Month: April 2022

بااصول چیف الیکشن کمشنر عمران خان کی آنکھ کا شتہیر بن گئے ؟………….. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…

Posted on

بااصول چیف الیکشن کمشنر عمران خان کی آنکھ کا شتہیر بن گئے؟ ………….. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….. بااصول چیف الیکشن کمشنر عمران خان کی آنکھ کا شتہیر بن چکے ہیں پی ٹی آئی کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیاھے عمران خان نے کہا ہےکہ الیکشن کمیشن کے سربراہ مسلم لیگ (ن) کے نمائندے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر (ن) لیگ کا نمائندہ ہے، ہم نے اس کے خلاف ایک سوشل میڈیا پر ’سیگنچر کمپین‘ کا آغاز کیا ہے، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ تمام کارکنان الیکشن کمشنر کے خلاف احتجاج اور سوشل میڈیا کیمپئن کا حصہ بنیں۔عمران خان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہیں، ان کے تمام فیصلے ہماری پارٹی کے خلاف تھےانہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرے گی، کیونکہ انہوں نے وقت پر انتخابی حلقوں کی حد بندی مکمل نہ کر کے ‘نااہلی’ کا مظاہرہ کیا، جس سے قبل از وقت انتخابات میں تاخیر ہوئی۔دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہ کہ ان کا استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ “ملک کے بہترین مفادات” میں کام کرتے رہیں گے۔ سکندر سلطان راجہ اپنے نام کی طرح بارعب شخصیت کے مالک ہیں۔ انہیں زیادہ لوگوں میں گھلتے ملتے نہیں دیکھا لیکن جب وہ سیکرٹری سروسز تھے تو افسران کے تقرر وتبادلوں میں مداخلت نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ جو میرٹ پر ہوتا تھا وہی نوٹیفکیشن نکلتا۔ کبھی کسی افسر کا ان کے دفتر سے نکلنے والا نوٹیفکیشن واپس یا منسوخ ہوتے نہیں دیکھاگیا. وہ جلال سکندر سلطان راجہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ 1999 میں سابق جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دوران نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو بھی ان کے خلاف بنائے گئے طیارہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان کے ایک بھائی وصال فخر سلطان راجہ ایڈیشنل آئی جی پولیس پنجاب تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی شادی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری معروف بیوروکریٹ سعید مہدی کی بیٹیوں سے ہوئی تھی.جلال سکندر سلطان راجہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ طیارہ سازش کیس میں گرفتار رہے اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے قریبی دوست رہے ہیں اور مقتدر حلقوں میں بھی اس خاندان کے قریبی تعلقات ہیں,اسی لیے جب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بطور الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا نام تجویز کیا گیا تو سیاسی حلقوں میں تاثر پیدا ہوا کہ حکومت نے شاید غلط فیصلہ کیا، مگرسکندر سلطان راجہ کی مدت ملازمت پانچ سال ہے۔‘ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پنجاب اور وفاق میں مختلف سرکاری عہدوں پر کام کر چکے ہیں، لیکن ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دوران ملازمت کبھی دباؤ قبول نہیں کیا۔سکندر سلطان کے ساتھ کام کرنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اصولوں کی بنیاد پر صوبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا,یہ ہی وجہ ہے کہ 21 جنوری 2020 کو جب سے سکندر سلطان راجہ چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن خبروں میں معمول سے زیادہ اِن ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن کا معاملہ، الیکشن کمیشن کا اختیار واضح طور پر دکھائی دیتا ہے، جو ماضی میں قدرے کم رہا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ان کے کئی معاملات پر اختلافات ماضی میں سامنے آتے رہے ہیں,وہ پنجاب میں بیشتر عہدوں پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی جگہ تعینات ہوتے رہے۔ پنجاب میں تاثر پایا جاتا تھا کہ فواد حسن فواد اور سکندر سلطان راجہ میں بااثر ترین سیکرٹری کا مقابلہ رہا۔کہا جاتا ہے کہ فواد حسن فواد کو صوبے سے وفاق میں بھی ان ہی کی وجہ سے بھجوایا گیا تھا اور انہیں شہباز شریف کیمپ سے بطور پرنسپل سیکرٹری نواز شریف کیمپ میں جانا پڑا تھا۔سکندر سلطان کے ساتھ کام کرنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اصولوں کی بنیاد پر صوبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ پنجاب میں کئی محکموں کے بااختیار سیکرٹری رہنے کے بعد وفاق میں بطور وفاقی سیکرٹری بھی کام کر چکے ہیں۔سکندر سلطان راجہ کو اصولوں سے ہٹانا بہت مشکل کام ہے۔انہوں نے کئی بار مختلف منصوبوں اور افسران کی تقرریوں میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی رائے بھی دلیل سے تبدیل کروائی۔ انہیں کبھی سیاسی اثرات کے تحت فیصلے کرتے یا انہیں تبدیل کرتے نہیں دیکھا گیا۔انہوں نے پنجاب میں دوران سروس وہی کیا جو قانون وضابطے کے مطابق تھا۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی خاص ٹیم کا حصہ رہے، البتہ تیزی کے لحاظ سے وہ بہترین افسر تھے اور انہیں کام لینا آتا تھا۔سکندر سلطان راجہ سیکرٹری سروسز، سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس، سیکرٹری محکمہ صحت، ڈائریکٹر جنرل ایکسائز پنجاب رہے اور ان کی تعیناتی کے دوران ان محکموں کی کارکردگی میں واضح فرق تھا کیونکہ وہ بروقت فیصلہ کرتے تھے اور ماتحت افسران سے کام لینا جانتے تھے۔21 جنوری 2020 کوحکومت اور حزب مخالف کے درمیان نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے سابق بیوروکریٹ سکندر سلطان راجہ کے نام پر اتفاق ہواتھا 22ویں آئینی ترمیم میں یہ معاملہ سامنے آیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان کی تعیناتی کے لیے صرف عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ریٹائرڈ بیورو کریٹس کو بھی ان اہم عہدوں پر تعینات کرنے کی شق منطور کی گئی تھی ,سکندر سلطان راجہ حال سیکرٹری ریلوے کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے اور اس سے پہلے وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگلت بلتسان میں چیف سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔سکندر سلطان راجہ پہلے ریٹائرڈ بیورو کریٹ تھے جنھیں چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا,اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی چیف الیکشن کمشنر آئے تھے ان کا تعلق عدلیہ سے رہا تھا اور سپریم کورٹ کا کوئی حاضر سروس جج ہی قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ دایاں نبھاتا تھا۔سکندر سلطان راجہ بھیرہ کے قریب چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فوج میں میجر تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انتقال کر گئےسکندر سلطان نے آٹھویں تک بھیرہ سے تعلیم حاصل کی اور حسن ابدال کیڈٹ کالج میں داخل ہوئے۔ ایف ایس سی کے بعد انہوں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور ڈاکٹر بننے کے بعد میڈیکل آفیسر بن کر سرگودھا کے ایک گاؤں میں تعینات ہوئے۔اسی دوران سی ایس ایس کی تیاری کی، امتحان دیا اور ڈی ایم جی میں منتخب ہو گئے۔ ان کی پہلی تعیناتی اسلام آباد میں بطور اسسٹنٹ کمشنر تھی۔ وہ مختلف عہدوں پر کام کرنے کے بعد نومبر 2019 میں سیکرٹری ریلوے کی حیثیت سے ریٹائر ہو گئے۔ اس سے پہلے وہ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اور ڈی جی پاسپورٹ بھی رہ چکے ہیں۔ شیخ رشید ان کے کام سے خوش تھے اور انہوں نے عمران خان سے انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ممبر تعینات کرنے کی سفارش کی تھی لیکن عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی مداخلت پر ایسا نہ ہوسکا۔پھر جب چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا وقت آیا تو ان کا نام عمران خان نے تجویز کیا تھا اور اپوزیشن کی رضامندی کے بعد ان کی تعیناتی ہوئی تھی۔ان کا نام حکومت کی جانب سے کیوں تجویز کیا ان سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر ریٹائرڈ ججز کو فیورٹ سمجھا جاتا تھا۔ عمران خان حکومت سے ان کا پہلا اختلاف بلدیاتی الیکشن کے معاملے پر سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے یہ انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا۔ بلدیاتی الیکشن نہ ہوئے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 28 جنوری2021 کو چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیاتھا۔عدالت میں پیشی کے موقع پر جج کے استفسار پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان اور اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بلدیاتی اداروں کی معطلی کو غیر آئینی اقدام تسلیم کیا جس پر وزیر اعظم نے ان کے اس جواب پر اظہار ناراضی بھی کیا تھا۔عمران خان کے دوسرا اختلاف ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں سامنے آیا، جب حکمران پارٹی کے بعض رہنما حلقے میں اپنی مرضی کے ریٹرننگ افسران لگوانا چاہتے تھے، لیکن الیکشن کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔ پولنگ کے اختتام پر 20 پریذائیڈنگ آفیسرز رزلٹ سمیت غائب ہو گئے، جس پر الیکشن کمیشن نے اس حلقے کے نتائج روک کر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تو مسلم لیگ ن کی امیدوار کامیاب ہوگئیں۔الیکشن کمیشن نے تحقیقات کے لیے دو انکوائری کمیٹیاں بھی بنائی تھیںالیکشن کمشنر کے ساتھ تیسرا اختلاف سینیٹ کے مارچ 2021 کے الیکشن کے دوران سامنے آیا جب حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے الیکشن کروانا چاہتی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو انہوں نے حکومتی موقف کے خلاف اوپن بیلٹنگ کو آئین کی شق 226 کے تحت غیر آئینی قرار دیا، جس پر عدالت نے عمران خان حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا۔اس پر بھی عمران خان ناراض ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی تقریروں میں باقاعدہ اس ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور وزرا اسے حکومتی پالیسی سمجھ کر الیکشن کمیشن کے خلاف سرعام بولنے لگے۔چوتھا اختلاف الیکٹورل ریفارمز بل تھا۔ حکومت نے 10 جون 2021 کو قومی اسمبلی سے الیکٹورل ریفارمز بل پاس کرا لیا۔ یہ بل جب الیکشن کمیشن پہنچا تو چیف الیکشن کمشنر نے اس پر 28 اعتراضات اٹھا دیے۔ حکومت نے حلقہ بندیوں اور ووٹرز کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن سے لے کر نادرا کو دے دیا تھا۔جب یہ بل سینیٹ میں رکا توحکومت غیر آئینی شقیں واپس لینے پر مجبور ہوئی۔پھر انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے 29 جولائی 2021 کو انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر عمران خان کو نوٹس جاری کر دیا اور حکومت نے اسے جانب داری قرار دے دیا۔چھٹا اختلاف الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے زریعے انتخابات کرانے کا تھا۔مجوزہ الیکشن ریفارمز بل میں آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے ذریعے کرانے کا اعلان سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اس پر 37 اعتراضات اٹھا دیےای سی پی کے مطابق ای وی ایم کی بڑے پیمانے پر خریداری اور تعیناتی اور آپریٹرز کی بڑی تعداد کو ٹریننگ دینے کے لیے وقت بہت کم ہے، ایک ہی وقت میں ملک بھر میں ای وی ایم متعارف کرانا مناسب نہیں ہے اور قانون کے تحت ضرورت کے مطابق ایک دن میں پولنگ تقریباً ناممکن ہوگی۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ایک پرائیویٹ کمپنی سے تیار کرائی گئی مشینوں پر تمام سیاسی جماعتیں کیسے اعتماد کر سکتی ہیں جبکہ انتخابات سے متعلق انتظامات الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ وزرا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور دو وفاقی وزرا کو الیکشن کمیشن پر بے بنیاد الزامات لگانے پر ای سی پی نےوضاحتی نوٹس بھی جاری کیے۔پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے جو آخری مراحل میں ہے۔چیف الیکشن کمشنر کے ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کی سکندر سلطان راجہ کو دباؤ یا زیر اثر لانے کی کوشش نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ نقصان بھی ہوسکتا ہے۔‘عمران خان شاید اپنے خلاف متوقع فیصلوں کو روکنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو متنازع بناچکے ہیں۔15 ستمبر 2021 کوچیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تعیناتی کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھےکہ آئین کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کو چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔علی عظیم آفریدی وکیل نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سکطان راجہ کی تعیناتی اس نکتے پر چیلنج کی تھی کہ یہ تعیناتی غیر آئینی ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ سینیئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا ٹیکنو کریٹ کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی غیر قانونی ہے اور ترمیم سے پہلے والی شق کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کو ہی ہونا چاہیے۔چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو چیلنج کرنے کے لیے وہی طریقہ کار ہوتا ہے جو کسی بھی جج کی تعیناتی چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘یہاں دو راستے ہیں۔ اگر تعیناتی قوانین کے مطابق نہیں کی گئی تو ہائی کورٹ میں رِٹ ہوگی اور اگر چیف الیکشن کمشنر کسی مِس کنڈکٹ کے مرتکب پائے گئے تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے گا۔‘الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے عندیہ دیا ہے کہ اگر نئی مردم شماری کی جاتی ہے تو اگلے عام انتخابات مئی 2023 سے پہلے ممن نہیں ہوں گے۔ لیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی جانب سے ہونے والی حالیہ تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ادارہ اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے اور کسی دباؤ کے بغیر ملک کے مفاد کی خاطر اس کو جاری رکھے گا۔ای سی پی سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کی جانب سے 18 اپریل کو خط میں کہا گیا ہے کہ ملک کی ساتویں مردم شماری اور خانہ شماری یکم اگست 2022 سے شروع کی جائے گی۔بیان کے مطابق ای سی پی کو نئی مردم شماری کے نتائج 31 دسمبر 2023 تک فراہم کردیے جائیں گے۔ای سی پی نے کہا کہ اس صورت میں 2017 کی مردم شماری کے تحت کی گئیں حلقہ بندیاں غیرمؤثر ہوجائیں گی اور نئی مردم شماری کے تحت یکم جنوری 2023 سے نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی، جو کم ازکم 4 ماہ میں مکمل ہوں گیآئین کے آرتیکل 218 کے تحت وجود میں آنے والے الیکشن کمیشن کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی کا اختیار ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ای سی پی قانونی طور پر پابند ہے کہ ہر مردم شماری کے بعد اور انتخابات سے کم ازکم 4 ماہ پہلے حلقہ بندیوں کا عمل شروع کرے۔لیکشن کمیشن نے کہا کہ ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی پی ٹی آئی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیلزپارٹی (پی پی پی) سے متعلق مبینہ فارن فنڈنگ ریفرینس پر کام کر رہی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے خلاف کیس آخری مراحل میں ہے جہاں جواب دہندہ کے حتمی دلائل جاری ہیں۔پاکستان تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف 26 اپریل کو ملک بھر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے دفاتر کے باہر مظاہرے کئے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر پر ‘جانبدار اور بد دیانت’ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے منحرف اسمبلی ممبران کو ڈی سیٹ کرنے کا اعلامیہ ابھی تک الیکشن کمیشن نے جاری نہیں کیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیاھے دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہ کہ ان کا استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ “ملک کے بہترین مفادات” میں کام کرتے رہیں گے۔

