.نئے آرمی چیف کے تقرری کا عمل شروع ..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…

Posted on

.نئے آرمی چیف کے تقرری کا عمل شروع ..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)……………نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل شروع ہو چکا ہے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر کو ختم ہو رہی ہے، تاہم نئے سربراہ کا تقرر 27 نومبر سے پہلے ہونے کا امکان ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے وزیراعظم کا خط وزارت دفاع کو موصول ہونے کے بعد اسے جی ایچ کیو کو ارسال کر دیا گیا ہےحکومت کی جانب سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اس ہموار عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔اس حوالے سے وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم کا خط وزارت دفاع کو موصول ہوا اور جی ایچ کیو کو بھیج دیا گیا، اب ایک دو روز یا تین روز میں تعیناتی کا عمل مکمل ہوجائے گا خیال رہے کے نئے آرمی چیف کے امیدواروں میں سے ایک امیدوار 27 نومبر کو ہی ریٹائر ہونے والا ہے۔ اس سے وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے چند روز قبل جاری کیے گئے اس بیان کی توثیق ہوتی ہے کہ اہم تعیناتی منگل یا بدھ کو کی جائے گی۔ وزارت دفاع نئے آرمی چیف کے تقرر کی سمری 27 نومبر سے پہلے بھیج دے گی۔ قبل ازیں خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ تعیناتی کا عمل پیر سے شروع ہوگا جبکہ نئے سربراہ کا تقرر منگل یا بدھ کو ہو جائے گا۔وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی 27 نومبر سے پہلے کی جائے گی، حکومت، اتحادی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس معاملے پر ایک پیج پر ہیں کیونکہ تینوں کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں لندن کا نجی دورہ کیا جہاں انہوں نے سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف سے اس معاملے پر مشاورت کی اور واپسی کے بعد تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔

تقرر کے عمل میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کردار توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ کچھ میڈیا رپورٹس کے دعوے کے مطابق وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 25 روز تک روک سکتے ہیں۔

تاہم وزیراعظم کے ترجمان نے کہا کہ آئین کے تحت نئے آرمی چیف کے تقرر کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں اور وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل آئینی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے، سمری بھیجے جانے کے بعد وزیر اعظم اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملک اور ادارے کے مفادات کے مطابق موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔

صدر عارف علوی کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا ’صدر مملکت بھی اپنا وہی آئینی کردار ادا کریں گے جیسا کہ اس عمل کے حوالے سے آئین میں بیان کیا گیا ہے‘۔

یاد رہے کہ19 نومبرکو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صدر عارف علوی کو آرمی چیف کے تقرر کے عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کیا صدر عارف علوی پاکستانی عوام، آئین، جمہوریت کے ساتھ وفاداری دکھائیں گے یا عمران خان سے دوستی نبھائے گا، امید ہے اس وقت آئین و قانون کے تحت ساری چیزیں چلیں گی، اگر صدر عارف علوی نے کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تو پھر انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔

اس سلسلے میں قانون و انصاف کے ماہرین کا کہنا ہےکہ صدر عارف علوی سمری نہیں روک سکتے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کا تقرر صدر مملکت نہیں بلکہ صرف وفاقی حکومت کا کام ہے۔ یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ فوج کی کمان اور کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے اور اس کی مزید وضاحت آئین کے آرٹیکل 90 اور 91 میں کی گئی ہے۔’صدر سمری مؤخر نہیں کر سکتے اور انہیں فوراً اس پر دستخط کرنا ہوں گے‘۔ویسےتو مُلکی اداروں میں تبادلے، تقرّریاں، تعیّناتیاں معمول کی کارروائیوں کا حصّہ سمجھی جاتی ہیں، تاہم، مُلکی سلامتی کے حامل اداروں میں یہ مشق انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ بھرپور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل پاک فوج، پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے۔ اِس کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ افواج کے اداروں کی کوئی معمولی کارروائی بھی غیر معمولی خبر بن جاتی ہے۔ وزیراعظم کو رائے دی گئی ہے کہ وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کی منظوری کابینہ سے لیں۔ اس ضمن میں مشاورت شروع ہو گئی ہے وفاقی کابینہ کی منظوری سے کسی فورم پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکے گی بلکہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل بھی ہوجائے گی کیونکہ سپریم کورٹ نے بھی اہم تقرریوں کی کابینہ سے منظوری لینے کا حکم دے رکھا ہے۔حکومت میں شامل 2 اہم ترین سیایس جماعتیں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ وزیر اعظم پر چھوڑنے کی حامی ہیں۔اتحادیوں نے حکومت کو پیغام بھجوایا ہے کہ وزیراعظم طے شدہ طریقہ کار کے تحت فیصلہ کریں۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2016 میں پاک فوج کی کمان سنبھالی تھی ، 2019 میں ان کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی گئی تھی پاک آرمی کے16ویں سپہ سالار، جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت مکمل ہو رہی ہے ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں اور اب وہ مختلف فارمیشنز کے الوداعی دورے بھی کررہے ہیں۔قیامِ پاکستان سے تاحال پاکستان آرمی کی کمان سنبھالنے والے افسران میں کئی نام پاکستان میں بہت مقبول ہوۓ یاد رہے، جنرل سرفرینک واٹر میسروی سے لفٹنینٹ جنرل گُل حسن خان تک پاک فوج کے سربراہ کا عُہدہ ’’کمانڈر اِن چیف‘‘ کے نام سے موسوم تھا، جب کہ جنرل ٹکا خان سے تاحال، پاک فوج کے سربراہ کو ’’چیف آف آرمی اسٹاف‘‘ کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں مسلمان آرمی چیف کی تقرّری کا آغاز آزادی کی تیسری سال گرہ منانے کے بعد ہوا کہ اس سے قبل، اگست 1947 ء سے فروری1948 ء تک جنرل سرفرینک واٹرمیسروی اورفروری 1948ء سے جنوری 1951 ء تک برطانوی حکومت کے جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی پاکستانی فوج کے سربراہ تھے۔س ضمن میں 6 ستمبر 1950ء کی رات سرکاری طور پر مُلکی تاریخ کا بڑا اعلان ہوا، جس میں بتایا گیا کہ ’’گورنر جنرل خواجہ ناظم الدّین نے میجر جنرل ایّوب خان کو پاکستان کی مسلّح افواج کا پہلا مسلمان کمانڈر اِن چِیف نام زد کر دیا ہے اور وہ اوائل1951ء تک موجودہ کمانڈر اِن چیف، جنرل سرڈگلس گریسی سےعُہدے کا چارج لے لیں گے۔‘‘ ایّوب خان کو دسمبر1948 ء میں میجر جنرل کے عُہدے پرترقّی دی گئی تھی اور وہ ایسٹ پاکستان ڈویژن کےپہلے کمانڈرمقرّرہوئے تھے۔ اور جب اُن کی نام زدگی کا اعلان ہوا، تو اُس وقت وہ امپریل ڈیفینس کالج، لندن میں اعلیٰ فنی تربیت حاصل کررہے تھے۔

بعد ازاں، 15 ستمبر 1950ء کونام زد کمانڈر اِن چیف، جنرل ایّوب خان کو لیفٹنینٹ جنرل کے عُہدے پر ترقّی دے کر ڈپٹی کمانڈر اِن چیف بنانے کا اعلان کردیا گیا اور سرکاری اعلان کے 134دن بعد 17جنوری1951 ء کو جنرل ایوب خان پاکستانی فوج کے پہلے مسلمان کمانڈر اِن چیف مقرّر ہوئے۔

اُن کی مدّتِ ملازمت اگلے آٹھ سال تک تھی، لیکن ریٹائرمنٹ سے قریباً سات ماہ قبل9جون1958 ء کو وزیراعظم، فیروز خان نون نے اُن کی مدّتِ ملازمت میں مزید دوسال کی توسیع کردی۔

