آرمی چیف کی تقرری وفاقی حکومت کا کام ; متنازعہ کیوں ؟.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)

Posted on Updated on

آرمی چیف کی تقرری وفاقی حکومت کا کام ; متنازعہ کیوں ؟.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….. پاکستان میں پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی و تقرری بہت اہمیت رکھتی ہے، اس کا اندازہ نئے آرمی چیف کے تقرری کے معاملے سے جڑی بحث اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو تقریباً گذشتہ ایک سال سے دیے جا رہے ہیں۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے متبادل کی تعیناتی و تقرری اور اس سے جڑے تنازعات اور بیانات سے قطع نظر اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بری فوج کے سربراہان کی تقرریاں مدت اکثر و بیشتر تنازعات سے گِھری رہی ہیں ،پاکستان فوج کے پہلے ’مقامی‘ کمانڈر ان چیف اور فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک، تقریباً تمام سپہ سالار کسی نہ کسی تنازع میں ضرور الجھے رہے ۔ پاکستان بننے وقت ملک کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل فرانک میسروی کے بعد 1948 میں جنرل گریسی نے ملکی افواج کی کمان سنبھالی۔ یہی وہ کمانڈر انچیف تھے جنرل گریسی پاکستانی فوج کے آخری برطانوی سربراہ ثابت ہوئے اور ان کے بعد فوج کی کمان پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے 17 جنوری 1951 کو سنبھالی۔ ایوب خان نہ صرف سات سال تک خود کمانڈر انچیف رہے بلکہ یہ عہدہ انہوں نے جنرل موسیٰ خان ہزارہ کے حوالے صرف اس وقت کیا جب 1958 میں انہوں نے اسکندر مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹا کر خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کا فیصلہ کیا۔سات سال کے اس عرصے میں کمانڈر انچیف تو ایک ہی رہا لیکن وزرائے اعظم سات تبدیل ہو گئے۔ لیاقت علی خان، سر خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور سر فیروز خان نون سب اسی سات سال کے عرصہ میں فارغ ہو گئے۔ اور اس کے بعد یہ عہدہ ہی ختم کر دیا گیا، جو 1971 میں جا کر دوبارہ بحال ہوا اور نورالامین 13 دن کے لئے وزیر اعظم بھی بنےمگر 20 دسمبر 1971 کو یہ عہدہ پھر ختم کر دیا گیا جو کہ 1973 کا آئین منظور ہونے کے بعد جا کر بحال ہوا، اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم بنے۔ لیکن اس دوران ملک ٹوٹ چکا تھا، اور 1958 سے لے کر 1971 تک کمانڈر انچیف کے عہدے میں صرف ایک بار تبدیلی کی گئی، جب 1966 میں جنرل موسیٰ خان ہزارہ کی جگہ جنرل یحییٰ خان کو تعینات کیا گیا۔اگلے پانچ سال وہ ملک کے کمانڈر انچیف رہے۔ اس دوران مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔20 دسمبر 1971 کو لیفٹننٹ جنرل گل حسن خان کو کمانڈر انچیف کا عہدہ دے دیا گیا لیکن انہیں جنرل کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی۔3 مارچ 1972 کو جنرل ٹکا خان پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ وہ اس عہدے پر یکم مارچ 1976 تک براجمان رہے اور ان کے بعد یہ عہدہ جنرل محمد ضیاالحق نے سنبھالا۔ صرف ایک سال تین ماہ کے اندر جنرل ضیا نے ایک کامیاب تحریک کے بعد 5 جولائی 1977 کو بھٹو حکومت کا تخت الٹ دیا اور خود ملک کے صدر بن بیٹھے۔جنرل ضیا 1988 تک ملک کے آرمی چیف رہے اور پھر ایک حادثے کا شکار ہو کر ہی اس عہدے سے علیحدہ ہوئے جب 17 اگست 1988 کو ان کا جہاز بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔جنرل مرزا اسلم بیگ کو فوری طور پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے عہدے سے ترقی دے کر ملک کا آرمی چیف تعینات کیا گیا۔ نئے انتخابات ہوئے، جن کے نتیجے میں بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت وجود میں آئی۔ اپنی آئینی مدت کے تین سال پورے کرنے کے بعد جنرل بیگ نے یہ عہدہ چھوڑ دیا اور جنرل آصف نواز جنجوعہ 16 اگست 1991 کو ملک کے نئے آرمی چیف بنے۔ تاہم، جنرل آصف نواز جنجوعہ 8 جنوری 1993 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور 11 جنوری کو جنرل عبدالوحید کاکڑ نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔جنرل کاکڑ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد 12 جنوری 1996 کو ریٹائر ہو گئے۔ اور ان کی جگہ نئے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے لی نواز شریف نے 1997 انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی 6 اکتوبر 1998 کو وزیر اعظم نے جنرل جہانگیر کرامت کو برطرف کر دیا6 اکتوبر 1998 کو جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ اور ٹھیک ایک سال چھ دن بعد انہوں نے نواز شریف حکومت برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ تاہم، 28 نومبر 2007 کو انہوں نے یہ عہدہ چھوڑ کر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دیا۔جنرل کیانی کی مدت ملازمت نومبر 2010 میں ختم ہو رہی تھی لیکن ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی گئی۔ یہ پہلے آرمی چیف تھے جنہیں سویلین حکومت نے توسیع دی،نومبر 2013 میں جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے، اور اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد نومبر 2016 میں ریٹائر ہو گئے۔ ان کے بعد جنرل باجوہ آرمی چیف بنے، جو تاحال آرمی چیف ہیں۔ آرمی چیف کے عہدے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل نعمان پرویز راجہ اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر فیورٹ ہیں۔پاک فوج ایک منظم ادرارہ ہے جس کے سربراہ کی تعیناتی تقرری کا طریقہ کار آئین پاکستان میں موجود ہے مگر بدقسمتی سے چند سیاستدانوں نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے پاک فوج جیسے متعبر ادارے کو بھی نہ چھوڑا ،وزیر اعظم شہباز شریف اور حکومت کے دیگر اتحادی رہنماؤں نے بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر مسلح افواج کے خلاف ‘زہریلے الزامات’ لگانے اور نئے آرمی چیف کے تقرر کو ‘متنازع بنانے’ پر تنقید کی ہے۔عمران خان نے گزشتہ ماہ فیصل آباد میں ایک ریلی میں الزام لگایا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ کرپشن کے مقدمات میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے نومبر میں ‘اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر’ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سال چار ستمبرکو عمران خان نے فیصل آباد میں ایک ریلی میں الزام لگایا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ کرپشن کے مقدمات میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے نومبر میں ‘اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر’ کرنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ ‘وہ اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ اگر کوئی مضبوط اور محب وطن آرمی چیف مقرر کیا گیا تو وہ ان سے لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں پوچھے گا’۔عمران خان نے دعویٰ کیاتھا کہ ‘پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومت میں اس لیے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ مشترکہ کوششوں کے ذریعے اپنی پسند کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں’۔سابق وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ اگر کوئی مضبوط اور محب وطن آرمی چیف مقرر کیا گیا تو وہ ان سے لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں پوچھے گا’۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘اس ملک کا آرمی چیف میرٹ پر ہونا چاہیے، جو میرٹ پر ہو اس کو آرمی چیف بننا چاہیے، کسی کی پسند کا آرمی چیف نہیں ہونا چاہیے’۔خیال رہے کہ موجود چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو 2016 میں تعینات کیا گیا تھا جو کہ نومبر کے آخری ہفتے میں ریٹائر ہونے والے ہیں، آرمی چیف کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوتی ہے لیکن جنرل قمر باجوہ کو 2019 میں تین سال کی توسیع دے دی گئی تھی۔پی ٹی آئی کے سربراہ کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ عمران خان کی ‘اداروں کو بدنام کرنے کے لیے نفرت انگیز باتیں ہر روز نئی سطحوں کو چھو رہی ہیں’۔’اب وہ مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف براہ راست کیچڑ اچھالنے اور زہریلے الزامات لگانے میں ملوث ہیں’، عمران خان کے ‘مجرمانہ ایجنڈے’ کا مقصد پاکستان کو افراتفری کا شکار بنانا اور اسے کمزور کرنا ہے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ قوم اب ملک میں انتشار پھیلانے والے شخص سے واقف ہے، آج سب کو انسان اور حیوان کا پتا چل گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس شخص نے ملک کو کمزور کرنے کا کہیں سے ٹھیکہ لیا ہوا ہے جو ہمارے جیتے جی نہیں ہوسکتا، ہم اپنے اداروں اور جرنیلوں کو اس شخص کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے، ہمارے ہر سپاہی سے لے کر جرنیل تک ہر ایک بہادر اور محبت وطن ہے’۔اس ضمن میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ عمران خان آرمی چیف سے متعلق اپنے بیان کی خود وضاحت کریں۔ آرمی چیف سمیت فوج کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا، موجودہ حکومت سمیت سب ادارے محب وطن ہیں۔فوج محب وطن ہے، جان دیتی ہے، فوج نے سیلاب میں بھی کام کیا، عمران خان اپنے بیان کی خود وضاحت کریں کہ ان کے کہنے کا کیا مقصد تھا۔
