. ۔.28 مئی 1998یوم تکبیر کا نام تجویز کرنا اعزاز سے کم نہیں ۔۔۔۔( کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک۔ کالم ” اندر کی بات” )

Posted on

28 مئی یوم تکبیر کا نام تجویز کرنا اعزاز سے کم نہیں ۔۔۔۔( کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک۔ کالم ” اندر کی بات” ) پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد 28 مئی کو ’یوم تکبیر‘ سے موسوم کیا گیا۔ اس دن سے 28 مئی کو یوم تکبیر کے طور پر منانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے.میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کاش میری پیدائش کا دن 14 اگست یوم آزادی ۔ 23مارچ یوم پاکستان یا 6 ستمبر یوم دفاع ہوتا تاکہ میں بھی فخر سے اپنی سالگرہ کے دن کو خوب فخر سے منایا کرتا کیونکہ اکثر طارق عزیز کے نیلام گھر ٹی وی شو میں اس دن کو پیدا ھونے والے افراد کو غیر معمولی فوقیت دی جاتی تھی یہ بات سال 1998 کی ھےجب روزنامہ جنگ راولپنڈی کے دفتر واقع مری روڈ راولپنڈی کے صدر دفتر کے میگزین سیکشن میں جرنلسٹ دوستوں نے بڑے کھانے کا اہتمام کیا سب دوستوں کو علم تھا کہ میری پیدائش28مئی کی جگہ صوبہ بلوچستان کا علاقہ سبی ھےاس دوران ھمارے دوست میگزین ایڈیٹر سجاد انور صاحب نے کمرے داخل ہوتے ہوئے کہا کہ اصغر علی مبارک کی سالگرہ اب پوری قوم منایا کرے کیونکہ پاکستان آج ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کرچکا ہے شام کو گھر آیا تو میری والدہ محترمہ نے میرا ماتھا چومتے ھوئے پھول پیش کیے اور سب نے میری سالگرہ کی مبارکباد کے ساتھ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی مبارکبادیں دیں 28 مئی کو سرکاری نام تجویزکرنے کیلئےایک قومی مقابلہ کا اعلان کیا گیا جس کو پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد کے صدر دفتر نے آرگنائز کیا مجھے اس وقت فخرمحسوس ھوا جب وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے 28 مئی کے نام کو تجویز کرنے والوں میں ”اصغرعلی مبارک ” بھی شامل تھا میاں نواز شریف کی جانب بطور وزیراعظم بھیجا جانے والاخط آج موجود ہے جس میں 28 مئی کا نام یوم تکبیر منتخب کیا تھا بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکہ کی خبر سنتے ہی فضا اﷲ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف نے کہا تھا ہم نے ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کیا لیکن ہمیں انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کیا آج یوم تکبیر نام منتخب کرنے والوں میں شامل ھونے پر بہت زیادہ خوشی ھےاور مزید یہ کہ 28 مئی میری سالگرہ پر پاکستان بھر لوگ کیک کاٹنے کی تقریب مناتے ہیں بلاشبہ 28 مئی یوم تکبیر پر ہر پاکستانی کو فخر ہے جب پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔۔.28 مئی 1998 کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی تجربات کیے۔ ملی تاریخ میں اس دن کو یوم تکبیر کے دن سے لکھا گیا پاکستان نے چاغی (بلوچستان) ميں پانچ ايٹمی دھماکے کر کے اپنے ايٹمی طاقت ہونے کا اعلان کيا میاں نواز شریف نے28 مئی 1998 کو قوم سے خطاب میں کہا کہ گزشتہ دنوں بھارت نے ایٹمی تجربات کئےآج ھم نے اس کا بھی حساب چکا دیا ۔اور پانچ کامیاب ایٹمی تجربات کئے ہیں پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن جب بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔ اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) نے اطلاع دی تھی کہ 28 مئی کو کیے گئے ٹیسٹوں سے ریکٹر اسکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے ، جس کی مجموعی پیداوار 40 KT تک تھی۔پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعوی کیا تھا کہ ایک ڈیوائس افزائش پزیر آلہ تھی اور باقی چار ذیلی کلوٹن ایٹمی آلات تھے۔ اس کے بعد ، 30 مئی 1998 کو ، پاکستان نے 12 کلوٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری سر کا تجربہ کیا۔ جوہری تجربہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے راس کوہ پہاڑیوں میں کیا گیا۔ چاغی اول پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پہلا عوامی امتحان تھا۔ اس کا اوقات 11 اور 13 مئی 1998 کو ہندوستان کے دوسرے جوہری تجربوں کا اسٹریٹجک جواب تھا۔ دعوی کیا گیا ٹیسٹوں کی کل تعداد چھ تھی ، جس کے مطابق مبینہ طور پر ایک اور ڈیوائس کو چھوڑ دیا گیابھارت اپنے قیام سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا رہا ہے۔ عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974 میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لیے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی ‍قوت بنّے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کرچکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا تھا۔ اس لیے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کی18مئی 1974 کو بھارت نے راجستھان میں مسکراتا بوھدا نامی ایٹمی دھماکے کیے۔ تو جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی NPT non proliferation treaty پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایٹم بم بنانا بہت اہم ہو گیا تھا۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976 میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔1977 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے اہم اقدام اٹھائے۔ حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔ پاکستان نے اس مقصد کے لیے یورپ ، مشرق وسطیٰ، سنگاپور اور بھارت میں ‎ISI کے خاص تربیت یافتہ ایجنٹوں کا ایک جال بچھا دیا گیا، جو حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدتے اور انہیں پاکستان میں مختلف ممالک کے راستے منتقل کردیتے تھے۔ امریکا کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ تو امریکا نے فرانس،جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دی کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کرے جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیش رفت کا باعث بنے۔ لیکن جرمن نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو ٹریشئم ٹیکنالوجی فراہم کی جو جدید جوہری بم میں استعمال ہوتی تھی۔ اس بات کا انکشاف پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کو یورنیم افزودگی کا معیار پرکھنے والا آلا سپکٹرو میٹر اور ٹریشئم ٹیکنالوجی سمت اور بہت سارے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا۔ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کرتے تھے۔ ISI نے اس مقصد کے لیے سنگاپور میں ایک فرم بھی بنا رکھی تھی۔ اصل میں یہ ایک الجھن والی جنگ تھی۔ پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایا تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ایک چھوٹی سی بھی غلطی سارے پروگرام کو تباہ و برباد کر سکتی تھی۔ اس سارے پروسیسر میں پاکستانی حاکم ضیاء الحق کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ایلومینیئم برت کے پائپوں کو خرید کر پاکستان لانا تھا۔ کیونکہ امریکا نےایلومینیئم برت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔ جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایلومینیئم برت کے پائپ خریدنے کے بعد سنگاپور کے راستے پاکستان کیسے لائے جائیں۔ یاد رہے ایلومینیئم برت یورینیم کو خالص کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سنگاپور کے راستےایلومینیئم برت کے پائپ پاکستان لانے کے لیے پاکستانی جہازوں کا بھارت میں فیول ڈالوانے کے لیے بھارت ٹھہرنا لازمی تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام اس بات کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ کیونکہ حساس ترین آلات بھارت کے ہاتھ نہ چڑھ جائیں ، جس کے بعد بھارت ثبوتوں کیساتھ دنیا میں واویلا مچانا شروع کر دے یہ انتہائی سنگین ترین مسئلہ تھا۔ کیونکہ سنگاپور کے علاؤہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ یہ بظاہر ایک ناممکن ترین مشن تھا۔ کہ آپ نے اپنی سب سے خفیہ اور حساس ترین چیز اپنے سب سے بڑے دشمن کی نظروں کے سامنے سے لیکر جانی تھیں۔ ذرہ سا شک بھی سارے پلان کو دفن کر سکتا تھا۔ مگر اس مشکل ترین مشن کا بیڑا بھی آئی ایس آئی کے سر پھرے مارخوروں نے اٹھایا ہوا تھا۔ آئی ایس آئی کے مارخوروں نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ حساس آلات پر بھارت کی نظر بھی نہیں پڑھنے دیں گے۔ اس مقصد کے لیے آئی ایس آئی کے سپیشل کمانڈ کو پہلے بھارت اور سنگاپور کے ائیرپورٹوں پر تعنات کیا گیا۔ اور پھر بالکل کامیابی کے ساتھ نیوکلیئر سامان سے بھرے ہوئے جہاز بھارت کے ائیرپورٹ پر اترے، کئی گھنٹوں سٹے کرنے کے بعد تیل ڈالوایا اور پاکستان آئے۔ بھارت جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تھا اس سارے معاملے میں بے خبر رہا. پاکستان اس کےائیرپورٹ کو نیوکلیئر سامان کی منتقلی کے لیے استعمال کر چکا تھا۔ یہ دنیاکی نظر میں ناممکن ترین مشن تھا۔جسے آئی ایس آئی نے ممکن کر دیکھایا۔ ‎ اس حوالے سے اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید نے بتایا کہ ھم نے کہا میاں نواز شریف صاحب Its Now or Never “کڑاکے کڈ دیو.we have to respond جس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ بس یہ ہی کریں گے لیکن ابھی آپ خاموش ہو جائیں ۔ اس میں تین سروس چیف تھے ایک نے مخالفت کی ایک نے حمایت کی اور ایک نے یہ مشورہ دیا کہ فیصلہ آپ پر ھے جبکہ آرمی کی طرف سے میاں نواز شریف پر کوئی دباو نہیں تھا کہ آپ ضرور ٹیسٹ کریں ۔میاں نواز شریف کا موقف بڑا واضح تھا کیونکہ 6 اپریل 1998 کو پاکستان نے غوری میزائیل کا ٹیسٹ کیا تھا غوری میزائیل اس وقت گیم چینجر تھا ایک ھزارکلومیٹر سے زیادہ رینج پر مار کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا سات سو کلو گرام کا تیل لوڈ تھا ۔جس تہلکہ مچ گیا جس سے پورا خطہ اور ہندوستان ہل کر رہ گیا ۔پاکستان نے برملا اعلان کیا کہ پاکستان کے پاس اب یہ صلاحیت ھے کہ ھم کہیں بھی ھندوستان کو ھٹ کر سکتے ہیں ۔کیونکہ اس سے پہلے واجپائی کی حکومت آگئی تھی الیکشن جیت چکے تھے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ بھارت کے پاس نیوکلیئر صلاحیت ھے اور اس کی کوشش کریں گے پاکستان نے اسے دھمکی سمجھا اور غوری میزائیل تجربات سے اسکا بھرپور جواب دیا ۔وہ اقدام پاکستان کے لئے ٹرننگ پوائنٹ تھا ملٹری سکریٹری بھاگا بھاگا آیا کہ بڑی خاص خبر آئی ہےکہ ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کردیا ہے جس پر میاں نواز شریف نے ھدایات جاری کیں اور آرمی چیف جنرل کرامت کو طلب کیا اس مختلف رائے تھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ پوچھ رہے تھے کہ دیکھ لیں امریکہ ناراض نہ ہو جائے کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ سے پوچھ لیں ۔اسٹیبلشمنٹ کیا کہے گی ۔ امریکہ کو امید تھی کہ شاید پاکستان دباو میں آ جائے گا ۔امریکی صدر بل کلنٹن کا رویہ ڈرانے دھمکانے والا نہیں تھا اس سے قبل برطانوی شہر برمنگھم میں جی ایٹ ممالک کا اجلاس ھوا تھا ھم سب اسکا انتظار کر رہے تھے کہ کیا اعلامیہ جاری کیا جائے گا جی ایٹ ممالک کے اعلامیہ میں ھلکی سی بھارت پر تنقید ھوئی مگر ہندوستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد نہیں کی گئی تھیں جس پاکستان کو ایک پیغام ملا کہ دنیا نے بھارت کا ایٹمی دھماکہ قبول کر لیا ہے بھارت نے اٹیمی دھماکے 11 مئی کو کیے تھے جی ایٹ ممالک کے اعلامیہ سے پاکستان کو بہت حوصلہ ملا کہ مغرب کا دوہرا معیار ھے۔ ھمیں کہہ رہے ہیں کہ آپ دھماکے نہ کریں پولیٹیکل کنٹیکٹ یہ تھا کہ پاکستان اگر ایٹمی دھماکے کرے گا تو اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں گی معیشت تباہ ہو جائے گی تو ھم پاکستان کو پانچ ارب ڈالر دیتے ہیں تو آپ اس پیشکش کو قبول کرلیں ۔اور مورال ھائی گراونڈ مل جائے گا مزید یہ کہ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو امریکہ میں مدعو کرکے عالی شان سرکاری ضیافت کی جائے گی آپ کو امریکہ آنے کی دعوت دیتے ہیں اور اسٹیٹ بینکوئیٹ کریں گے وغیرہ وغیرہ ۔اس قسم کی باتیں کی جاتی تھی پانچویں کال وزیراعظم میاں نواز شریف نے کی تھی یہ بتانے کے لیے کہ آپ نے چار بار کال کی تھی کہ ایٹمی دھماکے نہ کیے جائیں اور یہ پانچویں کال یہ بات بتانے کے لیے کر رہا ہوں کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیئے ہیں ھم نوٹ کیا کہ 28 مئی 1998 کو جب پاکستان نے اٹیمی دھماکہ کیا ہندوستان کے رویے ھم مانیٹر کررہے تھے بھارت میں تو ایسا لگتا تھا کہ سانپ سونگھ گیا ہے لوک سبھا کا اجلاس ملتوی کردیا گیا کابینہ اجلاس بھی منعقد نہیں کیا جاسکا انہوں نے کہا کہ ھم بڑے حیران تھے ایک روز پہلے بھارتیوں کو جو اتنا تکبر تھا اب کیا ہو گیا ہے انکے ترجمان نے کوئی جواب نہیں دیا اور ان کے چہرے مرجھا گئے مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ یہ سراسر سیاسی قیادت سویلین منتخب قیادت کا فیصلہ تھا ۔ بہت دلیرانہ فیصلہ تھااور بعدازاں جب بھارت کے وزیراعظم واجپائی لاہور آئے اور میاں نواز شریف کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے میں ان دائیں طرف بیٹھا ہوا تھا انہوں نےشروع ہی میں کہا کہ جناب واجپائی صاحب میں بڑا شکرگزار ھوں کہ آپ کی وجہ ھم بھی نیوکلیئر پاور بن گئے میاں نواز شریف نے یہ سب کچھ مسکراہٹ کے ساتھ کہا جبکہ انڈین پرائم منسٹر واجپائی نہیں ھنسے۔ میرے خیال میں بہت دلیرانہ فیصلہ جو پاکستان کی تقدیر کیلئے سب سے اہمیت رکھتا ہے پاکستان کی تاریخ کا سب اہم قومی سلامتی کا فیصلہ تھا شروع 1974 میں ایک سویلین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا مکمل بھی ایک سویلین منتخب حکومت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کیا اس حوالہ سے شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ قوم کے جذبات یہ تھے کہ اگر ھمارے پاس کچھ ھے تو وہ کوئی آتش بازی کے لیے نہیں ہے وہ شب برات پر چلانے کے لیے کوئی پھل جھڑیاں نہیں اگر ھمارے پاس کچھ ھےتو ھمیں اس کا اظہار کرنا چاہیے ملین ڈالر کی باتیں سنیں تھی مگر کیبنٹ یا مجھ سے کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی یہ سنی سنائی بات ہے یہ ساری باتیں نواز شریف نے خود کیں کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے فون کیا اور آفر کی ۔کیبنٹ کو کچھ نہ پتا لگا اور نہ ہی بتایا گیا تھا اس حوالے سے امریکہ نے ایک پالیسی بیان جاری کیا جو پاکستان کے میڈیا میں بڑی نمایاں طور پر چھپی ۔اس موقع کو مس کریں گے اینڈ وی مس دی ٹرین ۔اور ایکسپریس ٹرین نیور ویٹ دی پسنجر “یہ ڈائیلاگ میں نے وہاں سے شروع کیا” دس از رائٹ ٹائم ٹو ٹیک دی ڈیسئن دن ڈیسئن کم ان آور فیور” یہ فیصلہ کرنے کا بہترین موقع ہے پھر فیصلہ ھمارے حق میں ھوگا ۔ جبکہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کنفیوژ تھےوہ دونوں سائڈ پر تھے ۔آرمی کی ہائی کمان جس میں سے جس سارے چیفس موجود تھے ڈی جی آئی ایس آئی ۔ڈی جی ایم آئی اور اہم افسران موجود تھے اور اس میں (میں شیخ رشید )بھی موجود تھا ۔انہوں نے یہ بات کیبنٹ پر چھوڑ دی۔جب کیبنٹ میں یہ بات آئی تو ایک سوچ پائی گئی کہ کہیں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں نہ لگ جائیں ۔ سنہ 1998 کے مئی کی گرمی کی حدت اور سورج کی چمک کچھ زیادہ تھی یا شاید اس لیے زیادہ محسوس ہو رہی تھی کہ برصغیرکا سیاسی، دفاعی اورتزویراتی موسم بھی بہت گرم تھا۔11 مئی کو جب انڈیا نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے فوراً بعد دباؤ پاکستانی حکومت اورفیصلہ سازوں پر آ گیا۔ یہ دو طرفہ دباؤ تھا، اندرونی اور بیرونی۔
عوام تھے کہ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب چاہتے تھے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو کسی بھی قیمت پرایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔ پاکستانی حکمران ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ انڈیا نے 13 مئی کو دو مزید دھماکے کر دیے۔پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر تھیں۔ ایک طرف عوام تھے جن کے جذبات تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بین الاقوامی طاقتیں لالچ اور پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کو جوابی اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں اور دوسری طرف انڈین حکمران اور سیاستدان صبح شام اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے پاکستان کو اکسا اور دھمکا رہے تھے۔ان دنوں نجی ٹی وی چینلز نہیں تھے، لیکن سنسنی پھیلانے کا کام اخبارات بالخصوص دوپہراور شام کے اخبارات نے سنبھال رکھا تھا۔ ہرچند گھنٹوں بعد دھماکے ہونے یا نہ ہونے کی شہ سرخیوں کے ساتھ نئے ضمیمے گلیوں اور بازاروں میں پھیل رہے تھے۔بالآخر پاکستان نے 28 مئی کو پانچ دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا۔ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان کا ایٹمی سفر بھی ایک منزل پر پہنچ گیا، جو پچھلی کئی دہائیوں سے مختلف ادوار سے گزرنے اور مشکلات آنے کے باوجود جاری و ساری رہا تھا۔آزادی کے بعد پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنانے کا عندیہ نہیں دیا اور سنہ 1953 میں وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے سرکاری طور پر ’ایٹم بم نہ بنانے‘ کا پالیسی بیان جاری کیا۔ تاہم توانائی کی پیداوار کے لیے ایٹمی پروگرام کے آغاز میں دلچسپی ظاہر کی۔پاکستان نے سنہ 1953 میں امریکہ کے ساتھ صنعتی اور پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال اور ری ایکٹر کی تعمیرکی یادداشت پر دستخط کیے۔ 1953 میں امریکہ کی ’ایٹم فارپیس‘ پالیسی کی حمایت اور بعد ازاں اس کے ساتھ پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کی یادداشت کے بعد پاکستان ایٹمی پروگرام کے فروغ کے لیے سنہ 1953 میں اٹامک انرجی کمیشن کا باضابطہ قیام عمل میں لایا۔پاکستان نے سنہ 1960 اور 63 کے دوران یورینیم کی تلاش کا پراجیکٹ شروع کیا جس کے تحت لاہور اور ڈھاکہ میں دو سینٹرز قائم کیے گیے۔ ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے ذخائر ملنے کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اس کو نکالنا شروع کیا۔1965 میں پاکستانی اداروں کوعلم ہوا کہ بھارت ایٹمی ہتھیار بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ جس پر اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹواور صدر ایوب خان نے بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے پاکستانی انجینئر منیراحمد خان سے ملاقاتیں کی۔ تاہم وقتی طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔پاکستان نے کینیڈا کی مدد سے سنہ 1972 میں پہلا سویلین نیوکلیئر ری ایکٹر لگایا۔سنہ 1973 میں مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد پاکستانی حکام نے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا کہ انڈیا سے مقابلے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔ جب 1974 میں انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کو ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ہر صورت ایٹم بم بنائے گا، چاہے گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔سنہ 1974 میں کینیڈا نے جوہری عدم پھیلاؤ تنازع کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ایٹمی تعاون ختم کر دیا۔ اسی سال پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کے لیے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم کیں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے یورینیم افزودگی پر کام شروع کیا۔سنہ 1979 میں امریکہ نے پاکستان کی فوجی اور معاشی امداد یہ کہہ کر معطل کر دی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن نہیں رہاپاکستان نے سنہ 1980 میں دعوٰی کیا کہ وہ ملک کے اندر موجود یورینیم سے ایٹمی ایندھن تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔امریکہ نے سنہ 1982 میں خطے میں رونما ہونے والی سیاسی اور فوجی تبدیلیوں کے بعد پاکستان سے معاشی اور فوجی امداد کی پابندیاں ہٹا لیں۔ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی بنا پرامریکہ نے سنہ 1990 میں دوبارہ پاکستان پر معاشی اور فوجی پابندیاں عائد کر دیں.بھارت نے سنہ 1996 میں ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے اپریل 1998 میں ایٹمی میزائل غوری کا تجربہ کیا۔انڈیا نے 11 اور 13 مئی 1998 کو یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر دیے، دھماکوں کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دھمکی آمیز بیانات دیے جانے لگے، پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھارت کو جواب دیے جانے کا مطالبہ ہوا، صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر متعدد ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ اس کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے گئے۔ یہ ایک کڑا وقت تھا، اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر بہت دباؤ تھا، لیکن جلد ہی حکومت نے دو ٹوک فیصلہ کر لیا اور دھماکوں کے لیے بلوچستان کے علاقے چاغی کی پہاڑی کو چنا گیا۔28 مئی 1998 کی صبح پاکستان کی تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ دھماکے کے مقام سے دس کلومیٹر دورآبزرویشن پوسٹ پر دس ارکان پرمشتمل ٹیم پہنچ گئی جن میں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے چار سائنس دانوں کے ساتھ پاک فوج کی ٹیم کے قائد جنرل ذوالفقار شامل تھے۔ تین بج کر 16 منٹ پر فائرنگ بٹن دبایا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا۔

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.