Month: April 2022

‘Hostile enemies’ behind Karachi University attack to sabotage CPEC, says Alvi in visit to Chinese embassy…………………By…Asghar Ali Mubarak.

Posted on

‘Hostile enemies’ behind Karachi University attack to sabotage CPEC, says Alvi in visit to Chinese embassy…………………By…Asghar Ali Mubarak………………………………… President Arif Alvi on Saturday said the “hostile intent of our enemies” was behind the suicide attack that targeted Chinese instructors at Karachi University, which he said was a bid to sabotage the China-Pakistan Economic Corridor (CPEC) and harm the friendship between the two nations.

Three Chinese teachers and their Pakistani driver were killed in the attack, while four others were injured in a suicide blast that struck their vehicle as it approached the Confucius Institute in the university.

During a visit to the Chinese embassy today, the president condemned the incident and vowed the “hostile countries” behind it “would not succeed in their designs” as Pakistan and China enjoy a deep friendship and are strongly committed to further strengthen the “all-weather friendship”, according to a statement issued by the President’s Secretariat.

The president offered his condolences to the embassy officials, according to Chinese Cultural Counsellor Zhang Heqing.He asked Charge d’ Affaires Pang Chunxue to convey his heartfelt condolences to the Chinese people, the Communist Party of China and President Xi Jinping.

Alvi said the entire nation was in “deep pain and shock over the unfortunate incident” and shared in the grief of the Chinese people.

He reassured them that Pakistan would leave “no stone unturned” to ensure the safety of Chinese nationals and bring the elements involved in the incident to justice.

Pang thanked President Alvi for his visit and expression of solidarity with the Chinese people and government.

She said that “both countries have a shared future” and a long history of friendship and close cooperation. She condemned the attack and hoped that the “culprit behind this incident would be apprehended and punished,” the statement said.

President Alvi later wrote remarks in the embassy’s visitor’s book.

The Chinese Embassy also released a message thanking Pakistani officials for the series of visits to condemn the attack and offer their support after the loss of China’s nationals. “Together we will defeat terrorism and work for a shared future,” it said.

COAS visits front line troops in Padhar Sector: ISPR

Posted on Updated on

COAS visits front line troops in Padhar Sector: ISPR…… By;Asghar Ali Mubarak ……..RAWALPINDI: The Chief of Army Staff (COAS) General Qamar Javed Bajwa on Saturday visited the front-line troops deployed in the Padhar sector, where he was briefed about the latest situation on the Line of Control (LoC) and operational readiness of the formation, military said.According to military’s media wing, the Inter-Services Public Relations (ISPR), Gen Qamar interacted with the officers and men and had Iftar with them.While interacting with the troops, it added, he appreciated them for their high state of morale and professional excellence in the performance of sacred duty in defence of motherland.Earlier, on arrival, Gen Bajwa was received by Corps Commander Lieutenant General Sahir Shamshad Mirza.

On Wednesday, Gen Qamar visited forward areas along the LoC and received a briefing on the situation and operational preparedness of the formation.

He interacted with the troops deployed in the Chakothi Sector and spent time with them, and appreciated the combat readiness and high state of morale of the troops.

Last month, the COAS visited Punjab Regimental Centre Mardan and lauded the performance of all ranks.

He appreciated the morale and highest standards of training and operational preparedness of the regiment and stressed the need to excel in professional pursuits in line with the latest trends.

The Army Chief interacted with officers and men, and had Iftar with them.

While interacting with the troops, the COAS appreciated their high state of morale and professional excellence in performance of sacred duty in defence of motherland. Earlier on his arrival, Lieutenant General Sahir Shamshad Mirza, Corps Commander, received the COAS.

COAS BAJWA, BILL GATES DISCUSS POLIO SITUATION IN PAKISTAN

Posted on

RAWALPINDI: Chief of Army Staff General Qamar Javed Bajwa and Co-Chair of the Bill and Melinda Gates Foundation Bill Gates held a telephone conversation on Saturday.

During a telephonic conversation with COAS Bajwa, Bill Gates appreciated Pakistan’s success against COVID-19 despite resource constraints. He also appreciated Pakistan Army for supporting national polio drive, ensuring proper reach and coverage.

Matters related to Pakistan’s commitment for comprehensive Polio eradication and COVID-19 were discussed during the conversation.

The army chief attributed the success to a true national response, executed through the mechanism of NCOC which allowed optimization of resources.

“It was a national cause and credit goes to all involved in the process,” the COAS said.

It is pertinent to mention here that a second polio case was reported in Pakistan on Friday as a two-year-old girl was found affected by the virus in North Waziristan.

The spokesperson of the health ministry confirmed the detection of the second polio case in 2022. The health ministry expressed concerns over the detection of more poliovirus cases in the country.

Health Minister Abdul Qadir Patel said that the health and life of each child are precious. He added that the federal government is taking effective steps on an emergency basis to eradicate polio.

بھارتی پنجاب کےشہر پٹیالہ میں خالصتان کی آزای کے لئےاوپن کال! …….. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…. خالصتان تحریک اور سکھوں کی علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد نے بھارتی حکومت کو بری طرح بے چین کر دیا ہے آر