PM vows to investigate terror attack on Chinese nationals…

Posted on

PM vows to investigate terror attack on Chinese nationals………By;Asghar Ali Mubarak. .Islamabad………. The Prime Minister of Pakistan , Shahbaz Sharif on Tuesday visited Chinese Embassy in Islamabad and expressed resolve to investigate the terrorist attack on Chinese nationals expeditiously and take the culprits to the task.

During his visit to the embassy, he met Chinese Charge d’Affaires Ms Pang Chunxue. He also wrote a special message of condolence to Chinese President Xi Jinping.

The Prime Minister expressed sorrow and grief over the death of Chinese nationals in a van blast at Karachi University. He said the entire Pakistani nation is in shock and grief over the brutal attack on its Iron Brothers.

He said the people of Pakistan extend their heartfelt sympathies and condolences to the government, people and families of the victims.

Condemning the incident, Shehbaz Sharif expressed Pakistan’s determination to eradicate all forms of terrorism and terrorists from its soil.

He directed Interior Minister Rana Sanaullah to reach Karachi on Wendesday. He said we will not sit idle until criminals are arrested and punished. He said those who took the lives of Chinese nationals will be hanged.

The Prime Minister said that make all arrangements will be made for repatriation of dead bodies and return of injured with honour and respect.

He also ordered to increase the security of Chinese nationals and organizations working in Pakistan. He said no stone will be left unturned to bring the culprits to justice.

Prime Minister Shehbaz Sharif also recorded his impressions in the condolence book at the embassy..

Foreign Office says telegram issue ‘undermining’ Pakistan’s external ties, asks stakeholders to move on……

Posted on Updated on

Foreign Office says telegram issue ‘undermining’ Pakistan’s external ties, asks stakeholders to move on…………..By;Asghar Ali Mubarak. .Islamabad….The foreign office on Monday sought to move on from the controversy surrounding the diplomatic cable, saying the National Security Committee (NSC) based on the assessment of all the stakeholders has already concluded that there was no foreign conspiracy to oust the government of prime minister Imran Khan.After a detailed opening briefing, the spokesperson answered the questions on foreign policy matters of the journalists in detail;
Question: ​After the NSC Meeting there were a lot of rumors making attributions to Ambassador Asad Majeed. Thereafter, a clarification tweet was also issued by the Ambassador. Was there any pressure/demand on him from some side? Interior Minister Rana Sanaullahhas also said that the cable was edited by the former Foreign Minister Shah Mehmood Qureshi. What is the real situation? Can you share the details of the cable? (Aijaz Ahmed, GNN)

Supplementary Question: If there was no foreign intervention/conspiracy why was the US C’dA summoned? ​(Rashida Sial, AbbTakk TV)

Answer: I would like to briefly share the facts. I think it is important to recall that the matter has been discussed in two meetings of the National Security Committee (NSC). And the Communiqués of the two meetings complement each other. Let me recall that the 22nd April NSC Meeting discussed the telegram received from Pakistan Embassy in Washington. Pakistan’s former Ambassador to the US briefed the Committee on the context and content of his telegram. The NSC after examining the contents of the communication, reaffirmed the decisions of the last NSC meeting. The NSC was again informed by the premier security agencies that they have found no evidence of any conspiracy. Therefore, the NSC after reviewing the contents of the Communication, the assessments received, and the conclusions presented by the security agencies, concluded that there has been no foreign conspiracy.
That is the most authentic reference to the entire matter, from the relevant and competent governmental forum. I have nothing to add to that. The communiqués of the NSC meetings speak for themselves.

I think you mentioned about some media speculations or rumors about some statements attributed to Ambassador Asad Majeed Khan. They are baseless and totally incorrect. And there was no pressure of any kind on the Ambassador at any time. And there is no possibility of any editing of the communication. You also asked about the demarches that were made, and let me recall again that these were in accordance with the decision of NSC Meeting of 31st March which having deliberated the matter directed that Demarches be made through proper channel in keeping with diplomatic norms.

Question: Please clarify difference between ‘interference’ and ‘conspiracy’? Are they not the same? Please also clarify whether in this instance, it was ‘interference’ or ‘conspiracy’? (Mona Khan, Independent News)

Supplementary Question: It is being alleged that the Cypher was received on 7th March and till 27th March the Foreign Minister was not aware of it. It is being reported that a senior officer from the Ministry informed the former Foreign Minister about it. Who was that senior officer?​(Naveed Siddiqui, Dawn News)

Supplementary Question: It is being reported that the Ministry of Foreign Affairs did not inform the former Foreign Minister about the cypher and held back its details.
Secondly, in the past the details of the demarches being issued by the Ministry were shared with the media. Can you share what was communicated to the US official in the demarche?​(Mazhar Iqbal, PNN)

Answer: ‘Interference’ or ‘conspiracy’ – I think it is not for me to get into the meaning and semantics of these terms. It is quite clear the matter has been adequately and sufficiently discussed and addressed in the meetings of the NSC.

As for the action, as soon as the directions were received from the leadership, appropriate action was taken immediately.

Questions have been posed about the communication being withheld, etc. Let me state categorically that such assertions are unfounded. There is no question or possibility of hiding or holding back something like that. It was a Cypher Telegram, which is an accountable and classified document, whose handling and access are strictly in accordance with relevant cypher instructions and procedures. The Telegram was duly received at the Foreign Office and immediately distributed to the relevant authorities.

As for the exact contents of the demarche, I think it is not appropriate to mention that publically. It was decided by the NSC that demarches be made in keeping with diplomatic norms.

Question: Has the US side officially clarified their position on this issue?​(Ali Hussain, Business Recorder)

Answer: You would have followed the various statements that have been issued by the US Officials. I don’t need to interpret those statements as they are before you.

Question: In the present situation, is there any threat to the territorial integrity and sovereignty of Pakistan? Secondly, with this type of political narrative that is being propagated in the media these days, can the national interest of Pakistan be affected?​(Khawaja Nayyar Iqbal, Media Today)

Answer: ​Pakistan has the full capability to defend and take care of its interests and ensure its stability and security. I think there is an element of trust and confidentiality which is central to conducting effective diplomacy. Such episodes carry potential of undermining our diplomacy and complicating our external relations. Therefore, we feel that the categorical statements from the National Security Committee, based on assessments from all stakeholders, where conspiracy has been ruled out, should put this matter to rest. We think that it is time to move on so that we get back to conducting diplomacy and concentrating on our important relationships in the best interest of Pakistan.

Question: During the recent visit of Prime Minister Borris Johnson to India there are many defense deals which have been signed between the two countries. This includes deals in the nuclear domain and equipment which is going to be provided to India. Is this a matter of concern for Pakistan and how will it destabilize the equilibrium in the region?​(Saima Shabbir, Arab News)

Answer: ​We are reviewing the various agreements and details. As a matter of principal we do not comment on bilateral relations between third countries specifically as long as any agreement concluded is not detrimental to Pakistan’s interests. Any agreement that would exacerbate the situation or create an imbalance with regards to the strategic stability in the region, obviously that would be a point of concern.

Question: Can you clarify whether Ambassador Asad Majeed ‘briefed’ the National Security Committee or was there any enquiry?
Secondly, will the Ambassador continue his job? If yes, when will he assume the charge in his next place of posting?​(Khalid Mehmood, Express News)

Answer: As it was evident from the communiqué of the NSC meeting, the ambassador briefed the committee. There is no question of enquiry. He briefed the Committee and provided his assessment.

