Month: May 2021

. ۔.28 مئی 1998یوم تکبیر کا نام تجویز کرنا اعزاز سے کم نہیں ۔۔۔۔( کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک۔ کالم ” اندر کی بات” )

Posted on

28 مئی یوم تکبیر کا نام تجویز کرنا اعزاز سے کم نہیں ۔۔۔۔( کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک۔ کالم ” اندر کی بات” ) پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد 28 مئی کو ’یوم تکبیر‘ سے موسوم کیا گیا۔ اس دن سے 28 مئی کو یوم تکبیر کے طور پر منانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے.میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کاش میری پیدائش کا دن 14 اگست یوم آزادی ۔ 23مارچ یوم پاکستان یا 6 ستمبر یوم دفاع ہوتا تاکہ میں بھی فخر سے اپنی سالگرہ کے دن کو خوب فخر سے منایا کرتا کیونکہ اکثر طارق عزیز کے نیلام گھر ٹی وی شو میں اس دن کو پیدا ھونے والے افراد کو غیر معمولی فوقیت دی جاتی تھی یہ بات سال 1998 کی ھےجب روزنامہ جنگ راولپنڈی کے دفتر واقع مری روڈ راولپنڈی کے صدر دفتر کے میگزین سیکشن میں جرنلسٹ دوستوں نے بڑے کھانے کا اہتمام کیا سب دوستوں کو علم تھا کہ میری پیدائش28مئی کی جگہ صوبہ بلوچستان کا علاقہ سبی ھےاس دوران ھمارے دوست میگزین ایڈیٹر سجاد انور صاحب نے کمرے داخل ہوتے ہوئے کہا کہ اصغر علی مبارک کی سالگرہ اب پوری قوم منایا کرے کیونکہ پاکستان آج ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کرچکا ہے شام کو گھر آیا تو میری والدہ محترمہ نے میرا ماتھا چومتے ھوئے پھول پیش کیے اور سب نے میری سالگرہ کی مبارکباد کے ساتھ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی مبارکبادیں دیں 28 مئی کو سرکاری نام تجویزکرنے کیلئےایک قومی مقابلہ کا اعلان کیا گیا جس کو پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد کے صدر دفتر نے آرگنائز کیا مجھے اس وقت فخرمحسوس ھوا جب وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے 28 مئی کے نام کو تجویز کرنے والوں میں ”اصغرعلی مبارک ” بھی شامل تھا میاں نواز شریف کی جانب بطور وزیراعظم بھیجا جانے والاخط آج موجود ہے جس میں 28 مئی کا نام یوم تکبیر منتخب کیا تھا بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکہ کی خبر سنتے ہی فضا اﷲ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف نے کہا تھا ہم نے ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کیا لیکن ہمیں انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کیا آج یوم تکبیر نام منتخب کرنے والوں میں شامل ھونے پر بہت زیادہ خوشی ھےاور مزید یہ کہ 28 مئی میری سالگرہ پر پاکستان بھر لوگ کیک کاٹنے کی تقریب مناتے ہیں بلاشبہ 28 مئی یوم تکبیر پر ہر پاکستانی کو فخر ہے جب پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔۔.28 مئی 1998 کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی تجربات کیے۔ ملی تاریخ میں اس دن کو یوم تکبیر کے دن سے لکھا گیا پاکستان نے چاغی (بلوچستان) ميں پانچ ايٹمی دھماکے کر کے اپنے ايٹمی طاقت ہونے کا اعلان کيا میاں نواز شریف نے28 مئی 1998 کو قوم سے خطاب میں کہا کہ گزشتہ دنوں بھارت نے ایٹمی تجربات کئےآج ھم نے اس کا بھی حساب چکا دیا ۔اور پانچ کامیاب ایٹمی تجربات کئے ہیں پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن جب بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔ اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) نے اطلاع دی تھی کہ 28 مئی کو کیے گئے ٹیسٹوں سے ریکٹر اسکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے ، جس کی مجموعی پیداوار 40 KT تک تھی۔پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعوی کیا تھا کہ ایک ڈیوائس افزائش پزیر آلہ تھی اور باقی چار ذیلی کلوٹن ایٹمی آلات تھے۔ اس کے بعد ، 30 مئی 1998 کو ، پاکستان نے 12 کلوٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری سر کا تجربہ کیا۔ جوہری تجربہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے راس کوہ پہاڑیوں میں کیا گیا۔ چاغی اول پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پہلا عوامی امتحان تھا۔ اس کا اوقات 11 اور 13 مئی 1998 کو ہندوستان کے دوسرے جوہری تجربوں کا اسٹریٹجک جواب تھا۔ دعوی کیا گیا ٹیسٹوں کی کل تعداد چھ تھی ، جس کے مطابق مبینہ طور پر ایک اور ڈیوائس کو چھوڑ دیا گیابھارت اپنے قیام سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا رہا ہے۔ عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974 میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لیے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی ‍قوت بنّے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کرچکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا تھا۔ اس لیے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کی18مئی 1974 کو بھارت نے راجستھان میں مسکراتا بوھدا نامی ایٹمی دھماکے کیے۔ تو جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی NPT non proliferation treaty پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایٹم بم بنانا بہت اہم ہو گیا تھا۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976 میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔1977 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے اہم اقدام اٹھائے۔ حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔ پاکستان نے اس مقصد کے لیے یورپ ، مشرق وسطیٰ، سنگاپور اور بھارت میں ‎ISI کے خاص تربیت یافتہ ایجنٹوں کا ایک جال بچھا دیا گیا، جو حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدتے اور انہیں پاکستان میں مختلف ممالک کے راستے منتقل کردیتے تھے۔ امریکا کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ تو امریکا نے فرانس،جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دی کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کرے جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیش رفت کا باعث بنے۔ لیکن جرمن نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو ٹریشئم ٹیکنالوجی فراہم کی جو جدید جوہری بم میں استعمال ہوتی تھی۔ اس بات کا انکشاف پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کو یورنیم افزودگی کا معیار پرکھنے والا آلا سپکٹرو میٹر اور ٹریشئم ٹیکنالوجی سمت اور بہت سارے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا۔ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کرتے تھے۔ ISI نے اس مقصد کے لیے سنگاپور میں ایک فرم بھی بنا رکھی تھی۔ اصل میں یہ ایک الجھن والی جنگ تھی۔ پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایا تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ایک چھوٹی سی بھی غلطی سارے پروگرام کو تباہ و برباد کر سکتی تھی۔ اس سارے پروسیسر میں پاکستانی حاکم ضیاء الحق کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ایلومینیئم برت کے پائپوں کو خرید کر پاکستان لانا تھا۔ کیونکہ امریکا نےایلومینیئم برت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔ جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایلومینیئم برت کے پائپ خریدنے کے بعد سنگاپور کے راستے پاکستان کیسے لائے جائیں۔ یاد رہے ایلومینیئم برت یورینیم کو خالص کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سنگاپور کے راستےایلومینیئم برت کے پائپ پاکستان لانے کے لیے پاکستانی جہازوں کا بھارت میں فیول ڈالوانے کے لیے بھارت ٹھہرنا لازمی تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام اس بات کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ کیونکہ حساس ترین آلات بھارت کے ہاتھ نہ چڑھ جائیں ، جس کے بعد بھارت ثبوتوں کیساتھ دنیا میں واویلا مچانا شروع کر دے یہ انتہائی سنگین ترین مسئلہ تھا۔ کیونکہ سنگاپور کے علاؤہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ یہ بظاہر ایک ناممکن ترین مشن تھا۔ کہ آپ نے اپنی سب سے خفیہ اور حساس ترین چیز اپنے سب سے بڑے دشمن کی نظروں کے سامنے سے لیکر جانی تھیں۔ ذرہ سا شک بھی سارے پلان کو دفن کر سکتا تھا۔ مگر اس مشکل ترین مشن کا بیڑا بھی آئی ایس آئی کے سر پھرے مارخوروں نے اٹھایا ہوا تھا۔ آئی ایس آئی کے مارخوروں نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ حساس آلات پر بھارت کی نظر بھی نہیں پڑھنے دیں گے۔ اس مقصد کے لیے آئی ایس آئی کے سپیشل کمانڈ کو پہلے بھارت اور سنگاپور کے ائیرپورٹوں پر تعنات کیا گیا۔ اور پھر بالکل کامیابی کے ساتھ نیوکلیئر سامان سے بھرے ہوئے جہاز بھارت کے ائیرپورٹ پر اترے، کئی گھنٹوں سٹے کرنے کے بعد تیل ڈالوایا اور پاکستان آئے۔ بھارت جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تھا اس سارے معاملے میں بے خبر رہا. پاکستان اس کےائیرپورٹ کو نیوکلیئر سامان کی منتقلی کے لیے استعمال کر چکا تھا۔ یہ دنیاکی نظر میں ناممکن ترین مشن تھا۔جسے آئی ایس آئی نے ممکن کر دیکھایا۔ ‎ اس حوالے سے اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید نے بتایا کہ ھم نے کہا میاں نواز شریف صاحب Its Now or Never “کڑاکے کڈ دیو.we have to respond جس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ بس یہ ہی کریں گے لیکن ابھی آپ خاموش ہو جائیں ۔ اس میں تین سروس چیف تھے ایک نے مخالفت کی ایک نے حمایت کی اور ایک نے یہ مشورہ دیا کہ فیصلہ آپ پر ھے جبکہ آرمی کی طرف سے میاں نواز شریف پر کوئی دباو نہیں تھا کہ آپ ضرور ٹیسٹ کریں ۔میاں نواز شریف کا موقف بڑا واضح تھا کیونکہ 6 اپریل 1998 کو پاکستان نے غوری میزائیل کا ٹیسٹ کیا تھا غوری میزائیل اس وقت گیم چینجر تھا ایک ھزارکلومیٹر سے زیادہ رینج پر مار کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا سات سو کلو گرام کا تیل لوڈ تھا ۔جس تہلکہ مچ گیا جس سے پورا خطہ اور ہندوستان ہل کر رہ گیا ۔پاکستان نے برملا اعلان کیا کہ پاکستان کے پاس اب یہ صلاحیت ھے کہ ھم کہیں بھی ھندوستان کو ھٹ کر سکتے ہیں ۔کیونکہ اس سے پہلے واجپائی کی حکومت آگئی تھی الیکشن جیت چکے تھے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ بھارت کے پاس نیوکلیئر صلاحیت ھے اور اس کی کوشش کریں گے پاکستان نے اسے دھمکی سمجھا اور غوری میزائیل تجربات سے اسکا بھرپور جواب دیا ۔وہ اقدام پاکستان کے لئے ٹرننگ پوائنٹ تھا ملٹری سکریٹری بھاگا بھاگا آیا کہ بڑی خاص خبر آئی ہےکہ ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کردیا ہے جس پر میاں نواز شریف نے ھدایات جاری کیں اور آرمی چیف جنرل کرامت کو طلب کیا اس مختلف رائے تھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ پوچھ رہے تھے کہ دیکھ لیں امریکہ ناراض نہ ہو جائے کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ سے پوچھ لیں ۔اسٹیبلشمنٹ کیا کہے گی ۔ امریکہ کو امید تھی کہ شاید پاکستان دباو میں آ جائے گا ۔امریکی صدر بل کلنٹن کا رویہ ڈرانے دھمکانے والا نہیں تھا اس سے قبل برطانوی شہر برمنگھم میں جی ایٹ ممالک کا اجلاس ھوا تھا ھم سب اسکا انتظار کر رہے تھے کہ کیا اعلامیہ جاری کیا جائے گا جی ایٹ ممالک کے اعلامیہ میں ھلکی سی بھارت پر تنقید ھوئی مگر ہندوستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد نہیں کی گئی تھیں جس پاکستان کو ایک پیغام ملا کہ دنیا نے بھارت کا ایٹمی دھماکہ قبول کر لیا ہے بھارت نے اٹیمی دھماکے 11 مئی کو کیے تھے جی ایٹ ممالک کے اعلامیہ سے پاکستان کو بہت حوصلہ ملا کہ مغرب کا دوہرا معیار ھے۔ ھمیں کہہ رہے ہیں کہ آپ دھماکے نہ کریں پولیٹیکل کنٹیکٹ یہ تھا کہ پاکستان اگر ایٹمی دھماکے کرے گا تو اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں گی معیشت تباہ ہو جائے گی تو ھم پاکستان کو پانچ ارب ڈالر دیتے ہیں تو آپ اس پیشکش کو قبول کرلیں ۔اور مورال ھائی گراونڈ مل جائے گا مزید یہ کہ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو امریکہ میں مدعو کرکے عالی شان سرکاری ضیافت کی جائے گی آپ کو امریکہ آنے کی دعوت دیتے ہیں اور اسٹیٹ بینکوئیٹ کریں گے وغیرہ وغیرہ ۔اس قسم کی باتیں کی جاتی تھی پانچویں کال وزیراعظم میاں نواز شریف نے کی تھی یہ بتانے کے لیے کہ آپ نے چار بار کال کی تھی کہ ایٹمی دھماکے نہ کیے جائیں اور یہ پانچویں کال یہ بات بتانے کے لیے کر رہا ہوں کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیئے ہیں ھم نوٹ کیا کہ 28 مئی 1998 کو جب پاکستان نے اٹیمی دھماکہ کیا ہندوستان کے رویے ھم مانیٹر کررہے تھے بھارت میں تو ایسا لگتا تھا کہ سانپ سونگھ گیا ہے لوک سبھا کا اجلاس ملتوی کردیا گیا کابینہ اجلاس بھی منعقد نہیں کیا جاسکا انہوں نے کہا کہ ھم بڑے حیران تھے ایک روز پہلے بھارتیوں کو جو اتنا تکبر تھا اب کیا ہو گیا ہے انکے ترجمان نے کوئی جواب نہیں دیا اور ان کے چہرے مرجھا گئے مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ یہ سراسر سیاسی قیادت سویلین منتخب قیادت کا فیصلہ تھا ۔ بہت دلیرانہ فیصلہ تھااور بعدازاں جب بھارت کے وزیراعظم واجپائی لاہور آئے اور میاں نواز شریف کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے میں ان دائیں طرف بیٹھا ہوا تھا انہوں نےشروع ہی میں کہا کہ جناب واجپائی صاحب میں بڑا شکرگزار ھوں کہ آپ کی وجہ ھم بھی نیوکلیئر پاور بن گئے میاں نواز شریف نے یہ سب کچھ مسکراہٹ کے ساتھ کہا جبکہ انڈین پرائم منسٹر واجپائی نہیں ھنسے۔ میرے خیال میں بہت دلیرانہ فیصلہ جو پاکستان کی تقدیر کیلئے سب سے اہمیت رکھتا ہے پاکستان کی تاریخ کا سب اہم قومی سلامتی کا فیصلہ تھا شروع 1974 میں ایک سویلین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا مکمل بھی ایک سویلین منتخب حکومت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کیا اس حوالہ سے شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ قوم کے جذبات یہ تھے کہ اگر ھمارے پاس کچھ ھے تو وہ کوئی آتش بازی کے لیے نہیں ہے وہ شب برات پر چلانے کے لیے کوئی پھل جھڑیاں نہیں اگر ھمارے پاس کچھ ھےتو ھمیں اس کا اظہار کرنا چاہیے ملین ڈالر کی باتیں سنیں تھی مگر کیبنٹ یا مجھ سے کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی یہ سنی سنائی بات ہے یہ ساری باتیں نواز شریف نے خود کیں کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے فون کیا اور آفر کی ۔کیبنٹ کو کچھ نہ پتا لگا اور نہ ہی بتایا گیا تھا اس حوالے سے امریکہ نے ایک پالیسی بیان جاری کیا جو پاکستان کے میڈیا میں بڑی نمایاں طور پر چھپی ۔اس موقع کو مس کریں گے اینڈ وی مس دی ٹرین ۔اور ایکسپریس ٹرین نیور ویٹ دی پسنجر “یہ ڈائیلاگ میں نے وہاں سے شروع کیا” دس از رائٹ ٹائم ٹو ٹیک دی ڈیسئن دن ڈیسئن کم ان آور فیور” یہ فیصلہ کرنے کا بہترین موقع ہے پھر فیصلہ ھمارے حق میں ھوگا ۔ جبکہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کنفیوژ تھےوہ دونوں سائڈ پر تھے ۔آرمی کی ہائی کمان جس میں سے جس سارے چیفس موجود تھے ڈی جی آئی ایس آئی ۔ڈی جی ایم آئی اور اہم افسران موجود تھے اور اس میں (میں شیخ رشید )بھی موجود تھا ۔انہوں نے یہ بات کیبنٹ پر چھوڑ دی۔جب کیبنٹ میں یہ بات آئی تو ایک سوچ پائی گئی کہ کہیں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں نہ لگ جائیں ۔ سنہ 1998 کے مئی کی گرمی کی حدت اور سورج کی چمک کچھ زیادہ تھی یا شاید اس لیے زیادہ محسوس ہو رہی تھی کہ برصغیرکا سیاسی، دفاعی اورتزویراتی موسم بھی بہت گرم تھا۔11 مئی کو جب انڈیا نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے فوراً بعد دباؤ پاکستانی حکومت اورفیصلہ سازوں پر آ گیا۔ یہ دو طرفہ دباؤ تھا، اندرونی اور بیرونی۔
عوام تھے کہ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب چاہتے تھے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو کسی بھی قیمت پرایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔ پاکستانی حکمران ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ انڈیا نے 13 مئی کو دو مزید دھماکے کر دیے۔پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر تھیں۔ ایک طرف عوام تھے جن کے جذبات تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بین الاقوامی طاقتیں لالچ اور پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کو جوابی اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں اور دوسری طرف انڈین حکمران اور سیاستدان صبح شام اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے پاکستان کو اکسا اور دھمکا رہے تھے۔ان دنوں نجی ٹی وی چینلز نہیں تھے، لیکن سنسنی پھیلانے کا کام اخبارات بالخصوص دوپہراور شام کے اخبارات نے سنبھال رکھا تھا۔ ہرچند گھنٹوں بعد دھماکے ہونے یا نہ ہونے کی شہ سرخیوں کے ساتھ نئے ضمیمے گلیوں اور بازاروں میں پھیل رہے تھے۔بالآخر پاکستان نے 28 مئی کو پانچ دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا۔ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان کا ایٹمی سفر بھی ایک منزل پر پہنچ گیا، جو پچھلی کئی دہائیوں سے مختلف ادوار سے گزرنے اور مشکلات آنے کے باوجود جاری و ساری رہا تھا۔آزادی کے بعد پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنانے کا عندیہ نہیں دیا اور سنہ 1953 میں وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے سرکاری طور پر ’ایٹم بم نہ بنانے‘ کا پالیسی بیان جاری کیا۔ تاہم توانائی کی پیداوار کے لیے ایٹمی پروگرام کے آغاز میں دلچسپی ظاہر کی۔پاکستان نے سنہ 1953 میں امریکہ کے ساتھ صنعتی اور پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال اور ری ایکٹر کی تعمیرکی یادداشت پر دستخط کیے۔ 1953 میں امریکہ کی ’ایٹم فارپیس‘ پالیسی کی حمایت اور بعد ازاں اس کے ساتھ پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کی یادداشت کے بعد پاکستان ایٹمی پروگرام کے فروغ کے لیے سنہ 1953 میں اٹامک انرجی کمیشن کا باضابطہ قیام عمل میں لایا۔پاکستان نے سنہ 1960 اور 63 کے دوران یورینیم کی تلاش کا پراجیکٹ شروع کیا جس کے تحت لاہور اور ڈھاکہ میں دو سینٹرز قائم کیے گیے۔ ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے ذخائر ملنے کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اس کو نکالنا شروع کیا۔1965 میں پاکستانی اداروں کوعلم ہوا کہ بھارت ایٹمی ہتھیار بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ جس پر اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹواور صدر ایوب خان نے بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے پاکستانی انجینئر منیراحمد خان سے ملاقاتیں کی۔ تاہم وقتی طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔پاکستان نے کینیڈا کی مدد سے سنہ 1972 میں پہلا سویلین نیوکلیئر ری ایکٹر لگایا۔سنہ 1973 میں مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد پاکستانی حکام نے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا کہ انڈیا سے مقابلے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔ جب 1974 میں انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کو ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ہر صورت ایٹم بم بنائے گا، چاہے گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔سنہ 1974 میں کینیڈا نے جوہری عدم پھیلاؤ تنازع کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ایٹمی تعاون ختم کر دیا۔ اسی سال پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کے لیے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم کیں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے یورینیم افزودگی پر کام شروع کیا۔سنہ 1979 میں امریکہ نے پاکستان کی فوجی اور معاشی امداد یہ کہہ کر معطل کر دی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن نہیں رہاپاکستان نے سنہ 1980 میں دعوٰی کیا کہ وہ ملک کے اندر موجود یورینیم سے ایٹمی ایندھن تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔امریکہ نے سنہ 1982 میں خطے میں رونما ہونے والی سیاسی اور فوجی تبدیلیوں کے بعد پاکستان سے معاشی اور فوجی امداد کی پابندیاں ہٹا لیں۔ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی بنا پرامریکہ نے سنہ 1990 میں دوبارہ پاکستان پر معاشی اور فوجی پابندیاں عائد کر دیں.بھارت نے سنہ 1996 میں ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے اپریل 1998 میں ایٹمی میزائل غوری کا تجربہ کیا۔انڈیا نے 11 اور 13 مئی 1998 کو یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر دیے، دھماکوں کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دھمکی آمیز بیانات دیے جانے لگے، پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھارت کو جواب دیے جانے کا مطالبہ ہوا، صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر متعدد ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ اس کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے گئے۔ یہ ایک کڑا وقت تھا، اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر بہت دباؤ تھا، لیکن جلد ہی حکومت نے دو ٹوک فیصلہ کر لیا اور دھماکوں کے لیے بلوچستان کے علاقے چاغی کی پہاڑی کو چنا گیا۔28 مئی 1998 کی صبح پاکستان کی تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ دھماکے کے مقام سے دس کلومیٹر دورآبزرویشن پوسٹ پر دس ارکان پرمشتمل ٹیم پہنچ گئی جن میں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے چار سائنس دانوں کے ساتھ پاک فوج کی ٹیم کے قائد جنرل ذوالفقار شامل تھے۔ تین بج کر 16 منٹ پر فائرنگ بٹن دبایا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا۔

