007 میں چارج چھوڑنے کے بعد جنرل کیانی کو چھڑی سونپی تھی۔ملاکا کین اسٹک محض فوج میں کمانڈ کی علامت ہے، چھڑی ٹوٹ جانے کی صورت میں (جو ابھی تک کبھی نہیں ہوا)، فوجی سربراہ کے اختیارات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔

چھڑی علامتی طور پر آرمی چیف کی شخصیت اور طاقت میں اضافہ کرتی ہے لیکن اصل اہمیت آرمی چیف کے کندھوں پر ذمہ داریوں اور اختیارات کی ہے۔صدر مملکت عارف علوی نے جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر جنرل ساحر شمشاد مرزا کو نیا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور جنرل عاصم منیر کو نیا چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کرنے کی سمری پر دستخط کردئیے تھے۔حکومت نے جنرل ندیم رضا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا تھا۔

گزٹ آف پاکستان میں حکومت کی جانب شائع نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ پاکستان آرمی ایکت رولز 1954 کے رول 12 کے مطابق وزیر اعظم نے پی اے-19617 جنرل قمر جاوید باجوہ این آئی (ایم) کی 29 نومبر 2022 سے آرمی سروس سے ریٹائرمنٹ کی منظوری دے دی ہے۔
اسی طرح کا نوٹی فکیشن جنرل ندیم رضا کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے بھی شائع کیا گیا۔نئے فوجی سربراہان جنرل ساحر شمشاد مرزا اور جنرل عاصم منیر دونوں تقرر کے وقت سنیارٹی لسٹ میں سرفہرست تھے، جس کا مطلب ہے کہ اس مرتبہ آرمی چیف کے تقرر کی مشق میں کسی اور جنرل کی جگہ نہیں لی گئی، نئے کمانڈر کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے سپرسیڈ افسران روایتی طور پر ریٹائر ہوجاتے ہیں۔اس کے باوجود یہ افواہ زیر گردش ہیں کہ فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کے اہل تصور کیے جانے والے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل اظہر عباس نے استعفیٰ دے دیا ہے، وہ اگلے سال اپریل میں ریٹائر ہونے والے ہیں، یہ بھی قیاس کیا جارہا ہے کہ پی ایم اے 76 سے تعلق رکھنے والے دیگر دو جرنیل بھی ترقی نہ دیے جانے پر ریٹائرمنٹ پر غور کر رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں عہدہ چھوڑ سکتے ہیں۔

تاہم سی جی ایس کے استعفے کی باضابطہ تصدیق نہیں ہوسکی، ایک فوجی افسر نے کہا کہ 28 نومبر کو صورتحال واضح ہو جائے گی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ ان میں سے کسی بھی افسر کو برطرف نہیں کیا گیا تھا، اس لیے لوگ ان کے استعفوں کی تشریح مختلف انداز میں کریں گے۔جنرل عاصم منیرکو 24نومبر 2022 کو ملک کا 17 واں آرمی چیف مقرر کیا گیا ھے ۔آپ کے والد حافظ قرآن اور سکول کے پرنسپل تھے جبکہ بھائی بھی حافظ قرآن ہیں۔جنرل عاصم منیر کے والد راولپنڈی چھاؤنی کے طارق آباد اسکول کے پرنسپل تھے۔جنرل عاصم منیر بھی اپنے والد کے علمی، عاجزی اور انکساری کے نقش قدم پر عمل پیرا ہیں۔آرمی چیف 4 سال تک سعودی عرب میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں اور پاکستان کے پہلے اور واحد آرمی چیف ہیں جو ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے جنرل احسان الحق بھی ان دونوں ذمہ داریوں پر پورا اترے مگر وہ چیئرمین چیف آف اسٹاف رہے جبکہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی ڈی جی آئی ایس آئی تو رہے تھے مگر ڈی جی ایم آئی نہیں تھے۔عربی، انگریزی اور اردو بولنے والے حافظ عاصم منیر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ 45 سال کی عمر میں حفاظ کی فیملی میں ایک اور کا اضافہ کرکے رکوع، سجود کے ایسے پابند ہوئے کہ مثال دی جاسکتی ہے۔ کم گو جنرل بات تو پوری سنتا ہے مگر سوچ نہ صرف متوازن ہے بلکہ شدت پسندی کے بھی خلاف ہے۔بتایا جارہا ہے کہ خون کا بدلہ ہر صورت لینا ان کے ایمان کا حصہ ہے اور ردالفساد کی پلاننگ بھی موصوف نے کی تھی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بھی جانتا ہے اور کوئی ذاتی ایجنڈا بھی نہیں۔علم و تدریس سے تعلق رکھنے والے خاندان کے ایک فرد کے طور پر کتابوں کا مطالعہ بھی معمول ہے۔قرآن تو سینے میں ہے مگر زبان پر کلام الله کثرت کے ساتھ رہتا ہے۔ جنرل عاصم منیر آفیسرز ٹریننگ اسکول جہلم سے تعلق رکھتے ہیں اور بطور کیڈٹ آفیسر اعزاز شمشیر سے بھی نوازے گئے۔ بطورایک محب وطن پاکستانی بھارت کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے ہیں جس کا وہ مستحق ہے اور اس کے لیے ان کی گلگت میں جی او سی کے طور پر مثال دی جاتی ہے۔ فوج کی عزت پر سب کچھ قربان کرنے کا عزم رکھنے والے سپہ سالار جدید و قدیم، عام و خاص میں توازن برقرار رکھنےکا ہنر
رکھتے ہیں۔ان کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ ان کے معاشی معاملات شک وشبہ سے بالاتر ہیں اور اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ سرکاری وسائل ذات کی سطح پر خرچ کیے جائیں۔ انکی پہلی ترجیح پاکستان ہوگی کہ پاکستان کی صورتحال کو ٹھیک کیا جائے، جب پاکستان میں یہ کام ہوجائے گا تب ہی باہر کے معاملات پر بات ہوگی ، لیکن پہلی ترجیح پاکستان اور پاکستانیوں کے مفاد، عزت، خودداری، امن، قانون کی بالادستی اور عوام کی رائے کے احترام کو ہی دی جائے گی۔ انکا ذاتی ایجنڈا کوئی نہیں اور صرف ایجنڈا پاکستان ہی رہےگا انہیں نہ خود پسندی کا شوق ہے اور نہ خوشامند پسندی کو پسند کرتے ہیں اس پاک فوج میں سخت گیاور اصول پسند ہونے کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہیں الله انہیں مزید استخامت عطا کرے؛ آمین

Imran Khan’s decision to walk out of all assemblies.. Rawalpindi.; (Report;. Asghar Ali Mubarak..)…

Posted on

Imran Khan’s decision to walk out of all assemblies.. Rawalpindi.; (Report;. Asghar Ali Mubarak..)…… Former Prime Minister Imran Khan says that “We have decided to walk out of all assemblies.” They are starting to come out. In Rawalpindi
Addressing the participants of the Long March, Imran Khan said that instead of vandalizing our country, instead of causing destruction in our country, it is better that we get out of this corrupt system and not be a part of this system. These thieves are sitting and forgiving their billions of rupees cases every day.
Imran Khan said that “I have spoken to the Chief Minister, I am also consulting with the parliamentary party”, “The coming two will announce that the day we are leaving all the assemblies”. PTI Chairman Imr…
[9:45 pm, 26/11/2022] Asghar Ali Mubarak AAM: Imran Khan’s decision to walk out of all assemblies.. Rawalpindi.; (Report;. Asghar Ali Mubarak..)…… Former Prime Minister Imran Khan says that “We have decided to walk out of all assemblies.” They are starting to come out. In Rawalpindi
Addressing the participants of the Long March, Imran Khan said that instead of vandalizing our country, instead of causing destruction in our country, it is better that we get out of this corrupt system and not be a part of this system. These thieves are sitting and forgiving their billions of rupees cases every day.
Imran Khan said that “I have spoken to the Chief Minister, I am also consulting with the parliamentary party”, “The coming two will announce that the day we are leaving all the assemblies”. PTI Chairman Imran Khan has said that I have to say with regret that why our institutions do not learn from old mistakes?

Addressing the participants of the Long March, he said that a country, a person and an institution develop when it learns from its mistakes. Imran Khan has claimed that he did not shoot Muazzam Shaheed. The bullet came from someone else, who was shooting him, it was actually meant for the shooter.

Regarding the Wazirabad attack, the former prime minister said that there were three gunmen, one fired at us, one fired from the front which missed us, and one who tried to kill him (the shooter). Just like the one who killed Liaquat Ali Khan, he was killed there so that he would not speak, but Moazzam came on the way. Imran Khan said that we have decided that all the assemblies are starting to leave.

Addressing the participants of the Long March, he said that instead of vandalizing our country, it is better that we get out of this corrupt system and not be a part of this system, where these thieves sit and steal their billions every day. Waiving cases of Rs.

He said that I have spoken to the Chief Minister, I am also consulting with the parliamentary party.
Former Prime Minister Imran Khan has said that those whose responsibility is to protect our fundamental rights were asleep when a certain man whom I call Dirty Harry committed the atrocities.

He said that the journalists were threatened, we have never seen this in Pakistan, their fault was that they were showing Imran Khan’s position on the media.

He said that fear was spread that someone else would do something, other people should be afraid, the children of social media were caught. They are saying that they were part of the conspiracy.

Addressing the participants of the Long March in Rawalpindi, he said that it was not kept in the National Security Council and was it not written that Donald Lowe is telling Asad Majeed that if Imran Khan is not removed, then your country will face difficulties.

He said, “Didn’t the National Security Council say to de-marsh America, when it is true, to say that it was a drama is an insult to the country. Imran Khan has said that even if there was no conspiracy, then They (the current ruling coalition) did not stop their way, they were allowed to come, those who were running outside, who had corruption cases worth billions of rupees, all of them were given NRO in turn.

He said that corruption was not bad for those who had power, that’s why you saw that all the gang of thieves sat on top. Former Prime Minister Imran Khan has said that the National Accountability Bureau (NAB) is under me. No, she was under the establishment, NAB people used to tell me that all the cases are ready but orders are not coming, those who have control are not giving orders. He said that he was dealing with these thieves instead of putting them in jails. He said in every meeting that corruption will not end here until the powerful are brought under the law.

The former prime minister said that I used to get the answer time and again that Mr. Imran, you should focus on the economy, forget accountability, I was told many times to give NRO to them (then opposition), NAB Change the law. Imran Khan has said that I have failed in one place in three and a half years, I could not bring the powerful under the law. I tried hard but the National Accountability Bureau (NAB) was not under me. Imran Khan has said that we started building dams after fifty years, three big dams are being built in Pakistan.

He said that Pakistan Tehreek-e-Insaf is the first party that worked on climate change, and planned to plant 10 billion trees. Every year, 1700 billion is stolen from the big ministers, prime ministers and their presidents of every poor country. Rupees are taken to rich countries. He said that rich countries are getting richer while poor countries are getting poorer, the reason for this is not the lack of resources, the reason is that the rule of law has not been followed from the beginning. Imran Khan has said that the rule of the country for 30 years The 2 ruling families never allowed the country’s institutions to strengthen.

Chairman PTI said that whenever they came, instead of strengthening the institutions and bringing the rule of law, they weakened the institutions as soon as they came because there could not be corruption without weakening the institutions. Imran Khan has said that every poor country’s major ministers, prime ministers and their presidents steal money from the country and take 1700 billion rupees to rich countries every year. He said that the rich country is rich while the poor country is getting poorer. are, it is not because of lack of resources, it is because the rule of law was not followed from the beginning. The 2 dynasties that ruled the country for 30 years never allowed the country’s institutions to strengthen. Chairman PTI said that whenever he came, instead of strengthening the institutions and bringing the rule of law, he weakened the institutions as soon as he came because there could be no corruption without weakening the institutions. Former Prime Minister Imran Khan said. He said that the only difference between human society and animal society is that there is justice in human society while in animal society there is the rule of the powerful. He said that rich countries are rich while poor countries are getting poorer. The reason is not lack of resources, it is because the rule of law was not followed from the beginning. Imran Khan has said that the only difference between human society and animal society is that there is justice in human society, while in animal society there is the rule of the powerful. He said that the reason for Pakistan not becoming a great country is this. The rule of law has never come in the country, there has been the rule of force and the law of the jungle.