Posted on

۔بھارتی پنجاب کےشہر پٹیالہ میں خالصتان کی آزای کے لئےاوپن کال! …….. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…. خالصتان تحریک اور سکھوں کی علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد نے بھارتی حکومت کو بری طرح بے چین کر دیا ہے آر ایس ایس کے بنیاد پرست نظریے، جان بوجھ کر نفرت انگیز مہمات، امتیازی سلوک اور نسل کشی کے ذریعے، ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ ہندوستان کو ایک مطلق العنان ریاست میں تبدیل کرنے کے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے دہانے پر ہے جس میں پہلے سے پسماندہ غیر ہندوؤں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جمہوریت اور سیکولرازم کے لبادے میں بھارتی ریاست اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور سکھوں کے لیے بدترین خواب بن چکی ہے۔ ہندو قوم پرست اور خالصتان کے حمایتی سکھوں کے درمیان آج بھارت میں تصادم ہوا ہے اور خالصتان تحریک اب صرف کینیڈا یا برطانیہ میں سکھوں کے گروپ تک محدود نہیں رہی!ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان خالصتان تحریک کے بانی تھے جس نے جنوبی ایشیا کے پنجاب خطے میں ایک آزاد سکھ ریاست بنانے کی کوشش کی,12 اپریل 1980 کو، انہوں نے آنند پور صاحب میں “نیشنل کونسل آف خالصتان” کے قیام کا اعلان کیا۔ انہوں نے خود کو کونسل کا صدر اور بلبیر سنگھ سندھو کو اس کا سیکرٹری جنرل قرار دیا۔مئی 1980 میں جگجیت سنگھ چوہان نے لندن کا سفر کیا اور خالصتان کے قیام کا اعلان کیا۔ اسی طرح کا اعلان بلبیر سنگھ سندھو نے امرتسر میں کیا، جس نے خالصتان کے ڈاک ٹکٹ اور کرنسی جاری کی۔ “خالصتان ہاؤس” کے نام سے ایک عمارت سے کام کرتے ہوئے، وہ سکھ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے سے رابطے میں رہے جو ایک سکھ تھیوکریٹک وطن کے لیے مہم چلا رہے تھے13 جون 1984 کو چوہان نے جلاوطنی میں حکومت کا اعلان کیا۔ 31 اکتوبر 1984 کو اندرا گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔چوہان نے 1989 میں پنجاب کا دورہ کیا اور آنند پور صاحب کے ایک گوردوارے میں خالصتان کا جھنڈا لہرایا۔ چوہان کا بھارتی پاسپورٹ 24 اپریل 1989 کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ بھارت نے اس وقت احتجاج کیا جب اسے منسوخ شدہ پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔چوہان نے آہستہ آہستہ اپنا موقف نرم کیا۔ انہوں نے عسکریت پسندوں کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کو قبول کرکے کشیدگی کو کم کرنے کی ہندوستان کی کوششوں کی حمایت کی۔ دیگر تنظیمیں، خاص طور پر برطانیہ اور شمالی امریکہ میں، خالصتان کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی حکومت نے پہلے ان کی اہلیہ کو واپس جانے کی اجازت دی۔ اٹل بہاری حکومت نے انہیں معاف کر دیا، اور 21 سال کی جلاوطنی کے بعد جون 2001 میں انہیں ہندوستان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔چوہان کے ہندوستان واپس آنے کے بعد، انہوں نے 2002 میں خالصہ راج پارٹی کے نام سے ایک سیاسی پارٹی شروع کی اور اس کے صدر بن گئے۔ سیاسی جماعت کا بیان کردہ مقصد خالصتان کے لیے اپنی مہم جاری رکھنا تھا۔چوہان نے اپنے بعد کے سالوں میں خود کو عوامی زندگی سے الگ کر لیا۔ وہ 4 اپریل 2007 کو 78 سال کی عمر میں پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں اپنے آبائی گاؤں ٹانڈہ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔بھارت میں کئی دہائیوں کی ریاستی جبر، اور اپنی برادری کے لیے جگہ تنگ ہونے کے بعد، دنیا بھر کے سکھ اب سکھ فار جسٹس (SFJ) کی چھتری تلے جمع ہیں – سکھ فار جسٹس تنظیم طویل عرصے سے سکھوں کی منظم نسل کشی کے خلاف آواز اٹھا رہی ہےخیال کیا جاتا ہے کہ SFJ سکھ برادری کی واحد نمائندہ ہے جو اس وقت ہندوستان کے زیر انتظام پنجاب کے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ وطن ‘خالصتان’ کے ان کے خالصتاً جمہوری مطالبے کی وکالت کرتی ہے۔کئی واقعات نے سکھوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے علیحدہ ملک کے انتخاب پر غور کریں جہاں وہ اپنی نظریاتی بنیادوں کو محفوظ رکھ سکیں اور کسی آمرانہ قانون کی مداخلت کے بغیر مذہبی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں۔سکھوں میں، ہندوستان کے اندر ایک علیحدہ وطن کے لیے تحریک 1984 میں ہندوستانی ریاست کی طرف سے سکھوں کی نسل کشی کے بعد شروع ہوئی تھی، جب اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایک سکھ سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں قتل کیا گیا تھا۔بھارتی پنجاب میں سکھ کسانوں کی جاری تحریک نے الگ سکھ وطن کی ضرورت اور خواہش کو مزید تقویت بخشی ہےریفرنڈم کا سب سے زیادہ متوقع واقعہ 31 اکتوبر 2021 کو ویسٹ منسٹر پیلس یوکے کے باہر کوئین الزبتھ ہال میں ووٹنگ کے ذریعے شروع ہوا، خالصتان ریفرنڈم نے پنجاب اور دیگر سکھ اکثریتی علاقوں کی بھارت سے علیحدگی کے سوال پر ووٹروں نےحق میں ووٹ کیا۔ اس ریہرسل نے برطانیہ جیسی جمہوریتوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ یہ بھی ایک سنگ میل ہے کہ سکھوں نے اتنی بڑی تعداد میں ایک پلیٹ فارم پر دنیا کو اپنا پیغام پہنچایا کہ وہ اب ہندوستانی ریاست کا حصہ نہیں بننا چاہتے جس نے ان کی مذہبی خودمختاری کو ختم کرکے انہیں کئی دہائیوں سے پریشان کر رکھا ہےSFJ کی بھارتی ریاست سے آزادی کے مطالبے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ، بھارت مشتعل ہو گیا ہے اور اس نے تنظیم کے ارکان کے خلاف بے بنیاد اور دھوکہ دہی سے دہشت گردی کے روابط قائم کر کے سکھ برادری کے خلاف بہتان تراشی شروع کر دی ہےیہاں تک کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے بھی کچھ دن پہلے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بے شرمی سے یہ کہہ کر آپٹکس بنانے کی کوشش کی کہ ’’ہندوستان کی عالمی امیج کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔ لیکن استصواب رائے کے جمہوری عمل کو منظور کر کے، SFJ نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک پرامن نظریے کے پیروکار ہیں اور گولی پر ووٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ایس ایف جے کے رہنما، گروپتونت سنگھ پنن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے تنظیم کے ارکان کے خلاف بغیر کسی قانونی بنیاد کے دہشت گردی کے الزامات لگا کر ان کی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے مکروہ ہتھکنڈے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی حکومت کی اس طرح کی ڈھٹائی کی کارروائیاں سکھوں کو دنیا بھر میں سکھ برادری کے 30 ملین افراد کے لیے علیحدہ وطن کے اپنے دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ہندوستانی حکام نے 2019 میں SFJ پر سخت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (UAPA) کے تحت پابندی عائد کر دی ہے جس میں گروپتونت سنگھ پنن کو بھی نامزد کیا گیا ہے – جو امریکہ میں مقیم ہیں – گروپتونت سنگھ پنن کو “دہشت گرد” کے طور پر نامزد کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے برطانیہ کی حکومت کے ساتھ باضابطہ احتجاج بھی درج کرایا اور SFJ کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کہا۔اس سلسلے میں، 2021 کے اواخر میں، SFJ کے ایک دو رکنی وفد، جس میں جنرل کونسلر گرپتونت سنگھ پنن اور کونسل آف خالصتان کے صدر ڈاکٹر بخشیش سنگھ سندھو ۔نے بھی اقوام متحدہ کے حکام سے ملاقات کی اور انہیں اپنے حق خود ارادیت کے مطالبے کے بارے میں آگاہ کیا۔بھارتی مخالفت کے باوجود سکھ برادری عالمی برادری کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ اقلیتوں کے خلاف بھارتی ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کی مہموں کا سب سے بڑا شکار ہیں۔نیو جرسی کی سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ برادری کے 1984 کے قتل کو “نسل کشی” قرار دیا گیا ہے۔ اس واقعے نے ریاستی مشینری کی نگرانی میں چند دنوں میں پنجاب بھر میں 30,000 سے زیادہ سکھوں کی جانیں لے لیں۔اس کے بعد، SFJ کا یہ اقدام مکمل طور پر جمہوری ہے اور تمام بین الاقوامی اور قانونی معیارات کو پورا کرتا ہے۔ دنیا کو ریفرنڈم کے نتائج پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ رائے شماری ہندوستان کی دیگر کمیونٹیز، خاص طور پر IIOJK کے لوگوں کے لیے خود ارادیت کے لیے اپنی قانونی جنگ کو تیز کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھی سکھوں کے بنیادی حق خودارادیت کے حصول کے مطالبے کی حمایت کرنی چاہیے اور بی جے پی کے ہندوتوا نظریے کو ہندوستان کو ‘ہندو راشٹر’ میں تبدیل کرنے سے روکنا چاہیے

Open call for liberation of Khalistan in Patiala city of Indian Punjab………………….By ;Asghar Ali Mubarak

Posted on

Open call for liberation of Khalistan in Patiala city of Indian Punjab………………….By ;Asghar Ali Mubarak ……..In the garb of democracy and secularism, the Indian state has become the worst nightmare for minorities, especially Muslims and Sikhs. Hindu Nationalists and Khalistan supporting Sikhs have clashed today in India and the Khalistan movement is not anymore limited to a group of Sikhs in Canada or UK.Ongoing agitation of Sikh farmers in Indian Punjab has further substantiated the need and longing for a separate Sikh homeland. Members of Sikh communities have started intuiting a state of alienation under the hurriedness of intolerance in Indian society and the doctrinaire behaviours of incumbent rulers. Following decades of desolation, state oppression, and narrowing space for their community in India, Sikhs across the globe are now congregating under the umbrella of Sikhs For Justice (SFJ) — an outspoken rights organisation that has long been raising voice against systematic genocide of their peaceful community by Indian authorities. By towing the RSS’s radicalised ideology, deliberate hate campaigns, discrimination, and genocide, the Indian establishment is on the brink of fulfilling its agenda of turning India into a totalitarian state with no scope for already marginalised non-Hindus.Dr. Jagjit Singh Chohan was the founder of the Khalistan movement that sought to create an independent Sikh state in the Punjab region of South Asia.Objectives of the Khalistan Movement.Jagjit Singh grew up in Tanda in Punjab’s Hoshiarpur district, about 180 km from Chandigarh.On 13 June 1984, Chohan announced a government in exile. On 31 October 1984, Indira Gandhi was assassinated . Chohan gradually softened his stance. He supported India’s attempts to defuse the tension by accepting surrenders by the militants. Other organizations, mainly in UK and North America, continue to work for a Khalistan. Indian government first permitted his wife to return. He was pardoned by the Atal Bihari government, and was allowed to return to India in June 2001, after an exile of 21 years.Now a days under the umbrella of Sikhs For Justice (SFJ) is believed to be the sole representative of the Sikh community advocating their purely democratic demand of a separate homeland ‘Khalistan’ comprising the areas of Punjab presently under Indian rule. Among Sikhs, the impulse for a separate homeland within India was triggered after the 1984 Sikh genocide by the Indian state following the murder of Indra Gandhi, then Prime Minister of India, by a Sikh security guard. Several instances compelled Sikhs to consider the option of their separate country where they can preserve their ideological foundations and exercise religious obligations without the interposition of any authoritarian statute.The most anticipated event of the referendum started on 31st Oct 2021 by voting at Queen Elizabeth Hall outside Westminster Palace UK, and SFJ’s Khalistan referendum pursued voters on the question of the separation of Punjab and other Sikh dominating areas from India. According to SFJ, after casting 20,000 votes on the 31st Dec 2021, now the number of Sikhs across the UK who voted in favour of the liberation of Indian Punjab from illegal occupation has reached 2,00,000. This rehearsal of SFJ has greatly influenced the democracies like the UK. It is also a milestone that Sikhs in such a huge number showed up at a platform to convey their message to the world that they don’t want to be part of the Indian state anymore which has beleaguered them for decades by curtailing their religious autonomy as well as their distinctive identity. With the mounting popularity of SFJ’s demand of liberation from the Indian state, India has become infuriated and started slandering propaganda against the Sikh community by establishing baseless and fraud terror links against the members of the organisation. Even the Prime Minister of India, while speaking to an event a couple of days ago, shamelessly tried to build optics by saying that “attempts are being made to tarnish India’s global image.” But by convoking a democratic process of the plebiscite, SFJ has proved that they are the followers of a peaceful ideology and preferred ballot over the bullet.Gurpatwant Singh Pannun, the SFJ leader, has underlined smearing tactics being used by the Indian government to malign their movement by leveling terror allegations against the members of the organisation without having a legal ground. He further articulated that such brazen acts of the Indian government cannot restrain Sikhs from accomplishing their longstanding demand for a separate homeland for the 30 million members of the Sikh community worldwide. Indian authorities have banned SFJ in 2019 under the draconian Unlawful Activities Prevention Act (UAPA) also designated Gurpatwant Singh Pannun — a US-based lawyer and SFJ’s General Counsel — as a “terrorist”. The Indian government also lodged an official protest with the UK government and asked it to curb SFJ’s activities. In this regard, in late 2021, a two-member delegation of SFJ, comprising General Counsel Gurpatwant Singh Pannun and Council of Khalistan President Dr Bakhshish Singh Sandhu, also met UN officials and briefed them about their demand for self-determination as well as with the international law and illicit use of ferocity and treason charges by Modi government against Khalistan referendum activists in India and abroad. Despite the Indian opposition, the Sikh community has been successful in convincing the international community that they have been one of the prime victims of Indian state-sponsored genocide campaigns against the minorities. In a recent development, New Jersey Senate has passed a resolution that has designated 1984 killings of the Sikh community following the murder of Indra Gandhi as “genocide”. The incident took the lives of more than 30,000 Sikhs across the Punjab state in a matter of a few days under the supervision of the state machinery. New Jersey Senate is also planning to submit the resolution to the President and the Vice President of the United States, and representatives of all houses. Henceforth, this initiative of SFJ is entirely democratic and satisfies all international and legal benchmarks. The world must contemplate the outcomes of the referendum very seriously. It will pave the way for other fraught communities in India, especially the people of IIOJK, to intensify their legal battle for self-determination following in the footprints of SFJ. The international community and global human rights organisations must also support the demand of Sikhs to attain their fundamental right to self-determination and must stop the BJP’s Hindutva ideology from turning India into a ‘Hindu Rashtra’ because that would be calamitous for the impoverished minorities of the country.

