ایران صدارتی انتخابات: صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار قرار

Posted on

: ایران صدارتی انتخابات ; صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار قرار…….(اصغرعلی مبارک ;کالم نگار ”اندر کی بات ” کالم ).آئندہ ایرانی صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار ہیں جو گزشتہ صدارتی انتخاب میں حسن روحانی کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے تھے لیکن اس بار ان کی پوزیشن عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے بعد کی وجہ سے کافی مستحکم نظر آتی ہے ایرانی صدر کے انتخاب کا اثر خطہ میں امن کے لئے ضروری ہے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان کے ایران کے تعلقات بہتر ہوئے پاکستان نے ایران اور سعودی عرب تعلقات میں بہتری کے لئے کلیدی کردار ادا کیا ہےایران کا آئندہ صدر بھی سخت گیر نظریات کا حامل ھوگاایران کی طاقتور انتخابی نگراں تنظیم ، گارڈین کونسل نے 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے سات امیدواروں کی منظوری دے دی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کسی بھی امیدوار کی حمایت کیے بغیر آئندہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی ہدایت کی ہےایرانی 18 جون کو ووٹ کی پرچی سے نئے صدر کا انتخاب کریں گے کیونکہ موجودہ صدر روحانی آئین کے مطابق اپنی دوبارمدت میعاد پوری ہونے کے بعد کے بعد تیسری بار انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں. امیدواروں کاکوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہونا چاہئے اس ماہ کے شروع میں کل 592 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اندراج کروایاتھا ، اس سے پہلے کہ ان کی نامزدگی کو جانچ پڑتال کے لئے گارڈین کونسل کو ارسال کیا گیا۔ ہدایت نامے کے مطابق امیدوار کی عمر 40 سے 75 سال کے درمیان ہونی چاہئے ، اس کے پاس ماسٹر ڈگری یا اس کے مساوی ہونا ضروری ہو ، ریاستی تنظیموں میں انتظامیہ کا کم از کم 4 سالہ تجربہ ہونا چاہئے ، یا وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے چاہئیں تھیں ، یا دو سے زیادہ ملین آبادی والے شہروں کا گورنر ، یا میجر جنرل یا اس سے زیادہ کے عہدے کے حامل مسلح افواج کا ایک اعلی کمانڈر رہا ہو اس سال کا صدارتی انتخاب ایران اور عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک اہم وقت پر آیا ہے جو 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لئے مذاکرات میں مصروف ہے ، جس کا ایران میں قدامت پسندوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ دیکھا جائے تو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے فائنل راؤنڈ میں صرف سات امیدوار باقی بچے ہیں جن میں ابراہیم رئیسئی ، سعید جلیلی ، محسن رضائی ، عبد الناصر ہیمتی ، عامر حسین غاززادہ .علیریزا ذاکانی شامل ہیں۔ اوراکثریت سخت نظریات کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہیں یہ ممکن نہیں لگتاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا آئندہ صدر کوئی لبرل نظریات رکھنے والا شخص ھو. ایران کے صدارتی انتخابات کے لیے سخت گیر نظریات کے حامی امیدواروں کی اکثریت منظورشدہ فہرست پر غالب نظر آ رہی ہیں.ایران کے الیکشن کمیشن نے سات صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے ہیں جبکہ درجنوں دیگر افراد کے کاغذات کو مختلف وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیا گیاہے۔ صدارتی امیدوارابراہیم رئیسی کواسٹیبلیشمنٹ کے پسندیدہ شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہےابراہیم رئیسی پر سنہ 2019 میں امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں.سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ابراہیم رئیسی کے لیے منصب صدارت تک جانے کا راستہ صاف کیا گیا ہے. انھوں نے 2017 کے انتہائی منقسم انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا مگر اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کے حمایت یافتہ امیدوار اور موجودہ صدر حسن روحانی کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔ سولہ ملین ووٹوں کے ساتھ ابراہیم رئیسی دوسرے نمبر پر رہے تھے جبکہ ان کے حریف نے 24 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔جناب ابراہیم رئیسی ایرانی عدلیہ کے سربراہ ہیں اور سخت گیر نظریات کے حامی ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ نہ صرف موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی بلکہ ممکنہ طور پر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے متوقع جانشین ہو سکتے ہیں۔اُن کے ساتھ اس صدارتی انتخاب کی دوڑ میں کوئی دوسرا ایسا امیدوار نہیں جس کا اتنا اثر و رسوخ اور ایرانی معاشرے میں عزت ہو۔جناب ابراہیم رئیسی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ملک میں معاشی مشکلات کے باعث پیدا ہونے والی ’مایوسی اور ناامیدی‘ سے نمٹنے کے وعدوں کے ساتھ کیا ہے۔