He said that a society that does not have justice can never develop. Imran Khan has said that only free people do great things, free countries fly high, slaves only do good slavery, slaves do not fly. Only free men fly.

Addressing the participants of the long march in Rawalpindi, he said that I was not worried about death, I have a problem with my leg, it made it difficult to climb and descend, so today I stand at a decisive time.

The former prime minister said that on one side is the path of blessings and your greatness, on the other side is the path of destruction, slavery and humiliation. Imran Khan has said that look at the glory of Allah that 12 people were hit by bullets on top of the container but not one of the 12 was loved by Allah.

Addressing the participants of the long march in Rawalpindi, he said that a guard was hit by 6 bullets but all of them survived, four bullets came out of Imran Ismail’s clothes but he survived.

He said that if you want to live life in the true sense, free yourself from the fear of death.
Imran Khan has said that while leaving Lahore, everyone told me two things that the condition of your leg is not good, it will take another three months to recover, more people said that your life is in danger. There is danger.

Addressing the participants of the long march in Rawalpindi for the first time after being injured as a result of the attack on the container in Wazirabad on November 3, he said that those who tried to kill him by making a whole conspiracy, I was told that then They will commit crimes, so you don’t have to leave the house.

He said that I especially want to tell that I saw death very close, when the bullets hit my leg, and as I was falling, the bullets were going over my head, if I didn’t fall, I would have been hit. I want to tell the youth to strengthen their faith.

The former prime minister said that Allah Almighty has clearly written in the Quran that you will not leave this earth until Allah’s will is done.

عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے باہر نکلنے کا فیصلہ..راولپنڈی.؛(رپورٹ؛.اصغرعلی مبارک..).

Posted on

عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے باہر نکلنے کا فیصلہ..راولپنڈی.؛(رپورٹ؛.اصغرعلی مبارک..)….پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اب ہم نے اس نظام کا حصہ نہ رہنے اور اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی تاریخ کا اعلان پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔..سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ” ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ساری اسمبلیوں سے نکلنے لگے ہیں”۔ راولپنڈی میں

لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم بجائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں، بجائے اپنے ملک میں تباہی کریں، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کرپٹ نظام سے باہر نکلیں اور اس سسٹم کا حصہ نہ بنیں، جدھر یہ چور بیٹھ کر ہر روز اپنے اربوں روپے کے کیسز معاف کروا رہے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ”میں نے وزیراعلیٰ سے بات کی ہے”، پارلیمنٹری پارٹی سے بھی مشاروت کررہا ہوں”، ”آنے والے دونوں میں اعلان کریں گے کہ جس دن ہم ساری اسمبلیوں سے باہر نکل رہے ہیں” ۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ادارے کیوں پرانی غلطیوں سے نہیں سیکھتے؟

لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک ملک اور انسان اور ادارہ اس وقت ترقی کرتا ہے، جب اپنی غلطیوں سے سیکھے۔عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ معظم شہید کو اس نے گولی نہیں ماری، اب تفتیش ہو رہی تھی، اس کو گولی کسی اور طرف سے آئی، جو اس کو گولی مار رہے تھے، وہ اصل میں شوٹر کے لیے تھی۔

سابق وزیر اعظم نے وزیر آباد حملے کے حوالے سے کہا کہ وہاں پر تین بندوق والے تھے، ایک نے ہمارے اوپر فائر کیے، ایک نے سامنے سے گولیاں چلائیں جو ہمارے اوپر سے نکل گئیں، اور ایک جس نے اس (شوٹر) کو قتل کرنا تھا، جس طرح لیاقت علی خان کو جس نے قتل کیا تھا اس کو وہیں مارا گیا تاکہ وہ بولے نا لیکن راستے میں معظم آ گیا۔عمران خان نے کہا کہ ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ساری اسمبلیوں سے نکلنے لگے ہیں۔

لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بجائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں،اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کرپٹ نظام سے باہر نکلیں اور اس سسٹم کا حصہ نہ بنیں، جدھر یہ چور بیٹھ کر ہر روز اپنے اربوں روپے کے کیسز معاف کروا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیراعلیٰ سے بات کی ہے، پارلیمنٹری پارٹی سے بھی مشاروت کررہا ہوں، آنے والے دونوں میں اعلان کریں گے کہ جس دن ہم ساری اسمبلیوں سے باہر نکل رہے ہیں

۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جن کی ذمہ داری ہمارے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ہے، وہ سوئے ہوئے تھے، جب ایک خاص آدمی جسے میں ڈرٹی ہیری کہتا ہوں، اس نے جو ظلم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا، ہم نے پاکستان میں ایسا کبھی نہیں دیکھا، ان کو قصور یہ تھا کہ وہ عمران خان کا مؤقف میڈیا پر دکھا رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ خوف پھیلایا گیا کہ اور کوئی نہ کچھ کرے، باقی لوگ ڈریں، سوشل میڈیا کے بچوں کو پکڑا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ بار بار سنتے ہیں کہ سائفر ایک ڈرامہ تھا، ایک جھوٹا بیانیہ بنایا گیا، یہ بات وہ لوگ کہہ رہے ہیں جو سازش کا حصہ تھے۔

راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا قومی سلامتی کونسل میں یہ رکھا نہیں گیا اور کیا اس میں یہ نہیں لکھا تھا کہ ڈونلڈ لو اسد مجید کو کہہ رہا ہے کہ عمران خان کو نہیں ہٹاؤ گے تو تمہارے ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا قومی سلامتی کونسل نے یہ نہیں کہا کہ امریکا کو ڈی مارش کرو، جب یہ سچ ہے، یہ کہنا کہ ڈرامہ تھا یہ ملک کی توہین ہے۔عمران خان نے کہا ہے کہ اگر سازش نہیں بھی کی تھی، تو ان (موجودہ حکمراں اتحاد) کا راستہ نہیں روکا، ان کو آنے دیا، وہ لوگ جو باہر بھاگے ہوئے تھے، جن کے اوپر اربوں روپے کے کرپشن کے کیسز تھے، باری باری ان سب کو این آر او دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن کے پاس طاقت تھی، انہیں کرپشن بری نہیں لگتی تھی، اس لیے آپ نے دیکھ ہی لیا کہ سارے چوروں کا ٹولہ اوپر بٹھا دیا۔سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) میرے نیچے نہیں تھی، وہ اسٹیبلشمنٹ کے نیچے تھی، نیب والے مجھے کہتے تھے کہ سارے کیسز تیار ہیں لیکن حکم نہیں آرہا، جن کے پاس کنٹرول تھا وہ حکم نہیں دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان چوروں کو جیلوں میں ڈالنے کے بجائے ان سے ڈیلیں کررہے تھے، ہر اجلاس میں یہ بات کی کہ جب تک طاقتور کو قانون کے نیچے نہیں لائیں گے، یہاں کرپشن ختم نہیں ہوگی۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھے بار بار جواب آتا تھا کہ عمران صاحب، آپ معیشت پر توجہ دیں، احتساب کو بھول جائیں، مجھے کئی بار یہ کہا گیا کہ ان (اس وقت کی اپوزیشن) کو این آر او دے دیں، نیب کے قانون بدل دیں۔عمران خان نے کہا ہے کہ میں ساڑھے تین سال میں ایک جگہ فیل ہوا ہوں، میں طاقت ور کو قانون کے نیچے نہیں لاسکا۔ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا تھا، جن پر کرپشن کے کیسز تھے، بڑی کوشش کی لیکن قومی احتساب بیورو (نیب) میرے نیچے نہیں تھی۔عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے پچاس سال کے بعد ڈیم بنانا شروع کیے، پاکستان میں تین بڑے ڈیمز بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف پہلی جماعت ہے جس نے موسمیاتی تبدیلی پر کام کیا، اور 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا۔ہر غریب ملک کے بڑے بڑے وزیر، وزیراعظم اور ان کے صدر ملک سے پیسہ چوری کرکے ہر سال 1700 ارب روپے امیر ملکوں میں لے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امیر ملک امیر جبکہ غریب ملک مزید غریب ہورہے ہیں، اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع سے ہی قانون کی حکمرانی نہیں کی۔عمران خان نے کہا ہے کہ 30 سال ملک پر حکمرانی کرنے والے 2 خاندانوں نے کبھی ملک کے اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ یہ جب بھی آتے تھے، بجائے اداروں کو مضبوط کرنے اور قانون کی حکمرانی لانے کے، آتے کے ساتھ ہی اداروں کو کمزور کیا کیونکہ ادارے کمزور کیے بغیر کرپشن نہیں ہوسکتی تھی۔عمران خان نے کہا ہے کہ ہر غریب ملک کے بڑے بڑے وزیر، وزیراعظم اور ان کے صدر ملک سے پیسہ چوری کرکے ہر سال 1700 ارب روپے امیر ملکوں میں لے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امیر ملک امیر جبکہ غریب ملک مزید غریب ہورہے ہیں، اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع سے ہی قانون کی حکمرانی نہیں کی۔ 30 سال ملک پر حکمرانی کرنے والے 2 خاندانوں نے کبھی ملک کے اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ یہ جب بھی آتے تھے، بجائے اداروں کو مضبوط کرنے اور قانون کی حکمرانی لانے کے، آتے کے ساتھ ہی اداروں کو کمزور کیا کیونکہ ادارے کمزور کیے بغیر کرپشن نہیں ہوسکتی تھی۔سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انسانی معاشرے اور جانوروں کے معاشرے میں فرق ہی ایک ہے کہ انسانوں کے معاشرے میں انصاف ہوتا ہے جبکہ جانوروں کے معاشرے میں طاقتور کی حکمرانی ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امیر ملک امیر جبکہ غریب ملک مزید غریب ہورہے ہیں، اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع سے ہی قانون کی حکمرانی نہیں کی۔ عمران خان نے کہا ہے کہ انسانی معاشرے اور جانوروں کے معاشرے میں فرق ہی ایک ہے کہ انسانوں کے معاشرے میں انصاف ہوتا ہے جبکہ جانوروں کے معاشرے میں طاقتور کی حکمرانی ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عظیم ملک نہ بننے کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کبھی بھی قانون کی حکمرانی نہیں آئی، یہاں طاقت کی حکمرانی اور جنگل کا قانون رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔عمران خان نے کہا ہے کہ صرف آزاد انسان بڑے کام کرتے ہیں، آزاد ملک اوپر پرواز کرتے ہیں، غلام صرف اچھی غلامی کرتے ہیں، غلام کی پرواز نہیں ہوتی، صرف آزاد انسانوں کی پرواز ہوتی ہے۔

راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے موت کی فکر نہیں تھی، میری ٹانگ کا مسئلہ ہے، اس نے چڑھنے اور اترنے میں مشکلیں ڈالیں، اس لیے آیا کہ آج فیصلہ کن وقت پر کھڑے ہیں۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک طرف نعمتوں اور آپ کی عظمت کا راستہ ہے، دوسری طرف تباہی، غلامی اور ذلت کا راستہ ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ اللہ کی شان دیکھیں کہ کنٹینر کے اوپر 12 لوگوں کو گولیاں لگیں لیکن 12 میں سے ایک بھی اللہ کو پیارا نہیں ہوا۔

راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک گارڈ کو 6 گولیاں لگیں لیکن سب ایسی گولیاں لگیں کہ وہ بچ گئے، عمران اسمٰعیل کے کپڑوں میں سے چار گولیاں نکلیں لیکن وہ بچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ اگر صحیح معنوں میں زندگی گزارنی ہے تو موت کے خوف سے اپنے آپ کو آزاد کریں۔

عمران خان نے کہا ہے کہ لاہور سے نکل رہا تھا تو مجھے دو چیزیں سب نے کہیں کہ آپ کی ٹانگ کی حالت ٹھیک نہیں ہے، اسے ٹھیک ہونے میں مزید تین مہینے لگیں گے، اس سے بھی زیادہ لوگوں نے کہا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔

3 نومبر وزیر آباد میں کنٹینر پر حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعد پہلی بار راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکا سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے پوری سازش کرکے قتل کرنے کی کوشش کی، مجھے کہا گیا کہ پھر سے وہ واردات کریں گے، اس لیے آپ کو گھر سے نہیں نکلنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ موت بڑے قریب سے دیکھی، جب میری ٹانگ پر گولیاں لگیں، اور جیسے ہی میں گر رہا تھا تو میرے سر کے اوپر سے گولیاں جا رہی تھیں اگر گرتا نہیں تو مجھے لگ جاتیں، اپنے نوجوانوں کو کہتا چاہتا ہوں کہ اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح لکھا ہے کہ جب تک اللہ کی مرضی نہیں ہوگی تم اس زمین سے نہیں جاؤ گے۔

Nine Baloch Liberation Army (BLA) Terrorists killed in an intelligence-based operation in in Kohlu, Balochistan۔ ASGHAR ALI MUBARAK

Posted on Updated on

Nine Baloch Liberation Army Terrorists killed in an intelligence-based operation in in Kohlu, Balochistan
ASGHAR ALI MUBARAK
RAWALPINDI: At least nine terrorists, associated with proscribed Baloch Liberation Army (BLA), were killed in an intelligence-based operation (IBO) in Balochistan’s Kohlu area by the security forces on Saturday, citing Inter-Services Public Relations (ISPR).

According to ISPR, the security forces conduced an intelligence-based operation (IBO) against Baloch Liberation Army (BLA) in Kohlu area of Balochistan.

The security forces undertook a “clearance operation” and managed to eliminate nine terrorists belonging to the proscribed organization after a heavy exchange of fire. Meanwhile, three terrorists were also arrested in injured condition, the ISPR added.

The military’s media wing further said that the security forces were chasing the BLA terrorists since the September 30 blast in Kohlu Bazar, which claimed live of two people.

The ISPR added the terrorists were involved in various criminal activities including kidnapping, ransom and extortion. “Terrorists were also involved in attacks on security forces,” it added.

The army’s media wing stated that the suspects were targeting engineers working on development projects in Balochistan. “They were preparing attacks in Kohlu, Kahan and Maywand,” it concluded.

Read More: One dead, 14 injured in blast in Balochistan’s Kohlu

Earlier on November 18, two terrorists were killed by the security forces during an Intelligence Based Operation (IBO) in the general area Balor of Balochistan’s Hoshab.

According to the ISPR, the IBO was initiated to clear a hideout of suspects, linked with firing incidents on security forces and civilians besides planting of improvised explosive devices (IEDs) on M-8 in Hoshab.

During the heavy exchange of fire, both the suspects were killed, while a cache of arms and ammunition including Improvised Explosive Devices (IEDs) were recovered, Inter-Services Public Relations (ISPR) said in a statement.

Pak-Army’s reiteration of non-interference in political affairs……………. By; Asghar Ali Mubarak

Posted on

Army’s reiteration of non-interference in political affairs
By; Asghar Ali Mubarak
Rawalpindi……..
Army Chief General Qamar Javed Bajwa says that by creating a fake narrative, excitement was created in the country. I want to say that the leadership of the army can do anything “but can never go against the interest of the country”, do you think that “there is an external conspiracy in the country and the armed forces sit idly by?” General Qamar Javed Bajwa said, “It is impossible, but it is a great sin.” Speaking at the solemn ceremony of Defense Day and Martyrs at GHQ, General Qamar Javed Bajwa said that “Criticism of the army is the right of the people and political parties.” But one should be careful in the choice and use of words, “a false narrative created a state of excitement in the country”, and now the way is being taken to escape from this false narrative.
General Bajwa said that “I am addressing you for the last time as Army Chief”, “I am retiring soon”.
He said that “former East Pakistan was not a soldier” it was a political failure, the number of fighting soldiers was not 92 thousand but only 34 thousand.
“Army’s interference in politics for 70 years is unconstitutional.”
He said, “I am proud to have been the commander-in-chief of this great army for 6 years. I pray that the army will raise the flags of success in the same way in the future.” said that
“The army will not interfere in any political issue in the future,” he said, “I assure you that they are strictly committed to it and will continue to do so.” A true democratic culture should be adopted in Pakistan while eliminating the atmosphere of tolerance.
In the 2018 elections, some parties used RTS as an excuse to give the winning party the title of “Selected”.
“After losing the vote of confidence in 2022, one party gave the title of imported to the other party,” he said.
“Everyone should keep in mind that there is a limit to patience”, “want to tolerate aggressive behavior against the army and move on”.
The Army Chief said that “I salute the greatness of the martyrs of Pakistan”, who are our pride, “I also appreciate the courage and patience of their families”. And “I assure you that the army will never leave them alone”. The Chief of Army Staff said that “during the 6-year period of Army Command, I went to condolence at the homes of thousands of martyrs”, “I always found their morale high”, which also boosted my morale. Reinforcement”, “I assure you all that “cannot reward your sacrifices”, “but will not let the sacrifices of your loved ones go in vain”.
General Qamar Javed Bawjoh said that “the main task of the Pakistan Army is to protect the geographical borders of the country, but the Pakistan Army is always busy serving the nation beyond its capabilities.” Fines, adding Pakistan to FATF’s whitelist, fencing the border, providing cheap gas from Qatar, or issuing loans from friendly countries, fighting Covid19. Be it the “eradication of locusts”, the relief operation among agriculture, the army has served the nation more than ever, and will continue to do so it will never be ignored.
He said that today I also want to discuss a topic that is avoided, “It is related to the performance of our army in erstwhile East Pakistan in 1971”. I want to do, “First of all, former East Pakistan was not a military but a political failure”, “The number of fighting soldiers was not 92 thousand but only 34 thousand”, the rest were in various government departments. The competition was with 250,000 Indian army and 200,000 trained Mukti Bahini. The sacrifices of Ghazis and martyrs have not been acknowledged by the nation till today, “Which is a great abuse”. I would like to pay tribute to all these Ghazis and martyrs.
The army chief said, “Finally, I would like to say something about the current political situation.” “Army does” but their people more or less criticize them, “On the contrary, the Pakistani army, which is busy day and night in the service of the nation”, is criticized from time to time. .
He said, “For me, the main reason for this is the military’s interference in politics in various forms for 70 years,” which is unconstitutional. After it was decided that “in future the army will not interfere in any political matter”, I assure you that “we are strictly committed to it” and will continue to be in the future, however the good of this constitutional process. Instead of taking the initiative, many circles criticized the army and used very inappropriate and rude language.
The army chief said that “criticism of the army is the right of the people and political parties”, but one should be careful in the choice and use of words. “Now this false narrative is being used to escape”.
He said, “I want to make it clear to you that the leadership of the army can do anything but can never go against the interest of the country.” “There is an external conspiracy and the armed forces will sit on their hands,” “It is impossible, but a great sin.”

“Those who think that they will create a rift between the army and the people,” said the army chief, “will always fail” to ask the army leadership to respond to this inappropriate invasion. There were many opportunities and resources but the army showed courage in the larger interest of the country “and refrained from making any negative statement but it should be noted that” this patience is also one of them. There is a limit”, “I want to forgive this inappropriate and aggressive behavior against me and the army and move forward” because Pakistan is better than all of us”, “Individuals and parties keep coming and going but Pakistan has InshAllah it will last forever.

He said that “the army has started its catharsis”, “I hope the political parties will review their behavior”, and “it is also a fact that every institution and civil society in Pakistan.” Mistakes have also been made”, we should learn from these mistakes” and ‘move on’.

The army chief said that “I can say with great confidence that Pakistan is suffering from serious economic problems today, and no single party can take Pakistan out of this economic crisis for which political “Stability is required”, “Now is the time for all stakeholders to put aside their personal egos, learn from past mistakes and move forward” and “bring Pakistan out of this crisis”.
He said, “Along with this, we have to understand the spirit of democracy and adopt a true democratic culture in Pakistan by eliminating the atmosphere of intolerance.”
“In the 2018 elections, some parties named the winning party as selected by using RTS as an excuse”, and “After losing the vote of confidence in 2022, one party to another party” imported. Entitled, “We must reject this attitude”.

He said that “defeat is a part of politics and every party has to develop the courage to accept its victory and defeat” so that instead of an imported or selected government in the next elections “an elected government will come”. “Democracy is the name of courage, tolerance and respect for the public opinion of the people”, “If Pakistan is to move forward, we have to give up intolerance and I don’t believe attitude”.
He said that “Pakistan is God’s blessing for us”, our existence is related to its security and survival, “martyrs have made immense sacrifices for its freedom and stability” and “we need them”. “I am proud of”, “I thank the families of the martyrs”, who came to this event and made this event colorful, “You are all the pride of the entire nation”, and this is the day of renewal of pledge. “Let us pledge together that we will keep alive the history of our martyrs and ghazis”, and “Together we will play our part in the improvement and development of Pakistan”.
He said that “the safety and integrity of the motherland is and will remain our first duty”, “to fulfill which we will not hesitate to make any sacrifice”, may Allah be our supporter and supporter. Long live Pak Army, long live Pakistan.

It should be noted that this event is held every year on September 6 at General Headquarters GHQ Rawalpindi to commemorate the sacrifices of the martyred heroes of the 1965 war, but this year to express solidarity with the flood victims across the country it was postponed.

Earlier, the event started with the recitation of the Holy Quran, followed by a video showing solidarity with the flood victims regarding the recent devastating floods and the resulting massive destruction. Rescue, relief and rehabilitation efforts of Pakistan Army were also shown.

A second footage was played, which also highlighted the role played by the Pakistan Army in important sectors like education and health across the country.

In the ceremony, famous singer Sahir Ali Baga sing a song ‘Dil Aur Krib Ajainge’.

A special documentary on the evolutionary journey of Pakistan Army ’75 Years of Valor and Humour’ was also shown.

The statement of the United Nations Secretary General appreciating the Pakistan Army for its efforts towards peace around the world was also included in the special video.

In the video, it was told that Pakistan was fined about 11 billion dollars in relation to the Rekodic project in Balochistan, but the Pakistani forces tried to resolve the dispute and the Kingdom of Khudadad did not have to pay the fine.

It was mentioned in the special documentary that in 2009, the then Army Chief General Ashfaq Parvez Kayani launched Operation Rah Najat and later Zarb Azab to get rid of the scourge of terrorism in Pakistan, followed by the current Army Chief General Qamar Javed. Bajwa launched Radal al-Fasaad in 2017.

It should be remembered that Army Chief General Qamar Javed Bajwa is retiring at the end of this month after 6 years of commanding the Pakistan Army. They were given an extension of three years after the legislation was passed on a court order regarding the term.