اتحادی حکومت کے رہنماؤں نے بھی عمران خان کے آرمی چیف کے تقرر سے متعلق بیان پر تنقید کی دریں اثنا وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کو شعور نہیں وہ سیکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب یہ لاڈلا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر اپنے پسندیدہ آرمی چیف لگا کر مراعات لینے کا الزام لگا رہا ہے، وہ اداروں کو متنازع بنا کر ہمیں غداری کے سرٹیفکیٹ دے رہا ہے۔خیال رہے کہ اگلے آرمی چیف کے تقرر کا ذکر ملک میں جاری سیاسی بحران میں ایک اہم معاملے کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کرنا وزیراعظم کا اختیار ہے۔آئین کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق صدر وزیراعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے۔رولز آف بزنس کا شیڈول V-A کہتا ہے کہ ‘فوج میں لیفٹیننٹ جنرل اور اس سے اوپر کے عہدے اور اس کے مساوی عہدے۔ دیگر دفاعی خدمات میں تقرر کو وزیراعظم صدر کی مشاورت سے کریں گے’۔تاہم یہ عمل جس طریقے سے چلتا ہے، رول بک میں اس کی واضح طور پر وضاحت نہیں کی گئی نہ ہی ترقی پر غور کرنے کے لیے کوئی خاص معیار مقرر کیا گیا ہے، سوائے اس مبہم شرط کے کہ فوج کی قیادت کے لیے منتخب جنرل کو ایک کور کی کمانڈ کرنی چاہیے۔
روایت یہ ہے کہ جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) 4 سے 5 سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست ان کی ذاتی فائلوں کے ساتھ وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جو انہیں وزیر اعظم کے پاس بھجواتی ہے تاکہ وہ اس عہدے کے لیے موزوں افسر منتخب کریں۔نظریاتی طور پر وزارت دفاع، وزیر اعظم کو پیش کرنے سے پہلے ناموں کی جانچ کر سکتی ہے لیکن ایسا عام طور پر نہیں ہوتا اور وزارت محض ایک ڈاک خانے کے طور پر کام کرتی ہے۔اس کے بعد جرنیلوں کی اسناد پر وزیر اعظم کے دفتر یا کابینہ میں غور کیا جاتا ہے۔پھر یہ معاملہ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ وزیر اعظم کی ’غیر رسمی مشاورت‘، ان کے اپنے تاثرات اور اپنے قریبی مشیروں کے ساتھ بات چیت تک آتا ہے۔اسکے علاوہ ایک کیس کے دوران ریمارکس دینے کہ بڑے ذمہ دار لوگ غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہیں،جلسے میں عمران خان کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی آرمی چیف محب وطن ہے یا نہیں؟ آپ کس جانب جارہے ہیں، کیوں آئینی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل تقریبا شروع ہو چکا ہے، حکومت کی جانب سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اس ہموار عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر کو ختم ہو رہی ہے، تاہم نئے سربراہ کا تقرر 27 نومبر سے پہلے ہونے کا امکان ہےخیال رہے کے نئے آرمی چیف کے امیدواروں میں سے ایک امیدوار 27 نومبر کو ہی ریٹائر ہونے والا ہے۔یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی 27 نومبر سے پہلے کی جائے گی، حکومت، اتحادی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس معاملے پر ایک پیج پر ہیں کیونکہ تینوں کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں لندن کا نجی دورہ کیا جہاں انہوں نے نواز شریف سے اس معاملے پر مشاورت کی اور واپسی کے بعد تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔تقرر کے عمل میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کردار توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ کچھ میڈیا رپورٹس کے دعوے کے مطابق وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 25 روز تک روک سکتے ہیں۔آئین کے تحت نئے آرمی چیف کے تقرر کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں اور وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل آئینی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے، سمری بھیجے جانے کے بعد وزیر اعظم اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملک اور ادارے کے مفادات کے مطابق موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔ صدر مملکت کو بھی اپنا وہی آئینی کردار ادا کرنا چاہے جیسا کہ اس عمل کے حوالے سے آئین میں بیان کیا گیا ہےیاد رہے کہ 19 نومبر کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صدر عارف علوی کو آرمی چیف کے تقرر کے عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کیا صدر عارف علوی پاکستانی عوام، آئین، جمہوریت کے ساتھ وفاداری دکھائیں گے یا عمران خان سے دوستی نبھائے گا، امید ہے اس وقت آئین و قانون کے تحت ساری چیزیں چلیں گی، اگر صدر عارف علوی نے کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تو پھر انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف عرفان قادر کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی سمری نہیں روک سکتے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کا تقرر صدر مملکت نہیں بلکہ صرف وفاقی حکومت کا کام ہے۔

One thought on “آرمی چیف کی تقرری وفاقی حکومت کا کام ; متنازعہ کیوں ؟.(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)

    Asghar Ali Mubarak responded:
    November 22, 2022 at 5:31 pm

    Reblogged this on asgharalimubarakblog.

    Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.