میجر جلال الدین شہید…پاکستان کا فخر…..بلوچستان کا بہادر بیٹا ………. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…پاکستان کا فخر

Posted on

میجر جلال الدین شہید…پاکستان کا فخر…..بلوچستان کا بہادر بیٹا ………. (اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)…پاکستان کا فخر…..بلوچستان کا بہادر بیٹا .میجر جلال الدین شہید شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران شہید ہو ئے21مئی 2022 کو ان کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے شہید میجر جلال الدین ترین کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ سے تھا پاکستان کے دفاع اور استحکام کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے میں بلوچستان کے بیٹے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ضلع قلعہ عبداللہ کے دور افتادہ علاقے سیگی سے تعلق رکھنے والے میجر جلال الدین ترین بھی ان بہادر سپوتوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے وطن کے تحفظ کی خاطر اپنی جان قربان کردی۔ زمیں دار گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود وطن سے محبت کا جذبہ جلال الدین ترین کو فوج میں لے آیا۔1997ء میں کمیشن لینے کے بعد ترقی کے زینے چڑھتا ہوا یہ گبھرو جوان میجر کے عہدے پر پہنچا اور 21مئی کو شمالی وزیرستان کے محاذ پر شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ میجر جلال ترین کا جسد خاکی خصوصی طیارے کے ذریعے شمالی وزیرستان سے ان کے آبائی علاقے سیگی لایاگیا جہاں انہیں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد سپردخاک کردیاگیا۔ انہوں نے پسماندگان میں والدین، بیوہ اور چار بچوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ میجر جلال الدین ترین جیسے گبھرو جوان ملک کی آبرو ہیں، ان کی قربانیاں دشمن کو پیغام دیتی ہیں کہ جس قوم میں شہادت کا جذبہ رکھنے والے جوان ہوں اسے زیر کرنا ناممکن ہے۔ دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والے پاک فوج کے میجر جلال الدین ترین کو ان کے آبائی علاقے میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔ میجر جلال الدین ترین کا جسد خاکی قلعہ عبداللہ میں ان کے آبائی علاقے کلی سیگی میں لایا گیا جہاں ان کی نماز جنازہ میں ان کے عزیز و اقارب کے علاوہ پاک فوج کے افسران و جوانوں کے علاوہ اہل علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بعد ازاں انہیں ان کے آبائی قبرستان میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔۔میجر جلال الدین ترین شہید کی شہادت پر ان کے اہل خانہ نے جس حوصلہ کا مظاہرہ کیا اس نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی۔شہید کے والد،بھائی طارق ترین سمیت کسی کی آنکھ میں ایک آنسو نہیں تھا۔وطن کے لئے جان کی قربانی دینے والے میجر جلال الدین ترین کے اہل خانہ کی چمکتی آنکھوں میں موجود فخر بتارہا تھا کہ وہ اپنے گھر کے تمام افراد کو اس ملک کے لئے قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ شہید کے اہل خانہ کی ہمت اور حوصلہ مضبوط چٹان کی مانند دکھائی دیا ہے انہوں نے کہا کہ شہیدمیجر جلال آج بھی ان کے درمیان موجود ہیں۔وہ شہادت کے متمنی تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ تمنا پوری کی۔ہمارا پورا گھرانہ اپنے اس نڈر سپوت کی وجہ سے دنیا و آخرت میں سرخرو ہے اور ان کی تقلید میں ان کے تمام بھائی وطن کی حفاظت کے لئے جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔شہید کاننھابیٹا بھی ملک و قوم کی حفاظت، سالمیت اور بقاء کیلئے پاک آرمی کو جوائن کرکے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔ شہید میجر جلال الدین خان ترین کو خراج تحسین پیش کرتےہوئے ایک ویڈیو پیغام میں شہید کے چھوٹے بھائی طارق ترین نے کہا ہمیں میجرجلال الدین ترین کی شہادت پر فخرہےمیرےبھائی اور ان کی طرحبےشمارنوجوانوں نے پاک وطن کیلئے قربانیاں دیں۔بہت سے نوجوان زخمی بھی ہوئےہیں۔ہمیں انکی قربانیوں کو ہمیشہیادرکھناچاہیے قوم سے پیغام انہوں نے کہاہےکہ آج کل سوشل میڈیاپر من گھڑت افوائیں پھیلائی جارہی ہیں ان پر یقین نہ کیاجائے بلکہ پہلے اسکی تصدیق ضرورکرائیں مجھے اور تمام فیملی کو شہید جلال الدین کی شہادت پر فخرہے۔پاکستان زندہ باد۔۔پاک فوج پائندہ باد…علاوہ ازیں شہید کے دوست واحباب نے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیاگیا ہے آئی ایس پی آر کے میگزین ھلال میں شہید جلال الدین کے میں خصوصی تحریر شائع کی گئی ہےمیجر جلال الدین ترین شہید کے ساتھی کمانڈنگ آفیسر کا کہنا ہے کہجب میں اپنی ‘دوسری کمان’ ،میجر جلال الدین ترین شہید، اور دیگر کمانڈر سوائرلیس ویلیئنٹ 1 سیٹ کے ذریعےکے ساتھ بات چیت کر رہا تھاجب ہم شمالی وزیرستان ایجنسی (NWA) میں غیر ملکی دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مصروف تھے۔مواصلاتی نیٹ ورک پر اچانک خاموشی چھا گئی۔اور اس سے پہلے کہ میں حالات کے بارے میں رابطے کے متبادل ذرائع استعمال کرتا، اسی آپریشن میں حصہ لینے والے ایک اور افسر کیپٹن حیدر خان نے مجھے اطلاع دی کہ میجر جلال دشمن کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ہیں۔مجھے یہ بھی اطلاع ملی کہ میرے قابل فخر یونٹ کے سپاہی سلیم اللہ اور سپاہی امتیاز بھی گولی لگنے سے شہادت کو گلے لگا چکے ہیں۔میں نے کیپٹن حیدر خان کو فوری طور پر میجر جلال کی جگہ حالات کی کمان سنبھالنے اور زخمیوں کو میر علی کیمپ فیلڈ ٹریٹمنٹ سینٹر (FTC) منتقل کرنے کا بھی حکم دیا۔جیسا کہ ہم نے دشمن کو مصروف رکھا۔ مجھے یف ٹی سی کے ڈاکٹرنے بتایاکہ انہیں سینے پر گولیاں لگنے سے شدید زخم آئے” اور گولی نے اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں بہت زیادہ خون بہہ گیا ہے،”اس کی حالت نازک تھی۔ ہمیں اس کا احساس ہوا لیکن اس حقیقت پر بھی اتنا ہی فخر تھا کہ میجر جلال پاک فوج کے بہادر جوانوں کی پہلے سے طویل فہرست میں ایک اور اضافہ تھا جو ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ایک قد آور، خاموش، عاجز اور خوش اخلاق میجر جلال الدین ترین بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں واقع گلستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں پیدا ہوئےپاکستان سے محبت کرنے والے محب وطن خاندان سے تعلق رکھنے والے میجر جلال نے 1994 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی (PMA)، کاکول میں 94 PMA لانگ کورسمیں شمولیت اختیار کی اور 1997 میں 54 بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیاتھا.ان کے چھوٹے بھائی طارق ترین کا کہنا ہے کہ میجر جلال خاندان کے تمام افراد سے رابطے میں بہت باقاعدگی سے رہتے تھے اور انہیں ہمیشہ مفید شہری بننے کا مشورہ دیتےاور اکثر پاکستان کے بارے میں بات کرتے تھے۔