فوج کا سیاسی معاملا ت میں مداخلت نہ کرنے کے عزم کا اعادہ

Posted on

فوج کا سیاسی معاملا ت میں مداخلت نہ کرنے کے عزم کا اعادہ

………(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک).. …………….آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ ایک جعلی بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی،” واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ فوج کی قیادت کچھ بھی کرسکتی ہے ”لیکن کبھی بھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جاسکتی” ، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ”ملک میں ایک بیرونی سازش ہو اور مسلح افواج ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہیں گی”،” یہ ناممکن ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے”۔جی ایچ کیو میں یوم دفاع اور شہدا کی پُروقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ” فوج پر تنقید عوام اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے”،” ایک جعلی بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی” ، اور اب اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے”۔

جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ”میں بطور آرمی چیف آپ سے آخری بار خطاب کر رہا ہوں”، ”میں عنقریب ریٹائر ہو رہا ہوں”

۔ان کا کہنا تھا کہ” سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں” سیاسی ناکامی تھی” ، لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں” صرف 34 ہزار تھی” ۔

”فوج کی 70 سال سے مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت غیر آئینی ہے”

۔ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے فخر ہے کہ ”6 سال اس عظیم فوج کا سپہ سالار رہا”،” میں دعا کرتا ہوں کہ آنے والے وقت میں بھی فوج اسی طریقے سے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ”۔ان کا کہنا تھا کہ”

آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی”، ”یقین دلاتا ہوں” کہ اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے”۔ان کا کہنا تھا کہ ” ہمیں جمہوریت کی روح کو سمجھتے ہوئے عدم برداشت کی فضا کو ختم کرتے ہوئے پاکستان میں سچا جمہوری کلچر اپنانا ہے”۔”

2018 کے انتخابات میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا ”۔

”2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا”۔ان کا کہنا تھا کہ”

”سب کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ صبر کی بھی ایک حد ہے”،” فوج کے خلاف جارحانہ رویے کو درگزر کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں”۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ”میں شہدا پاکستان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں”، جو کہ ہمارا فخر ہیں”، ”ان کے ساتھ ان کے لواحقین کے حوصلے اور صبر و استقامت کو بھی داد دیتا ہوں” اور” یقین دلاتا ہوں کہ فوج کبھی ان کو تنہا نہیں چھوڑے گی”۔ پاک فوج کے سپہ سالار کا کہنا تھا کہ” آرمی کمان کے 6 سالہ مدت میں ہزاروں شہدا کے گھروں پر تعزیت کے لیے گیا”، ”میں نے ہمیشہ ان کے حوصلے کو بلند پایا”، جس نے میرے حوصلے کو بھی تقویت بخشی”،” میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ ”آپ کی قربانیوں کا صلہ نہیں دے سکتے”،” لیکن آپ کے پیاروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں ہونے دیں گے”۔

جنرل قمر جاوید باوجوہ کا کہنا تھا کہ” پاک فوج کا بنیادی کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے لیکن پاک فوج ہمیشہ استعداد سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے”، ”ریکوڈک کا معاملہ ہو، یا کارکے کا جرمانہ” ، ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں پاکستان کو ڈلوانا”، بارڈر پر باڑ لگانا”، قطر سے سستی گیس مہیا کرانا”، یا دوست ممالک سے قرض کا اجرا”، کووڈ کا مقابلہ ہو” یا” ٹڈی دل کا خاتمہ”، زراعت کے درمیان امدادی کارروائی ہو”، فوج نے بڑھ کر قوم کی خدمت کی ہے، اور ا نشا اللہ کرتی رہے گی۔اس کے باوجود فوج اپنے بنیادی کام اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے سے کبھی غافل نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں آج ایسے موضوع پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں جس پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، ”یہ بات 1971 میں ہماری فوج کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کارکردگی سے متعلق ہے”،” میں حقائق درست کرنا چاہتا ہوں، ”سب سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی”، ”لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی”، باقی لوگ مختلف حکومتی محکموں میں تھے”، ان کا مقابلہ ڈھائی لاکھ بھارتی فوج اور 2 لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا، ”ہماری فوج بہادری سے لڑی اور بے مثال قربانیاں پیش کیں”۔جس کا اعتراف خود بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانک شاہ نے بھی کیا، ”ان بہادر غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا آج تک قوم نے اعتراف نہیں کیا ”جو کہ بہت بڑی زیادتی ہے”، میں ان تمام غازیوں اور شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا”۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ”آخر میں کچھ باتیں آج کے سیاسی حالات کے متعلق کرنا چاہوں گا”، ”میں کافی سالوں سے اس بات پر غور کر رہا تھا ”کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی فوج کرتی ہے” لیکن ان کے عوام کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، ”اس کے برعکس پاکستانی فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے”، گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے”۔

ان کا کہنا تھا کہ ”میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے” جو کہ غیر آئینی ہے”، ”اس لیے پچھلے سال فروری میں فوج میں سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ” آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی”، میں یقین دلاتا ہوں کہ ”اس پر سختی سے کاربند ہیں ”اور آئندہ بھی رہیں گے”، تاہم اس آئینی عمل کا خیر مقدم کرنے کے بجائے کئی حلقوں نے فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر بہت غیر مناسب اور غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا

۔آرمی چیف نے کہا کہ” فوج پر تنقید عوام اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے” لیکن الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے”، ایک جعلی بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی”، اور” اب اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے”۔ان کا کہنا تھا کہ ”میں آپ کو واضح کر دینا چاہتا ہوں ”کہ فوج کی قیادت کچھ بھی کرسکتی ہے” لیکن کبھی بھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جاسکتی”، ”کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک بیرونی سازش ہو اور مسلح افواج ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہیں گی”،” یہ ناممکن ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے”۔

پاک فوج کے سپہ سالار نے کہا کہ ”جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے”،” وہ بھی ہمیشہ ناکام ہوں گے”، فوج کی قیادت کے پاس اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کے لیے بہت سے مواقع اور وسائل موجود تھے لیکن فوج نے ملک کے وسیع تر مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا ”اور کوئی بھی منفی بیان دینے سے اجتناب کیا لیکن یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ” اس صبر کی بھی ایک حد ہے”، ”میں اپنے اور فوج کے خلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں” کیونکہ پاکستان ہم سب سے افضل ہے”، ”افراد اور پارٹیاں تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان نے انشا اللہ ہمیشہ قائم رہنا ہے”۔

ان کا کہنا تھا کہ” فوج نے تو اپنا کتھارسس شروع کر دیا ہے”،” مجھے امید ہے سیاسی جماعتیں اپنے رویے پر نظرثانی کریں گی”، اور” یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر ادارے اور سول سوسائٹی سے بھی غلطیاں ہوئیں”، ہمیں ان غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے ”اور” آگے بڑھنا چاہیے”۔

آرمی چیف نے کہا کہ” میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ” پاکستان آج سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے”، ”اور کوئی بھی ایک پارٹی پاکستان کو اس معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی” جس کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے”، ”اب وقت آگیا ہے کہ” تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذاتی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور آگے بڑھیں” اور” پاکستان کو اس بحران سے نکالیں”

۔ان کا کہنا تھا کہ ”اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جمہوریت کی روح کو سمجھتے ہوئے عدم برداشت کی فضا کو ختم کرتے ہوئے پاکستان میں سچا جمہوری کلچر اپنانا ہے”،

”2018 کے انتخابات میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا”، اور” 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو” امپورٹڈ کا لقب دیا”،” ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہوگا”۔

انہوں نے کہا کہ” ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر جماعت کو اپنی فتح اور شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا” تاکہ اگلے انتخابات میں ایک امپورٹڈ یا سیلکٹڈ حکومت کے بجائے ”منتخب حکومت آئے”، ”جمہوریت حوصلہ، برداشت اور عوام کے رائے عامہ کے احترام کا نام ہے”،” اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں عدم برداشت اور میں نہ مانوں کہ رویے کو ترک کرنا ہوگا”

۔ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے لیے پاکستان نعمت خداوندی ہے”، ہمارا وجود اس کی سلامتی اور بقا سے وابستہ ہے، ”اس کی آزادی اوراستحکام کے لیے شہدا نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں ”اور” ہمیں ان پر فخر ہے”، ”میں شہدا کے لواحقین کا شکریہ ادا کرتا ہوں”، جنہوں نے اس تقریب میں آکر اس تقریب کو رونق بخشی،” آپ سب پوری قوم کا سرمایہ افتخار ہیں”، یہ تجدید عہد کا دن ہے، ”آئیے مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے شہدا اور غازیوں کی تابندہ تاریخ کو زندہ رکھیں گے”، اور” مل کر پاکستان کی بہتری اور ترقی میں اپنا کردا ادا کریں گے”

۔ان کا کہنا تھا کہ ”مادر وطن کی حفاظت اور سالمیت ہمارا اولین فرض ہے اور رہے گا”، ”جس کو نبھانے کے لیے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے”، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔

خیال رہے کہ یہ تقریب ہر سال 6 ستمبر کو جنرل ہیڈ کوارٹرز جی ایچ کیو راولپنڈی میں 1965 کی جنگ کے شہید ہونے والے ہیروز کی قربانیوں کی یاد میں منعقد کی جاتی ہے، تاہم اس سال ملک بھر کے سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسے موخر کردیا گیا تھا۔

قبل ازیں تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا، اس کے بعد حالیہ تباہ کن سیلاب اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی کے حوالے سے ایک ویڈیو بھی چلائی گئی، جس میں سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا، اس ویڈیو میں پاک فوج کے ریسکیو، ریلیف اور بحالی کی کوششوں کو بھی دکھایا گیا۔

ایک دوسری فوٹیج چلائی گئی، جس میں پاک فوج کی جانب سے ملک بھر میں جاری تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

تقریب میں معروف گلوکار ساحر علی بگا نے ملی نغمہ ’دل اور قریب آجائیں گے‘ سنایا۔

پاک فوج کے ارتقائی سفر پر خصوصی ڈاکومینٹری ’عظم و ہمت کے 75 سال‘ بھی دکھائی گئی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے دنیا بھر میں امن کے حوالے سے کوششوں پر پاک فوج کو سراہنے کے بیان کو بھی خصوصی ویڈیو میں شامل کی گئی۔

ویڈیو میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے پاکستان پر تقریبا 11 ارب ڈالر کا جرمانہ کیا گیا تاہم افواج پاکستان نے کوششیں کرکے تنازع کو حل کروایا اور مملکت خداداد کو جرمانہ ادا نہیں کرنا پڑا۔

خصوصی ڈاکومینٹری میں بتایا گیا کہ 2009 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان میں دہشت گردی کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے لیے آپریشن راہ نجات اور بعد ازاں ضرب عضب شروع کیا گیا، اس کے بعد موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2017 میں ردالفساد کا آغاز کیا گیا۔

یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کی کمان سنبھالنے کے 6 برس بعد اس مہینے کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں، نومبر 2016 میں ان کا تقرر بطور آرمی چیف کیا گیا تھا، بعد ازاں 2019 میں پارلیمان میں آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے عدالتی حکم پر قانون سازی کے بعد انہیں تین سال کی توسیع دی گئی تھی۔

آرمی چیف کی تقرری وفاقی حکومت کا کام ; متنازعہ کیوں ؟.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)

Posted on

asgharalimubarakblog

آرمی چیف کی تقرری وفاقی حکومت کا کام ; متنازعہ کیوں ؟.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….. پاکستان میں پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی و تقرری بہت اہمیت رکھتی ہے، اس کا اندازہ نئے آرمی چیف کے تقرری کے معاملے سے جڑی بحث اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو تقریباً گذشتہ ایک سال سے دیے جا رہے ہیں۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے متبادل کی تعیناتی و تقرری اور اس سے جڑے تنازعات اور بیانات سے قطع نظر اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بری فوج کے سربراہان کی تقرریاں مدت اکثر و بیشتر تنازعات سے گِھری رہی ہیں ،پاکستان فوج کے پہلے ’مقامی‘ کمانڈر ان چیف اور فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک، تقریباً تمام سپہ سالار کسی نہ کسی تنازع میں ضرور الجھے رہے ۔ پاکستان بننے…