As you know the Ambassador was routinely transferred after completion of his tenure in Washington and the decision about his transfer had been taken earlier towards the end of last year. His Agrement has already been received and appointment notified and he will be proceeding to Brussels accordingly.
Question: In the NSC Meeting communiqué it has been stated that there has been no conspiracy against Pakistan. Earlier, DGISPR has stated that there was ‘interference’ not ‘conspiracy’. What is the real issue at hand? Can you clarify with specific information?
Secondly, there has been an increase in terrorist activities in Pakistan from the Afghan side. A number of Pakistani soldiers have also embraced martyrdom. With the interim afghan government in place, it was expected that relations between the two countries would improve and such incidents would decrease in frequency. How would you comment? Has Pakistan registered its protest with the Afghan side regarding the martyrdom of the Pakistani soldiers?​(Allah Noor, Mashqir TV)

Answer: ​On the second question, you would have seen our statement of 17th April. Pakistan and Afghanistan have been in regular touch on these issues. Pakistan and Afghanistan are brotherly countries. The governments and people of both countries regard terrorism as a serious threat and have suffered from this scourge for long time. We have felt the pain of Afghan people from a series of terrorist attacks in last few days. Therefore, it is important that our two countries engage in a meaningful manner through relevant institutional channels to cooperate in countering cross border terrorism and taking actions against terrorist groups on their soil including TTP as well as any other groups. We look forward to continued close engagement with Afghanistan for long term peace and stability in Afghanistan and to create an environment conducive for regional economic cooperation and connectivity.

Coming back to your other question, as I have earlier explained, this matter, the most authoritative determination of this matter, is before us in the form of two communiqués resulting from the meetings of the NSC. It is clear, based on that discussion, based on the assessment, and information provided by the premier security agencies that no evidence of any conspiracy was found.

Question: From an academic perspective, how does the Ministry differentiate between foreign interference and foreign conspiracy?
Secondly, the NSC, the government and yourself are reiterating that there was no conspiracy. Please clarify whether the Ministry would invite former Prime Minister, former Foreign Minister, former Information Minister and others to a briefing to make them understand that there is no element of conspiracy in the ouster of their government from power?​(Shaukat Piracha, AAJ News)

Answer: ​You are stretching it a bit too much, and this is not an academic forum and I am not here to engage in academic discussion. What I have stated is not anything that I have said from myself – rather that is the result of the outcome of the two meetings of the NSC held on 31st March and 22nd April, and after an exhaustive discussion, briefings and assessment, the conclusion is before us. I do not have anything to add to that.

Question: Minister of State Ms. Hina Rabbani Khar in a televised comment to Shahzeb Khanzada in a program has said that Ambassador Asad Majeed in his telegram had written that a demarche should be issued and US side be asked to clarify their position as to whether the comments were made by the official concerned in his personal or official capacity. Why was the demarche delayed to 31st of March from 7 March? Was it a political or an administrative decision?
Secondly, yesterday we saw comments from Mullah Yaqoob the Taliban Defense Minister regarding alleged attacks by Pakistan, in Kunar. Do you have any comment?​(Anas Mallick, The Correspondent)
Answer: On your second one, I have already responded to a related question earlier and don’t think there is a need to repeat.

On the first question, as I have said before, as soon as the directions were received from the leadership, appropriate actions were undertaken immediately.

Question: To what extent has the conspiracy and intervention narrative impacted Pakistan’s relations with the United States?
Secondly, where do these relations stand today?​(Zargoon Shah, Geo News )
Answer: ​In responding to some earlier questions, I noted that such episodes do carry the positional of undermining our diplomacy and complicating our external relations. I also said that after the categorical statements from the NSC based on assessment of all stakeholders and briefings that were provided and where the conspiracy has been ruled out, should put this matter to rest. It is time for us to move on and get back to our core work that is conducting diplomacy and concentrating on our relationships with our partners. And the US is one of our key partners. Both sides are keen to build on the long-standing relationships between our two countries and to further strengthen and diversify this relationship.

Question: Minister of Planning and Development Ahsan Iqbal in a public gathering commented that we do not want Pakistan to be Cuba or North Korea, we want to take path of South Korea, Malaysia and China. These comments were not taken well by the Cuban Ambassador to Pakistan who termed them disrespectful. How would you comment? ​(Jaleel Akhtar, Voa, Urdu )

Answer: ​I have not read the full statement and not aware of the context, am not in a position to comment on that. With Cuba, Pakistan has strong and friendly relations and we value these relations very much. Earlier the Foreign office spokesperson Asim Iftikhar began his press conference by stating that the briefing was taking place after a gap during which “a peaceful, democratic political transition has taken place in accordance with the Constitution of Pakistan”.Having been elected by the National Assembly, Mian Muhammad Shehbaz Sharif has assumed Office as the 23rd Prime Minister of Pakistan on 11 April.
The Prime Minister has received messages of felicitation from leaders of a large number of countries, including Turkey, China, Saudi Arabia, Russia, Germany, UAE, Iran, Bahrain, United Kingdom, India, Malaysia, Jordan, Bangladesh, Afghanistan, Nepal, Turkmenistan, Kyrgyzstan, Tajikistan and others. The Prime Minster also received a felicitation call from President of the European Union Ursula von der Leyen.
In his inaugural address, the Prime Minister laid particular emphasis on stabilizing the economy, and noted the positive trend in economic indicators in the wake of his assumption of Office.
Highlighting the foreign policy priorities of the new Government, Prime Minister Shehbaz Sharif expressed commitment to reinvigorate relations with major partners. He underscored determination to speed up CPEC projects, terming China as Pakistan’s most reliable friend. The Prime Minister thanked the Saudi leadership for always standing by Pakistan, and appreciated Turkey’s steadfast support on Kashmir. He underscored the special importance attached to Pakistan’s ties with UAE and other Gulf countries, Iran, European Union, and the UK. He stated that Pakistan’s relations with the US should be on the basis of equality. On Afghanistan, the Prime Minister stressed the imperative of peace and increased humanitarian assistance. He reiterated Pakistan’s consistent support for the Palestinians’ right to self-determination.
While noting the desire for good relations with India, the Prime Minister underlined that durable peace cannot be achieved without a just resolution of the Jammu and Kashmir dispute. He reaffirmed Pakistan’s support to the Kashmiri people in their legitimate struggle and the commitment to raise the Kashmir issue at all forums. Prime Minister Sharif counseled the Indian Prime Minister to resolve the Jammu and Kashmir dispute in accordance with the UNSC resolutions and wishes of the Kashmiri people. This, he said, would enable the two countries to focus on the development challenges.
As guided by the Prime Minister, Pakistan will continue to proactively advance our diplomacy and partnerships in all bilateral and multilateral domains to effectively safeguard our national interests and play our role in promoting peace and development in the region and beyond.
He stated that the Prime Minister, accompanied by a high level delegation, will be undertaking an official visit to Saudi Arabia later during the week. More details will be shared subsequently.He stated that Minister of State for Foreign Affairs Hina Rabbani Khar has assumed charge from 19 April 2022.On 20th April, US Congresswoman Ilhan Omar called on the MOS. Importance of Pak-US relations, developments in Afghanistan and deteriorating human rights situation in IIOJK came under discussion. The Congresswoman was on a 4-day visit to Pakistan. During her visit, the US Congresswoman held meetings in Islamabad with the President,Prime Minister and Speaker of the National Assembly. She also visited AJK where she met the President AJK. She also visited Lahore where she undertook a visit to the walled city. She expressed her gratitude for the hospitality extended to her during the visit. She also hoped that her visit will further solidify Pak-US bilateral ties.”She offered to forcefully raise the Kashmir issue in the Congress. He said thatMinister of State Hina Rabbani Khar received calls from Emirati Foreign Minister HH Abdullah bin Zayed Al Nahyan, Bahraini FM HE Dr. Abdullatif bin Rashid Al Zayani and Turkish FM Mevlüt Çavuşoğlu. The Minister of State thanked them for felicitation calls and for their historic and consistent support to Pakistan. Issues of common interest came under discussion. The Ministers agreed to work closely to strengthen fraternal bilateral relations.
On 23 April, British High Commissioner Christian Turner called on the MOS and congratulated her on assuming office. Besides bilateral relations, evolving geopolitical situation & ways to mitigate humanitarian crisis in Afghanistan were discussed.
Minister of State Hina Rabbani Khar also held an interaction with the officers of the Ministry of Foreign Affairs. Foreign Secretary Sohail Mahmood on behalf of all officers accorded a warm welcome to the MOS. The MOS expressed her full confidence in their professional conduct and motivated them to continue working with professional ethos. He further stated that ” We call on the international community to come together to counter Islamophobia and to demonstrate solidarity and commitment to the ideals of building peaceful and harmonious societies.” You would have seen our statement containing strong condemnation of the recent abhorrent act of desecration of the Holy Quran during rallies in Sweden, and the offensive remarks made by a Dutch politician, attacking Islam and the Muslim holy month of Ramadan. Pakistan’s concerns have also been conveyed to the authorities in Sweden and The Netherlands. he added. He stated that On the eve of Baisakhi celebrations, the Pakistan High Commission in New Delhi issued over 2200 visas to Sikh pilgrims from India to participate in the annual festival held in Pakistan from 12-21 April 2022. The visas issued from New Delhi were in addition to the visas granted to Sikh pilgrims participating in these events from other countries.
The pilgrims visited revered sites like Panja Sahib, Nankana Sahib and Kartarpur Sahib. Pakistan takes immense pride in preserving sacred religious places and providing necessary facilitation to the visitors. Marking the occasion, the Prime Minister accorded a warm welcome to the Sikh pilgrims and a spiritually fulfilling yatra. He said that Pakistan has welcomed the establishment of Yemen’s Presidential Leadership Council, upon the successful conclusion of the GCC hosted intra-Yemeni dialogue in Riyadh, and the UN Special Envoy’s announcement of a truce in Yemen. Pakistan considers this an important step in the right direction that will help promote comprehensive political solution to the Yemeni crisis. Pakistan expresses deep concern over the recent spate of terrorist attacks in various parts of Afghanistan over the last few days. The heinous attacks include bomb blasts at mosques in Mazar-e-Sharif and IED blasts in Kabul, Jalalabad, Kunduz and other places. The Government and the people of Pakistan extend deepest sympathies and condolences to the families of those who have lost lives in these terrorist attacks and pray for speedy recovery of those injured. The people of Pakistan stand in strong solidarity with their Afghan brethren in this time of grief.
The situation in the occupied Palestinian territories is of grave concern. Pakistan strongly condemns the raid on Al-Aqsa Mosque and the assault on worshippers, especially during the holy month of Ramadan. This is an egregious violation of all humanitarian norms and human rights laws. In recent weeks, Israeli forces have killed dozens and injured countless Palestinians in the occupied East Jerusalem and other areas. We pray for the earliest recovery of those injured. Pakistan also calls upon the international community to take urgent steps to protect innocent Palestinian lives, and uphold international law and principles of the UN Charter. The Extra-ordinary Meeting of the OIC Executive Committee is being held in Jeddah today to discuss the ongoing Israeli aggression. Pakistan is participating in the meeting as current chair of OIC-CFM.
From one situation of occupation to another, we are also keeping a close watch on the Indian Illegally Occupied Jammu & Kashmir.
You have seen our statement rejecting Indian Prime Minister’s staged visit to IIOJK on 24 April that was yet another ploy to project fake ‘normalcy’ in the occupied territory.
Since 5 August 2019, the international community has witnessed many such desperate attempts by India to divert attention from the actual underlying issues in IIOJK including Indian state-sponsored terrorism as well as widespread violations of human rights and international humanitarian law.
It is not surprising, therefore, that while the Indian Prime Minister was on his brief visit to Jammu under a heavy security cover, the people of IIOJK were observing a ‘black day’ as an expression of their rejection of India’s mischief and illegal policies. You have also seen protests and demonstrations in AJK and other places.
Pakistan has also strongly condemned the laying of foundation stones for the construction of the Rattle and Kwar Hydroelectric Projects (HEP) on Chenab River in IIOJK, and has called upon India to fulfill its obligations under the Indus Waters Treaty and refrain from taking any such steps which are detrimental to the IWT framework.
Pakistan will continue to extend all possible support to the Kashmiris in their just struggle for the right to self-determination as pledged to them by the relevant UN Security Council resolutions.
Pakistan salutes the Kashmiris as they remain undaunted in their determination to stand against India’s oppressive occupation.
Extra-judicial killings continue unabated in IIOJK. During last week, in staged cordon and search operations, seven (7) more Kashmiri youth embraced martyrdom in Shopian and Baramullah districts.Regretfully, 3 more innocent Kashmiri lives have been taken in Pulwama just yesterday.
For the international community, it is extremely alarming that more than 580 innocent Kashmiris have been martyred by the Indian occupation forces since August 2019.
This streak of armed Hindutva majoritarianism is also spreading fast inside India, particularly during the Holy month of Ramadan.
This is exemplified by:

  • the senseless vandalization and burning of more than 40 houses of Muslim community in Karauli, Rajasthan
  • Bulldozing of Muslim-owned properties in Jahangirpuri, New Delhi
  • attempts to hoist the saffron flag & undertake derogatory, provocative sloganeering at the Jamia Masjid
  • brandishing of weapons by the procession of Hanuman Shobha Yatra and the
  • Ram Navami riots across Madhya Pradesh and Gujrat.
    These despicable incidents have re-ignited the horrific memories of the Delhi Pogrom of February 2020 that was aimed to discriminate, dispossess and dehumanize the Muslim community.
    These incidents also reveal the gravity of the state-sanctioned hysteria and hatred in India against Muslims.
    Pakistan calls upon the international community to take immediate notice of the worrying level of Islamophobia in India and impress upon India to prevent systematic human rights violations against minorities particularly Muslims.
    Pakistan also categorically rejects the malicious Indian propaganda regarding the alleged use of the Kartarpur Corridor for business meetings. It is obvious that this concoction is part of India’s deliberate smear campaign seeking to undermine Pakistan’s historic initiative of opening the Kartarpur Sahib Corridor for Sikh pilgrims from India and around the world.

In concluding, let me note that in keeping with Pakistan’s robust and proactive engagement at the multilateral fora, Pakistan has been re-elected earlier during the month to the United Nations’ Committee on Non-Governmental Organizations (NGOs) for the 7th time in New York.
”I thank you and am ready to take questions on these or other foreign policy matters.”he stated.

3 Chinese nationals among 4 dead in suicide attack at Karachi University……By;Asghar Ali Mubarak. .Islamabad

Posted on Updated on

3 Chinese nationals among 4 dead in suicide attack at Karachi University……By;Asghar Ali Mubarak. .Islamabad………….At least four people, including three Chinese nationals, were died while four others were injured in a suicide attack outside the University of Karachi’s (KU) Confucius Institute, officials said on Tuesday. Prime Minister Shehbaz Sharif expressed grief over the blast in a telephone call with the Sindh chief minister. The premier assured Shah of the Centre’s full help and cooperation in dealing with such incidents.Later in the day, the Foreign Office (FO) issued a statement condemning the “reprehensible terrorist attack”.

In a statement, FO spokesperson Asim Iftikhar said the government and the people of Pakistan extend their deepest condolences and sympathies to the families of the victims.

“The law enforcement agencies are investigating the incident to apprehend the culprits and bring them to justice. Local authorities are also providing all possible assistance to the injured,” he said.

The FO spokesperson termed the incident a “direct attack on the Pakistan-China friendship and ongoing cooperation”.

Calling the two countries “close friends” and “iron brothers”, he said Pakistan attached great importance to the safety and security of Chinese nationals, projects and institutions in the country. A spokesperson for the university confirmed that three of the victims were Chinese nationals. They were identified as Confucius Institute Director Huang Guiping, Ding Mupeng, Chen Sai and Khalid, the driver.The spokesperson also identified two of the injured as Wang Yuqing and Hamid. Television footage showed a white van in flames with plumes of smoke rising from its remains while the windows of nearby buildings were shattered. The van appeared to be turning towards the Confucius Institute, located next to the commerce department, when the incident took place. A handout from the CM’s office quoted the officer as saying that the blast took place at approximately 2:30pm.The banned Baloch Liberation Army (BLA) claimed responsibility for the attack. Meanwhile, the Sindh chief minister paid a visit to the Chinese Consulate where he briefed Consul General Li Bijian about the blast.Shah expressed grief over the death of the Chinese nationals, a statement issued by the CM’s office said. The chief minister also assured the Chinese official that the incident would be fully investigated, the statement added.”Those involved in the incident will be brought to justice. We value the services rendered by Chinese experts in the country and the province,” Shah said.”Some elements do not like the partnership between the two countries,” he said, adding that the miscreants behind the incident would be dealt with an iron hand.According to the Prime Minister’s Office (PMO), PM Shehbaz called Shah to collect information about the “terrorist incident”.The prime minister also issued a statement on Twitter, saying that he was “deeply grieved” over the loss of precious lives and termed it a “heinous attack”.
“My heartfelt condolences go to the bereaved families. I strongly condemn this cowardly act of terrorism. The perpetrators will surely be brought to justice,” he said.Foreign minister Bilawal Bhutto-Zardari also condemned the attack and prayed for the lives lost. “Sindh police will soon get to the bottom of the incident,” he said, adding that the perpetrators would be punished.He called for steps to be taken to ensure the safety of Chinese citizens.
“The prime minister said that terrorists are [the] enemies of Pakistan. He vowed to eliminate the remainder of terrorists through collective efforts and unity. He directed for the provision of the best medical facilities to the injured,” the PMO said. More over the Prime Minister of Pakistan , Shahbaz Sharif visited Chinese Embassy in Islamabad and expressed resolve to investigate the terrorist attack on Chinese nationals expeditiously and take the culprits to the task.
During his visit to the embassy, he met Chinese Charge d’Affaires Ms Pang Chunxue. He also wrote a special message of condolence to Chinese President Xi Jinping.
The Prime Minister expressed sorrow and grief over the death of Chinese nationals in a van blast at Karachi University. He said the entire Pakistani nation is in shock and grief over the brutal attack on its Iron Brothers.
He said the people of Pakistan extend their heartfelt sympathies and condolences to the government, people and families of the victims.
Condemning the incident, Shehbaz Sharif expressed Pakistan’s determination to eradicate all forms of terrorism and terrorists from its soil. He said we will not sit idle until criminals are arrested and punished. He said those who took the lives of Chinese nationals will be hanged.
The Prime Minister said that make all arrangements will be made for repatriation of dead bodies and return of injured with honour and respect.
He also ordered to increase the security of Chinese nationals and organizations working in Pakistan. He said no stone will be left unturned to bring the culprits to justice.
Prime Minister Shehbaz Sharif also recorded his impressions in the condolence book at the embassy..

جامعہ کراچی میں خود کش حملہ، تین چینی باشندوں سمیت 4 افراد ھلاک……………………………………(اصغرعلی مبارک

Posted on

جامعہ کراچی میں خود کش حملہ، تین چینی باشندوں سمیت 4 افراد ھلاک……………………………………(اصغرعلی مبارک سے )…………وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے جامعہ کراچی میں ہونے والے وین دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے رپورٹ طلب کر لی ہےکراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے باہر خودکش حملہ کے نتیجے میں تین چینی باشندوں سمیت 4 افرادھلاک اور دیگر 4 زخمی ہو گئے۔ خودکش حملہ تقریباً ڈھائی بجے کراچی یونیورسٹی کی وین میں ہوا۔ خودکش حملہ ایک خاتون نے کیا ایک علیحدگی پسند تنظیم کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، خودکش حملہ باقاعدہ ریکی کے بعدکیا گیا سندھ پولیس کے ترجمان نے تصدیق کی کہ ھلاک افراد میں سے 3 چینی شہری تھے، ان کی شناخت کنفیوشش انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہوانگ گوئپنگ، ڈنگ موپینگ، چین سائی اور ڈرائیور خالد کے نام سے ہوئی۔ترجمان نے بتایا کہ زخمیوں میں وانگ یوکنگ اور حامد شامل ہیں۔محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کےمطابق خود کش حملہ تھا، جس میں دو خواتین سمیت تین غیرملکی اور ایک پاکستانی شہری ھلاک ہوئے ہیں۔خودکش حملہ کرنے کی وجہ سیکیورٹی ہے کیونکہ وین کے اندر موجود افراد کی سیکیورٹی کے لیے موٹر سائیکل سوار رینجرز اہلکار تعینات تھے، جس کی وجہ سے آئی ڈی لگانا مشکل تھا۔حملہ ایک خاتون نے کیا اور ایک علیحدگی پسند تنظیم کی اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے، باقاعدہ ریکی کے بعد اس جگہ پر نشانہ بنایا گیاایڈمنسٹریٹر کے ایم سی اور سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق دھماکا چینی لینگویج انسٹی ٹیوٹ کی وین میں ہوا۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو وزیراعظم شہباز شریف نے فون کیا جس میں وزیر اعلیٰ نے شہباز شریف کو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔وزیر اعظم نے واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ حکومت کو اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کے لیے بھرپور مدد اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو فون کرکے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور واقعے کی تفتیش کے لیے وفاق کی جانب سے مکمل تعاون اور مدد کا یقین دلایا,سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ قیمتی جانوں کے ضیاع پر وہ بہت افسردہ ہیں اور اس حملے کو گھناؤنا قرار دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ جاں بحق افراد کے خاندانوں سے دلی تعزیت کرتا ہوں، دہشت گردی کے اس بزدلانہ فعل کی مذمت کرتا ہوں اور اس کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔وزیراعظم تعزیت کیلئے چینی سفارت خانے گئے پاکستان اور چین دو ایسے ملک ہیں جو دوستی کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ دوستی برسوں پر محیط ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔چین توانائی اور دیگر بہت سے منصوبہ جات میں جن میں سینڈک کا منصوبہ، گوادر پورٹ کا منصوبہ پاکستان کو ریلوے انجن کی فراہمی اور دیگر بے شمار ایسے منصوبہ جات ہیں جن میں پاکستان کو چین کی بھرپور مدد حاصل ہے جس سے پاکستان اور چین دوستی کے ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں

پاکستان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے: ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار ………….. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)……