انکے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے، وہ بتاتے ہیں، ’’پاکستان کمزور نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے لوگ جوش اور جذبے کے ساتھ محنت کرتے ہیں اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔‘‘مجھے میجر جلال کے ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اور مجھے ان کا کمانڈنگ آفیسر ہونا بھی خوش قسمتی سے نصیب ہوا۔میجر جلال کے ساتھی کمانڈنگ آفیسر کا کہنا ہے کہ اگرچہ میجر جلال کو پچھلے سال ترقی نہ دی جا سکی لیکن ایک لمحے کے لیے بھی ناخوش ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔اور اتنا ہی اچھا افسر تھا جتنا وہ اپنے سلیکشن بورڈ سے پہلے ہوا کرتا تھا۔یہ واقعی پاک فوج اور اس کے نظام کا حسن ہے کہ سپاہی ترقیوں اور مراعات کی بجائے ملک کے لیے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔میجر جلال بہت سے لوگوں کے علاوہ ایسی ہی ایک مثال تھے جو اپنے طریقے سے ملک کی خدمت جاری رکھے ہوئے تھے۔ اپنی شہادت سے ایک دن قبل، میرے ساتھ یونٹ کے پیشہ ورانہ امور پر گفتگو کرتے ہوئے میجر جلال نے کہا۔”ہمیں فوجیوں کی تربیت کے پہلوؤں پر کام جاری رکھنا چاہیے کیونکہ بہتر تربیت یافتہ سپاہی آپریشن کے دوران اپنی صلاحیتوں کو ثابت کریں گے،” وہ یونٹ میں ہم سب کے لیے ایک محرک تھا۔ ایک دن میں نے ان سے چھٹی پر جانے کے لیے کہا تو ان کا جواب سادہ تھا:”میں تھکا نہیں ہوں. میں وردی پہن کر کبھی نہیں تھکتا اور آنے والی عید اپنے فوجیوں کے ساتھ گزارنے کے بعد ہی اپنے اہل خانہ سے ملنے جاؤں گا۔’’شاید اب عید کبھی نہ آئے لیکن اس کے زیر کمان دستے ہر روز اس کے الفاظ یاد کرتے ہیں اور اپنے سپاہیوں سے اس کی محبت کی تعریف کرتے ہیں۔میجر جلال کے ساتھی کمانڈنگ آفیسر کا کہنا ہے کہ اگرچہ میجر جلال کو پچھلے سال ترقی نہ دی جا سکی لیکن ایک لمحے کے لیے بھی ناخوش ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔اور اتنا ہی اچھا افسر تھا جتنا وہ اپنے سلیکشن بورڈ سے پہلے ہوا کرتا تھا۔یہ واقعی پاک فوج اور اس کے نظام کا حسن ہے کہ سپاہی ترقیوں اور مراعات کی بجائے ملک کے لیے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔میجر جلال بہت سے لوگوں کے علاوہ ایسی ہی ایک مثال تھے جو اپنے طریقے سے ملک کی خدمت جاری رکھے ہوئے تھے۔ اپنی شہادت سے ایک دن قبل، میرے ساتھ یونٹ کے پیشہ ورانہ امور پر گفتگو کرتے ہوئے میجر جلال نے کہا۔”ہمیں فوجیوں کی تربیت کے پہلوؤں پر کام جاری رکھنا چاہیے کیونکہ بہتر تربیت یافتہ سپاہی آپریشن کے دوران اپنی صلاحیتوں کو ثابت کریں گے،” وہ یونٹ میں ہم سب کے لیے ایک محرک تھا۔ ایک دن میں نے ان سے چھٹی پر جانے کے لیے کہا تو ان کا جواب سادہ تھا:”میں تھکا نہیں ہوں. میں وردی پہن کر کبھی نہیں تھکتا اور آنے والی عید اپنے فوجیوں کے ساتھ گزارنے کے بعد ہی اپنے اہل خانہ سے ملنے جاؤں گا۔’’شاید اب عید کبھی نہ آئے لیکن اس کے زیر کمان دستے ہر روز اس کے الفاظ یاد کرتے ہیں اور اپنے سپاہیوں سے اس کی محبت کی تعریف کرتے ہیں۔صوبیدار میجر عالم حسین کہتے ہیں جو ایف ٹی سی میر علی میں ان کے ساتھ تھے .میجر جلال اپنے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں تھے لیکن اپنے دو ساتھی سپاہیوں کی صحت اور حالت کے بارے میں مسلسل پوچھ رہے تھے جنہیں اسی واقعے میں گولیاں لگیں اور میجر جلال مسلسل کلمہ پڑھ رہے تھے،یونٹ میں میری کمان کی توسیع میں میجر جلال میرے لیے ایک شاندار معاون تھے۔وہ انتہائی حوصلہ افزا اور ایک حقیقی رجمنٹل افسر تھا جو یونٹ کے ہر معاملے اور پلٹن کو تفویض کردہ تمام آپریشنل کاموں میں شامل تھا۔ہم 19 دسمبر 2013 کو میر علی کے علاقے میں دہشت گردوں کو بے اثر کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے اور فتح یاب ہو کر واپس آئے، اور دوسرے دن دہشت گردوں سے دوبارہ لڑنے میں خوش تھے وہ دن 21 مئی 2014 میرے دل پر اپنے داغ چھوڑ گیا تھا۔اگرچہ ہم کورس کے ساتھی اور اچھے دوست تھے لیکن میجر جلال نے کمانڈ سنبھالنے کے بعد کبھی مجھے میرے نام سے مخاطب نہیں کیا۔ اور مجھے ہمیشہ ‘سر’ کہہ کر پکارتے تھے، جو کبھی کبھار میرے لیے شرمناک ہوتا تھا۔ اور اگر میں نے اس کے ذریعہ رسمی طور پر خطاب کرنے میں آسانی کا اظہار کیا،وہ کہے گا کہ اللہ نے تمہیں یہ درجہ دیا ہے اور تم اس کے مستحق تھے۔اس کے لیے آپ کا احترام کرنا سرکاری اور ذاتی طور پر میرا فرض ہے۔ جب آپ حکم پوری کر لیں گے تو میں ان شاء اللہ آپ کو آپ کے نام سے پکاروں گا۔‘‘پیارے جلال، اب میں بے صبری سے انتظار کر رہا ہوں کہ آپ مجھے میرے نام سے مخاطب کریں گے۔میجر جلال کو اپنے خاندان سے بہت پیار تھا۔اسے دو بیٹے اور دو پیاری بیٹیاں نصیب ہوئیں۔ مجھے ان کی بڑی بیٹی ام کلثوم سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔لیکن ان کا بیٹا عادل ترین تقریباً ہماری یونٹ کمیونٹی کا رکن تھا اور ہم اکثر ایک دوسرے سے بات کرتے تھے۔میجر جلال روزانہ کی بنیاد پر اپنی اہلیہ سے رابطے اور ان کے آرام اور اچھی زندگی کی فکر میں رہتے تھے۔ایک بہادر اور دلیر بلوچ حاجی محمد اختر (میجر جلال کے والد) نے میجر جلال کا تابوت گھر پر وصول کرنے کے بعد کہا کہ یہ اللہ کی مرضی ہے اور مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے جس نے پاکستان کے لیے اپنی جان قربان کی۔ میجر جلال اکثر مجھ سے بلوچستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔وہ کہتے تھے “میں بہت خوش ہوں کہ آرمی نے بلوچستان میں بہت سے سکول کھولے ہیں اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کر رہی ہے۔ میجر جلال نے مجھ سےکہا کہ میری شدید خواہش ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو بہترین تعلیم اور سہولیات میسر آئیں،‘‘ انہوں نے ہمیشہ دور دراز علاقوں سے آنے والے فوجیوں کو اپنے خاندانوں کو چھاؤنی میں لانے اور اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی ترغیب دی۔میجر جلال کے سینے پر گولی لگنے سے خون بہت زیادہ بہہ گیاتھااگرچہ انہیں ایف ٹی سی میں سرجری کے دوران تین پنٹ خون دیا گیا تھا، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکےاور پشاور لےجاتے ہوئے شہادت کے رتبے پرفائزہوگئے.میں جلال کا اسٹریچر ایمبولینس سے ہیلی کاپٹر تک لے گیا۔ یہ وہ آخری اور آخری لمحہ تھا جب میں نے جلال کو اس وقت زندہ رہنے کے باوجود سکون سے سوتے ہوئے دیکھا۔ میجر جلال کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کے آبائی قصبے سائگئی (گلستان) بلوچستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ انہیں اپنے دوستوں، ساتھیوں، خاندان کے افراد اور سب سے بڑھ کر 54 بلوچ رجمنٹ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ہمیں شہید جلال الدین کی شہادت پر فخرہے۔پاکستان زندہ باد۔۔پاک فوج پائندہ باد

کراچی یونیورسٹی خودکش حملہ;.بلوچستان میں بڑا آپریشن ناگزیر ……اندر کئ بات؛کالم نگار۔۔اصغرعلی مبارک۔۔.

