کراچی یونیورسٹی خودکش حملہ;.بلوچستان میں بڑا آپریشن ناگزیر ……اندر کئ بات؛کالم نگار۔۔اصغرعلی مبارک۔۔.

Posted on

…کراچی یونیورسٹی خودکش حملہ;.بلوچستان میں بڑا آپریشن ناگزیر ……اندر کئ بات؛کالم نگار۔۔اصغرعلی مبارک۔۔. …..کراچی یونیورسٹی خودکش حملہ کے بعد بلوچستان میں آپریشن ’رد الفسادکی طرز کا ایک بڑا آپریشن ناگزیر ہوگیاہےخیال رہے کہ 22 فروری 2017کو پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ’رد الفساد‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔آپریشن ’رد الفساد‘ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت لاہور میں سیکیورٹی اجلاس میں کیا گیاتھا ملک بھر کو اسلحہ سے پاک کرنا، بارودی مواد کو قبضے میں لینا آپریشن کے اہم جز ہیں، جبکہ آپریشن کا مقصد ملک بھر میں دہشت گردی کا بلاامتیاز خاتمہ اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا تھا اس سال فروری میں دو مقامات پنجگور اور نوشکی میں بلوچ لیبریشن آرمی نے فرنٹیئرکور کے ہیڈ کوارٹرپر حملہ کیاتھا 72 گھنٹے تک جاری رہنے والےآپریشن میں نو فوجی شہید ہوگئے تھے جبکہ20 دھشتگرد جہنم واصل ہوئے تھے پاکستان میں دہشتگردی کے تانےبانے ہمیشہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے جا ملتے ہیں جنہیں بھارتی خفیہ ادارے ہرقسم کی معاونت فراہم کررہے ہیں جسکے ناقابل تردید ثبوت پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے رکھےہیں۔۔۔پڑوسی ملک بھارت کھلے عام اعتراف کرنے لگا ہے کہ وہ بلوچستان اور فاٹا میں نہ صرف یہ کہ مداخلت کرتے آئے ہیں بلکہ پاکستان کو ’’سبق‘‘ سکھانے کے لئے وہ دوسرے طریقے آزمانے کے علاوہ دہشت گردی کی کھلی معاونت بھی کرتے رہے ہیں۔پاکستان میں ایک بار پھر چینیوں کو نشانہ بنایا گیا ,اس مرتبہ کراچی یونیورسٹی میں واقع چینی انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ کی وین پر حملہ کیا گیا جس میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد مارے گئے جامعہ کراچی میں واقع چینی کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب منگل کو ہونے والے اس دھماکے کے نتیجے میں ایک رینجرز اہلکار سمیت چار افراد زخمی بھی ہوئے۔ واقعے کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیاکراچی یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ شاری بلوچ عرف برمش سرکاری سکول میں استانی اور دو بچوں کی ماں تھیں۔شاری بلوچ کے نزدیکی رشتہ دار نے تصدیق کی ہے کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکہ کرنے والی خاتون ان کی رشتہ دار شاری بلوچ عرف برمش ہی تھیں۔ ان کے مطابق ’خاندان والے سکیورٹی خدشات کے باعث میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں جنہیں ’واقعے کے بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا سے پتہ چلا۔‘محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے افسر نے تصدیق کی کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہونے والا دھماکہ ایک خود کش حملہ تھا، جو ایک سیاہ رنگ کی برقع پوش نوجوان خاتون نے گاڑی کے انتہائی قریب کیا۔دھماکے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون سڑک کنارے کھڑی انتظار کر رہی ہیں اور جیسے ہی وین نزدیک آتی ہے تو ایک دھماکہ ہو جاتا ہے۔حملے کے بعد بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے ٹوئٹر پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ایک خاتون کی مدد سے یہ خودکش دھماکہ کیا گیا۔‘بعد میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون کا نام شاری بلوچ بتایا گیا اور اس کی دو تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ ان میں سے ایک تصویر میں شاری بلوچ کو دو بچوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔شاری بلوچ کے رشتہ دار نے بتایا کہ ’شاری کی عمر تقریباً 30 سال تھی۔ انہوں نے 2014 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا اور 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے زوالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔‘’2019 میں انہیں (شاری بلوچ) محکمہ تعلیم بلوچستان میں سرکاری ملازمت مل گئی اور وہ آخری وقت تک بلوچستان کے شہر تربت سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کلاتک یونین کونسل کے ایک سرکاری سکول گورنمنٹ گرلز مڈل سکول میں استاد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔‘ترجمان بی ایل اے کا کہنا ہے کہ ’شاری نے دو سال قبل مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی اور چھ ماہ قبل انہوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ حملہ کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ اس کے بعد سے وہ اپنے مشن میں سرگرم عمل تھیں۔‘شاری بلوچ کے حوالے سے کہا کہ ’وہ کالج دور سے بی ایس او آزاد کے ساتھ رہیں۔ بعد میں انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ کو جوائن کر لیا۔‘کراچی یونیورسٹی دھماکے کے بعد ایک ٹویٹ وائرل ہوئی، جس میں شاران بلوچ نامی صارف کی جانب سے براہوی زبان میں لکھا تھا: ’رخصت اف اوران سنگت‘۔ جس کا مطب ہے کہ ’وہ جا رہی ہیں ہیں، مگر یہ سنگت چلتی رہے گی۔خیال رہے کہ علیحدگی پسند بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ماضی میں بھی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی یہ کہہ کر مخالفت کرتا رہا ہے کہ مقامی لوگوں کو اس سے فائدہ نہیں ہوتا.یاد رہے کہ اس سے قبل کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ لبریشن آرمی نے ہی قبول کی تھی۔بلوچ علیحدگی پسند ماضی میں بھی چینی حکومت کو خبردار کر چکے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ’سی پیک بلوچ سرزمین اور اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے اور اگر اس منصوبے کو ترک نہیں کیا جاتا تو انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔ پاکستانی طالبان کی طرح اس گروپ نے متعدد مواقع پر چینی شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔چین وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں میں چین پاک اقصادی راہداری منصوبے کے تحت مصروف ہے ‘اب تک چینی شہریوں پر پاکستان میں ہونے والے چند بڑے حملوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے آغاز کے بعد کیے گئے۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں مئی 2004 میں بھی چینی انجینیئرز اور ٹیکنیشنز کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔یہ واقعہ کراچی سے کوئی سات سو کلومیٹر دور تین مئی کو اس وقت پیش آیا جب 12 چینی انجینیئرز اور ٹیکنیشنز کی گاڑی کو ایک ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔اس حملے میں تین چینی انجینیئرز ہلاک ہوئے تھے۔کراچی میں واقعے چینی قونصل خانے کے باہر 23 جولائی 2012 کو ایک بم دھماکہ کیا گیا تھا۔
تاہم اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔کراچی میں 30 مئی 2016 کو گلشن حدید کے علاقے میں ایک چینی انجینیئر کی گاڑی کو ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔اس حملے میں چینی شہری اور ان کے ڈرائیور کو معمولی زخم آئے تھے اور پولیس کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری ’سندھودیش ریوولیشنری پارٹی‘ نامی گروپ نے قبول کی تھی کراچی ہی میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش نومبر 2018 میں اس وقت کی گئی جب چینی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا۔یہ حملہ 23 نومبر 2018 کو ہوا تھا، جو پولیس کے مطابق ناکام بنا دیا گیا تھا۔اس حملے کی کوشش میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں تین حملہ آور، دو عام شہری اور دو پولیس اہلکار شامل تھے۔کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجینیئرز کی ایک بس کو 14 جولائی 2021 کو شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس میں نو چینی شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے کراچی میں پولیس حکام کے مطابق 28 جولائی 2021 کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک چینی شہری زخمی ہو گیا تھا۔ چینی شہری پر فائرنگ کا یہ واقعہ سائٹ ایریا میں گلبائی پل کے نیچے پیش آیا تھابلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 19 اگست 2021 کو چینی انجینیئرز اور کارکنوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔گوادر میں چینی شہریوں پر خود کش حملہ کرنے والا حملہ آور ایران سے پاکستان آیا تھا۔اس حملے میں دو بچے ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔یہ پہلا موقع ہے جب بی ایل اے کی جانب سے خودکش حملہ کسی خاتون عسکریت پسند نے کیا ہو۔خواتین نے طویل عرصے سے دنیا بھر میں حقیقت میں شورش، انقلاب اور جنگ میں حصہ لیا ہے۔ پہلی خاتون خودکش بمبار، ایک 17 سالہ لبنانی لڑکی صنعا ہیدالی کو سیریئن سوشلسٹ نیشنل پارٹی جو ایک سیکولر شام کی حامی تھی نے خود کو لبنان میں ایک اسرائیلی قافلے کے قریب دھماکے سے اڑانے کے لیے 1985 میں بھیجا تھا۔اس حملے میں پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔بعد میں لبنان سے خواتین بمباروں کے واقعات دیگر ممالک جیسے کہ سری لنکا، ترکی، چیچنیا، اسرائیل اور عراق تک پھیل گئے۔2007 تک تقریباً 17 گروپوں میں سے جنہوں نے خود کش بمبار کی حکمت عملی کا استعمال شروع کیا تھا، ان میں سے نصف سے زیادہ خواتین تھیں۔1985 اور 2006 کے درمیان 220 سے زیادہ خواتین خودکش حملہ آور ہوئیں۔ بلوچ مزاحمت میں یہ پہلا ایسا واقعہ ہے۔بلوچ انتہا پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ رواں سال فروری میں بلوچستان کے علاقے نوشکی اور پنجگور پر ایف سی کیمپوں پر حملوں کے بعد ایک بار پھر منظر عام پر آیا تھا۔ لیکن یہ انتہا پسند گروپ نیا نہیں بلکہ گذشتہ چند سالوں میں اس کی کارروایوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے جن میں اکثر و بیشتر پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ مجید بریگیڈ اور اس کے فدائین کا نام پہلی بار اس حملے کے بعد سامنے آیا تھا جب کوئٹہ میں سردیوں کی ایک شام کو ارباب کرم خان روڈ پر ایک کار ایک گھر کے باہر آ کر رکی اور اس کے بعد ایک شدید دھماکہ ہوا۔ یہ گھر سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا اور یہ واقعہ 30 دسمبر 2011 کو پیش آیا تھا۔اس حملے میں شفیق مینگل محفوط رہے جبکہ ان کے محافظوں سمیت 10 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی اور کہا کہ مجید بریگیڈ کی جانب سے فدائی نوجوان درویش نے یہ حملہ کیا تھا۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے ) پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔یہ ستمبر 1970 کے دہائی کے اوائل کی بات جب زمانہ طالب علمی کے دوران راقم الحروف کے والد محترم ڈاکٹر مبارک علی کوئٹہ میں ایک سرکاری اہلکار کی حثیت سے خدمات انجام دے رہےتھے راقم الحروف کا گھر پاور ھاوس کے بالمقابل بابومحلے میں تھا اور ریلوے اسٹیشن کوئٹہ کچھ فاصلے پر تھاکہ 6 ستمبر کے روز ہمیں بتایاگیاکہ قانون نافذ کرنے والےاداروں نے بلوچستان علیحدگی پسند تنظیم کے شرپسندوں کو بھاری اسلحہ کی کھیپ سمیت گرفتارکرلیاھے اور یوم دفاع پر پکڑے گئے اسلحے کو ریلوے اسٹیشن کوئٹہ پر عوام کیلئے نمائش کے لئے رکھاگیاھے راقم الحروف کو یاد ھےکہ تمام پکڑاگیااسلحہ ریل گاڑی کی مسافر بوگیوں کے اندر نشتوں پر رکھاگیاتھابابومحلہ میں واقع ھائی سکول کے طالب علموں اور اپنے استاد محترم عبداللہ صاحب کے ہمراہ ہمیں پہاڑوں پر مطالبات کے لئے چڑھ جانے والے بلوچ عسکریت پسندوں کے بارے میں آگاہی دی گئی۔اگر اس وقت کے زمہ داراں اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے تو بعد میں مشرقی پاکستان کی شورشوں پرقابوپایاجاسکتاتھامگر سیاست دانوں نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہ کیااور ملک دولخت ہوگیافوجی آمر ضیاالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی,پھر سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد سنہ 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کا دائرہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ن حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی۔