بعد ازاں،7 اکتوبر1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کرتے ہوئے کمانڈراِن چیف، جنرل محمّد ایّوب خان کو افواجِ پاکستان کا سپریم کمانڈر اور ناظمِ اعلیٰ مارشل لامقرر کردیا۔ اس کےبعد پاکستان کے چوتھے کمانڈر اِن چیف کی تقرّری کا اعلان 27 اکتوبر 1958ء کو ہوا اور جنرل محمّد موسیٰ کو برّی فوج کا کمانـڈر اِن چیف مقرّر کیا گیا۔

29مارچ 1966ء کو میجرجنرل آغا محمّد یحییٰ خان کو فوری ترقّی دے کر پاکستان کی برّی افواج کاڈپٹی کمانڈر اِن چیف مقرّرکرنے کے ساتھ موجودہ کمانڈر اِن چیف، جنرل محمّد موسیٰ کا جاں نشین بھی مقرّر کیاگیا۔ انہیں 27 اکتوبر 1966ء کو جنرل موسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد کمانڈر اِن چیف کا عُہدہ سنبھالنا تھا، لیکن 18ستمبر1966ء کو جنرل موسیٰ خان گورنر جنرل، مغربی پاکستان مقرّر ہوئے تو اُسی دن 18ستمبر1966ء کو وزارتِ دفاع کے غیر معمولی گزٹ میں لیفٹنینٹ جنرل آغا محمّد یحییٰ خان کو جنرل کے عُہدے پر ترقّی دے کر کمانڈر اِن چیف بنا دیا گیا۔

20دسمبر1971 ء کو لیفٹنینٹ جنرل گل حسن کو قائم مقام کمانڈراِن چیف مقرّر کیا گیا اور اس سے قبل سابق آرمی چیف جنرل آغا محمّد یحییٰ خان سمیت سات افسران فوری ریٹائر کر دیئے گئے۔ بعدازاں، 22جنوری1972ء کو جنرل گُل حسن کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ ساتویں آرمی چیف کی تقرّری کا اعلان 3مارچ1972 ء کو ہوا، جس میں جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف مقرّر کیا گیا۔

آٹھویں آرمی چیف کی تقرری کا اعلان 5 فروری1976 ء کو کیا گیا اور یوں یکم مارچ1976ء کو لیفٹنینٹ جنرل محمّد ضیاالحق نے پاکستان کے نئے آرمی چیف کا عُہدہ سنبھالا۔ یاد رہے، انہوں نے جنرل ٹکاخان کی ریٹائرمنٹ کےبعدیہ عُہدہ سنبھالا تھا۔ نویں آرمی چیف، جنرل مرزا اسلم بیگ کی تقرّری، 17اگست 1988 ء کو ایک فضائی حادثے میں آرمی چیف، صدرِ پاکستان، جنرل محمّد ضیاالحق کی ہلاکت کے بعد ہوئی۔

دسویں آرمی چیف کا اعلان 11 جون1991 ء کو ہوا،جس میں لیفٹنینٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ کوچیف آف آرمی اسٹاف نام زد کیا گیا۔ انہوں نے 16 اگست1991 ء کو اپنے عُہدے کا چارج سنبھالا اور اُسی دن اُنہیں جنرل کے عُہدے پر ترقّی دےدی گئی۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ اچانک انتقال کے سبب اپنی مدّتِ ملازمت پوری نہ کرسکے، جس کےبعد11 جنوری 1993 کوجنرل عبدالوحید کاکڑکو اگلے تین برس کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا گیا۔