Posted on

…کراچی یونیورسٹی خودکش حملہ;.بلوچستان میں بڑا آپریشن ناگزیر ……اندر کئ بات؛کالم نگار۔۔اصغرعلی مبارک۔۔. …..کراچی یونیورسٹی خودکش حملہ کے بعد بلوچستان میں آپریشن ’رد الفسادکی طرز کا ایک بڑا آپریشن ناگزیر ہوگیاہےخیال رہے کہ 22 فروری 2017کو پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ’رد الفساد‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔آپریشن ’رد الفساد‘ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت لاہور میں سیکیورٹی اجلاس میں کیا گیاتھا ملک بھر کو اسلحہ سے پاک کرنا، بارودی مواد کو قبضے میں لینا آپریشن کے اہم جز ہیں، جبکہ آپریشن کا مقصد ملک بھر میں دہشت گردی کا بلاامتیاز خاتمہ اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا تھا اس سال فروری میں دو مقامات پنجگور اور نوشکی میں بلوچ لیبریشن آرمی نے فرنٹیئرکور کے ہیڈ کوارٹرپر حملہ کیاتھا 72 گھنٹے تک جاری رہنے والےآپریشن میں نو فوجی شہید ہوگئے تھے جبکہ20 دھشتگرد جہنم واصل ہوئے تھے پاکستان میں دہشتگردی کے تانےبانے ہمیشہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے جا ملتے ہیں جنہیں بھارتی خفیہ ادارے ہرقسم کی معاونت فراہم کررہے ہیں جسکے ناقابل تردید ثبوت پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے رکھےہیں۔۔۔پڑوسی ملک بھارت کھلے عام اعتراف کرنے لگا ہے کہ وہ بلوچستان اور فاٹا میں نہ صرف یہ کہ مداخلت کرتے آئے ہیں بلکہ پاکستان کو ’’سبق‘‘ سکھانے کے لئے وہ دوسرے طریقے آزمانے کے علاوہ دہشت گردی کی کھلی معاونت بھی کرتے رہے ہیں۔پاکستان میں ایک بار پھر چینیوں کو نشانہ بنایا گیا ,اس مرتبہ کراچی یونیورسٹی میں واقع چینی انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ کی وین پر حملہ کیا گیا جس میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد مارے گئے جامعہ کراچی میں واقع چینی کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب منگل کو ہونے والے اس دھماکے کے نتیجے میں ایک رینجرز اہلکار سمیت چار افراد زخمی بھی ہوئے۔ واقعے کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیاکراچی یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ شاری بلوچ عرف برمش سرکاری سکول میں استانی اور دو بچوں کی ماں تھیں۔شاری بلوچ کے نزدیکی رشتہ دار نے تصدیق کی ہے کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکہ کرنے والی خاتون ان کی رشتہ دار شاری بلوچ عرف برمش ہی تھیں۔ ان کے مطابق ’خاندان والے سکیورٹی خدشات کے باعث میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں جنہیں ’واقعے کے بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا سے پتہ چلا۔‘محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے افسر نے تصدیق کی کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہونے والا دھماکہ ایک خود کش حملہ تھا، جو ایک سیاہ رنگ کی برقع پوش نوجوان خاتون نے گاڑی کے انتہائی قریب کیا۔دھماکے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون سڑک کنارے کھڑی انتظار کر رہی ہیں اور جیسے ہی وین نزدیک آتی ہے تو ایک دھماکہ ہو جاتا ہے۔حملے کے بعد بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے ٹوئٹر پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ایک خاتون کی مدد سے یہ خودکش دھماکہ کیا گیا۔‘بعد میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون کا نام شاری بلوچ بتایا گیا اور اس کی دو تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ ان میں سے ایک تصویر میں شاری بلوچ کو دو بچوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔شاری بلوچ کے رشتہ دار نے بتایا کہ ’شاری کی عمر تقریباً 30 سال تھی۔ انہوں نے 2014 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا اور 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے زوالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔‘’2019 میں انہیں (شاری بلوچ) محکمہ تعلیم بلوچستان میں سرکاری ملازمت مل گئی اور وہ آخری وقت تک بلوچستان کے شہر تربت سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کلاتک یونین کونسل کے ایک سرکاری سکول گورنمنٹ گرلز مڈل سکول میں استاد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔‘ترجمان بی ایل اے کا کہنا ہے کہ ’شاری نے دو سال قبل مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی اور چھ ماہ قبل انہوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ حملہ کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ اس کے بعد سے وہ اپنے مشن میں سرگرم عمل تھیں۔‘شاری بلوچ کے حوالے سے کہا کہ ’وہ کالج دور سے بی ایس او آزاد کے ساتھ رہیں۔ بعد میں انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ کو جوائن کر لیا۔‘کراچی یونیورسٹی دھماکے کے بعد ایک ٹویٹ وائرل ہوئی، جس میں شاران بلوچ نامی صارف کی جانب سے براہوی زبان میں لکھا تھا: ’رخصت اف اوران سنگت‘۔ جس کا مطب ہے کہ ’وہ جا رہی ہیں ہیں، مگر یہ سنگت چلتی رہے گی۔خیال رہے کہ علیحدگی پسند بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ماضی میں بھی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی یہ کہہ کر مخالفت کرتا رہا ہے کہ مقامی لوگوں کو اس سے فائدہ نہیں ہوتا.یاد رہے کہ اس سے قبل کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ لبریشن آرمی نے ہی قبول کی تھی۔بلوچ علیحدگی پسند ماضی میں بھی چینی حکومت کو خبردار کر چکے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ’سی پیک بلوچ سرزمین اور اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے اور اگر اس منصوبے کو ترک نہیں کیا جاتا تو انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔ پاکستانی طالبان کی طرح اس گروپ نے متعدد مواقع پر چینی شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔چین وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں میں چین پاک اقصادی راہداری منصوبے کے تحت مصروف ہے ‘اب تک چینی شہریوں پر پاکستان میں ہونے والے چند بڑے حملوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے آغاز کے بعد کیے گئے۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں مئی 2004 میں بھی چینی انجینیئرز اور ٹیکنیشنز کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔یہ واقعہ کراچی سے کوئی سات سو کلومیٹر دور تین مئی کو اس وقت پیش آیا جب 12 چینی انجینیئرز اور ٹیکنیشنز کی گاڑی کو ایک ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔اس حملے میں تین چینی انجینیئرز ہلاک ہوئے تھے۔کراچی میں واقعے چینی قونصل خانے کے باہر 23 جولائی 2012 کو ایک بم دھماکہ کیا گیا تھا۔
تاہم اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔کراچی میں 30 مئی 2016 کو گلشن حدید کے علاقے میں ایک چینی انجینیئر کی گاڑی کو ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔اس حملے میں چینی شہری اور ان کے ڈرائیور کو معمولی زخم آئے تھے اور پولیس کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری ’سندھودیش ریوولیشنری پارٹی‘ نامی گروپ نے قبول کی تھی کراچی ہی میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش نومبر 2018 میں اس وقت کی گئی جب چینی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا۔یہ حملہ 23 نومبر 2018 کو ہوا تھا، جو پولیس کے مطابق ناکام بنا دیا گیا تھا۔اس حملے کی کوشش میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں تین حملہ آور، دو عام شہری اور دو پولیس اہلکار شامل تھے۔کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجینیئرز کی ایک بس کو 14 جولائی 2021 کو شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس میں نو چینی شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے کراچی میں پولیس حکام کے مطابق 28 جولائی 2021 کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک چینی شہری زخمی ہو گیا تھا۔ چینی شہری پر فائرنگ کا یہ واقعہ سائٹ ایریا میں گلبائی پل کے نیچے پیش آیا تھابلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 19 اگست 2021 کو چینی انجینیئرز اور کارکنوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔گوادر میں چینی شہریوں پر خود کش حملہ کرنے والا حملہ آور ایران سے پاکستان آیا تھا۔اس حملے میں دو بچے ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔یہ پہلا موقع ہے جب بی ایل اے کی جانب سے خودکش حملہ کسی خاتون عسکریت پسند نے کیا ہو۔خواتین نے طویل عرصے سے دنیا بھر میں حقیقت میں شورش، انقلاب اور جنگ میں حصہ لیا ہے۔ پہلی خاتون خودکش بمبار، ایک 17 سالہ لبنانی لڑکی صنعا ہیدالی کو سیریئن سوشلسٹ نیشنل پارٹی جو ایک سیکولر شام کی حامی تھی نے خود کو لبنان میں ایک اسرائیلی قافلے کے قریب دھماکے سے اڑانے کے لیے 1985 میں بھیجا تھا۔اس حملے میں پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔بعد میں لبنان سے خواتین بمباروں کے واقعات دیگر ممالک جیسے کہ سری لنکا، ترکی، چیچنیا، اسرائیل اور عراق تک پھیل گئے۔2007 تک تقریباً 17 گروپوں میں سے جنہوں نے خود کش بمبار کی حکمت عملی کا استعمال شروع کیا تھا، ان میں سے نصف سے زیادہ خواتین تھیں۔1985 اور 2006 کے درمیان 220 سے زیادہ خواتین خودکش حملہ آور ہوئیں۔ بلوچ مزاحمت میں یہ پہلا ایسا واقعہ ہے۔بلوچ انتہا پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ رواں سال فروری میں بلوچستان کے علاقے نوشکی اور پنجگور پر ایف سی کیمپوں پر حملوں کے بعد ایک بار پھر منظر عام پر آیا تھا۔ لیکن یہ انتہا پسند گروپ نیا نہیں بلکہ گذشتہ چند سالوں میں اس کی کارروایوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے جن میں اکثر و بیشتر پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ مجید بریگیڈ اور اس کے فدائین کا نام پہلی بار اس حملے کے بعد سامنے آیا تھا جب کوئٹہ میں سردیوں کی ایک شام کو ارباب کرم خان روڈ پر ایک کار ایک گھر کے باہر آ کر رکی اور اس کے بعد ایک شدید دھماکہ ہوا۔ یہ گھر سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا اور یہ واقعہ 30 دسمبر 2011 کو پیش آیا تھا۔اس حملے میں شفیق مینگل محفوط رہے جبکہ ان کے محافظوں سمیت 10 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی اور کہا کہ مجید بریگیڈ کی جانب سے فدائی نوجوان درویش نے یہ حملہ کیا تھا۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے ) پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔یہ ستمبر 1970 کے دہائی کے اوائل کی بات جب زمانہ طالب علمی کے دوران راقم الحروف کے والد محترم ڈاکٹر مبارک علی کوئٹہ میں ایک سرکاری اہلکار کی حثیت سے خدمات انجام دے رہےتھے راقم الحروف کا گھر پاور ھاوس کے بالمقابل بابومحلے میں تھا اور ریلوے اسٹیشن کوئٹہ کچھ فاصلے پر تھاکہ 6 ستمبر کے روز ہمیں بتایاگیاکہ قانون نافذ کرنے والےاداروں نے بلوچستان علیحدگی پسند تنظیم کے شرپسندوں کو بھاری اسلحہ کی کھیپ سمیت گرفتارکرلیاھے اور یوم دفاع پر پکڑے گئے اسلحے کو ریلوے اسٹیشن کوئٹہ پر عوام کیلئے نمائش کے لئے رکھاگیاھے راقم الحروف کو یاد ھےکہ تمام پکڑاگیااسلحہ ریل گاڑی کی مسافر بوگیوں کے اندر نشتوں پر رکھاگیاتھابابومحلہ میں واقع ھائی سکول کے طالب علموں اور اپنے استاد محترم عبداللہ صاحب کے ہمراہ ہمیں پہاڑوں پر مطالبات کے لئے چڑھ جانے والے بلوچ عسکریت پسندوں کے بارے میں آگاہی دی گئی۔اگر اس وقت کے زمہ داراں اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے تو بعد میں مشرقی پاکستان کی شورشوں پرقابوپایاجاسکتاتھامگر سیاست دانوں نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہ کیااور ملک دولخت ہوگیافوجی آمر ضیاالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی,پھر سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد سنہ 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کا دائرہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ن حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی۔پاکستان کے صوبے بلوچستان میں سرگرم ایک گوریلا تنظیم جو بلوچستان کی علیحدگی کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اپنے قیام سے ہی یہ بلوچستان میں گیس لائنیں اڑانے، فوج و پولیس پر حملوں اور غیر مقامی افراد پر حملوں میں ملوث رہی ہے۔ حکومت پاکستان کے مطابق اس دہشت گرد تنظیم کے ڈانڈے بھارت سے جا ملتے ہیں۔ میر بالاچ مری اس کا پہلا کمانڈر تھا جو 2008 میں افغانستان میں اتحادی فضائیہ کے ایک حملے میں مارا گیا۔درین اثناءنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گزشتہ روزبیبگر امداد نامی بلوچ طالب علم کو اٹھایا گیا، مبینہ طور پر اس کا تعلق جامعہ کراچی میں ہونے والے دھماکے سے بتایا گیاہے۔بیبگر امداد نامی بلوچ طالب علم نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگلش لٹریچر میں ساتویں سمسٹر کے طالب علم ہیں اور ان کا تعلق کیچ سے ہے، ان کے رشتہ داروں نے ہاسٹل نمبر 7 کا دورہ کیا تھا۔شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک طالب علم نےبتایا کہ سیکیورٹی اداروں کو شک ہے کہ امداد کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے دھماکے میں ملوث ہے، جس میں چینی باشندے ہلاک ہوئے تھے ادھراسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت دی ہے کہ ’بلوچ طلبہ کے ساتھ نسلی پروفائلنگ کا عمل ختم کرنے کی کارروائی یقینی بنائی جائے‘۔خیال رہے کہ بلوچ طلبہ کی جانب سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی گمشدگی پر گزشتہ ماہ سے اسلام آباد میں احتجاج کیا جارہا ہے۔گزشتہ سماعت میں جسٹس اطہر من اللہ نے صدر عارف علوی سے کہا تھا کہ بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ کا تاثر ختم کریں۔بلوچستان کے طالبعلم کی گمشدگی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے مظاہرین کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھااسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مقدمہ واپس لیے جانے پر نمٹا دی تھی, یاد رہے کہ مظاہرین نے بلوچستان کے علاقے خضدار سے ایک طالبعلم کی گمشدگی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا تھاکوہسار پولیس تھانے میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ’مجرمانہ سازش، فسادات، غیر قانونی مجمع، حکم عدولی، ہتک عزت، نقص امن اور پولیس کے خلاف حملے پر اکسانے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین‘ کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔۔طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ایمان مزاری اور احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ سمیت 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نے کہا تھا کہ بادی النظر میں اس ایف آئی آر کو خارج کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کو احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کی شکایات کو دور کرنے کی ہدایت کی تھی اور وکیل ایمان مزاری کی درخواست پر پولیس کو گرفتاریوں سے روک دیا تھا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایس ایس پی صاحب، اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کیا ہو رہا ہے، احتجاج کرنے والے بلوچستان کے طلبہ کی بات سنی جانی چاہیے۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ طلبہ کے احتجاج پر آپ بغاوت کے مقدمے درج کر دیتے ہیں، بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان کی آواز دبائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت یہ سب برداشت نہیں کرے گی کہ اس کی حدود میں کسی کی آواز دبائی جائے، کسی کی بھی بالخصوص بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ کی آواز دبانا درحقیقت بغاوت ہے،عدالت کو بتایا کہ صدر عارف علوی نے طلبہ کو یقین دہانی کروائی تھی تاہم اسلام آباد میں واقع نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز کے طالب علم بیبگر امداد کو گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی سے اٹھایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر دلدار بلوچ نامی ایک اور طالب علم کو کراچی سےاٹھایا گیا۔وکیل نے بتایا کہ ’ ایسا لگتا ہے کہ حکومت بلوچ طلبہ سے متعلق معاملات کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تمام جامعات کو نوٹس جاری کرنا چاہیے کہ بلوچ طلبہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے حال ہی میں بلوچستان کا دورہ کیا تھا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ وفاقی دارالحکومت ہے یہاں فروری سے بلوچ طلبہ سے متعلق درخواست زیر سماعت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ طلبہ ہمارا مستقبل ہیں، کیا عدالت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اپنی آنکھیں بند کر لینی چاہئیں، کیا کابینہ کو علم نہیں ہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے، کیا جو اس وقت کابینہ میں ہیں کل ان کے پاس جا نہیں رہے تھے؟ کیا ان کو نہیں پتا؟انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں یہ سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ حل تلاش کریں ۔سماعت کے دوران ایمان زینب مزاری نے چیف جسٹس اطہر من اللہ سے درخواست کی کہ وہ بلوچ طلبہ کا نقطہ نظر سنیں، اس لیے جج نے بلوچ طالب علم محمد عبداللہ کو عدالت سے بات کرنے کی اجازت دی تھی ۔محمد عبداللہ نے کہا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قائد اعظم یونیورسٹی کے ان طلبہ میں سے ایک ہیں جو وفاقی حکومت کی توجہ اپنی شکایات کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔محمد عبداللہ نے ان حقائق کو تفصیل سے بیان کیا جن کی بنیاد پر یہ تاثر پیدا ہوچکا تھا کہ طلبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے میں سرکاری ادارے ملوث ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج عدالت کے سامنے جو حقائق آئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ تاثر اور خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ ان طلبہ کو سنے جانے کا حق ہے، یہ افسوسناک ہے کہ سرکاری اداروں کا طرز عمل شہریوں، بالخصوص طلبہ کے معاملے میں ان کی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق نہیں پایا گیا، ریاست کو سرکاری اداروں کے ذریعے نوجوان طلبہ اور اس معاملے میں خاص طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔عدالت نے مشاہدہ کیا کہ بلوچستان کے ایک نوجوان طالب علم کے ذریعہ بیان کردہ حقائق تشویشناک اور آئینی طور پر ضمانت شدہ حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں،