Image Posted on Updated on

پاکستان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے: ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار ………….. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)……پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ایک بیان میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ پاکستان کی انٹیلی جینس ایجنسیاں دن رات سازشوں کے خلاف کام کر رہی ہیں۔انھوں نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جینس ایجنسیاں اور ادارے بھرپور طریقے سے کام کر رہے ہیں، اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو اسے کام یاب نہیں ہونے دیں گے۔ ترجمان پاک فوج اس سے پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ پاک فوج کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملکی سالمیت کے خلاف کوئی سازش نہ ہونے دے اور اس کا تدارک کرے۔میجر جنرل بابر افتخار نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی۔یادرہےکہ 14 اپریل ، 2022کوپریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل فارمیشن کمانڈرز نے ملکی سلامتی کے حوالے سے لیےگئے اقدامات بالخصوص اندرونی سکیورٹی اور آئین و قانون کی بالادستی کو پیش نظر رکھنے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، ڈیمارش صرف سازش پر نہیں دیے جاتے اور بھی وجوہات ہوتی ہیں۔پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل فارمیشن کمانڈرز نے ملکی سلامتی کے حوالے سے لیےگئے اقدامات بالخصوص اندرونی سکیورٹی اور آئین و قانون کی بالادستی کو پیش نظر رکھنے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا، سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی ، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرہ کار میں رہنا ملکی مفاد میں ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی ، سال کے پہلے تین ماہ 128دہشت گرد ہلاک اور 270گرفتار کیے گئے، پاک فوج کے 168افسران جوان عالمی سطح پر امن کوششوں میں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نےکہا کہ 9 اپریل کی رات وزیراعظم ہاؤس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، اس حوالے سے سب باتیں جھوٹ ہیں ، بی بی سی نے بہت ہی واحیات اسٹوری شائع کی، اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوسکتا، یہ ایک مکمل من گھڑت اسٹوری تھی۔

ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں صدر کے چیمبر میں دو اعلیٰ افسران کی ملاقات سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں، عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں، ہمیں اس معاملے سے باہر رکھا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا، ڈیڈ لاک کے دوران وزیراعظم آفس سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا کہ بیچ بچاؤ کی بات کریں، ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی جس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے، مختلف رفقاء سے بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیراعظم کا استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد واپس لینا اور وزیراعظم کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن تھا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تیسرے آپشن پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ قابل قبول ہے، ہماری طرف سے اپوزیشن سے بات کریں جس پر آرمی چیف پی ڈی ایم کے پاس گزارشات لے کر گئے اور ان کے سامنے یہ گزارش رکھی جس پر سیر حاصل بحث ہوئی لیکن اپوزیشن نے اس پر کہا کہ ہم ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے۔ترجمان پاک فوج نےکہا کہ پاکستان کی بقاصرف اور صرف جمہوریت میں ہے اور اس کا دفاع کرنا سب کا فرض ہے، انفرادی بھی اور اجتماعی بھی اور اس کی طاقت پارلیمنٹ ، سپریم اور مسلح افواج ہیں اور جمہوریت نے ہی پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے، انشاءاللہ پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا۔ان کا کہنا تھا کہ افواہوں کی بنیاد پر بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ، یہ ملک کے مفاد کے سراسر خلاف ہے ، فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں ، نہ یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی نہ اب ہوگی ، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دھمکیوں کے خلاف دن رات کام کررہی ہیں ، پاکستان کی طرف کسی نے بھی میلی آنکھ سے دیکھا تو اسے نکال دیں گے ، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ غیرسفارتی زبان استعمال کی گئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، کوئی ضمنی انتخاب کوئی بلدیاتی انتخاب اٹھالیں، کوئی مداخلت نہیں، پہلے کہا جاتا تھا کالز آتی ہیں، اگر کوئی ثبوت ہے کہ ہم نے مداخلت کی تو سامنے لائیں، انتشار کے لیے ریٹائرڈ افسران کے جعلی آڈیو پیغام پھیلائے جارہے ہیں، پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف متعلقہ ادارے کارروائی کررہے ہیں۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف نہ تو مدت میں توسیع طلب کررہے ہیں اور قبول کریں گے، آرمی چیف اس سال 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہوجائیں گے، آرمی چیف کی اپوزیشن سے پاکستان یا بیرون ملک ملاقاتوں کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ۔شہباز شریف کی بطور وزیراعظم تقریب حلف برداری میں آرمی چیف کے شریک نہ ہونے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کی اس روز طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ امریکا کی جانب سے فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ ہوتا تو جواب انکار میں ہی ہوتا، ملک کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں، ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، ایٹمی اثاثےکسی ایک سیاسی قیادت سےمنسلک نہیں، اب تک جتنی حکومتیں آئیں ایمانداری سے انہوں نے اسےآگے بڑھایا، پاکستان کےایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فوج میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ،پوری فوج لیڈرشپ پر فخر کرتی ہے، فوج یونٹی آف کمانڈ پر چلتی ہے، جس طرف آرمی چیف دیکھتا ہے، سات لاکھ فوج ادھر دیکھتی ہے، فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، فوج مستقبل میں بھی آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔نہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا مہم سےمتعلق بہت ساری معلومات آچکی ہیں، سوشل میڈیا کیلئے کچھ قانون ہیں،ان پر عمل کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے، آرمی چیف جس ادارے کے سربراہ ہیں وہ حکومت کے ماتحت ہے، فوج کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال ملکی مفاد میں نہیں،ادارےکےسربراہ کے خلاف کوئی بات ہوئی توحکومت کی ذمہ داری ہے کہ کارروائی کرے،ہمیں اپنی سوسائٹی کوانسولیٹ کرنےکیلئے بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، ہماری فوج ڈس انفارمیشن مہم کا بہت بڑا ٹارگٹ ہے، سوسائٹی کو سوشل میڈیاکے اثرات سے بچانے کیلئے بہت مربوط اقدامات کرنا ہوں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جس دن وزیراعظم نے حلف لیا اسٹاک مارکیٹ میں اوپرگئی اور ڈالر نیچےگیا، یہ ایک طرح کامعاشی استحکام لگتاہے ، سی پیک بہت بڑا اسٹریٹجک پراجیکٹ ہے، ٹی ٹی پی سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ، فوج نے ٹی ٹی پی کو کافی نقصان پہنچایا ہے

افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں تیزی………..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…

Posted on

افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں تیزی………..(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….. افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں تیزی آ گئی ہے ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملوں میں اضافہ کیا ہے تاہم یہ زیادہ تر حملے پاکستان افغانستان بارڈر کے قریب کیے گئے ہیں۔ ٹی ٹی پی زیادہ تر سرحدی علاقے میں متحرک ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں جہاں سے ان کا صفایا کیا جا چکا تھا وہ وہاں دوبارہ متحرک ہونے کی کوشش میں ہے۔شمالی وزیرستان میں افغانستان سے دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں تین پاکستانی فوجی شہید ہو گئے۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران جہلم کے 30سالہ حوالدار تیمور، اٹک کے 38سالہ نائیک شعیب اور سیالکوٹ کے 24سالہ سپاہی ثاقب نواز نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج دہشت گردی کی لعنت کے خلاف پاکستانی سرحدوں کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور ہمارے بہادر جوانوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق بین الاقوامی سرحد کے اس پار افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کے ضلع دیواگر کے علاقے میں پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کی جس کا پاکستانی فوجیوں نے مناسب انداز میں جواب دیا۔ مصدقہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق پاکستانی فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے دہشت گردوں کو بھاری جانی نقصان پہنچا۔ تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی روابط ہیں اور یہ پاک افغان سرحد پر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس عسکری گروہ نے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے گزشتہ چند روز میں پاک۔افغان سرحد پر واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کو سرحد پار سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، افغانستان سے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان پر مسلسل حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔رواں ماہ 14اپریل کو شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے دو حملوں میں 8 فوجی جوان شہید ہوگئے تھے۔شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں 7 فوجی شہید ہوئے تھے۔دوسرے واقعے میں ضلع کے علاقے عشام میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان جھڑپ میں ایک سپاہی شہید ہوگیا تھا۔دفتر خارجہ نے افغان سرزمین سے پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت سے پاک-افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔ ایک روز قبل افغان ناظم الامور کو دفترخارجہ طلب کرکے دونوں واقعات پر احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا۔پاکستان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی میں استعمال ہونے سے روکے اور ایسے واقعات دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا، ”پاکستان افغانستان کی خود مختار حکومت سے درخواست کرتا ہے کہ وہ پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے اور پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔‘‘گزشتہ ماہ تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائی شروع کرے گی۔ ٹی ٹی پی پاکستانی حکام پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دے، جب کہ افغان طالبان کی جانب سے غیر ملکی جنگجوؤں کو افغانستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے حالیہ کچھ مہینوں کے دوران پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔ یہ عسکریت پسند پاک افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں رہتے ہیں اور وہاں سے ہی منظم ہو کر پاکستانی فوج پر حملے کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی طالبان کے نظریات بھی افغان طالبان کے نظریات سے بہت ملتے جلتے ہیں لیکن پاکستانی طالبان پاکستان کے اندر ویسا ہی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ افغان طالبان نے اپنے ملک میں نافذ کیا ہے۔پاکستانی فوج نے چھ سال جاری رہنے والے عسکری آپریشنز کے ذریعے اس تنظیم کا قلع قمع کیا۔ لہذا فل الحال اس تنظیم کے پاس ایک مرتبہ پھر طاقت ور حملے کرنے کی صلاحیت تو نہیں ہے لیکن یہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔” دہشتگروں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کو انسداد دہشت گردی کی کامیاب مہم تصور کیا جاتا ہے۔تحریک طالبان پاکستان کی صلاحیت اب پہلے جیسے نہیںتحریک طالبان پاکستانی ریاست کے خلاف ماضی میں انتہائی طاقتور حملے کر چکی ہے۔ قریب دس سال قبل ٹی ٹی پی اتنی مضبوط تھی کہ ایک وقت میں اس تنظیم نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی قریب ساری ایجنسیوں میں اپنے آپ کو پھیلا لیا تھاپاکستان میں سن 2020 کے مقابلے میں گزشتہ برس دہشت گردانہ حملوں میں 56 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قریب تین سو حملوں میں 395 افراد ہلاک ہوئے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق سن 2021 میں بلوچستان میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے۔ یہاں عسکریت پسندوں کے 104 حملوں میں 177 افراد ہلاک ہوئے۔ دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پاکستانی قبائلی ایجنسیوں کا تھا۔ یہاں 103 حملوں میں 117 افراد ہلاک ہوئے۔‍‍دو ہفتے پہلے بھی پاکستانی طالبان کے ایک حملے میں سات پاکستانی فوجی مارے گئے تھے، جس کے جواب میں پاکستانی فوج نے افغان صوبے کنٹر اور خوست میں حملے کیے تھے۔تب افغان طالبان نے تنبیہ کی تھی کہ پاکستانی فوج دوبارہ ایسی کارروائی نہ کرے۔پاکستان نے افغانستان کی خود مختار حکومت سے کہا ہے کہ وہ پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے اور پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ سال رواں کے دوران خود کش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال رواں کے پہلے تین ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں ایک سو نواسی افراد ہلاک جب کہ ڈھائی سو زخمی ہوئے ۔ دہشت گردی کے واقعات میں پشاور میں سب سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ دوسرے نمبر پر شمالی وزیرستان میں چالیس افراد مارے گئے تحقیقاتی ادارے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے تین ماہ کے مقابلے میں سال رواں کے تین ماہ میں دہشت گردی کے واقعات میں ایک سو تہتر فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ضم قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس دوران پولیس، فوج اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے اہلکاروں سمیت نیم فوجی دستوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اعداد و شمار کے مطابق ان تین مہینوں کے دوران تیرسٹھ مشتبہ دہشت گردوں کو مقابلے مارا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ان دھماکوں میں چند حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے پاکستانی طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ بھی کیا تھا لیکن مقامی طالبان نے پاکستان پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے فائربندی ترک کر دی تھی,طالبان کے کابل پر قبضےکےبعددہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہےسال رواں کے دوران افغانستان کے سرحدی علاقوں میں اس میں مزید تیزی آئی۔ رواں ہفتے کے دوران شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز پر مسلسل حملے ہوئےدس سال سے سیکورٹی فورسز ملک بھر میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اگر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔‘‘اگست میں افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال رہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی کے ساتھ دونوں ممالک کے مابین معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ الزام تراشی اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی فضا بدستور جاری رہی۔معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم تجارتی گذرگاہیں طورخم ،غلام خان، انگور اڈہ، خرلاچی اور دیگر آئے روز ا‌ختلافات کی وجہ سے بند کر دی جاتی ہیں, انگور اڈہ اور اس سے قبل غلام خان سرحد کو ایک ہفتے کی بندش کے بعد پیدل آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا۔ اس سرحدوں کی بندش کی وجہ سے دونوں ممالک کے شہریوں کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تجارت اپنی جگہ ہے لیکن ہمیں اپنی سرزمین کی حفاظت توکرنی ہے یہی ترجیحات ہیں,وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے کے دوران انہوں قبائلی عمائدین سے ملاقات کی اور ان کے مسائل سنے۔ اس دوران کور کمانڈر جنرل فیض حمید نے انہیں علاقائی سیکورٹی کے حوالے سے بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نے قبائلی مشران کو یقین دلایا کہ یہاں کے تمام مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں گے۔ دریں اثناء خضدار میں کچلاک قومی شاہراہ کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس صوبے نے جو قربانیاں دی ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی ہے، اپنے پیاروں کی لاشوں کو اٹھایا اور یقیناً اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری بہادری افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قربانیاں دی اور اس دہشت گردی کو روکا اور شکست فاش دی، وہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی نے پھر سر اٹھایا ہے، جس کی وجوہات ہم اچھی طرح جانتے ہیں، مجھے کوئی شک نہیں ہماری باہمی کاوشوں اور یک جہتی سے اس کو دوبارہ شکست فاش دیں گے، شرط یہ ہے قوم کے اندر اتحاد، اتفاق اور یک جہتی ہو، فیصلے کرنے کی قوت ارادری ہو۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان ناظم الامور کو طلب کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی میں استعمال ہونے سے روکے اور ایسے واقعات دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا، ”پاکستان افغانستان کی خود مختار حکومت سے درخواست کرتا ہے کہ وہ پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے اور پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ بلوچستان….پسماندگی دور کرنےکیلئے اہم اعلانات۔۔۔…. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….