View original post 2,171 more words

آرمی چیف کی تقرری وفاقی حکومت کا کام ; متنازعہ کیوں ؟.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)

Posted on Updated on

آرمی چیف کی تقرری وفاقی حکومت کا کام ; متنازعہ کیوں ؟.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….. پاکستان میں پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی و تقرری بہت اہمیت رکھتی ہے، اس کا اندازہ نئے آرمی چیف کے تقرری کے معاملے سے جڑی بحث اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو تقریباً گذشتہ ایک سال سے دیے جا رہے ہیں۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے متبادل کی تعیناتی و تقرری اور اس سے جڑے تنازعات اور بیانات سے قطع نظر اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بری فوج کے سربراہان کی تقرریاں مدت اکثر و بیشتر تنازعات سے گِھری رہی ہیں ،پاکستان فوج کے پہلے ’مقامی‘ کمانڈر ان چیف اور فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک، تقریباً تمام سپہ سالار کسی نہ کسی تنازع میں ضرور الجھے رہے ۔ پاکستان بننے وقت ملک کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل فرانک میسروی کے بعد 1948 میں جنرل گریسی نے ملکی افواج کی کمان سنبھالی۔ یہی وہ کمانڈر انچیف تھے جنرل گریسی پاکستانی فوج کے آخری برطانوی سربراہ ثابت ہوئے اور ان کے بعد فوج کی کمان پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے 17 جنوری 1951 کو سنبھالی۔ ایوب خان نہ صرف سات سال تک خود کمانڈر انچیف رہے بلکہ یہ عہدہ انہوں نے جنرل موسیٰ خان ہزارہ کے حوالے صرف اس وقت کیا جب 1958 میں انہوں نے اسکندر مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹا کر خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کا فیصلہ کیا۔سات سال کے اس عرصے میں کمانڈر انچیف تو ایک ہی رہا لیکن وزرائے اعظم سات تبدیل ہو گئے۔ لیاقت علی خان، سر خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور سر فیروز خان نون سب اسی سات سال کے عرصہ میں فارغ ہو گئے۔ اور اس کے بعد یہ عہدہ ہی ختم کر دیا گیا، جو 1971 میں جا کر دوبارہ بحال ہوا اور نورالامین 13 دن کے لئے وزیر اعظم بھی بنےمگر 20 دسمبر 1971 کو یہ عہدہ پھر ختم کر دیا گیا جو کہ 1973 کا آئین منظور ہونے کے بعد جا کر بحال ہوا، اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم بنے۔ لیکن اس دوران ملک ٹوٹ چکا تھا، اور 1958 سے لے کر 1971 تک کمانڈر انچیف کے عہدے میں صرف ایک بار تبدیلی کی گئی، جب 1966 میں جنرل موسیٰ خان ہزارہ کی جگہ جنرل یحییٰ خان کو تعینات کیا گیا۔اگلے پانچ سال وہ ملک کے کمانڈر انچیف رہے۔ اس دوران مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔20 دسمبر 1971 کو لیفٹننٹ جنرل گل حسن خان کو کمانڈر انچیف کا عہدہ دے دیا گیا لیکن انہیں جنرل کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی۔3 مارچ 1972 کو جنرل ٹکا خان پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ وہ اس عہدے پر یکم مارچ 1976 تک براجمان رہے اور ان کے بعد یہ عہدہ جنرل محمد ضیاالحق نے سنبھالا۔ صرف ایک سال تین ماہ کے اندر جنرل ضیا نے ایک کامیاب تحریک کے بعد 5 جولائی 1977 کو بھٹو حکومت کا تخت الٹ دیا اور خود ملک کے صدر بن بیٹھے۔جنرل ضیا 1988 تک ملک کے آرمی چیف رہے اور پھر ایک حادثے کا شکار ہو کر ہی اس عہدے سے علیحدہ ہوئے جب 17 اگست 1988 کو ان کا جہاز بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔جنرل مرزا اسلم بیگ کو فوری طور پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے عہدے سے ترقی دے کر ملک کا آرمی چیف تعینات کیا گیا۔ نئے انتخابات ہوئے، جن کے نتیجے میں بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت وجود میں آئی۔ اپنی آئینی مدت کے تین سال پورے کرنے کے بعد جنرل بیگ نے یہ عہدہ چھوڑ دیا اور جنرل آصف نواز جنجوعہ 16 اگست 1991 کو ملک کے نئے آرمی چیف بنے۔ تاہم، جنرل آصف نواز جنجوعہ 8 جنوری 1993 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور 11 جنوری کو جنرل عبدالوحید کاکڑ نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔جنرل کاکڑ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد 12 جنوری 1996 کو ریٹائر ہو گئے۔ اور ان کی جگہ نئے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے لی نواز شریف نے 1997 انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی 6 اکتوبر 1998 کو وزیر اعظم نے جنرل جہانگیر کرامت کو برطرف کر دیا6 اکتوبر 1998 کو جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ اور ٹھیک ایک سال چھ دن بعد انہوں نے نواز شریف حکومت برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ تاہم، 28 نومبر 2007 کو انہوں نے یہ عہدہ چھوڑ کر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دیا۔جنرل کیانی کی مدت ملازمت نومبر 2010 میں ختم ہو رہی تھی لیکن ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی گئی۔ یہ پہلے آرمی چیف تھے جنہیں سویلین حکومت نے توسیع دی،نومبر 2013 میں جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے، اور اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد نومبر 2016 میں ریٹائر ہو گئے۔ ان کے بعد جنرل باجوہ آرمی چیف بنے، جو تاحال آرمی چیف ہیں۔ آرمی چیف کے عہدے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل نعمان پرویز راجہ اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر فیورٹ ہیں۔پاک فوج ایک منظم ادرارہ ہے جس کے سربراہ کی تعیناتی تقرری کا طریقہ کار آئین پاکستان میں موجود ہے مگر بدقسمتی سے چند سیاستدانوں نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے پاک فوج جیسے متعبر ادارے کو بھی نہ چھوڑا ،وزیر اعظم شہباز شریف اور حکومت کے دیگر اتحادی رہنماؤں نے بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر مسلح افواج کے خلاف ‘زہریلے الزامات’ لگانے اور نئے آرمی چیف کے تقرر کو ‘متنازع بنانے’ پر تنقید کی ہے۔عمران خان نے گزشتہ ماہ فیصل آباد میں ایک ریلی میں الزام لگایا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ کرپشن کے مقدمات میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے نومبر میں ‘اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر’ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سال چار ستمبرکو عمران خان نے فیصل آباد میں ایک ریلی میں الزام لگایا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ کرپشن کے مقدمات میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے نومبر میں ‘اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر’ کرنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ ‘وہ اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ اگر کوئی مضبوط اور محب وطن آرمی چیف مقرر کیا گیا تو وہ ان سے لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں پوچھے گا’۔عمران خان نے دعویٰ کیاتھا کہ ‘پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومت میں اس لیے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ مشترکہ کوششوں کے ذریعے اپنی پسند کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں’۔سابق وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ اگر کوئی مضبوط اور محب وطن آرمی چیف مقرر کیا گیا تو وہ ان سے لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں پوچھے گا’۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘اس ملک کا آرمی چیف میرٹ پر ہونا چاہیے، جو میرٹ پر ہو اس کو آرمی چیف بننا چاہیے، کسی کی پسند کا آرمی چیف نہیں ہونا چاہیے’۔خیال رہے کہ موجود چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو 2016 میں تعینات کیا گیا تھا جو کہ نومبر کے آخری ہفتے میں ریٹائر ہونے والے ہیں، آرمی چیف کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوتی ہے لیکن جنرل قمر باجوہ کو 2019 میں تین سال کی توسیع دے دی گئی تھی۔پی ٹی آئی کے سربراہ کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ عمران خان کی ‘اداروں کو بدنام کرنے کے لیے نفرت انگیز باتیں ہر روز نئی سطحوں کو چھو رہی ہیں’۔’اب وہ مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف براہ راست کیچڑ اچھالنے اور زہریلے الزامات لگانے میں ملوث ہیں’، عمران خان کے ‘مجرمانہ ایجنڈے’ کا مقصد پاکستان کو افراتفری کا شکار بنانا اور اسے کمزور کرنا ہے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ قوم اب ملک میں انتشار پھیلانے والے شخص سے واقف ہے، آج سب کو انسان اور حیوان کا پتا چل گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس شخص نے ملک کو کمزور کرنے کا کہیں سے ٹھیکہ لیا ہوا ہے جو ہمارے جیتے جی نہیں ہوسکتا، ہم اپنے اداروں اور جرنیلوں کو اس شخص کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے، ہمارے ہر سپاہی سے لے کر جرنیل تک ہر ایک بہادر اور محبت وطن ہے’۔اس ضمن میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ عمران خان آرمی چیف سے متعلق اپنے بیان کی خود وضاحت کریں۔ آرمی چیف سمیت فوج کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا، موجودہ حکومت سمیت سب ادارے محب وطن ہیں۔فوج محب وطن ہے، جان دیتی ہے، فوج نے سیلاب میں بھی کام کیا، عمران خان اپنے بیان کی خود وضاحت کریں کہ ان کے کہنے کا کیا مقصد تھا۔
اتحادی حکومت کے رہنماؤں نے بھی عمران خان کے آرمی چیف کے تقرر سے متعلق بیان پر تنقید کی دریں اثنا وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کو شعور نہیں وہ سیکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب یہ لاڈلا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر اپنے پسندیدہ آرمی چیف لگا کر مراعات لینے کا الزام لگا رہا ہے، وہ اداروں کو متنازع بنا کر ہمیں غداری کے سرٹیفکیٹ دے رہا ہے۔خیال رہے کہ اگلے آرمی چیف کے تقرر کا ذکر ملک میں جاری سیاسی بحران میں ایک اہم معاملے کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کرنا وزیراعظم کا اختیار ہے۔آئین کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق صدر وزیراعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے۔رولز آف بزنس کا شیڈول V-A کہتا ہے کہ ‘فوج میں لیفٹیننٹ جنرل اور اس سے اوپر کے عہدے اور اس کے مساوی عہدے۔ دیگر دفاعی خدمات میں تقرر کو وزیراعظم صدر کی مشاورت سے کریں گے’۔تاہم یہ عمل جس طریقے سے چلتا ہے، رول بک میں اس کی واضح طور پر وضاحت نہیں کی گئی نہ ہی ترقی پر غور کرنے کے لیے کوئی خاص معیار مقرر کیا گیا ہے، سوائے اس مبہم شرط کے کہ فوج کی قیادت کے لیے منتخب جنرل کو ایک کور کی کمانڈ کرنی چاہیے۔
روایت یہ ہے کہ جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) 4 سے 5 سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست ان کی ذاتی فائلوں کے ساتھ وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جو انہیں وزیر اعظم کے پاس بھجواتی ہے تاکہ وہ اس عہدے کے لیے موزوں افسر منتخب کریں۔نظریاتی طور پر وزارت دفاع، وزیر اعظم کو پیش کرنے سے پہلے ناموں کی جانچ کر سکتی ہے لیکن ایسا عام طور پر نہیں ہوتا اور وزارت محض ایک ڈاک خانے کے طور پر کام کرتی ہے۔اس کے بعد جرنیلوں کی اسناد پر وزیر اعظم کے دفتر یا کابینہ میں غور کیا جاتا ہے۔پھر یہ معاملہ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ وزیر اعظم کی ’غیر رسمی مشاورت‘، ان کے اپنے تاثرات اور اپنے قریبی مشیروں کے ساتھ بات چیت تک آتا ہے۔اسکے علاوہ ایک کیس کے دوران ریمارکس دینے کہ بڑے ذمہ دار لوگ غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہیں،جلسے میں عمران خان کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی آرمی چیف محب وطن ہے یا نہیں؟ آپ کس جانب جارہے ہیں، کیوں آئینی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل تقریبا شروع ہو چکا ہے، حکومت کی جانب سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اس ہموار عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر کو ختم ہو رہی ہے، تاہم نئے سربراہ کا تقرر 27 نومبر سے پہلے ہونے کا امکان ہےخیال رہے کے نئے آرمی چیف کے امیدواروں میں سے ایک امیدوار 27 نومبر کو ہی ریٹائر ہونے والا ہے۔یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی 27 نومبر سے پہلے کی جائے گی، حکومت، اتحادی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس معاملے پر ایک پیج پر ہیں کیونکہ تینوں کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں لندن کا نجی دورہ کیا جہاں انہوں نے نواز شریف سے اس معاملے پر مشاورت کی اور واپسی کے بعد تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔تقرر کے عمل میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کردار توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ کچھ میڈیا رپورٹس کے دعوے کے مطابق وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 25 روز تک روک سکتے ہیں۔آئین کے تحت نئے آرمی چیف کے تقرر کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں اور وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل آئینی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے، سمری بھیجے جانے کے بعد وزیر اعظم اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملک اور ادارے کے مفادات کے مطابق موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔ صدر مملکت کو بھی اپنا وہی آئینی کردار ادا کرنا چاہے جیسا کہ اس عمل کے حوالے سے آئین میں بیان کیا گیا ہےیاد رہے کہ 19 نومبر کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صدر عارف علوی کو آرمی چیف کے تقرر کے عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کیا صدر عارف علوی پاکستانی عوام، آئین، جمہوریت کے ساتھ وفاداری دکھائیں گے یا عمران خان سے دوستی نبھائے گا، امید ہے اس وقت آئین و قانون کے تحت ساری چیزیں چلیں گی، اگر صدر عارف علوی نے کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تو پھر انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف عرفان قادر کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی سمری نہیں روک سکتے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کا تقرر صدر مملکت نہیں بلکہ صرف وفاقی حکومت کا کام ہے۔