TOPSHOTS Pakistani forensics officials gather at the scene following a bomb blast outside the Chinese Consulate in Karachi on July 23, 2012. No casualties we reported in the blast. Security officials are investigating whether it was aimed at the Chinese diplomatic mission. AFP PHOTO/Rizwan TABASSUM (Photo by RIZWAN TABASSUM / AFP)
Cameramen film a damaged van in Gwadar, 04 May 2004, some 700 kms from Karachi, a day after the vehicle carrying 12 Chinese engineers and technicians was hit by the explosion of a explosive-laden Suzuki Alto vehicle blown up by remote control.
A Pakistani policeman stands beside a damaged vehicle in which a Chinese National was travelling, following a roadside bomb attack in Karachi on May 30, 2016. – A Chinese worker and his Pakistani driver were wounded in the bomb attacked in Karachi on May 30,
Pakistani security personnel stand outside the Chinese consulate after an attack in Karachi on November 23, 2018. – At least two policemen were killed when unidentified gunmen stormed the Chinese consulate in the Pakistani port city of Karachi on November 23,

KU blast: National Action Plan should be implement…………………….By ;Asghar Ali Mubarak

Posted on

KU blast: National Action Plan should be implement…………………….By ;Asghar Ali Mubarak……………………………. The time has come to seriously implement the National Action Plan.Operation Clean Up is needed in Pakistan’s educational institutions otherwise events like Karachi will continue to happen. The demand for implementation of the National Action Plan has gained momentum after the suicide attack on Chinese nationals. The National Action Plan was formulated during the rule of former Prime Minister Mian Nawaz Sharif. The National Action Plan is being reviewed after the attack on Chinese nationals in Karachi. The enemy of Pakistan is organized to achieve the target through social media while we are waiting for a miracle. Balochistan is rife with conspiracies while our so-called politicians are looking for conspirators in the houses of power.Pakistan has been unfortunate that no sincere leader is available after Quaid-e-Azam.Soon after the creation of Pakistan, Quaid-e-Azam visited Balochistan and made a practical effort to integrate the Baloch into the national mainstream.Efforts to destabilize Pakistan have been going on for a long time.If our responsible people do not take the nails of consciousness, our universities will continue to produce scholars like (شاران بلوچ)Shari Baloch. Tuesday’s suicide bombing at Karachi University that killed four people – including three Chinese nationals – has been getting a lot of traction online, not just because it targeted foreigners, but also because of the fact that it was purportedly carried out by a woman.

What is even more surprising is the accomplished academic and strong family background of the suspected attacker, identified as Shari Baloch by Majeed Brigade of the outlawed terrorist group Baloch Liberation Army (BLA) which claimed responsibility for the reprehensible violence.It is confirmed, that this was the first ever suicide attack by a woman in the protracted separatist insurgency in Balochistan Pakistan .When 30-year-old Shari, aka Baramsh, posted a cryptic good-bye message on her Twitter handle some 10 hours before the bombing, no one really knew what she was going to do next.Those bankrolling and stoking terrorism in the restive Balochistan province are not unknown to anyone, but the background of the female bomber in question merits some questioning. It wasn’t overnight indoctrination or a sudden urge but by all possible means a well-thought-out act. In a post dated April 24, 2022, she wrote “My land has taught me two things: love and resistance.”On March 2, 2022, she retweeted a post by Jamal Baloch which reads: “Resistance is our culture, resist if you want to celebrate it.”On December 23, 2021, she posted a victory sign with a caption: “I’m not a story that will stay forever. I’ll play my role and exit.”Interestingly, she shared this same post at least twice before in the same month.

In a December 13, 2021 post, she again flashed a victory sign with a caption: “Sacrifices for a better tomorrow…..!”On December 8, 2021, she shared a quote from Ursula K Le Guin, which read: “You cannot buy the revolution. You cannot make the revolution. You can only be the revolution. It is in your spirit, or it is nowhere.”Shari Baloch was a secondary school teacher in her native Kech district in Balochistan. She completed her B.Ed in 2014 and M.Ed in 2018. She did her Master’s in zoology from the University of Balochistan and MPhil from the Allama Iqbal Open University.

She was remain absent from school for the last six months. The district education officer had served a show-cause notice on her, but she didn’t respond.
Shari left behind a daughter Mahrosh and a son Meer Hassan – both the children are as old as five.Her husband Dr Haibatan Baloch is a dentist and professor at Makran Medical College. Her father has served as a director in a government agency. Later, he also served as a member of the district council for three years. Her brother-in-law is a lecturer.

The family is a well-established, highly educated with no previous affiliation with any Baloch insurgent group. One of her uncles is an author, a former professor and human rights campaigner.

It may be difficult to know what exactly provoked her to join the Baloch insurgency, but she remained a member of the Baloch Students Organisation (BSO-Azad) during her student life.

Importantly, none of her family members is missing or subjected to enforced disappearance except a fifth cousin who got killed during a military operation in 2018 in Kech.

A review of her Twitter handle shows that she was well read as shared quotes from such revolutionaries as Ernesto Che Guevara, Jean-Jacques Rousseau and classical and modern writers, authors and poets, including Dante Alighieri, Mark Twain, Robert A Heinlein and Paulo Coelho.

“A room without books is like a body without a soul,” she writes in one Twitter post, dated December 30, 2021.In a December 11, 2021 post, she shared a phone of a pile of books with a caption: “An interesting and wonderful target to achieve.”The tactics to employ a woman in suicide bombings have raised some questions: Is the Baloch insurgency redefining itself? Why use females now in such attacks and not before? Were these women brainwashed or coerced?In the Baloch tradition, women have a unique place where women are considered to be honorable and they have a high status in the house.There is no reason why Baloch traditions have died out but the suicide attack of Shari Baloch has raised many questions.Peace was established in Balochistan through the sacrifices of Pak army. It was not left in vain.The need is that Karachi suicide attack should not be considered as a normal attack of terrorists and the National Action Plan should be implemented.

چینی شہریوں پر حملہ: نیشنل ایکشن پلان کب ان ایکشن ھوگا۔۔اندر کئ بات؛کالم نگار۔۔اصغرعلی مبارک