Posted on

وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ بلوچستان….پسماندگی دور کرنےکیلئے اہم اعلانات۔۔۔…. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…..بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، قدرتی ذخائر اور معدنیات کے اعتبار سے بھی مالامال ہے لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسائل اور پسماندگی کے اعتبار سے بھی بلوچستان ہی سرفہرست ہے، پورے پاکستان کو گیس کی سہولت فراہم کرنے والے بلوچستان کے اکثر علاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں، قیمتی پتھر اور سونے کے ذخائر کا کوئی حساب ہی نہیں ہے، جس قدر معدنیات بلوچستان میں ہیں اگر دنیا کے کسی دوسرے خطے میں موجود ہوتیں تو ان کا شمار دنیا کے امیرترین ممالک میں ہوتا، لیکن بلوچستان کے کئی علاقوں میں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے، بچے اسکول کی عمارت سے محروم جبکہ پختہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے عوام سفر میں مشکلات اُٹھانے پر مجبور ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ بلوچستان کے علاقےمیں پسماندگی دور کرنےکیلئے اہم اعلانات کیے ہیں۔جس سے امید ہے کہ خوش حالی کادور جلد شروع ہوجائےگا,خضدار میں کچلاک قومی شاہراہ کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بلوچستان کی محرومیوں سے کوئی اختلاف نہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ صوبہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج یہاں کی محرومیوں اور مشکلات میں جو چیز ایک اور مشکل پیدا کر رہی ہے وہ ایک ایسا بیانیہ ہے کہ شمالی بلوچستان اور جنوبی بلوچستان، میں نے اپنے بلوچ اور پشتون بھائیوں سے بات کی ہے کہ خدارا اس بیانیے کو ترک کریں اور یہ کہیں کہ بلوچستان کے جس حصے میں بنیادی سہولتیں مفقود ہیں، جہاں انانصافی ہے، سڑکیں نہیں، ترقی بالکل مفقود ہے، وہاں دور دور تک خوش حالی کے آثار نہیں ہیں، چاہے وہ بلوچستان کے جس حصے میں ہوں وہ جنوب میں ہوں سو بسم اللہ آگے بڑھ کر ان مسائل کو حل کریں گے، وہ شمالی علاقے ہیں سو بسم اللہ آگے بڑھ کر حل کریں گے لیکن اس کی بنیاد یہ ہے کہ جہاں پر ترقی کا راستہ اور سفر تھم چکا ہے وہاں اپنی تمام قوت اور اجتماعی بصیرت اور وسائل وہاں پر جھونکنے ہیں۔ واضع رہےکہ طویل کٹھن اور صبر آزما جدوجہد کے بعد جب 1970میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تو عام بلوچستانی کا یہ خیال تھا کہ اب سب دکھ درد دور ہوں گے اور ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ ہوگا لیکن کیا ہوا، کیوں ہوا اور اس 52سال پر محیط عرصے میں کس وفاقی حکومت کا رویہ ہمدردانہ یا کس کا قبضہ گیری والا رہا۔ 70کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو ملک بڑے مسائل سے دوچار تھا۔ جلد ہی صوبے میں مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی۔ تاہم پیپلز پارٹی لیڈر شپ نے بلوچستان میں تعلیم کو فوکس کیا۔ ایک دور اندیش لیڈر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کو تعلیم کی اہمیت کا پتا تھا۔ انہوں نے بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں ہائی اسکول اور انٹر کالجز بنوائے۔ پھر آمریت کا دور شروع ہوتا ہے لیکن اس دور کا تعلیم کے میدان میں کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نظر سے نہیں گزرا۔ آمریت کے دن ختم ہوئے اور کہنے کو جمہوری حکومتوں نے اپنا سفر شروع کیا۔ آج اگر آپ عام بلوچستانی سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے بارے میں رائے لیں تو ہر ایک یہ کہے گا کہ پیپلز پارٹی بلوچستان کی زیادہ ہمدرد رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن نے وفاقی جماعت کے بجائے ایک بڑے صوبے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی۔ پیپلزپارٹی کے دور میں این ایف سی ایوارڈ ہوا اور اس میں بلوچستان کا حصہ بڑھانے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔ آغازِ حقوقِ بلوچستان کا تمام تر کریڈٹ بھی پیپلز پارٹی کو جاتا ہے۔ اگر بطور صوبہ بلوچستان کو کبھی مالی نقصان ہوا ہے تو وہ دور مسلم لیگ نون کی حکومت کا تھا جس نے بلوچستان کی غربت، محرومیوں، پسماندگی کے باوجود اسے ساتھ لے کر چلنے والی نظر سے کبھی نہیں دیکھا سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ، جس کا بلوچستان کے بغیر تصور ہی ناممکن ہے ،اس کے منصوبوں سے بلوچستان کو آوٹ کرنے کا کریڈٹ بھی مسلم لیگ ن نے اپنے نام کرایا لیکن امید ہےکہ اب ماضی کی غفلت و کوتاہیوں کاازالہ کیاجاسکےگااس صوبے میں ترقی شروع ہوجائےگی اگلے روز دورہ بلوچستان میں وزیر اعظم شہبازشریف کا کہناتھاکہ میرے لیے اہم دن ہے کہ پاکستان کے اس صوبے کے دارالحکومت میں موجود ہوں جہاں قائداعظم نے عمائدین بلوچستان سے خطاب کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم کے ارشادات کو نوجوان بہت غور و فکر سے سن رہے تھے، جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس عظیم صوبے کے عظیم سرداروں اور عمائدین نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اپنی دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ اسی شہر میں پاکستان کے ساتھ والہانہ الحاق کا اعلان کیا۔یہ وہ صوبہ ہے جہاں خود بلوچ، پشتونون اور دیگر قوموں کا صوبہ ہے، جغرافیائی لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا لیکن آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، اس کے باوجود بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے حوالے سے یہ صوبہ بہت پیچھے رہ گیا، سوئی سے گیس نکلے تو پورا پاکستان مستفید ہو مگر یہاں کے باسی محروم ہے, جو فائدہ اس قدرتی دولت سے اس صوبے کے لوگوں کو حاصل ہونا تھا وہ 50 کی دہائی سے اب تک آٹے میں نمک کے برابر ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس صوبے کو اللہ نے جو عنایات کی ہیں، اس کا ہم فائدہ نہ اٹھا سکے اور دیگر صوبوں کو نہ پہنچا سکے بلکہ منصوبے قانونی مسائل میں ہیں اور اربوں روپے وکیلوں اور دیگر مد میں ضائع ہوگئے جبکہ کئی سال لگے اور ہماری اجتماعی بصیرت ناکام ہوگئی، اپنی اجتماعی کارکردگی میں ناکام رہے۔ یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیا ہم ماضی میں جھانکتے رہیں گے، آہ و بکا کرتے رہیں گے یا ماضی سے سبق حاصل کرکے اتفاق اور اتحاد کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس صوبے نے جو قربانیاں دی ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی ہے، اپنے پیاروں کی لاشوں کو اٹھایا اور یقیناً اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری بہادری افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قربانیاں دی اور اس دہشت گردی کو روکا اور شکست فاش دی، وہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی نے پھر سر اٹھایا ہے، جس کی وجوہات ہم اچھی طرح جانتے ہیں، مجھے کوئی شک نہیں ہماری باہمی کاوشوں اور یک جہتی سے اس کو دوبارہ شکست فاش دیں گے، شرط یہ ہے قوم کے اندر اتحاد، اتفاق اور یک جہتی ہو، فیصلے کرنے کی قوت ارادری ہو۔ان کا کہنا تھا کہ شمالی بلوچستان اور جنوبی بلوچستان، میں نے اپنے بلوچ اور پشتون بھائیوں سے بات کی ہے کہ خدارا اس بیانیے کو ترک کریں اور یہ کہیں کہ بلوچستان کے جس حصے میں بنیادی سہولتیں مفقود ہیں، جہاں انانصافی ہے، سڑکیں نہیں، ترقی بالکل مفقود ہے، وہاں دور دور تک خوش حالی کے آثار نہیں ہیں، چاہے وہ بلوچستان کے جس حصے میں ہوں وہ جنوب میں ہوں سو بسم اللہ آگے بڑھ کر ان مسائل کو حل کریں گے، وہ شمالی علاقے ہیں سو بسم اللہ آگے بڑھ کر حل کریں گے لیکن اس کی بنیاد یہ ہے کہ جہاں پر ترقی کا راستہ اور سفر تھم چکا ہے وہاں اپنی تمام قوت اور اجتماعی بصیرت اور وسائل وہاں پر جھونکنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے زعما سے باتیں کی ہیں، امن و امان پر بریفنگ لی ہیں، ترقیاتی منصوبوں پر ملاقات کی ہے اور اراکین اسمبلی سے گفتگو ہوئی ہے اور وہ بلوچستان کے مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں کہ ترقیاتی کام اور خوش حالی کے معاملات بہت ضروری ہیں لیکن ہمارے اور بھی مسائل ہیں جو دوسرے صوبوں میں نہ ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ زعما لاپتا افراد کی بات کر رہے ہیں، صرف سیاسی رہنماؤں نے نہیں بلکہ آج یہاں وکلا نے اس بات کو اٹھایا کہ ہمیں آپ سے توقعات ہیں اور کہتے ہیں ترقیاتی کام بہت ضروری ہیں لیکن اس سے ہٹ کر یہ جو دوسرے مسائل ہیں، لاپتا افراد اور مسائل ان کو حل کریں۔ان کا کہنا تھا کہ میں گزارش کر رہا ہوں اس میں سب سے بڑھ کر سردار اخترجان مینگل تاکید کے ساتھ بار بار ذکر کرتے ہیں اور میں اس کے لیے خلوص دل کے ساتھ آواز اٹھاؤں گا اور جو بھی اس حوالے سے لوگ بااختیار ہیں،جن کی ذمہ داری ہے، ان سے بات کریں گے، قاعدے، قانون اور میرٹ کے اوپر ی ہبات کریں گے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو کیونکہ یہ بات ہم انصاف اور قانون کے مطابق حل نہیں کر پاتے تو یہاں پھر اس طرح کی محرومی اور مایوسی موجود رہے گی باوجود کہ ہم دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں۔شہباز شریف نے کہا کہ میں اپنے بلوچ اور پشتون بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے لیے آپ کے ساتھ کوشاں ہوں گے اور انصاف کی بنیاد پر اس اس مسئلے کو حل کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔کچلاک قومی شاہراہ سے متعلق بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ آج اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، خضدار اور کچلاک اس شاہراہ کا حصہ ہے جو کراچی اور لسبیلہ سے لے کر چمن کا حصہ ہے جو تقریبا 760 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہر ایک نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم اس کو خونی سڑک کہتے ہیں اور یہاں آئے روز حادثے ہوتے ہیں اور لوگ اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں، اس سیکشن کا سنگ بنیاد رکھا ہے اور مجموعی سیکشن 303 کلومیٹر کا ہے۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین این ایچ اے اور وزیرمواصلات اور وزیراعلی موجود ہیں تو اگر یہ واقعی خونی سڑک ہے تو خدارا اس سے خون خشک کرکے ایک خوشحالی کی سڑک بنانے میں ذرا بھی تاخیر سے کام نہ لیں۔ان کا کہنا تھا کہ لسبیلہ یا چمن سے شروع کریں، اکٹھا یہ منصوبہ شروع کریں، لسبیلہ سے چمن تک، منصوبوں کے لیے احسن اقبال سے دستہ بستہ گزارش ہے اور سیکریٹری کو اس پر تبادلہ خیال کرنے کا کہا ہے اور پیر کو اس منصوبے پر بات ہو۔وزیراعظم نے کہا کہ اس سیکشن کی فنڈنگ اور ٹینڈرز ہو چکے ہیں، بلوچستان کے منصوبے بند پڑے ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں، اربوں روپے لگ گئے لیکن نظر نہیں آتے ہیں تو ہم اس کی شروعات اعلیٰ سطح پر کریں۔نہوں نے چیئرمین این ایچ اے کو ہدایت کی کہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے منصوبے پر کام شروع کریں اور پاکستان کے مایہ ناز ٹھیکیداروں کے حوالے کریں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ 200 ارب روپے کا منصوبہ ہے اور پہلا سیکشن 18 ارب روپے ہے لیکن پورا سیکشن 81 ارب کا ہے اور لسبیلہ تک 200 ارب روپے کا منصوبہ ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم پیسہ کہاں سے آئے گا لیکن وعدہ کرتا ہوں کہ میں الٹا ہوں سیدھا ہوں کم ترین وقت میں پیسہ لے کر آؤں گا اور کم ترین وقت میں اس کو مکمل کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال میں کراچی سے چمن تک یہ منصوبہ مکمل کرنا ہے، یہ سب کے لیے چیلنج ہے، اس دوران ہم پیسے بھی لے کر آئیں اور ہماری حکومت کی آئینی مدت بھی ڈیڑھ سال ہے۔ہ پنجاب اور سندھ، خیبرپختونخوا کے لیے پیسے لا سکتے ہیں ہم بلوچستان کے لیے پیسے کیوں نہیں لاسکتے، میرے ذہن میں منصوبے چل رہے ہیں وہ بھی اللہ کرے تو ہم لے کر آئیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ کئی سال سے اس قوم کے اربوں روپے ضائع ہوگئے، یہاں خط غربت سے نیچے کی آبادی کو بھی پورا حصہ نہیں مل رہا کہ یہ ان کو فنڈز ملیں اور غربت کی لکیر سے اوپر آئیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ بلوچستان کی غربت مٹانے اور کم کرنے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے حوالے سے 5 لاکھ خاندانوں کے لیے اضافی پروگرام کا اعلان کر رہا ہوں، جس پر شاید 10 ارب خرچ ہوں گے لیکن فی الفور جاری کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ شرط یہ ہے کہ پیسہ ان خاندانوں کو جائے گا، یہ پہلے تین مہینوں تک استثنیٰ ہوگا لیکن اس کے بعد شرط ہوگی کہ وہ اپنے بچیوں اور بچوں کو اسکولوں میں بھجوائیں گے، جو خاندان اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوائے گا اس کے لیے یہ پروگرام بند ہوجائے گا۔شہباز شریف نے کہا کہ یہ ایک اتحادی حکومت ہے اور بہت بڑا چیلنج ہے، اگر ان رہنماؤں میں خلوص ہے تو مل کر ہم ایک تاریخ رقم کرسکتے ہیں کہ صرف اس صوبے کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے ترقی کا پروگرام آگے لے کر چلیں,وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں کوئٹہ میں میٹرو بس کا پروگرام ترتیب دیا تھا وہ ادھورا رہ گیا تھا، اس کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کریں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں ان کو لیپ ٹاپ کا پروگرام بڑی تیزی سے آگے پھیلائیں گے تاکہ ان کے پاس بندوق نہیں لیپ ٹاپ آئیں گے۔شہباز شریف نے کوئٹہ یا جہاں بھی وزیراعلیٰ کہیں گے ٹیکنیکل یونیورسٹی تحفے کے طور پر دیں گے تاکہ اپنے بچے اور بچوں کے لیے ایک شان دار یونیورسٹی ہو۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقابلہ کسی پاکستانی یونیورسٹی سے نہ ہو بلکہ یہ اعلیٰ اور ممتاز تعلیمی ادارہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں میٹرو بس ممکن ہے تو اس پر ہم تیزی سے کام شروع کریں۔واضع رہےکہ صوبہ بلوچستان نے قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس جلد از جلد طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس مرتبہ آبادی کے علاوہ رقبہ پسماندگی اور محصولات کو بھی مد نظر رکھا جائے وگرنہ بلوچستان یونہی پسماندہ رہے گا۔