پاکستان کے صوبے بلوچستان میں سرگرم ایک گوریلا تنظیم جو بلوچستان کی علیحدگی کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اپنے قیام سے ہی یہ بلوچستان میں گیس لائنیں اڑانے، فوج و پولیس پر حملوں اور غیر مقامی افراد پر حملوں میں ملوث رہی ہے۔ حکومت پاکستان کے مطابق اس دہشت گرد تنظیم کے ڈانڈے بھارت سے جا ملتے ہیں۔ میر بالاچ مری اس کا پہلا کمانڈر تھا جو 2008 میں افغانستان میں اتحادی فضائیہ کے ایک حملے میں مارا گیا۔درین اثناءنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گزشتہ روزبیبگر امداد نامی بلوچ طالب علم کو اٹھایا گیا، مبینہ طور پر اس کا تعلق جامعہ کراچی میں ہونے والے دھماکے سے بتایا گیاہے۔بیبگر امداد نامی بلوچ طالب علم نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگلش لٹریچر میں ساتویں سمسٹر کے طالب علم ہیں اور ان کا تعلق کیچ سے ہے، ان کے رشتہ داروں نے ہاسٹل نمبر 7 کا دورہ کیا تھا۔شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک طالب علم نےبتایا کہ سیکیورٹی اداروں کو شک ہے کہ امداد کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے دھماکے میں ملوث ہے، جس میں چینی باشندے ہلاک ہوئے تھے ادھراسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت دی ہے کہ ’بلوچ طلبہ کے ساتھ نسلی پروفائلنگ کا عمل ختم کرنے کی کارروائی یقینی بنائی جائے‘۔خیال رہے کہ بلوچ طلبہ کی جانب سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی گمشدگی پر گزشتہ ماہ سے اسلام آباد میں احتجاج کیا جارہا ہے۔گزشتہ سماعت میں جسٹس اطہر من اللہ نے صدر عارف علوی سے کہا تھا کہ بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ کا تاثر ختم کریں۔بلوچستان کے طالبعلم کی گمشدگی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے مظاہرین کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھااسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مقدمہ واپس لیے جانے پر نمٹا دی تھی, یاد رہے کہ مظاہرین نے بلوچستان کے علاقے خضدار سے ایک طالبعلم کی گمشدگی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا تھاکوہسار پولیس تھانے میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ’مجرمانہ سازش، فسادات، غیر قانونی مجمع، حکم عدولی، ہتک عزت، نقص امن اور پولیس کے خلاف حملے پر اکسانے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین‘ کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔۔طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ایمان مزاری اور احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ سمیت 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نے کہا تھا کہ بادی النظر میں اس ایف آئی آر کو خارج کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کو احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کی شکایات کو دور کرنے کی ہدایت کی تھی اور وکیل ایمان مزاری کی درخواست پر پولیس کو گرفتاریوں سے روک دیا تھا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایس ایس پی صاحب، اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کیا ہو رہا ہے، احتجاج کرنے والے بلوچستان کے طلبہ کی بات سنی جانی چاہیے۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ طلبہ کے احتجاج پر آپ بغاوت کے مقدمے درج کر دیتے ہیں، بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان کی آواز دبائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت یہ سب برداشت نہیں کرے گی کہ اس کی حدود میں کسی کی آواز دبائی جائے، کسی کی بھی بالخصوص بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ کی آواز دبانا درحقیقت بغاوت ہے،عدالت کو بتایا کہ صدر عارف علوی نے طلبہ کو یقین دہانی کروائی تھی تاہم اسلام آباد میں واقع نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز کے طالب علم بیبگر امداد کو گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی سے اٹھایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر دلدار بلوچ نامی ایک اور طالب علم کو کراچی سےاٹھایا گیا۔