ایران کے قدامت پسندوں کو یہ جان کر کچھ اطمینان ہوا کہ ملک کی عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی نے صدارتی انتخابات کے لیے خود کو بطور امیدوار پیش کیا ہے۔ سیاسی طور پر بھاری بھرکم شخصیت کے مالک ابراہیم رئیسی قدامت پسند کیمپ میں نمایاں حیثیت رکھتے اور امید ہے کہ انھیں اس کی بھرپور حمایت حاصل ہو جائے گی۔براہیم رئیسی کو 82 سالہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا ممکنہ جانشین تصور کیا جاتا ہے، جنھوں نے انھیں 2019 میں ملک کی عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ انھیں میڈیا اور ایران کے خصوصی فوجی دستے پاسداران انقلاب کے قریبی ذرائع ابلاغ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایران میں رائے عامہ کے جائزے مکمل طور پر قابل اعتبار نہیں ہیں تاہم حالیہ جائزوں کے مطابق وہ صف اول کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ سابق صدرحسن روحانی کو ووٹ دینے والے اعتدال اور اصلاح پسند نالاں ہیں۔ بہت سے لوگ ملک کی معاشی بدحالی کا ذمہ دار حکومت کو سمجھتے ہیں، جس میں امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی نئی پابندیوں کی وجہ سے مزید ابتری آئی ہے.ٹرمپ انتظامیہ نے 2015 میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ہونے والے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر کے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔تہران اور اہم عالمی طاقتیں اب اس معاہدے کو بحال کرنے کی غرض سے ویانا میں مذاکرات کر رہی ہیں۔ لیکن اگر جون کے انتخابات سے پہلے انھیں اس میں کامیابی مل بھی گئی تو انتخابی نتائج پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ معاہدے کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ایران کے پیچیدہ سیاسی نظام اور صدارتی انتخابات نے گزشتہ 25 برس کے دوران مبصرین کو کئی بار ورطۂ حیرت میں ڈالا.اس بارجناب ابراہیم رئیسی کو اپنے مد مقابل امیدواروں، خاص کر اصلاح پسندوں اور روحانی حکومت سے وابستہ حریفوں پر فوقیت حاصل ہو گی۔ صدر حسن روحانی اعتدال پسند عالم ہیں جنھوں نے گذشتہ انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی اصلاح پسند انتخابات سے قبل رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں۔ یہ اس وقت واضح ہو گیا تھا جب 2020 کے پارلیمانی انتخابات میں ان کے حمایت یافتہ امیدوار قدامت پسندوں سے شکست کھا گئے تھے۔ ان انتخاب میں سنہ 1979 کے انقلاب کے بعد رائے دہندگان کی شرکت پہلی بار اتنی نچلی سطح پر آئی۔ جناب ابراہیم رئیسی کو آنے والے دنوں میں ہونے والے مباحثے اور مہم کے دوران بعض مضبوط حریفوں کا سامنا کرنا ہو گا۔سنہ 2013 اور 2017 کے انتخابات میں صدر روحانی کے اصلاح پسند حامی اب عوام کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان کا امیدوار معاشی اور سماجی بحالی کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا. وقع کی جا رہی ہے کہ اصلاح پسند جماعتوں کا اتحاد، اصلاح‌ طلبان، اول نائب صدر اسحاق جہانگیری، جنھوں نے خود کو بھی صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے، نامزد کرے گا۔روحانی کے حامیوں میں نہایت مقبول رہنے والے جہانگیری کی مقبولیت میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔ بہت سے لوگ انھیں ناقص معاشی فیصلوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جن کی وجہ سے ایران میں کرنسی کا بحران پیدا ہوا۔ اس لیے مباحث کے دوران وہ مخالفین کے لیے ایک آسان ہدف ثابت ہوں گےانتخابات سے قبل دو اہم گروپ منشتر قدامت پسندوں کو یکجا کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کونسل آف کولیشن آف دی فورسز آف دی اسلامک ریولوشن (سی سی ایف آئی آر) اور دوسرا پرنسپلسٹ یونٹی کونسل (پی یو سی) ہے۔سی سی ایف آئی آر دسمبر 2019 سے سرگرم ہے اور اس کی سربراہی مجلس شوریٰ (اسمبلی) کے سابق سپیکر اور تجربہ کار سیاستدان غلام علی حدّاد عادل کر رہے ہیں۔پی یو سی کا قیام نومبر 2020 میں عمل میں آیا ہے اور یہ ایک بااثر مذہبی گروہ، جامعۀ روحانیت مبارز، کی سرکردگی میں کام کر رہا ہے۔ پی یو سی کے سربراہ قدامت پسند عالم آیت اللہ محمد علی مواحدی کرمانی ہیں۔ صدر احمدی نژاد کے ایک وزیر منوچہر متقی اس کے ترجمان ہیں۔خیال ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات رائے دہندگان کو راغب نہیں کر سکیں گے کہ وہ اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لیے جوق در جوق میں میدان میں آئیں۔

One thought on “ایران صدارتی انتخابات: صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار قرار

    Asghar Ali Mubarak responded:
    May 30, 2021 at 11:53 am

    Reblogged this on asgharalimubarakblog.

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.