.نئے آرمی چیف کے تقرری کا عمل شروع ..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…

Posted on

.نئے آرمی چیف کے تقرری کا عمل شروع ..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)……………نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل شروع ہو چکا ہے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر کو ختم ہو رہی ہے، تاہم نئے سربراہ کا تقرر 27 نومبر سے پہلے ہونے کا امکان ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے وزیراعظم کا خط وزارت دفاع کو موصول ہونے کے بعد اسے جی ایچ کیو کو ارسال کر دیا گیا ہےحکومت کی جانب سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اس ہموار عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔اس حوالے سے وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم کا خط وزارت دفاع کو موصول ہوا اور جی ایچ کیو کو بھیج دیا گیا، اب ایک دو روز یا تین روز میں تعیناتی کا عمل مکمل ہوجائے گا خیال رہے کے نئے آرمی چیف کے امیدواروں میں سے ایک امیدوار 27 نومبر کو ہی ریٹائر ہونے والا ہے۔ اس سے وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے چند روز قبل جاری کیے گئے اس بیان کی توثیق ہوتی ہے کہ اہم تعیناتی منگل یا بدھ کو کی جائے گی۔ وزارت دفاع نئے آرمی چیف کے تقرر کی سمری 27 نومبر سے پہلے بھیج دے گی۔ قبل ازیں خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ تعیناتی کا عمل پیر سے شروع ہوگا جبکہ نئے سربراہ کا تقرر منگل یا بدھ کو ہو جائے گا۔وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی 27 نومبر سے پہلے کی جائے گی، حکومت، اتحادی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس معاملے پر ایک پیج پر ہیں کیونکہ تینوں کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں لندن کا نجی دورہ کیا جہاں انہوں نے سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف سے اس معاملے پر مشاورت کی اور واپسی کے بعد تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔

تقرر کے عمل میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کردار توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ کچھ میڈیا رپورٹس کے دعوے کے مطابق وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 25 روز تک روک سکتے ہیں۔

تاہم وزیراعظم کے ترجمان نے کہا کہ آئین کے تحت نئے آرمی چیف کے تقرر کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں اور وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل آئینی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے، سمری بھیجے جانے کے بعد وزیر اعظم اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملک اور ادارے کے مفادات کے مطابق موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔

صدر عارف علوی کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا ’صدر مملکت بھی اپنا وہی آئینی کردار ادا کریں گے جیسا کہ اس عمل کے حوالے سے آئین میں بیان کیا گیا ہے‘۔

یاد رہے کہ19 نومبرکو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صدر عارف علوی کو آرمی چیف کے تقرر کے عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کیا صدر عارف علوی پاکستانی عوام، آئین، جمہوریت کے ساتھ وفاداری دکھائیں گے یا عمران خان سے دوستی نبھائے گا، امید ہے اس وقت آئین و قانون کے تحت ساری چیزیں چلیں گی، اگر صدر عارف علوی نے کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تو پھر انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔

اس سلسلے میں قانون و انصاف کے ماہرین کا کہنا ہےکہ صدر عارف علوی سمری نہیں روک سکتے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کا تقرر صدر مملکت نہیں بلکہ صرف وفاقی حکومت کا کام ہے۔ یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ فوج کی کمان اور کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے اور اس کی مزید وضاحت آئین کے آرٹیکل 90 اور 91 میں کی گئی ہے۔’صدر سمری مؤخر نہیں کر سکتے اور انہیں فوراً اس پر دستخط کرنا ہوں گے‘۔ویسےتو مُلکی اداروں میں تبادلے، تقرّریاں، تعیّناتیاں معمول کی کارروائیوں کا حصّہ سمجھی جاتی ہیں، تاہم، مُلکی سلامتی کے حامل اداروں میں یہ مشق انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ بھرپور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل پاک فوج، پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے۔ اِس کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ افواج کے اداروں کی کوئی معمولی کارروائی بھی غیر معمولی خبر بن جاتی ہے۔ وزیراعظم کو رائے دی گئی ہے کہ وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کی منظوری کابینہ سے لیں۔ اس ضمن میں مشاورت شروع ہو گئی ہے وفاقی کابینہ کی منظوری سے کسی فورم پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکے گی بلکہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل بھی ہوجائے گی کیونکہ سپریم کورٹ نے بھی اہم تقرریوں کی کابینہ سے منظوری لینے کا حکم دے رکھا ہے۔حکومت میں شامل 2 اہم ترین سیایس جماعتیں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ وزیر اعظم پر چھوڑنے کی حامی ہیں۔اتحادیوں نے حکومت کو پیغام بھجوایا ہے کہ وزیراعظم طے شدہ طریقہ کار کے تحت فیصلہ کریں۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2016 میں پاک فوج کی کمان سنبھالی تھی ، 2019 میں ان کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی گئی تھی پاک آرمی کے16ویں سپہ سالار، جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت مکمل ہو رہی ہے ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں اور اب وہ مختلف فارمیشنز کے الوداعی دورے بھی کررہے ہیں۔قیامِ پاکستان سے تاحال پاکستان آرمی کی کمان سنبھالنے والے افسران میں کئی نام پاکستان میں بہت مقبول ہوۓ یاد رہے، جنرل سرفرینک واٹر میسروی سے لفٹنینٹ جنرل گُل حسن خان تک پاک فوج کے سربراہ کا عُہدہ ’’کمانڈر اِن چیف‘‘ کے نام سے موسوم تھا، جب کہ جنرل ٹکا خان سے تاحال، پاک فوج کے سربراہ کو ’’چیف آف آرمی اسٹاف‘‘ کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں مسلمان آرمی چیف کی تقرّری کا آغاز آزادی کی تیسری سال گرہ منانے کے بعد ہوا کہ اس سے قبل، اگست 1947 ء سے فروری1948 ء تک جنرل سرفرینک واٹرمیسروی اورفروری 1948ء سے جنوری 1951 ء تک برطانوی حکومت کے جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی پاکستانی فوج کے سربراہ تھے۔س ضمن میں 6 ستمبر 1950ء کی رات سرکاری طور پر مُلکی تاریخ کا بڑا اعلان ہوا، جس میں بتایا گیا کہ ’’گورنر جنرل خواجہ ناظم الدّین نے میجر جنرل ایّوب خان کو پاکستان کی مسلّح افواج کا پہلا مسلمان کمانڈر اِن چِیف نام زد کر دیا ہے اور وہ اوائل1951ء تک موجودہ کمانڈر اِن چیف، جنرل سرڈگلس گریسی سےعُہدے کا چارج لے لیں گے۔‘‘ ایّوب خان کو دسمبر1948 ء میں میجر جنرل کے عُہدے پرترقّی دی گئی تھی اور وہ ایسٹ پاکستان ڈویژن کےپہلے کمانڈرمقرّرہوئے تھے۔ اور جب اُن کی نام زدگی کا اعلان ہوا، تو اُس وقت وہ امپریل ڈیفینس کالج، لندن میں اعلیٰ فنی تربیت حاصل کررہے تھے۔

بعد ازاں، 15 ستمبر 1950ء کونام زد کمانڈر اِن چیف، جنرل ایّوب خان کو لیفٹنینٹ جنرل کے عُہدے پر ترقّی دے کر ڈپٹی کمانڈر اِن چیف بنانے کا اعلان کردیا گیا اور سرکاری اعلان کے 134دن بعد 17جنوری1951 ء کو جنرل ایوب خان پاکستانی فوج کے پہلے مسلمان کمانڈر اِن چیف مقرّر ہوئے۔

اُن کی مدّتِ ملازمت اگلے آٹھ سال تک تھی، لیکن ریٹائرمنٹ سے قریباً سات ماہ قبل9جون1958 ء کو وزیراعظم، فیروز خان نون نے اُن کی مدّتِ ملازمت میں مزید دوسال کی توسیع کردی۔

بعد ازاں،7 اکتوبر1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کرتے ہوئے کمانڈراِن چیف، جنرل محمّد ایّوب خان کو افواجِ پاکستان کا سپریم کمانڈر اور ناظمِ اعلیٰ مارشل لامقرر کردیا۔ اس کےبعد پاکستان کے چوتھے کمانڈر اِن چیف کی تقرّری کا اعلان 27 اکتوبر 1958ء کو ہوا اور جنرل محمّد موسیٰ کو برّی فوج کا کمانـڈر اِن چیف مقرّر کیا گیا۔

29مارچ 1966ء کو میجرجنرل آغا محمّد یحییٰ خان کو فوری ترقّی دے کر پاکستان کی برّی افواج کاڈپٹی کمانڈر اِن چیف مقرّرکرنے کے ساتھ موجودہ کمانڈر اِن چیف، جنرل محمّد موسیٰ کا جاں نشین بھی مقرّر کیاگیا۔ انہیں 27 اکتوبر 1966ء کو جنرل موسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد کمانڈر اِن چیف کا عُہدہ سنبھالنا تھا، لیکن 18ستمبر1966ء کو جنرل موسیٰ خان گورنر جنرل، مغربی پاکستان مقرّر ہوئے تو اُسی دن 18ستمبر1966ء کو وزارتِ دفاع کے غیر معمولی گزٹ میں لیفٹنینٹ جنرل آغا محمّد یحییٰ خان کو جنرل کے عُہدے پر ترقّی دے کر کمانڈر اِن چیف بنا دیا گیا۔

