بااصول چیف الیکشن کمشنر عمران خان کی آنکھ کا شتہیر بن گئے ؟………….. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…

Posted on

بااصول چیف الیکشن کمشنر عمران خان کی آنکھ کا شتہیر بن گئے؟ ………….. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….. بااصول چیف الیکشن کمشنر عمران خان کی آنکھ کا شتہیر بن چکے ہیں پی ٹی آئی کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیاھے عمران خان نے کہا ہےکہ الیکشن کمیشن کے سربراہ مسلم لیگ (ن) کے نمائندے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر (ن) لیگ کا نمائندہ ہے، ہم نے اس کے خلاف ایک سوشل میڈیا پر ’سیگنچر کمپین‘ کا آغاز کیا ہے، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ تمام کارکنان الیکشن کمشنر کے خلاف احتجاج اور سوشل میڈیا کیمپئن کا حصہ بنیں۔عمران خان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہیں، ان کے تمام فیصلے ہماری پارٹی کے خلاف تھےانہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرے گی، کیونکہ انہوں نے وقت پر انتخابی حلقوں کی حد بندی مکمل نہ کر کے ‘نااہلی’ کا مظاہرہ کیا، جس سے قبل از وقت انتخابات میں تاخیر ہوئی۔دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہ کہ ان کا استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ “ملک کے بہترین مفادات” میں کام کرتے رہیں گے۔ سکندر سلطان راجہ اپنے نام کی طرح بارعب شخصیت کے مالک ہیں۔ انہیں زیادہ لوگوں میں گھلتے ملتے نہیں دیکھا لیکن جب وہ سیکرٹری سروسز تھے تو افسران کے تقرر وتبادلوں میں مداخلت نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ جو میرٹ پر ہوتا تھا وہی نوٹیفکیشن نکلتا۔ کبھی کسی افسر کا ان کے دفتر سے نکلنے والا نوٹیفکیشن واپس یا منسوخ ہوتے نہیں دیکھاگیا. وہ جلال سکندر سلطان راجہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ 1999 میں سابق جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دوران نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو بھی ان کے خلاف بنائے گئے طیارہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان کے ایک بھائی وصال فخر سلطان راجہ ایڈیشنل آئی جی پولیس پنجاب تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی شادی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری معروف بیوروکریٹ سعید مہدی کی بیٹیوں سے ہوئی تھی.جلال سکندر سلطان راجہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ طیارہ سازش کیس میں گرفتار رہے اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے قریبی دوست رہے ہیں اور مقتدر حلقوں میں بھی اس خاندان کے قریبی تعلقات ہیں,اسی لیے جب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بطور الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا نام تجویز کیا گیا تو سیاسی حلقوں میں تاثر پیدا ہوا کہ حکومت نے شاید غلط فیصلہ کیا، مگرسکندر سلطان راجہ کی مدت ملازمت پانچ سال ہے۔‘ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پنجاب اور وفاق میں مختلف سرکاری عہدوں پر کام کر چکے ہیں، لیکن ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دوران ملازمت کبھی دباؤ قبول نہیں کیا۔سکندر سلطان کے ساتھ کام کرنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اصولوں کی بنیاد پر صوبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا,یہ ہی وجہ ہے کہ 21 جنوری 2020 کو جب سے سکندر سلطان راجہ چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن خبروں میں معمول سے زیادہ اِن ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن کا معاملہ، الیکشن کمیشن کا اختیار واضح طور پر دکھائی دیتا ہے، جو ماضی میں قدرے کم رہا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ان کے کئی معاملات پر اختلافات ماضی میں سامنے آتے رہے ہیں,وہ پنجاب میں بیشتر عہدوں پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی جگہ تعینات ہوتے رہے۔ پنجاب میں تاثر پایا جاتا تھا کہ فواد حسن فواد اور سکندر سلطان راجہ میں بااثر ترین سیکرٹری کا مقابلہ رہا۔کہا جاتا ہے کہ فواد حسن فواد کو صوبے سے وفاق میں بھی ان ہی کی وجہ سے بھجوایا گیا تھا اور انہیں شہباز شریف کیمپ سے بطور پرنسپل سیکرٹری نواز شریف کیمپ میں جانا پڑا تھا۔سکندر سلطان کے ساتھ کام کرنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اصولوں کی بنیاد پر صوبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ پنجاب میں کئی محکموں کے بااختیار سیکرٹری رہنے کے بعد وفاق میں بطور وفاقی سیکرٹری بھی کام کر چکے ہیں۔سکندر سلطان راجہ کو اصولوں سے ہٹانا بہت مشکل کام ہے۔انہوں نے کئی بار مختلف منصوبوں اور افسران کی تقرریوں میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی رائے بھی دلیل سے تبدیل کروائی۔ انہیں کبھی سیاسی اثرات کے تحت فیصلے کرتے یا انہیں تبدیل کرتے نہیں دیکھا گیا۔انہوں نے پنجاب میں دوران سروس وہی کیا جو قانون وضابطے کے مطابق تھا۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی خاص ٹیم کا حصہ رہے، البتہ تیزی کے لحاظ سے وہ بہترین افسر تھے اور انہیں کام لینا آتا تھا۔سکندر سلطان راجہ سیکرٹری سروسز، سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس، سیکرٹری محکمہ صحت، ڈائریکٹر جنرل ایکسائز پنجاب رہے اور ان کی تعیناتی کے دوران ان محکموں کی کارکردگی میں واضح فرق تھا کیونکہ وہ بروقت فیصلہ کرتے تھے اور ماتحت افسران سے کام لینا جانتے تھے۔21 جنوری 2020 کوحکومت اور حزب مخالف کے درمیان نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے سابق بیوروکریٹ سکندر سلطان راجہ کے نام پر اتفاق ہواتھا 22ویں آئینی ترمیم میں یہ معاملہ سامنے آیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان کی تعیناتی کے لیے صرف عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ریٹائرڈ بیورو کریٹس کو بھی ان اہم عہدوں پر تعینات کرنے کی شق منطور کی گئی تھی ,سکندر سلطان راجہ حال سیکرٹری ریلوے کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے اور اس سے پہلے وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگلت بلتسان میں چیف سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔سکندر سلطان راجہ پہلے ریٹائرڈ بیورو کریٹ تھے جنھیں چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا,اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی چیف الیکشن کمشنر آئے تھے ان کا تعلق عدلیہ سے رہا تھا اور سپریم کورٹ کا کوئی حاضر سروس جج ہی قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ دایاں نبھاتا تھا۔سکندر سلطان راجہ بھیرہ کے قریب چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فوج میں میجر تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انتقال کر گئےسکندر سلطان نے آٹھویں تک بھیرہ سے تعلیم حاصل کی اور حسن ابدال کیڈٹ کالج میں داخل ہوئے۔ ایف ایس سی کے بعد انہوں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور ڈاکٹر بننے کے بعد میڈیکل آفیسر بن کر سرگودھا کے ایک گاؤں میں تعینات ہوئے۔اسی دوران سی ایس ایس کی تیاری کی، امتحان دیا اور ڈی ایم جی میں منتخب ہو گئے۔ ان کی پہلی تعیناتی اسلام آباد میں بطور اسسٹنٹ کمشنر تھی۔ وہ مختلف عہدوں پر کام کرنے کے بعد نومبر 2019 میں سیکرٹری ریلوے کی حیثیت سے ریٹائر ہو گئے۔ اس سے پہلے وہ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اور ڈی جی پاسپورٹ بھی رہ چکے ہیں۔ شیخ رشید ان کے کام سے خوش تھے اور انہوں نے عمران خان سے انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ممبر تعینات کرنے کی سفارش کی تھی لیکن عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی مداخلت پر ایسا نہ ہوسکا۔پھر جب چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا وقت آیا تو ان کا نام عمران خان نے تجویز کیا تھا اور اپوزیشن کی رضامندی کے بعد ان کی تعیناتی ہوئی تھی۔ان کا نام حکومت کی جانب سے کیوں تجویز کیا ان سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر ریٹائرڈ ججز کو فیورٹ سمجھا جاتا تھا۔ عمران خان حکومت سے ان کا پہلا اختلاف بلدیاتی الیکشن کے معاملے پر سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے یہ انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا۔ بلدیاتی الیکشن نہ ہوئے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 28 جنوری2021 کو چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیاتھا۔عدالت میں پیشی کے موقع پر جج کے استفسار پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان اور اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بلدیاتی اداروں کی معطلی کو غیر آئینی اقدام تسلیم کیا جس پر وزیر اعظم نے ان کے اس جواب پر اظہار ناراضی بھی کیا تھا۔عمران خان کے دوسرا اختلاف ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں سامنے آیا، جب حکمران پارٹی کے بعض رہنما حلقے میں اپنی مرضی کے ریٹرننگ افسران لگوانا چاہتے تھے، لیکن الیکشن کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔ پولنگ کے اختتام پر 20 پریذائیڈنگ آفیسرز رزلٹ سمیت غائب ہو گئے، جس پر الیکشن کمیشن نے اس حلقے کے نتائج روک کر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تو مسلم لیگ ن کی امیدوار کامیاب ہوگئیں۔الیکشن کمیشن نے تحقیقات کے لیے دو انکوائری کمیٹیاں بھی بنائی تھیںالیکشن کمشنر کے ساتھ تیسرا اختلاف سینیٹ کے مارچ 2021 کے الیکشن کے دوران سامنے آیا جب حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے الیکشن کروانا چاہتی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو انہوں نے حکومتی موقف کے خلاف اوپن بیلٹنگ کو آئین کی شق 226 کے تحت غیر آئینی قرار دیا، جس پر عدالت نے عمران خان حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا۔اس پر بھی عمران خان ناراض ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی تقریروں میں باقاعدہ اس ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور وزرا اسے حکومتی پالیسی سمجھ کر الیکشن کمیشن کے خلاف سرعام بولنے لگے۔چوتھا اختلاف الیکٹورل ریفارمز بل تھا۔ حکومت نے 10 جون 2021 کو قومی اسمبلی سے الیکٹورل ریفارمز بل پاس کرا لیا۔ یہ بل جب الیکشن کمیشن پہنچا تو چیف الیکشن کمشنر نے اس پر 28 اعتراضات اٹھا دیے۔ حکومت نے حلقہ بندیوں اور ووٹرز کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن سے لے کر نادرا کو دے دیا تھا۔جب یہ بل سینیٹ میں رکا توحکومت غیر آئینی شقیں واپس لینے پر مجبور ہوئی۔پھر انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے 29 جولائی 2021 کو انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر عمران خان کو نوٹس جاری کر دیا اور حکومت نے اسے جانب داری قرار دے دیا۔چھٹا اختلاف الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے زریعے انتخابات کرانے کا تھا۔مجوزہ الیکشن ریفارمز بل میں آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے ذریعے کرانے کا اعلان سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اس پر 37 اعتراضات اٹھا دیےای سی پی کے مطابق ای وی ایم کی بڑے پیمانے پر خریداری اور تعیناتی اور آپریٹرز کی بڑی تعداد کو ٹریننگ دینے کے لیے وقت بہت کم ہے، ایک ہی وقت میں ملک بھر میں ای وی ایم متعارف کرانا مناسب نہیں ہے اور قانون کے تحت ضرورت کے مطابق ایک دن میں پولنگ تقریباً ناممکن ہوگی۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ایک پرائیویٹ کمپنی سے تیار کرائی گئی مشینوں پر تمام سیاسی جماعتیں کیسے اعتماد کر سکتی ہیں جبکہ انتخابات سے متعلق انتظامات الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ وزرا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور دو وفاقی وزرا کو الیکشن کمیشن پر بے بنیاد الزامات لگانے پر ای سی پی نےوضاحتی نوٹس بھی جاری کیے۔پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے جو آخری مراحل میں ہے۔چیف الیکشن کمشنر کے ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کی سکندر سلطان راجہ کو دباؤ یا زیر اثر لانے کی کوشش نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ نقصان بھی ہوسکتا ہے۔