تحریک انصاف حکومت کو ہٹانے میں کوئی سازش ثابت نہیں……….(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…..

Posted on

.تحریک انصاف حکومت کو ہٹانے میں کوئی سازش ثابت نہیں……….(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)….. قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا ہے عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا 38 واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق سفیر پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی۔وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر تبادلہ خیال کیا، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر نے اپنے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں کمیٹی کو آگاہ کیا۔اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، وزیر منصوبہ بندی، وزیر مملکت حنا ربانی کھر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، نیول چیف اور سربراہ پاک فضائیہ نے بھی شرکت کی۔جاری اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کے مواد کا جائزہ لیا اور کمیٹی کی آخری میٹنگ کے فیصلوں کی توثیق کی۔وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔قومی سلامتی کمیٹی میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔خیال رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی ملک کے سیکیورٹی معاملات اور امور پر رابطہ کاری کے لیے اعلیٰ ترین فورم ہے
..عام تاثر یہ ہےکہ عمران خان کی چھٹی کی بڑی وجہ مہنگائی ہے سازش کا بیانہ درست نہ تھا پاکستان کی فوج کے ترجمان ادارے کے سربراہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس کئی لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حالیہ چند دنوں میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں سڑکوں سے لے کر سوشل میڈیا تک فوجی قیادت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس سے کئی سوالوں نے جنم لیا جنرل بابر افتخار نے کئی اہم معاملات پر لب کشائی کی جن میں ایک مبینہ غیر ملکی سازش کا معاملہ تھا جسے عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے اور اب حکومت جانے کے بعد بھی اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہی ایک مناسب وقت تھا اور فوج نے خود کو اس معاملے کے کافی سارے پہلوؤں سے دور کر لیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے مبینہ غیر ملکی سازش اور اس حوالے سے ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس کی کارروائی سے متعلق جواب دیتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فوج نے اس حوالے سے اپنا مؤقف میٹنگ میں دیا جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں واضح ہے کہ میٹنگ میں کیا کہا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’اعلامیے کے اندر بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سازش کا لفظ ہے اس اعلامیے میں، میرا نہیں خیال…….۔‘اب جبکہ عمران خان وزیرِاعظم نہیں رہے۔ کئی دنوں کی اعصاب شکن جنگ کے بعداپوزیشن اتحاد نے عدم اعتماد کے ذریعے9 اپریل کی رات عمران خان کو ان کے منصب سے ہٹا دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کی حیثیت سے سابق وزیراعظم عمران خان کے مشکل دن شروع ہوچکے ہیں.ی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تھی۔ ایک طرف جہاں متحدہ اپوزیشن اس کامیابی پر جشن منا رہی ہے تو وہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صفوں میں شدید غم و غصہ بھی ہے۔بطور حکمران جماعت ساڑھے 3 سالوں میں پی ٹی آئی کی کوئی کامیابی نظرنہیں آتی اگر کوئی کامیابی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر ہے۔