پاکستان کے12ویں آرمی چیف،جنرل جہانگیر کرامت تھے، جنہوں نے 12جنوری1996ء کو پاک فوج کی قیادت سنبھالی اور7 اکتوبر 1998ء کو اپنے عُہدے سےسبک دوش ہوئے۔ اِن کے بعد کورکمانڈر منگلا، جنرل پرویز مشرف کو ترقّی دےکر مُلک کا نیا آرمی چیف مقرر کر دیاگیا۔ بعدازاں، جنرل اشفاق پرویز کیانی نےفوج کے 14 ویں سپہ سالار کا منصب سنبھالا، جب کہ 15ویں آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کی تقرّری کا اعلان 27نومبر2013ء کو کیا گیا اور انہوں نے 29نومبر 2013ء کو اپنے عُہدے کاحلف اُٹھایا۔ وہ سینیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر تھے۔16ویں آرمی چیف کی تقرری کا اعلان جنرل راحیل شریف کی مدّتِ ملازمت سے دو دن قبل کیا گیا۔ اس طرح 26 نومبر2016 ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ کو اگلے تین برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرّر کیا گیا اور اور 29نومبر2016 ء کو انہوں نے اپنے عُہدے کا چارج سنبھال لیا۔

بعدازاں، 19اگست2019ء کوآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی گئی، جس کے بعد اب اُن کی مدّتِ ملازمت رواں ماہ 29 نومبر کو مکمل ہو جائے گی۔، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریٹائر ہونےاورایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا ہے کہ مارچ میں آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی پیش کش میرے سامنے کی گئی جسے جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹھکرا دیا تھا 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے الوداعی دوروں کا آغاز کر دیا ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مختلف فارمیشنز کے الوداعی دوروں کے طور پرپی ایم اے کا کول،پشاور ،ملتان ،لاہور ، سیالکوٹ اور منگلا گیریژن کے دورے کیے , آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے پی ایم اے کے کیڈٹس اور افسران سے دوران بات چیت کہا کہ کیڈٹس پیشہ وارانہ مہارت کے حصول میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان نومبر 2016 میں سنبھالی تھی جب انہیں اس وقت کے وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے پاکستانی فوج کی سربراہی کے لیے نامزد کیا تھا۔ تعیناتی کے تین سال بعد جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں ابھی تین ماہ باقی تھے تو اگست 2019 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انہیں مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع دینے کا اعلان کیا۔ اس وقت وزیراعظم ہاؤس سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا فیصلہ خطے میں سکیورٹی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی کیریئر کا آغاز 16 بلوچ ریجمنٹ سے اکتوبر 1980ء میں کیا تھا۔ وہ کینیڈا اور امریکا کے دفاعی کالج اور یونیورسٹیوں سے پڑھ چکے ہیں۔ وہ کوئٹہ میں انفرینٹری اسکول میں انسٹریکٹر کے طور پر فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ وہ کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی کمانڈ سنبھال چکے ہیں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان آرمی کے پہلے ایسے سربراہ ہیں جن کو چھ مختلف دوست ممالک کی جانب سے بہترین خدمات پر اعلیٰ اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے چھ سالہ دور میں پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے علاوہ ملکی معیشت کے استحکام کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر برق رفتاری سے کام مکمل کروایا۔ گوادر بندرگاہ کو اپریشنل کرنے اورملکی تاریخ کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل میں بھی پاک فوج اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے دورے کے دوران آرمی چیف کو متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے ’’آرڈر آف یونین‘‘ میڈل سے نوازا۔ یہ اعزاز دو طرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ کے نمایاں کردار کے اعتراف میں دیا گیا۔ اس سے قبل 26 جون 2022 ء کو سعودی ولی عہد اور نائب وزیر اعظم محمد بن سلمان نے انہیں ’’کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلنٹ کلاس‘‘ سے نوازا تھاجبکہ 9 جنوری 2021 کو بحرین کے ولی عہد کی جانب سے ’’بحرین آرڈر (فرسٹ کلاس) ایوارڈ‘‘ دیا گیا اور 5 اکتوبر 2019 ء کو اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے بھی ’’آرڈر آف ملٹری میرٹ‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اسی طرح روسی سفیر نے آرمی چیف کو 27دسمبر 2018 ء کو ’’کامن ویلتھ ان ریسکیو اینڈ لیٹر آف کمنڈیشن آف رشین مانٹیئرنگ فیڈریشن‘‘ کا اعزاز دیا۔ قبل ازیں 20 جون 2017 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ترکی کے ’’لیجن آف میرٹ ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ 29 نومبر 2016 کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے سولہویں سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی .موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کی متوقع تاریخ سے ڈیڑھ ماہ قبل 12 میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی جو کہ غیر معمولی تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان آرمی کی تاریخ میں ایک ساتھ دس سے زائد میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کی کم مثالیں موجود ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والوں میں میجر جنرل انعام حیدر ملک، میجر جنرل فیاض حسین شاہ، میجر جنرل نعمان زکریا، میجر جنرل محمد ظفر اقبال، میجر جنرل ایمن بلال صفدر، میجر جنرل احسن گلریز، میجر جنرل سید عامر رضا، میجر جنرل شاہد امتیاز، میجر جنرل منیر افسر، میجر جنرل افتخار بابر، میجر جنرل یوسف جمال اور میجر جنرل کاشف نذیر شامل ہیں۔ نومبر کے مہینے میں موجودہ چھ سینیئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی ریٹائرمنٹ کا عمل شروع ہو رہا ہے۔ چونکہ ترقی کے اعلان اور مختلف عسکری عہدوں کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تاریخیں مختلف ہوتی ہیں اس لیے نومبر کے آخری عشرے تک مقررہ مدت پوری ہونے پر یہ لیفٹیننٹ جنرلز ریٹائر ہو جائیں گے۔سب سے آخر میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور موجودہ کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ ہے جو آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے تین دن پہلے ہے۔ اس لیے انھیں آئندہ آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدوں کے لیے اہم امیدوار تصور کیا جا رہا ہے، اگرچہ ایسے کسی فیصلے کی صورت میں اعلی عہدے سے رخصت کے حوالے سے کچھ ردوبدل کرنا ضروری ہو گا۔ آئندہ دنوں میں ریٹائر ہونے والے جنرلز میں کور کمانڈر منگلا شاہین مظہر محمود، انسپکٹر جنرل ٹریننگ لیفٹیننٹ جنرل سید محمد عدنان شاہ، ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹر لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف، کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز، ڈائریکٹر جنرل سٹریٹیجک پلانز ڈویژن، لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج کے نام شامل ہیں۔ نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرری کی صورت میں کم از کم دو افسران کی جگہیں خالی ہوں گی۔ ان کو پُر کرنے کے لیے بھی حالیہ ترقیاں کر دی گئی ہیں۔