تحریک انصاف حکومت کو ہٹانے میں کوئی سازش ثابت نہیں……….(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…..

Posted on

.تحریک انصاف حکومت کو ہٹانے میں کوئی سازش ثابت نہیں……….(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….. قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا ہے عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا 38 واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق سفیر پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی۔وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر تبادلہ خیال کیا، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر نے اپنے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں کمیٹی کو آگاہ کیا۔اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، وزیر منصوبہ بندی، وزیر مملکت حنا ربانی کھر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، نیول چیف اور سربراہ پاک فضائیہ نے بھی شرکت کی۔جاری اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کے مواد کا جائزہ لیا اور کمیٹی کی آخری میٹنگ کے فیصلوں کی توثیق کی۔وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔قومی سلامتی کمیٹی میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔خیال رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی ملک کے سیکیورٹی معاملات اور امور پر رابطہ کاری کے لیے اعلیٰ ترین فورم ہے
..عام تاثر یہ ہےکہ عمران خان کی چھٹی کی بڑی وجہ مہنگائی ہے سازش کا بیانہ درست نہ تھا پاکستان کی فوج کے ترجمان ادارے کے سربراہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس کئی لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حالیہ چند دنوں میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں سڑکوں سے لے کر سوشل میڈیا تک فوجی قیادت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس سے کئی سوالوں نے جنم لیا جنرل بابر افتخار نے کئی اہم معاملات پر لب کشائی کی جن میں ایک مبینہ غیر ملکی سازش کا معاملہ تھا جسے عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے اور اب حکومت جانے کے بعد بھی اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہی ایک مناسب وقت تھا اور فوج نے خود کو اس معاملے کے کافی سارے پہلوؤں سے دور کر لیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے مبینہ غیر ملکی سازش اور اس حوالے سے ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس کی کارروائی سے متعلق جواب دیتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فوج نے اس حوالے سے اپنا مؤقف میٹنگ میں دیا جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں واضح ہے کہ میٹنگ میں کیا کہا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’اعلامیے کے اندر بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سازش کا لفظ ہے اس اعلامیے میں، میرا نہیں خیال…….۔‘اب جبکہ عمران خان وزیرِاعظم نہیں رہے۔ کئی دنوں کی اعصاب شکن جنگ کے بعداپوزیشن اتحاد نے عدم اعتماد کے ذریعے9 اپریل کی رات عمران خان کو ان کے منصب سے ہٹا دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کی حیثیت سے سابق وزیراعظم عمران خان کے مشکل دن شروع ہوچکے ہیں.ی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تھی۔ ایک طرف جہاں متحدہ اپوزیشن اس کامیابی پر جشن منا رہی ہے تو وہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صفوں میں شدید غم و غصہ بھی ہے۔بطور حکمران جماعت ساڑھے 3 سالوں میں پی ٹی آئی کی کوئی کامیابی نظرنہیں آتی اگر کوئی کامیابی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر ہے۔سوشل میڈیا ٹیم انہیں روزانہ سوشل میڈیا پر ہیرو اور ملک کے مسیحا کے طور پر پیش کرتی رہی.مہنگائی کے مقابلے میں جب عوام کو امدادی رقوم بھی نہیں ملیں تو لوگ بدگمان ہوگئے۔ رہی سہی کسر روز بڑھتی مہنگائی نے پوری کردی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کی حیثیت سے سابق وزیراعظم عمران خان کے مشکل دن شروع ہوچکے ہیں۔عام تاثریہ ہے کہ عمران خان کا زوال ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اپوزیشن اتحاد کےلوگ یہ ہی کہتے ہیں کہ عمران خان نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔آراء میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ملک کا اقتدار ان کے پاس تھا اس دوران وہ بدقسمتی سے اپنی حیثیت اور ایک سیاسی شخصیت کے طور پر ان کے کردار کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ کرکٹ اور سفارتکاری مختلف چیزیں ہیں اور اب انہیں کرکٹ سے زیادہ سفارتکاری کرنی ہے۔ جس طرح انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا اس پر ملک میں اور بیرون ملک مقیم ان کے مداحوں کو افسوس ہے۔عمران خان نے اپنے وعدے پورے کیے ہوتے تو شاید وہ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے جانے والے ملک کے پہلے وزیرِاعظم بننے کی ہزیمت سے بچ جاتے۔ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو وزیراعظم عمران خان کو درپیش متعدد چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج معیشت کا میدان تھا۔ الیکشن سے قبل انتخابی مہم اور اس سے پہلے اپوزیشن میں رہتے ہوئے انھوں نے کئی ایسے وعدے اور اعلانات کیے تھے جن کو اب عملی جامہ پہنانے کا موقع ان کے ہاتھ آ چکا تھا۔لیکن تحریک انصاف کو آغاز سے ہی معاشی حکمت عملی پر مشکلات کا سامنا رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نے تین وزرائے خزانہ بھی تبدیل کیے جن میں پہلے اسد عمر، پھر حفیظ شیخ اور آخر میں شوکت ترین کو وزیر خزانہ لگایا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اگست 2018 میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر تقریبا 124 روپے 18پیسے کا ہو چکا تھا۔ لیکن تحریک انصاف کے دور میں روپے کی قدر میں تیزرفتاری سے کمی آئی اور ڈالر کا ریٹ بڑھتا گیادسمبر 2021 تک ایک امریکی ڈالر 177 پاکستانی روپے کے برابر تھا جو 30 فیصد گراوٹ کے ساتھ ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ تھا۔ اپریل 2022 میں امریکی ڈالر نے ملک میں جاری سیاسی بحران کے سائے میں ایک بار پھر اڑان بھری اور نو اپریل کو اوپن مارکیٹ میں 186 سے بھی تجاوز کر چکا تھا جس کے بعد بتدریج کمی آئی اور آج کی تاریخ میں ڈالر کی قدر 184 روپے کی ہے۔ اگست 2018 میں پاکستان ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ایک کلو چینی کی اوسط قیمت 55 روپے 71 پیسے تھی۔ اپریل 2022 میں ایک کلو چینی کی قیمت 86 روپے 62 پیسے تھی جو تقریبا 55 فیصد اضافہ ہے۔ 20 کلو آٹے کا تھیلا 777 روپے میں دستیاب تھا۔ یہ قیمت اپریل 2022 میں بڑھ کر 1172 روپے ہو چکی تھی جو 52 فیصد کا اضافہ ہے۔ ٹماٹر اور پیاز تحریک انصاف حکومت کے آغاز پر 70 روپے 53 پیسے اور 44 روپے 6 پیسے فی کلو دستیاب تھے جب کہ اب یہ قیمت بالترتیب 154 روپے اور 62روپے فی کلو ہے۔ یعنی ٹماٹر کی قیمت میں 118 فیصد اور پیاز کی قیمت میں 42 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک کلو دال مسور کی قیمت 112 روپے 92 پیسے سے بڑھ کر 217 روپے ہوئی جب کہ ایک کلو برائلر چکن کی اوسط قیمت 137 روپے سے بڑھ کر 267روپے ہوئی۔ یعنی دال مسور کی قیمت میں 92 فیصد اور برائلر چکن کی قیمت میں 95 فیصد اضافہ ہوا۔ اس دورانیے میں کھلا دودھ فی لیٹر کی قیمت 85 عشاریہ 46 روپے سے بڑھ کر 117 روپے فی لیٹر تک پہنچی جو کہ 37 فیصد اضافہ تھا جب کہ ڈھائی لیٹر ٹن ویجیٹیبل گھی 473 روپے سے 1210 روپے تک جا پہنچا جو 156 فیصد اضافہ ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 2020 کے بعد پٹرول کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہوا اور 2022 کے آغاز میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 144 روپے 82 پیسہ ہو چکی تھی۔ روس یوکرین تنازعے کے بعد عالمی منڈی میں غیر یقینی نے تیل کی قیمتوں میں مذید اضافہ کیا جس کے بعد 16 فروری 2022 کو پاکستان میں ایک لیٹر پٹرول تقریبا 159 روپے تک جا پہنچاعمران خان نے مارچ میں تیل کی قیمتوں پر سبسڈی کا اعلان کیا جس کے بعد ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 149 روپے 86 پیسے پر برقرار ہے اپوزیشن کے دور میں تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا اگست 2018 میں پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 64 عشاریہ 24 ارب ڈالر تھا۔