‘عمران خان شاید اپنے خلاف متوقع فیصلوں کو روکنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو متنازع بناچکے ہیں۔15 ستمبر 2021 کوچیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تعیناتی کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھےکہ آئین کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کو چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔علی عظیم آفریدی وکیل نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سکطان راجہ کی تعیناتی اس نکتے پر چیلنج کی تھی کہ یہ تعیناتی غیر آئینی ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ سینیئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا ٹیکنو کریٹ کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی غیر قانونی ہے اور ترمیم سے پہلے والی شق کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کو ہی ہونا چاہیے۔چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو چیلنج کرنے کے لیے وہی طریقہ کار ہوتا ہے جو کسی بھی جج کی تعیناتی چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘یہاں دو راستے ہیں۔ اگر تعیناتی قوانین کے مطابق نہیں کی گئی تو ہائی کورٹ میں رِٹ ہوگی اور اگر چیف الیکشن کمشنر کسی مِس کنڈکٹ کے مرتکب پائے گئے تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے گا۔‘الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے عندیہ دیا ہے کہ اگر نئی مردم شماری کی جاتی ہے تو اگلے عام انتخابات مئی 2023 سے پہلے ممن نہیں ہوں گے۔ لیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی جانب سے ہونے والی حالیہ تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ادارہ اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے اور کسی دباؤ کے بغیر ملک کے مفاد کی خاطر اس کو جاری رکھے گا۔ای سی پی سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کی جانب سے 18 اپریل کو خط میں کہا گیا ہے کہ ملک کی ساتویں مردم شماری اور خانہ شماری یکم اگست 2022 سے شروع کی جائے گی۔بیان کے مطابق ای سی پی کو نئی مردم شماری کے نتائج 31 دسمبر 2023 تک فراہم کردیے جائیں گے۔ای سی پی نے کہا کہ اس صورت میں 2017 کی مردم شماری کے تحت کی گئیں حلقہ بندیاں غیرمؤثر ہوجائیں گی اور نئی مردم شماری کے تحت یکم جنوری 2023 سے نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی، جو کم ازکم 4 ماہ میں مکمل ہوں گیآئین کے آرتیکل 218 کے تحت وجود میں آنے والے الیکشن کمیشن کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی کا اختیار ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ای سی پی قانونی طور پر پابند ہے کہ ہر مردم شماری کے بعد اور انتخابات سے کم ازکم 4 ماہ پہلے حلقہ بندیوں کا عمل شروع کرے۔لیکشن کمیشن نے کہا کہ ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی پی ٹی آئی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیلزپارٹی (پی پی پی) سے متعلق مبینہ فارن فنڈنگ ریفرینس پر کام کر رہی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے خلاف کیس آخری مراحل میں ہے جہاں جواب دہندہ کے حتمی دلائل جاری ہیں۔پاکستان تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف 26 اپریل کو ملک بھر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے دفاتر کے باہر مظاہرے کئے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر پر ‘جانبدار اور بد دیانت’ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے منحرف اسمبلی ممبران کو ڈی سیٹ کرنے کا اعلامیہ ابھی تک الیکشن کمیشن نے جاری نہیں کیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیاھے دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہ کہ ان کا استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ “ملک کے بہترین مفادات” میں کام کرتے رہیں گے۔

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.