اگرچہ افسران کی ترقی اور سپر سیڈ ہونے کی صورت میں خالی ہونے والی سیٹوں پر عسکری روایات میں نئے آنے والے آرمی چیف اپنی ٹیم بنانے کے لیے کچھ افسران کو ترقی دیتے ہیں لیکن اس مرتبہ یہ ترقیاں قبل از وقت ہی دی جا چکی ہیں اور اسی لیے زیادہ تعداد میں افسران کو ترقی دی گئی ہے۔

قابل ذکر نکتہ ہے کہ چھ سال پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ نے آرمی چیف بننے کے فورا بعد سات میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی تھی۔ اور اب اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے ڈیڑھ ماہ پہلے انھوں نے 12 میجر جنرلز کو ترقی دی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں ترقی پانے والے افسران نے لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد بھی کچھ عرصہ اپنے پرانے عہدوں پر کام کیا۔ اس دوران ان کی پوسٹ کو کچھ وقت کے لیے اپ گریڈ کر دیا گیا اور کسی دوسری پوسٹ کے خالی ہونے پر ان کی تقرری وہاں کر دی گئی۔

مثال کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا اور لیفٹیننٹ جنرل سید عدنان نے لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد بھی کچھ وقت وائس چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر کام کیا جو کہ عمومی طور پر میجر جنرل کا عہدہ سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم شیخ، لیفٹیننٹ جنرل سلمان فیاض غنی اور لیفٹیننٹ جنرل عامر عباسی نے بھی کچھ عرصہ اپنے پرانے عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دیں۔

جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہوا جب انھوں نے قابل یا قریبی افسران کو وقت سے پہلے یا عہدہ خالی نہ ہونے کے باوجود اگلے عہدے پر ترقیاں دیں۔
لیفٹیننٹ جنرل نعمان ذکریا اس وقت وائس چیف آف جنرل سٹاف ہیں اور اس سے پہلے و ہ جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز رہے اور وزیرستان میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل سید عامر رضا اس وقت ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے سربراہ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ویپن اینڈ ایکوئپمنٹ اور جی او سی انفنٹری ڈویژن کھاریاں کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ایمن بلال صفدر جی ایچ کیو میں ایک خصوصی سیل کی نگرانی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور بلوچستان ساؤتھ، جی او سی انفنٹری ڈویژن سیالکوٹ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل فیاض حسین شاہ جی ایچ کیو کی ٹریننگ اینڈ ایویلوییشن برانچ میں ڈائریکٹر جنرل ایویلوییشن تعینات ہیں۔ اس سے پہلے وہ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور نارتھ بلوچستان اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں چیف انسٹرکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احسن گلریز بھی ٹریننگ اینڈ ایویلیویشن برانچ میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کی حفاظت پر معمور ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں اور جی اوسی انفنٹری ڈویژن کھاریاں بھی رہ چکے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز کمانڈنٹ انفنٹری سکول کوئٹہ ہیں اور اس سے پہلے جہلم میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کرنے کے ساتھ ساتھ جی ایچ کیو کے آرمی چیف سیکرٹریٹ میں ڈائریکٹر جنرل ڈی جی سٹاف ڈیوٹیز بھی رہ چکے ہیں,
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ ملتان میں آرمڈ ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور خیبر پختونخوا ساؤتھ کے عہدے پر کام کر رہے ہیں اور وہ جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشن اینڈ انٹیلیجنس رہے اور آئی ایس آئی میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل یوسف جمال اس وقت ڈائریکٹر جنرل نیشنل لاجسٹکس سیل ہیں اور اس سے پہلے وہ سیالکوٹ میں انفنٹری ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ رہ چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل محمد ظفر اقبال ایئر ڈیفنس کمانڈ کے قائم مقام سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں اس سے پہلے وہ کراچی میں ایئر ڈیفنس ڈویژن اور سیالکوٹ میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ بھی کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل کاشف نذیر آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل انٹرنل رہے۔ اس سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ہاؤسنگ رہے اور انجینیئرنگ ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک اس وقت جی ایچ کیو میں چیف انجینیئر اور ڈائریکٹر جنرل ورکس کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ ڈی جی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن رہے اور کوئٹہ میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کر چکے ہیں۔ نومبر 2022 میں نئے آرمی چیف کی تقرری ہو گئی تو اس کے بعد اکتوبر میں ترقی پانے والے تمام جنرلز نومبر 2025 میں نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس کے عہدوں کی سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبروں پر ہوں گے۔ گذشتہ سال کے آخر میں کئی اہم افسران کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی تاکہ وہ آئندہ تین سال بعد ہونے والی فور سٹار ترقیوں کی ممکنہ سنیارٹی میں سرِفہرست ہوں۔

تین سال بعد نومبر 2025 میں انھی ناموں میں سے کئی نام نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدوں کے لیے زیر غور آئیں گے جن میں لیفٹیننٹ جنرل نعمان ذکریا، لیفٹیننٹ جنرل سید عامر رضا، لیفٹیننٹ جنرل ایمن بلال صفدر، لیفٹیننٹ جنرل فیاض حسین شاہ، لیفٹیننٹ جنرل راجہ احسن گلریز، لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز کے نام سرفہرست ہوں گے۔

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.