یکم جنوری 2022 میں پاکستان کے بیرونی قرضے 83 عشاریہ نو ارب ڈالر ہو چکے تھے۔ 2020 کے اواخر میں تجارتی خسارے میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے نومبر 2021 میں پانچ ارب ڈالر تک جا پہنچا اور مارچ 2022 میں تقریبا ساڑھے تین ارب ڈالر تھا۔عمران خان نے پاکستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے طرزِ زندگی کو بہتر بنائیں گے لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوسکا۔ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے بجائے عمران خان نے ان پر تنقید شروع کردی جو انہیں اقتدار میں لائے تھے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی پر تنقید کی۔ انہوں نے مودی کو ہٹلر سے اور ان کی جماعت کو نازیوں سے تشبیہہ دی۔ پھر وہ اپنی تقریروں میں لوگوں کو یہ بتانے لگے کہ بھارت کا سیاسی نظام بہترین ہے۔ یہ بات ان لوگوں کو بالکل اچھی نہیں لگی جو پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی بدلہ لینے اور مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی سیاست بھی کسی کام نہ آئی۔ انہوں نے وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی بات کی لیکن وہ اب بھی برقرار ہے۔ انہوں نے غریبوں کے لیے لاکھوں گھر بنانے کا وعدہ کیا جو پورا نہ ہوا۔ انہوں نے جن صوبوں کا خیال رکھنا تھا اس میں سے کچھ کو انہوں نے بالکل توجہ نہیں دی۔عمران خان نے اپنے محسنوں کو بھی فراموش کردیا۔ انہوں نے جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگوں کو بھلا دیا جنہوں نے عمران خان کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا۔ عمران خان نے انہیں جیلوں میں ڈلوایا اور ان کی تذلیل کی۔اپنی انا اور تکبر سے باہر ہی نہ نکل سکے۔ یہاں تک کہ اس آخری لمحے بھی کہ جب انہیں اقتدار سے بے دخل کیا جارہا تھا تو وہ اپنے تکبر کے باعث عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنے نہیں آئے۔ان میں دوست اور دشمن کی پہچان کی صلاحیت ہوتی تو وہ کامیابی سے اس قوم کی قیادت کرسکتے۔ بدقسمتی سے وہ اپنی اس خامی کو دُور نہ کرسکے اور یہی خامی ان کے زوال کا سبب بنی۔اگرچہ ہمارے نظام نے عمران خان کی جانب سے اٹھائے جانے والے آئینی و قانونی اعتبار سے ہر غلط قدم کا مقابلہ کیا ہے لیکن ملک کو درپیش سیاسی بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔عمران خان کے حامیوں کی تعداد انہیں اقتدار تک پہنچانے کے لیے کافی ہو یا نہ ہو لیکن وہ سڑکوں پر قوت کے اظہار کے لیے کافی ہے۔یہ حمایت عمران خان کو سیاست میں زندہ رکھے گی اور ایک خاطر خواہ قوت بنائے گی۔ ان کے سخت ترین ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں ہونے کے بجائے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کہیں زیادہ مؤثر ہیں۔ یہ اعزاز کبھی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لیے مخصوص تھا تاہم پیپلز پارٹی نے اسے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے کردیا ہے۔ ان کا تشکیل دیا گیا بیرونی سازش کا بیانیہ بھی ان کی مدد نہیں کرے گاعوام کی اکثریت نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے پیچھے امریکی سازش کے نظریے کو مسترد کردیا ہے۔گیلپ پاکستان نے نئے سروے کے نتائج جاری کردیے گئے ،جس میں عوام کی اکثریت نے رائے دی کہ عمران خان کو ہٹانا امریکی سازش نہیں ہے۔سروے میں 66 فیصد نے رائے دی کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ مہنگائی ہے۔گیلپ کے گزشتہ سروے میں 64 فیصد افراد نے مہنگائی کو حکومت کے خاتمے کی وجہ بتایا تھا، حالیہ سروے میں اس تعداد میں مزید 2 فیصد کا اضافہ سامنے آیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے نواز شریف سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کی جماعت اور ان کے اتحادی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ابتدائی دنوں میں نواز شریف کی جانب سے فوج پر کی جانے والی تنقید سے خوش نہیں تھے۔عمران خان نے اقتدار سے اپنی بے دخلی کو بیرونی سازش سے جوڑا اور اس بیانیے کو نہ صرف ان کے حامیوں اور جماعت کے رہنماؤں نے اپنایا بلکہ فروغ بھی دیا۔ ہوسکتا ہے کہ دیگر لوگ بھی اس سے قائل ہوجائیں کیونکہ ماضی میں بھی پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ ان امریکا مخالف جذبات پر بھی پورا اترتا ہے جنہیں خود ریاست بھی تواتر کے ساتھ بھڑکاتی رہی ہے۔بیرونی سازش کے نعرے کی کامیابی یوں بھی نظر آرہی ہے کہ اپوزیشن کو نہ صرف اس پر ردِعمل دینا پڑا بلکہ اپنا دفاع بھی کرنا پڑرہا ہے۔ شہباز شریف کو بھی بحیثیت وزیرِاعظم اپنی پہلی تقریر میں اس معاملے کا ذکر کرنا پڑا اور انہوں نے پارلیمانی تحقیقات کا بھی اعلان کیا۔ عمران خان حکومت کے خاتمے کی سبب امریکی سازش یا مہنگائی بنی ہے۔۔؟پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں ‘سازش’ کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔راولپنڈی میں پریس بریفنگ کے دوران انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سیاسی قیادت میں ڈیڈ لاک کی وجہ سے سابق وزیراعظم عمران خان کے کہنے پر آرمی چیف قبل از وقت انتخابات کروانے کا آپشن لے کر اس وقت کی اپوزیشن کے پاس گئے تھے جس سے انھوں نے انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ فوج نے اس حوالے سے اپنا موقف میٹنگ میں دیا جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں واضح ہے کہ میٹنگ میں کیا کہا گیا تھا۔’اعلامیے کے اندر بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سازش کا لفظ ہے اس اعلامیے میں، میرا نہیں خیال۔‘انھوں نے کہا کہ خفیہ ادارے دن رات سازشوں کے خلاف کام کر رہے ہیں ’اور اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو انشااللہ اس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘۔یاد رہے کہ عمران خان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں تیار ہونے والی یہ ‘سازش’ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ’بے نقاب‘ کی گئی جہاں فوجی سربراہوں کی موجودگی میں اس سازش کی تفصیل بتائی گئی۔انھوں نے کہا تھا کہ ‘نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے مِنٹس میں یہ بات لکھی گئی کہ یہ جو عدم اعتماد آئی ہے اس کی سازش باہر تیار ہوئی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر غیر ملکی سازش نہیں تو دفتر خارجہ نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر دیمارش کیوں جاری کیا تھا؟اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ‘دیمارش (احتجاجی مراسلے) صرف سازش پر نہیں دیے جاتے بلکہ یہ سفارتی عمل کا حصہ ہے

تحریک انصاف حکومت کو ہٹانے میں کوئی سازش ثابت نہیں ہوئی، این ایس سی

Posted on

تحریک انصاف حکومت کو ہٹانے میں کوئی سازش ثابت نہیں ہوئی، این ایس سی……………………………وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا ہے عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا 38 واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق سفیر پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی۔وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر تبادلہ خیال کیا، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر نے اپنے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں کمیٹی کو آگاہ کیا۔اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، وزیر منصوبہ بندی، وزیر مملکت حنا ربانی کھر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، نیول چیف اور سربراہ پاک فضائیہ نے بھی شرکت کی۔

جاری اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کے مواد کا جائزہ لیا اور کمیٹی کی آخری میٹنگ کے فیصلوں کی توثیق کی۔وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔قومی سلامتی کمیٹی میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔خیال رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی ملک کے سیکیورٹی معاملات اور امور پر رابطہ کاری کے لیے اعلیٰ ترین فورم ہے۔