سوشل میڈیا ٹیم انہیں روزانہ سوشل میڈیا پر ہیرو اور ملک کے مسیحا کے طور پر پیش کرتی رہی.مہنگائی کے مقابلے میں جب عوام کو امدادی رقوم بھی نہیں ملیں تو لوگ بدگمان ہوگئے۔ رہی سہی کسر روز بڑھتی مہنگائی نے پوری کردی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کی حیثیت سے سابق وزیراعظم عمران خان کے مشکل دن شروع ہوچکے ہیں۔عام تاثریہ ہے کہ عمران خان کا زوال ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اپوزیشن اتحاد کےلوگ یہ ہی کہتے ہیں کہ عمران خان نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔آراء میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ملک کا اقتدار ان کے پاس تھا اس دوران وہ بدقسمتی سے اپنی حیثیت اور ایک سیاسی شخصیت کے طور پر ان کے کردار کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ کرکٹ اور سفارتکاری مختلف چیزیں ہیں اور اب انہیں کرکٹ سے زیادہ سفارتکاری کرنی ہے۔ جس طرح انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا اس پر ملک میں اور بیرون ملک مقیم ان کے مداحوں کو افسوس ہے۔عمران خان نے اپنے وعدے پورے کیے ہوتے تو شاید وہ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے جانے والے ملک کے پہلے وزیرِاعظم بننے کی ہزیمت سے بچ جاتے۔ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو وزیراعظم عمران خان کو درپیش متعدد چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج معیشت کا میدان تھا۔ الیکشن سے قبل انتخابی مہم اور اس سے پہلے اپوزیشن میں رہتے ہوئے انھوں نے کئی ایسے وعدے اور اعلانات کیے تھے جن کو اب عملی جامہ پہنانے کا موقع ان کے ہاتھ آ چکا تھا۔لیکن تحریک انصاف کو آغاز سے ہی معاشی حکمت عملی پر مشکلات کا سامنا رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نے تین وزرائے خزانہ بھی تبدیل کیے جن میں پہلے اسد عمر، پھر حفیظ شیخ اور آخر میں شوکت ترین کو وزیر خزانہ لگایا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اگست 2018 میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر تقریبا 124 روپے 18پیسے کا ہو چکا تھا۔ لیکن تحریک انصاف کے دور میں روپے کی قدر میں تیزرفتاری سے کمی آئی اور ڈالر کا ریٹ بڑھتا گیادسمبر 2021 تک ایک امریکی ڈالر 177 پاکستانی روپے کے برابر تھا جو 30 فیصد گراوٹ کے ساتھ ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ تھا۔ اپریل 2022 میں امریکی ڈالر نے ملک میں جاری سیاسی بحران کے سائے میں ایک بار پھر اڑان بھری اور نو اپریل کو اوپن مارکیٹ میں 186 سے بھی تجاوز کر چکا تھا جس کے بعد بتدریج کمی آئی اور آج کی تاریخ میں ڈالر کی قدر 184 روپے کی ہے۔ اگست 2018 میں پاکستان ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ایک کلو چینی کی اوسط قیمت 55 روپے 71 پیسے تھی۔ اپریل 2022 میں ایک کلو چینی کی قیمت 86 روپے 62 پیسے تھی جو تقریبا 55 فیصد اضافہ ہے۔ 20 کلو آٹے کا تھیلا 777 روپے میں دستیاب تھا۔ یہ قیمت اپریل 2022 میں بڑھ کر 1172 روپے ہو چکی تھی جو 52 فیصد کا اضافہ ہے۔ ٹماٹر اور پیاز تحریک انصاف حکومت کے آغاز پر 70 روپے 53 پیسے اور 44 روپے 6 پیسے فی کلو دستیاب تھے جب کہ اب یہ قیمت بالترتیب 154 روپے اور 62روپے فی کلو ہے۔ یعنی ٹماٹر کی قیمت میں 118 فیصد اور پیاز کی قیمت میں 42 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک کلو دال مسور کی قیمت 112 روپے 92 پیسے سے بڑھ کر 217 روپے ہوئی جب کہ ایک کلو برائلر چکن کی اوسط قیمت 137 روپے سے بڑھ کر 267روپے ہوئی۔ یعنی دال مسور کی قیمت میں 92 فیصد اور برائلر چکن کی قیمت میں 95 فیصد اضافہ ہوا۔ اس دورانیے میں کھلا دودھ فی لیٹر کی قیمت 85 عشاریہ 46 روپے سے بڑھ کر 117 روپے فی لیٹر تک پہنچی جو کہ 37 فیصد اضافہ تھا جب کہ ڈھائی لیٹر ٹن ویجیٹیبل گھی 473 روپے سے 1210 روپے تک جا پہنچا جو 156 فیصد اضافہ ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 2020 کے بعد پٹرول کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہوا اور 2022 کے آغاز میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 144 روپے 82 پیسہ ہو چکی تھی۔ روس یوکرین تنازعے کے بعد عالمی منڈی میں غیر یقینی نے تیل کی قیمتوں میں مذید اضافہ کیا جس کے بعد 16 فروری 2022 کو پاکستان میں ایک لیٹر پٹرول تقریبا 159 روپے تک جا پہنچاعمران خان نے مارچ میں تیل کی قیمتوں پر سبسڈی کا اعلان کیا جس کے بعد ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 149 روپے 86 پیسے پر برقرار ہے اپوزیشن کے دور میں تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا اگست 2018 میں پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 64 عشاریہ 24 ارب ڈالر تھا۔یکم جنوری 2022 میں پاکستان کے بیرونی قرضے 83 عشاریہ نو ارب ڈالر ہو چکے تھے۔ 2020 کے اواخر میں تجارتی خسارے میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے نومبر 2021 میں پانچ ارب ڈالر تک جا پہنچا اور مارچ 2022 میں تقریبا ساڑھے تین ارب ڈالر تھا۔عمران خان نے پاکستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے طرزِ زندگی کو بہتر بنائیں گے لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوسکا۔ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے بجائے عمران خان نے ان پر تنقید شروع کردی جو انہیں اقتدار میں لائے تھے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی پر تنقید کی۔ انہوں نے مودی کو ہٹلر سے اور ان کی جماعت کو نازیوں سے تشبیہہ دی۔ پھر وہ اپنی تقریروں میں لوگوں کو یہ بتانے لگے کہ بھارت کا سیاسی نظام بہترین ہے۔ یہ بات ان لوگوں کو بالکل اچھی نہیں لگی جو پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی بدلہ لینے اور مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی سیاست بھی کسی کام نہ آئی۔ انہوں نے وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی بات کی لیکن وہ اب بھی برقرار ہے۔ انہوں نے غریبوں کے لیے لاکھوں گھر بنانے کا وعدہ کیا جو پورا نہ ہوا۔ انہوں نے جن صوبوں کا خیال رکھنا تھا اس میں سے کچھ کو انہوں نے بالکل توجہ نہیں دی۔عمران خان نے اپنے محسنوں کو بھی فراموش کردیا۔ انہوں نے جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگوں کو بھلا دیا جنہوں نے عمران خان کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا۔ عمران خان نے انہیں جیلوں میں ڈلوایا اور ان کی تذلیل کی۔اپنی انا اور تکبر سے باہر ہی نہ نکل سکے۔ یہاں تک کہ اس آخری لمحے بھی کہ جب انہیں اقتدار سے بے دخل کیا جارہا تھا تو وہ اپنے تکبر کے باعث عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنے نہیں آئے۔ان میں دوست اور دشمن کی پہچان کی صلاحیت ہوتی تو وہ کامیابی سے اس قوم کی قیادت کرسکتے۔ بدقسمتی سے وہ اپنی اس خامی کو دُور نہ کرسکے اور یہی خامی ان کے زوال کا سبب بنی۔اگرچہ ہمارے نظام نے عمران خان کی جانب سے اٹھائے جانے والے آئینی و قانونی اعتبار سے ہر غلط قدم کا مقابلہ کیا ہے لیکن ملک کو درپیش سیاسی بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔عمران خان کے حامیوں کی تعداد انہیں اقتدار تک پہنچانے کے لیے کافی ہو یا نہ ہو لیکن وہ سڑکوں پر قوت کے اظہار کے لیے کافی ہے۔یہ حمایت عمران خان کو سیاست میں زندہ رکھے گی اور ایک خاطر خواہ قوت بنائے گی۔ ان کے سخت ترین ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں ہونے کے بجائے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کہیں زیادہ مؤثر ہیں۔ یہ اعزاز کبھی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لیے مخصوص تھا تاہم پیپلز پارٹی نے اسے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے کردیا ہے۔ ان کا تشکیل دیا گیا بیرونی سازش کا بیانیہ بھی ان کی مدد نہیں کرے گاعوام کی اکثریت نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے پیچھے امریکی سازش کے نظریے کو مسترد کردیا ہے۔گیلپ پاکستان نے نئے سروے کے نتائج جاری کردیے گئے ،جس میں عوام کی اکثریت نے رائے دی کہ عمران خان کو ہٹانا امریکی سازش نہیں ہے۔سروے میں 66 فیصد نے رائے دی کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ مہنگائی ہے۔گیلپ کے گزشتہ سروے میں 64 فیصد افراد نے مہنگائی کو حکومت کے خاتمے کی وجہ بتایا تھا، حالیہ سروے میں اس تعداد میں مزید 2 فیصد کا اضافہ سامنے آیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے نواز شریف سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کی جماعت اور ان کے اتحادی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ابتدائی دنوں میں نواز شریف کی جانب سے فوج پر کی جانے والی تنقید سے خوش نہیں تھے۔عمران خان نے اقتدار سے اپنی بے دخلی کو بیرونی سازش سے جوڑا اور اس بیانیے کو نہ صرف ان کے حامیوں اور جماعت کے رہنماؤں نے اپنایا بلکہ فروغ بھی دیا۔ ہوسکتا ہے کہ دیگر لوگ بھی اس سے قائل ہوجائیں کیونکہ ماضی میں بھی پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ ان امریکا مخالف جذبات پر بھی پورا اترتا ہے جنہیں خود ریاست بھی تواتر کے ساتھ بھڑکاتی رہی ہے۔بیرونی سازش کے نعرے کی کامیابی یوں بھی نظر آرہی ہے کہ اپوزیشن کو نہ صرف اس پر ردِعمل دینا پڑا بلکہ اپنا دفاع بھی کرنا پڑرہا ہے۔ شہباز شریف کو بھی بحیثیت وزیرِاعظم اپنی پہلی تقریر میں اس معاملے کا ذکر کرنا پڑا اور انہوں نے پارلیمانی تحقیقات کا بھی اعلان کیا۔ عمران خان حکومت کے خاتمے کی سبب امریکی سازش یا مہنگائی بنی ہے۔۔؟پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں ‘سازش’ کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔راولپنڈی میں پریس بریفنگ کے دوران انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سیاسی قیادت میں ڈیڈ لاک کی وجہ سے سابق وزیراعظم عمران خان کے کہنے پر آرمی چیف قبل از وقت انتخابات کروانے کا آپشن لے کر اس وقت کی اپوزیشن کے پاس گئے تھے جس سے انھوں نے انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ فوج نے اس حوالے سے اپنا موقف میٹنگ میں دیا جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں واضح ہے کہ میٹنگ میں کیا کہا گیا تھا۔’اعلامیے کے اندر بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سازش کا لفظ ہے اس اعلامیے میں، میرا نہیں خیال۔‘انھوں نے کہا کہ خفیہ ادارے دن رات سازشوں کے خلاف کام کر رہے ہیں ’اور اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو انشااللہ اس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘۔یاد رہے کہ عمران خان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں تیار ہونے والی یہ ‘سازش’ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ’بے نقاب‘ کی گئی جہاں فوجی سربراہوں کی موجودگی میں اس سازش کی تفصیل بتائی گئی۔انھوں نے کہا تھا کہ ‘نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے مِنٹس میں یہ بات لکھی گئی کہ یہ جو عدم اعتماد آئی ہے اس کی سازش باہر تیار ہوئی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر غیر ملکی سازش نہیں تو دفتر خارجہ نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر دیمارش کیوں جاری کیا تھا؟اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ‘دیمارش (احتجاجی مراسلے) صرف سازش پر نہیں دیے جاتے بلکہ یہ سفارتی عمل کا حصہ ہے

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.