وکیل نے بتایا کہ ’ ایسا لگتا ہے کہ حکومت بلوچ طلبہ سے متعلق معاملات کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تمام جامعات کو نوٹس جاری کرنا چاہیے کہ بلوچ طلبہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے حال ہی میں بلوچستان کا دورہ کیا تھا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ وفاقی دارالحکومت ہے یہاں فروری سے بلوچ طلبہ سے متعلق درخواست زیر سماعت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ طلبہ ہمارا مستقبل ہیں، کیا عدالت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اپنی آنکھیں بند کر لینی چاہئیں، کیا کابینہ کو علم نہیں ہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے، کیا جو اس وقت کابینہ میں ہیں کل ان کے پاس جا نہیں رہے تھے؟ کیا ان کو نہیں پتا؟انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں یہ سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ حل تلاش کریں ۔سماعت کے دوران ایمان زینب مزاری نے چیف جسٹس اطہر من اللہ سے درخواست کی کہ وہ بلوچ طلبہ کا نقطہ نظر سنیں، اس لیے جج نے بلوچ طالب علم محمد عبداللہ کو عدالت سے بات کرنے کی اجازت دی تھی ۔محمد عبداللہ نے کہا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قائد اعظم یونیورسٹی کے ان طلبہ میں سے ایک ہیں جو وفاقی حکومت کی توجہ اپنی شکایات کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔محمد عبداللہ نے ان حقائق کو تفصیل سے بیان کیا جن کی بنیاد پر یہ تاثر پیدا ہوچکا تھا کہ طلبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے میں سرکاری ادارے ملوث ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج عدالت کے سامنے جو حقائق آئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ تاثر اور خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ ان طلبہ کو سنے جانے کا حق ہے، یہ افسوسناک ہے کہ سرکاری اداروں کا طرز عمل شہریوں، بالخصوص طلبہ کے معاملے میں ان کی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق نہیں پایا گیا، ریاست کو سرکاری اداروں کے ذریعے نوجوان طلبہ اور اس معاملے میں خاص طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔عدالت نے مشاہدہ کیا کہ بلوچستان کے ایک نوجوان طالب علم کے ذریعہ بیان کردہ حقائق تشویشناک اور آئینی طور پر ضمانت شدہ حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں،

TOPSHOTS Pakistani forensics officials gather at the scene following a bomb blast outside the Chinese Consulate in Karachi on July 23, 2012. No casualties we reported in the blast. Security officials are investigating whether it was aimed at the Chinese diplomatic mission. AFP PHOTO/Rizwan TABASSUM (Photo by RIZWAN TABASSUM / AFP)
Cameramen film a damaged van in Gwadar, 04 May 2004, some 700 kms from Karachi, a day after the vehicle carrying 12 Chinese engineers and technicians was hit by the explosion of a explosive-laden Suzuki Alto vehicle blown up by remote control.
A Pakistani policeman stands beside a damaged vehicle in which a Chinese National was travelling, following a roadside bomb attack in Karachi on May 30, 2016. – A Chinese worker and his Pakistani driver were wounded in the bomb attacked in Karachi on May 30,
Pakistani security personnel stand outside the Chinese consulate after an attack in Karachi on November 23, 2018. – At least two policemen were killed when unidentified gunmen stormed the Chinese consulate in the Pakistani port city of Karachi on November 23,

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.