20دسمبر1971 ء کو لیفٹنینٹ جنرل گل حسن کو قائم مقام کمانڈراِن چیف مقرّر کیا گیا اور اس سے قبل سابق آرمی چیف جنرل آغا محمّد یحییٰ خان سمیت سات افسران فوری ریٹائر کر دیئے گئے۔ بعدازاں، 22جنوری1972ء کو جنرل گُل حسن کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ ساتویں آرمی چیف کی تقرّری کا اعلان 3مارچ1972 ء کو ہوا، جس میں جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف مقرّر کیا گیا۔

آٹھویں آرمی چیف کی تقرری کا اعلان 5 فروری1976 ء کو کیا گیا اور یوں یکم مارچ1976ء کو لیفٹنینٹ جنرل محمّد ضیاالحق نے پاکستان کے نئے آرمی چیف کا عُہدہ سنبھالا۔ یاد رہے، انہوں نے جنرل ٹکاخان کی ریٹائرمنٹ کےبعدیہ عُہدہ سنبھالا تھا۔ نویں آرمی چیف، جنرل مرزا اسلم بیگ کی تقرّری، 17اگست 1988 ء کو ایک فضائی حادثے میں آرمی چیف، صدرِ پاکستان، جنرل محمّد ضیاالحق کی ہلاکت کے بعد ہوئی۔

دسویں آرمی چیف کا اعلان 11 جون1991 ء کو ہوا،جس میں لیفٹنینٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ کوچیف آف آرمی اسٹاف نام زد کیا گیا۔ انہوں نے 16 اگست1991 ء کو اپنے عُہدے کا چارج سنبھالا اور اُسی دن اُنہیں جنرل کے عُہدے پر ترقّی دےدی گئی۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ اچانک انتقال کے سبب اپنی مدّتِ ملازمت پوری نہ کرسکے، جس کےبعد11 جنوری 1993 کوجنرل عبدالوحید کاکڑکو اگلے تین برس کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا گیا۔

پاکستان کے12ویں آرمی چیف،جنرل جہانگیر کرامت تھے، جنہوں نے 12جنوری1996ء کو پاک فوج کی قیادت سنبھالی اور7 اکتوبر 1998ء کو اپنے عُہدے سےسبک دوش ہوئے۔ اِن کے بعد کورکمانڈر منگلا، جنرل پرویز مشرف کو ترقّی دےکر مُلک کا نیا آرمی چیف مقرر کر دیاگیا۔ بعدازاں، جنرل اشفاق پرویز کیانی نےفوج کے 14 ویں سپہ سالار کا منصب سنبھالا، جب کہ 15ویں آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کی تقرّری کا اعلان 27نومبر2013ء کو کیا گیا اور انہوں نے 29نومبر 2013ء کو اپنے عُہدے کاحلف اُٹھایا۔ وہ سینیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر تھے۔16ویں آرمی چیف کی تقرری کا اعلان جنرل راحیل شریف کی مدّتِ ملازمت سے دو دن قبل کیا گیا۔ اس طرح 26 نومبر2016 ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ کو اگلے تین برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرّر کیا گیا اور اور 29نومبر2016 ء کو انہوں نے اپنے عُہدے کا چارج سنبھال لیا۔

بعدازاں، 19اگست2019ء کوآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی گئی، جس کے بعد اب اُن کی مدّتِ ملازمت رواں ماہ 29 نومبر کو مکمل ہو جائے گی۔، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریٹائر ہونےاورایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا ہے کہ مارچ میں آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی پیش کش میرے سامنے کی گئی جسے جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹھکرا دیا تھا 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے الوداعی دوروں کا آغاز کر دیا ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مختلف فارمیشنز کے الوداعی دوروں کے طور پرپی ایم اے کا کول،پشاور ،ملتان ،لاہور ، سیالکوٹ اور منگلا گیریژن کے دورے کیے , آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے پی ایم اے کے کیڈٹس اور افسران سے دوران بات چیت کہا کہ کیڈٹس پیشہ وارانہ مہارت کے حصول میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان نومبر 2016 میں سنبھالی تھی جب انہیں اس وقت کے وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے پاکستانی فوج کی سربراہی کے لیے نامزد کیا تھا۔ تعیناتی کے تین سال بعد جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں ابھی تین ماہ باقی تھے تو اگست 2019 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انہیں مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع دینے کا اعلان کیا۔ اس وقت وزیراعظم ہاؤس سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا فیصلہ خطے میں سکیورٹی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی کیریئر کا آغاز 16 بلوچ ریجمنٹ سے اکتوبر 1980ء میں کیا تھا۔ وہ کینیڈا اور امریکا کے دفاعی کالج اور یونیورسٹیوں سے پڑھ چکے ہیں۔ وہ کوئٹہ میں انفرینٹری اسکول میں انسٹریکٹر کے طور پر فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ وہ کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی کمانڈ سنبھال چکے ہیں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان آرمی کے پہلے ایسے سربراہ ہیں جن کو چھ مختلف دوست ممالک کی جانب سے بہترین خدمات پر اعلیٰ اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے چھ سالہ دور میں پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے علاوہ ملکی معیشت کے استحکام کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر برق رفتاری سے کام مکمل کروایا۔ گوادر بندرگاہ کو اپریشنل کرنے اورملکی تاریخ کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل میں بھی پاک فوج اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے دورے کے دوران آرمی چیف کو متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے ’’آرڈر آف یونین‘‘ میڈل سے نوازا۔ یہ اعزاز دو طرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ کے نمایاں کردار کے اعتراف میں دیا گیا۔ اس سے قبل 26 جون 2022 ء کو سعودی ولی عہد اور نائب وزیر اعظم محمد بن سلمان نے انہیں ’’کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلنٹ کلاس‘‘ سے نوازا تھاجبکہ 9 جنوری 2021 کو بحرین کے ولی عہد کی جانب سے ’’بحرین آرڈر (فرسٹ کلاس) ایوارڈ‘‘ دیا گیا اور 5 اکتوبر 2019 ء کو اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے بھی ’’آرڈر آف ملٹری میرٹ‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اسی طرح روسی سفیر نے آرمی چیف کو 27دسمبر 2018 ء کو ’’کامن ویلتھ ان ریسکیو اینڈ لیٹر آف کمنڈیشن آف رشین مانٹیئرنگ فیڈریشن‘‘ کا اعزاز دیا۔ قبل ازیں 20 جون 2017 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ترکی کے ’’لیجن آف میرٹ ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ 29 نومبر 2016 کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے سولہویں سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی .موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کی متوقع تاریخ سے ڈیڑھ ماہ قبل 12 میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی جو کہ غیر معمولی تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان آرمی کی تاریخ میں ایک ساتھ دس سے زائد میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کی کم مثالیں موجود ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والوں میں میجر جنرل انعام حیدر ملک، میجر جنرل فیاض حسین شاہ، میجر جنرل نعمان زکریا، میجر جنرل محمد ظفر اقبال، میجر جنرل ایمن بلال صفدر، میجر جنرل احسن گلریز، میجر جنرل سید عامر رضا، میجر جنرل شاہد امتیاز، میجر جنرل منیر افسر، میجر جنرل افتخار بابر، میجر جنرل یوسف جمال اور میجر جنرل کاشف نذیر شامل ہیں۔ نومبر کے مہینے میں موجودہ چھ سینیئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی ریٹائرمنٹ کا عمل شروع ہو رہا ہے۔ چونکہ ترقی کے اعلان اور مختلف عسکری عہدوں کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تاریخیں مختلف ہوتی ہیں اس لیے نومبر کے آخری عشرے تک مقررہ مدت پوری ہونے پر یہ لیفٹیننٹ جنرلز ریٹائر ہو جائیں گے۔سب سے آخر میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور موجودہ کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ ہے جو آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے تین دن پہلے ہے۔ اس لیے انھیں آئندہ آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدوں کے لیے اہم امیدوار تصور کیا جا رہا ہے، اگرچہ ایسے کسی فیصلے کی صورت میں اعلی عہدے سے رخصت کے حوالے سے کچھ ردوبدل کرنا ضروری ہو گا۔ آئندہ دنوں میں ریٹائر ہونے والے جنرلز میں کور کمانڈر منگلا شاہین مظہر محمود، انسپکٹر جنرل ٹریننگ لیفٹیننٹ جنرل سید محمد عدنان شاہ، ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹر لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف، کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز، ڈائریکٹر جنرل سٹریٹیجک پلانز ڈویژن، لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج کے نام شامل ہیں۔ نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرری کی صورت میں کم از کم دو افسران کی جگہیں خالی ہوں گی۔ ان کو پُر کرنے کے لیے بھی حالیہ ترقیاں کر دی گئی ہیں۔

اگرچہ افسران کی ترقی اور سپر سیڈ ہونے کی صورت میں خالی ہونے والی سیٹوں پر عسکری روایات میں نئے آنے والے آرمی چیف اپنی ٹیم بنانے کے لیے کچھ افسران کو ترقی دیتے ہیں لیکن اس مرتبہ یہ ترقیاں قبل از وقت ہی دی جا چکی ہیں اور اسی لیے زیادہ تعداد میں افسران کو ترقی دی گئی ہے۔

قابل ذکر نکتہ ہے کہ چھ سال پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ نے آرمی چیف بننے کے فورا بعد سات میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی تھی۔ اور اب اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے ڈیڑھ ماہ پہلے انھوں نے 12 میجر جنرلز کو ترقی دی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں ترقی پانے والے افسران نے لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد بھی کچھ عرصہ اپنے پرانے عہدوں پر کام کیا۔ اس دوران ان کی پوسٹ کو کچھ وقت کے لیے اپ گریڈ کر دیا گیا اور کسی دوسری پوسٹ کے خالی ہونے پر ان کی تقرری وہاں کر دی گئی۔

مثال کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا اور لیفٹیننٹ جنرل سید عدنان نے لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد بھی کچھ وقت وائس چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر کام کیا جو کہ عمومی طور پر میجر جنرل کا عہدہ سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم شیخ، لیفٹیننٹ جنرل سلمان فیاض غنی اور لیفٹیننٹ جنرل عامر عباسی نے بھی کچھ عرصہ اپنے پرانے عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دیں۔

جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہوا جب انھوں نے قابل یا قریبی افسران کو وقت سے پہلے یا عہدہ خالی نہ ہونے کے باوجود اگلے عہدے پر ترقیاں دیں۔
لیفٹیننٹ جنرل نعمان ذکریا اس وقت وائس چیف آف جنرل سٹاف ہیں اور اس سے پہلے و ہ جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز رہے اور وزیرستان میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل سید عامر رضا اس وقت ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے سربراہ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ویپن اینڈ ایکوئپمنٹ اور جی او سی انفنٹری ڈویژن کھاریاں کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ایمن بلال صفدر جی ایچ کیو میں ایک خصوصی سیل کی نگرانی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور بلوچستان ساؤتھ، جی او سی انفنٹری ڈویژن سیالکوٹ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل فیاض حسین شاہ جی ایچ کیو کی ٹریننگ اینڈ ایویلوییشن برانچ میں ڈائریکٹر جنرل ایویلوییشن تعینات ہیں۔ اس سے پہلے وہ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور نارتھ بلوچستان اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں چیف انسٹرکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احسن گلریز بھی ٹریننگ اینڈ ایویلیویشن برانچ میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کی حفاظت پر معمور ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں اور جی اوسی انفنٹری ڈویژن کھاریاں بھی رہ چکے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز کمانڈنٹ انفنٹری سکول کوئٹہ ہیں اور اس سے پہلے جہلم میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کرنے کے ساتھ ساتھ جی ایچ کیو کے آرمی چیف سیکرٹریٹ میں ڈائریکٹر جنرل ڈی جی سٹاف ڈیوٹیز بھی رہ چکے ہیں,
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ ملتان میں آرمڈ ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور خیبر پختونخوا ساؤتھ کے عہدے پر کام کر رہے ہیں اور وہ جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشن اینڈ انٹیلیجنس رہے اور آئی ایس آئی میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل یوسف جمال اس وقت ڈائریکٹر جنرل نیشنل لاجسٹکس سیل ہیں اور اس سے پہلے وہ سیالکوٹ میں انفنٹری ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ رہ چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل محمد ظفر اقبال ایئر ڈیفنس کمانڈ کے قائم مقام سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں اس سے پہلے وہ کراچی میں ایئر ڈیفنس ڈویژن اور سیالکوٹ میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ بھی کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل کاشف نذیر آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل انٹرنل رہے۔ اس سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ہاؤسنگ رہے اور انجینیئرنگ ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک اس وقت جی ایچ کیو میں چیف انجینیئر اور ڈائریکٹر جنرل ورکس کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ ڈی جی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن رہے اور کوئٹہ میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں۔ نومبر 2022 میں نئے آرمی چیف کی تقرری ہو گئی تو اس کے بعد اکتوبر میں ترقی پانے والے تمام جنرلز نومبر 2025 میں نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس کے عہدوں کی سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبروں پر ہوں گے۔ گذشتہ سال کے آخر میں کئی اہم افسران کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی تاکہ وہ آئندہ تین سال بعد ہونے والی فور سٹار ترقیوں کی ممکنہ سنیارٹی میں سرِفہرست ہوں۔