Posted on

چینی شہریوں پر حملہ: نیشنل ایکشن پلان کب ان ایکشن ھوگا۔۔اندر کئ بات؛کالم نگار۔۔اصغرعلی مبارک۔۔. قومی ایکشن پلان پر سنجیدگی عمل درآمدکرانے کاوقت آچکاہے پاک فوج کی قربانیوں سے بلوچستان میں امن قائم ہوا اسے رائیگان نہیں جانےدیں گئے اس لئے ضرورت اس امر کی ھےکہ کراچی خودکش حملے کو دہشت گردوں کی عام کارروائی نہ سمجھا جائے اور قوم ایکشن پلان پر من وعن عملدرآمد کروایاجائے۔بلوچستان سازشوں میں گھراہوا ھےجبکہ ہمارے نام نہاد سیاستدان شازشوں کو اقتدار کےایوانوں میں تلاش کررہے ہیں,چینی شہریوں پر خودکش حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کامطالبہ زور پکڑ چکاہے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا تھا جس کے کچھ حصوں پر عمل درآمد کرنےکے باعث ملک میں امن برقرار ہوا تھا، کراچی میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کا دوبارہ جائزہ لیا جارہا ہے، جس کے تحت نیکٹا کا اجلاس فوری بلائے جانےکا مطالبہ زورپکڑ چکاہے پاکستان کی بدقسمتی رہی ھےکہ قائداعظم کے بعد کوئی مخلص لیڈر میسر نہیں آیاپاکستان کوغیرمستحکم کرنے کوششیں کافی عرصے سے جاری ہیں پاکستان دشمن شوشل میڈیاکے زریعےٹارگٹ کے حصول کیلئے منظم ہے جبکہ ہم کسی معجزے کے انتظارمیں بیٹھے ہیں۔ہمارے زمہ داروں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ہماری جامعات سے شاری بلوچ جیسی اسکالرہی پیدا ہوتی رہیں گی , پاکستان کےتعلیمی اداروں میں آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے ورنہ کراچی جیسے واقعات رونماہوتے رہیںگے پاکستان بننے کے فورا بعد قائد اعظم نے بلوچستان کادورہ کرکے بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی عملی کوشش کی۔بلوچ روایت میں خواتین کو منفرد مقام حاصل ہے جہاں عورت کو عزت وناموس سمھجا جاتاہے اور اسے گھر کی چادیواری میں بلند مرتبہ حاصل ہے ایسی کوئی وجہ نہیں کہ بلوچ روایتں دم توڑ چکی ہیں لیکن (شاران بلوچ) شاری بلوچ کے خود کش حملے نے کئی سولات کوجنم دیاہےشوشل میڈیاکے زریعےٹارگٹ کے حصول کیلئے دشمن منظم ہے جبکہ ہم کسی معجزے کے انتظارمیں بیٹھے ہیں۔ہمارے زمہ داروں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ہماری جامعات سے شاری بلوچ جیسی اسکالرہی پیدا ہوتی رہیں گی ,پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کوششیں کافی عرصے سے جاری ہیں پاکستان مخالف قوتوں پاکستان کوغیر مستحکم کرنے کیلئے اب اقتدارکےایوانوں میں اپنابیانیہ داخل کردیاہےبلوچستان سازشوں میں گھراہوا ھےجبکہ ہمارے نام نہاد سیاستدان شازشوں کو اقتدار کےایوانوں میں تلاش کررہے ہیں,خودکش بم دھماکوں میں عورت کو استعمال کر نے کے ہتھکنڈوں نے کچھ سوالات کو جنم دیا ہے: کیا بلوچ شورش اپنے آپ کو نئے سرے سے متعین کر رہی ہے؟ اس طرح کے حملوں میں خواتین کو اب کیوں استعمال کرتے ہیں اور پہلے نہیں؟ کیا ان خواتین کی برین واشنگ کی گئی یا زبردستی؟شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے والے اور بھڑکانے والے کسی کے لیے ناواقف نہیں ہیں، لیکن زیرِ بحث خاتون بمبار کا پس منظر کچھ اور ہے۔ یہ راتوں رات کی دعوت یا اچانک خواہش نہیں تھی بلکہ ہر ممکن طریقے سے ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی۔24 اپریل 2022 کی ایک پوسٹ میں، اس نے لکھا “میری زمین نے مجھے دو چیزیں سکھائی ہیں: محبت اور مزاحمت۔”2 مارچ 2022 کو، اس نے جمال بلوچ کی ایک پوسٹ کو ری ٹویٹ کیا جس میں لکھا تھا: “مزاحمت ہماری ثقافت ہے، اگر آپ اسے منانا چاہتے ہیں تو مزاحمت کریں۔”23 دسمبر 2021 کو، اس نے کیپشن کے ساتھ فتح کا نشان پوسٹ کیا: “میں ایسی کہانی نہیں ہوں جو ہمیشہ رہے گی۔ میں اپنا کردار ادا کروں گی اور باہر نکلوں گی۔”دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے اسی مہینے میں کم از کم دو بار اس پوسٹ کو شیئر کیا تھا۔

13 دسمبر 2021 کی ایک پوسٹ میں، اس نے ایک بار پھر سرخی کے ساتھ فتح کا نشان روشن کیا: “بہتر کل کے لیے قربانیاں…..!”8 دسمبر 2021 کو، اس نے Ursula K Le Guin کا ​​ایک اقتباس شیئر کیا، جس میں لکھا تھا: “آپ انقلاب نہیں خرید سکتے۔ آپ انقلاب نہیں لا سکتے۔ آپ صرف انقلاب بن سکتے ہیں۔ یہ آپ کی روح میں ہے، یا یہ کہیں نہیں ہے۔”شاری بلوچ (شاران بلوچ)بلوچستان کے اپنے آبائی ضلع کیچ میں سیکنڈری اسکول کی ٹیچر تھیں۔ اس نے 2014 میں اپنا B.Ed اور 2018 میں M.Ed مکمل کیا۔ اس نے بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ماسٹر اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کیا۔شاری بلوچ بلوچستان کے اپنے آبائی ضلع کیچ میں سیکنڈری اسکول کی ٹیچر تھیں۔ وہ پچھلے چھ ماہ سے سکول سے غیر حاضر تھی۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے اسے شوکاز نوٹس جاری کیا تھا، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔شاری بلوچ نے اپنے پیچھے ایک بیٹی مہروش اور ایک بیٹا میر حسن چھوڑا ہے – دونوں بچے پانچ سال کی عمر کے ہیں۔شاری بلوچ بلوچستان کے اپنے آبائی ضلع کیچ میں سیکنڈری اسکول کی ٹیچر تھیں۔ وہ پچھلے چھ ماہ سے سکول سے غیر حاضر تھی۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے اسے شوکاز نوٹس جاری کیا تھا، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔شاری بلوچ نے اپنے پیچھے ایک بیٹی مہروش اور ایک بیٹا میر حسن چھوڑا ہے – دونوں بچے پانچ سال کی عمر کے ہیں۔ان کے شوہر ڈاکٹر ہیبتن بلوچ مکران میڈیکل کالج میں ڈینٹسٹ اور پروفیسر ہیں۔ اس کے والد ایک سرکاری ایجنسی میں بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بعد ازاں تین سال تک ضلع کونسل کے ممبر بھی رہے۔ اس کی بھابھی ایک لیکچرر ہیں۔خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اس کے ماموں میں سے ایک مصنف، سابق پروفیسر اور انسانی حقوق کی مہم چلانے والے ہیں۔یہ جاننا مشکل ہو سکتا ہے کہ کس چیز نے انہیں بلوچ شورش میں شامل ہونے پر اکسایا، لیکن وہ اپنی طالب علمی کے دوران بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO-آزاد) کی رکن رہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس کے خاندان کا کوئی فرد لاپتہ یا جبری گمشدگی کا شکار نہیں ہے سوائے اس کے پانچویں کزن کے جو کیچ میں 2018 میں ایک فوجی آپریشن کے دوران مارا گیا تھا۔اس کے ٹویٹر ہینڈل کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اسے ارنسٹو چی گویرا، ژاں جیک روسو اور کلاسیکی اور جدید ادیبوں، مصنفین اور شاعروں کے مشترکہ اقتباسات کے طور پر اچھی طرح پڑھا گیا تھا، جن میں ڈینٹ الیگھیری، مارک ٹوین، رابرٹ اے ہینلین اور پاؤلو کوئلہو شامل ہیں۔ “کتابوں کے بغیر کمرہ روح کے بغیر جسم کی طرح ہے،” وہ 30 دسمبر 2021 کی ایک ٹویٹر پوسٹ میں لکھتی ہیں۔.11 دسمبر 2021 کی ایک پوسٹ میں، اس نے کیپشن کے ساتھ کتابوں کے ڈھیر کا ایک فون شیئر کیا: “حاصل کرنے کے لیے ایک دلچسپ اور شاندار ہدف۔”خودکش بم دھماکوں میں عورت کیوں استعمال کی گئی.کچھ سوالات کو جنم دیا ہے: کیا دہشت گرد اپنے آپ کو نئے سرے سے متعین کر ر ہےہیں ؟ اس طرح کے حملوں میں خواتین کو اب کیوں استعمال کرتے ہیں اور پہلے نہیں؟ کیا ان خواتین کی برین واشنگ کی گئی یا زبردستی؟اب ناگزیر ہے کہ انتہا پسندی کے مراکز بھی ختم ہوں تاکہ دہشت گردوں کو نئے ہاتھ میسر نہ آئیں۔ اس کے لئے لازم ہے کہ ان افکار کا ابطال کیا جائے جو انتہا پسندانہ ذہن بناتے ہیں۔ ان اداروں کا خاتمہ ہو جو نوجوانوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔

Chief of Army Staff (COAS) General Qamar Javed Bajwa pays visit to forward areas along LOC……By;Asghar Ali Mubarak………

Posted on

Gen Bajwa pays visit to forward areas along LOC……By;Asghar Ali Mubarak………………RAWALPINDI: ………..The Chief of Army Staff (COAS) General Qamar Javed Bajwa on wednesday visited the forward areas along the Line of Control (LoC), Inter-Services Public Relations (ISPR) said in a statement..According to the military’s media wing, the COAS was updated with the on-the-ground situation along the LOC as well as the operational preparedness of the formation. COAS interacted with the troops deployed along LOC in Chakothi Sector and spent time with them. COAS appreciated their combat readiness and high state of morale.
Earlier, on arrival at LOC, COAS was received by Corps Comd Lieutenant General Sahir Shamshad Mirza.