تین سال بعد نومبر 2025 میں انھی ناموں میں سے کئی نام نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدوں کے لیے زیر غور آئیں گے جن میں لیفٹیننٹ جنرل نعمان ذکریا، لیفٹیننٹ جنرل سید عامر رضا، لیفٹیننٹ جنرل ایمن بلال صفدر، لیفٹیننٹ جنرل فیاض حسین شاہ، لیفٹیننٹ جنرل راجہ احسن گلریز، لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز کے نام سرفہرست ہوں گے۔

..لسبیلہ میں پاک فوج کی سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے کوششیں ……

Posted on Updated on

..لسبیلہ میں پاک فوج کی سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے کوششیں ………………….(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….پاک فوج وطن عزیز کا ایک ایسا ادارہ ہے جس نے سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک مثبت اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔پاک فوج کی طرف سے سیلاب زدگان کو ریلیف دینے کے حوالے سے کمٹمنٹ کا یہ عالم تھا کہ لسبیلہ میں کور کمانڈر کوئٹہ بذات خود ریلیف کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے اور اسی سرگرمی کے دوران انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔جنرل سرفراز علی کی شہادت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کی افواج کے ہر سطح کے افسران اپنی قوم کو مصیبت سے محفوظ رکھنے کے لیے میدان عمل میں موجود ہوتے ہیں۔ان کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار دیگر افراد میں ڈی جی کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف ستی کی ایک ہفتہ قبل آرمی کے پروموشن بورڈ کے دوران میجر جنرل کے رینک میں ترقی ہوئی تھی۔ہیلی کاپٹر میں موجود بریگیڈیر خالد کا تعلق کور آف انجینئرز سے تھا۔یوں اس حادثے میں شہید ہونے والوں میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف ستی اور بریگیڈیئر خالد،عملے کے تین ارکان بشمول پائلٹ میجر سعید احمد، پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اور نائیک مدثر فیاض بھی شامل تھے جنہوں نے مادر وطن کی حفاظت اور اپنے ہم وطنوں کو سیلاب سے محفوظ رکھنے کے مشن کے دوران اپنی جانیں قربان کردیں زمانہ جنگ ہو یا امن، پاک فوج ہر وقت وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے سرگرم عمل رہتی ہے،قیامت خیز زلزلہ ہو یا تباہ کن سیلاب،کرونا وبا کی مصیبتیں ہوں یا دیگر ہنگامی حالات، پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ ہراول دستے کے طور پر قوم کی خدمت کی ہے اور انہیں قدرتی آفات اور مصائب سے محفوظ رکھنے میں مثالی کردار ادا کیا ہے۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک ہمہ وقت متحرک اور فعال رہنے والی شخصیت ہیں۔ انہوں نے تمام اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے این سی او سی جیسا ادارہ قائم کیااور اب سیلاب کی آفت سے نمٹنے کے لیے وہ ملک بھر میں سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کر رہے ہیں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستان کے علاقے لسبیلہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے لال گوٹھ میں سیلاب متاثرین کیلئےقائم گاوں کاافتتاح کیا۔ سپہ سالار نے کوئٹہ کور، ایف ڈبلیو او، فرنٹیئر کور بلوچستان، کوسٹ گارڈز کے دستوں سے بات چیت کی جبکہ آرمی چیف نے حالیہ سیلاب میں بچاؤ، امداد اور بحالی کے عمل کے دوران سپاہ کی کاوشوں کو سراہا۔ ایف ڈبلیو او کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل کمال اظفرنے تعمیراتی کاموں پر آرمی چیف کو بریفنگ دی جبکہ آرمی چیف کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے جاری کام کی پیشرفت سے آگاہ کیا گیا۔دورے کے دوران آرمی چیف نے لال گل گوٹھ میں نئے جدید پرائمری اسکول کے اساتذہ، طلباء، مقامی افراد سے بھی ملاقات کی۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ھے کہ پاک فوج، وفاقی، صوبائی حکومتوں کے تعاون سے بحالی کے عمل کو تیز کرنے کی ہر ممکن کوششیں جاری رکھے گی۔ آرمی چیف کے لسبیلہ کے دورے کے موقع پر اعلیٰ سول اور ملٹری حکام چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر، انجنئیر ان چیف لیفٹیننٹ جنرل کاشف نذیر بھی موجود تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق یہ گاؤں سیلاب متاثرین کے لیے قائم کیا گیا جو اپنے گھروں سے محروم ہو گئے تھے، گاؤں لال گل گوٹھ حالیہ سیلاب میں بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ تباہ کن سیلاب سے مویشی، لوگوں کا ذاتی سامان، بنیادی ڈھانچہ مکمل ختم ہو چکا تھا، نئے تیار کردہ گاؤں میں شمسی توانائی سے روشن پرائمری اسکول، ٹیوب ویل فراہم کیا گیا ہے۔ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے منصوبے کو ریکارڈ مدت میں مکمل کیا، پاک فوج نے گاؤں کے باسیوں سے ان کے لیے گھروں کی جلد تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ صرف افواج پاکستان ہی وہ واحد قومی ادارہ ہے جو زلزلے‘ سیلاب جیسی قدرتی آفات میں سب سے پہلے اور سب سے آگے بڑھ کر امدادی کاموں کا آغاز کرتا ہے۔ اس وقت بھی افواج پاکستان کی مختلف ٹیمیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہمہ وقت امداد وبحالی کے کاموں میں مصروف ہیں جنہیں اپنی بھوک پیاس کی بھی پرواہ نہیں۔ اس وقت بلاشبہ افواج پاکستان کے جوان ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سازوسامان کے ساتھ موجود ہیں اور امدادی کاموں کے ساتھ متاثرین کی ڈھارس بھی بندھا رہے ہیں ،جون 2022ء سے، پاکستان میں مون سون کی بارشوں اور گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے کم از کم 380 بچے اور 1191 افراد ہلاک اور 1,700 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ 2017ء کے بعد سے دنیا کا سب سے مہلک سیلاب ہےاگست تک پاکستان کا “ایک تہائی” پانی کے اندر تھا، جس سے 33 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ملک بھر میں سیلاب سے اب تک 10 بلین امریکی ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے۔ اور یہ نقصان 2010 سے کہیں زیادہ ہے ۔2022ء میں پاکستان میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔ صوبہ سندھ میں معمول سے 784 فیصد زیادہ اور بلوچستان میں معمول سے 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی ۔ پاکستان تاریخ کے بد ترین سیلاب سے دوچار ہے۔پاکستان کے چاروں صوبوں میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔جنوبی پنجاب کے اضلاع کے علاوہ صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان شدید متاثر ہوئے ہیں۔خیبر پختونخوا کے بعض علاقے بھی سیلاب کی آفت کا شکار ہوئے ہیں۔خصوصی طور پر صوبہ بلوچستان کے دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔بلوچستان میں سیکڑوں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں، سیکڑوں مکانات منہدم ہو چکے ہیں۔ہنستی بستی سیرگاہیں ویرانے کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ سڑکیں اور رابطہ پل بہہ گئے ہیں۔بلوچستان میں ڈیم ٹوٹنے سے بے پناہ نقصانات ہوئے ہیں۔صوبہ بلوچستان کے متعدد اضلاع جن میں دارالحکومت کوئٹہ سمیت،بولان،ژوب، دکی،قلعہ سیف اللہ، خضدار، کوہلو، کیچ، مستونگ،لسبیلہ اور سبی شامل ہیں، شدید تباہی کا شکار ہوئے ہیں۔بلوچستان جو پاکستان کے کل رقبے کا 42 فیصد ہے،موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ماحولیاتی خطرات میں گھرا ہوا ہے قدرتی آفات کے دوران قوم کی خدمت کرنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پاک آرمی بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے۔ایک ایسا صوبہ جو پہلے ہی پسماندگی کا شکار ہے،تعلیم صحت،ذرائع آمدورفت اور روزگار کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں،ملک دشمن عناصر کی طرف سے مسلسل دہشت گردی کا شکار رہنے کے باعث یہاں پر عدم تحفظ کا احساس بھی پایا جاتا ہے، یہاں کے شہریوں کو سیلاب جیسی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلح افواج نے تاریخی کردار ادا کیا ۔پاک فوج نے ان متاثرہ علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو اور بحالی کے آپریشن شروع کیے ۔سیلاب متاثرین کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لیے پاک فوج نے تمام ذرائع استعمال کیے۔دور دراز علاقوں میں بارش اور سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے پاک فوج کے فری میڈیکل کیمپس کام کر رہے ہیں۔ان میڈیکل کیمپوں میں علاج معالجے کی مفت سہولیات کے ساتھ ساتھ مفت ادویات بھی فراہم کی جا رہی ہیں،پاک فوج نے اپنا 3 دن کا راشن یعنی 1500 ٹن راشن سیلاب زدگان میں تقسیم کیا ۔ سیلاب زدگان کے لیے عوامی عطیات وصول کرنے کی غرض سے آرمی کے تحت عطیہ مراکز قائم کیے ۔ فوجی افسران نے ایک ماہ کی تنخواہ سیلاب فنڈ میں دی ہےپاک فوج نے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات اور آرمی کے قائم کردہ ریلیف کیمپوں میں منتقل کیاپاک فوج سول اداروں کے شانہ بشانہ خدمت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ عوام کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور سیلاب سے متاثرہ آخری آدمی کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورمیں فلڈ ریلیف اور میڈیکل کیمپس میں سہولیات کا جائزہ لیا۔آرمی چیف نے گوٹھ سدوری، لاکھڑا اور لسبیلہ میں سیلاب زدگان سے ملاقات کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔ آرمی چیف نے سیلاب زدہ علاقوں میں مامور جوانوں سے بھی ملاقات کی اور سیلاب زدہ علاقوں کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ عوام کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور سیلاب سے متاثرہ آخری آدمی کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔چیف آف آرمی سٹاف کی اپیل پر غیر ملکی ڈونرز نے بھی حوصلہ افزا ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔خصوصاً متحدہ عرب امارات اور چین نے آرمی چیف کی اپیل پر ردعمل دیتے ہوئے حکومت پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا۔پاک فوج اور عوام ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں ساتھ دینے اور مشکلات کم کرنے میں مسلح افواج کی خدمات پر پوری قوم پاک فوج کی مشکور ہے۔