ایران صدارتی انتخابات: صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار قرار

Posted on

asgharalimubarakblog

: ایران صدارتی انتخابات ; صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار قرار…….(اصغرعلی مبارک ;کالم نگار ”اندر کی بات ” کالم ).آئندہ ایرانی صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار ہیں جو گزشتہ صدارتی انتخاب میں حسن روحانی کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے تھے لیکن اس بار ان کی پوزیشن عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے بعد کی وجہ سے کافی مستحکم نظر آتی ہے ایرانی صدر کے انتخاب کا اثر خطہ میں امن کے لئے ضروری ہے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان کے ایران کے تعلقات بہتر ہوئے پاکستان نے ایران اور سعودی عرب تعلقات میں بہتری کے لئے کلیدی کردار ادا کیا ہےایران کا آئندہ صدر بھی سخت گیر نظریات کا حامل ھوگاایران کی طاقتور انتخابی نگراں تنظیم ، گارڈین کونسل نے 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے سات امیدواروں کی منظوری دے دی ہے۔…

View original post 1,255 more words

ایران صدارتی انتخابات: صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار قرار

Posted on

: ایران صدارتی انتخابات ; صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار قرار…….(اصغرعلی مبارک ;کالم نگار ”اندر کی بات ” کالم ).آئندہ ایرانی صدر کے عہدے کیلئے ابراہیم رئیسی مضبوط ترین امیدوار ہیں جو گزشتہ صدارتی انتخاب میں حسن روحانی کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے تھے لیکن اس بار ان کی پوزیشن عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے بعد کی وجہ سے کافی مستحکم نظر آتی ہے ایرانی صدر کے انتخاب کا اثر خطہ میں امن کے لئے ضروری ہے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان کے ایران کے تعلقات بہتر ہوئے پاکستان نے ایران اور سعودی عرب تعلقات میں بہتری کے لئے کلیدی کردار ادا کیا ہےایران کا آئندہ صدر بھی سخت گیر نظریات کا حامل ھوگاایران کی طاقتور انتخابی نگراں تنظیم ، گارڈین کونسل نے 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے سات امیدواروں کی منظوری دے دی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کسی بھی امیدوار کی حمایت کیے بغیر آئندہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی ہدایت کی ہےایرانی 18 جون کو ووٹ کی پرچی سے نئے صدر کا انتخاب کریں گے کیونکہ موجودہ صدر روحانی آئین کے مطابق اپنی دوبارمدت میعاد پوری ہونے کے بعد کے بعد تیسری بار انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں. امیدواروں کاکوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہونا چاہئے اس ماہ کے شروع میں کل 592 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اندراج کروایاتھا ، اس سے پہلے کہ ان کی نامزدگی کو جانچ پڑتال کے لئے گارڈین کونسل کو ارسال کیا گیا۔ ہدایت نامے کے مطابق امیدوار کی عمر 40 سے 75 سال کے درمیان ہونی چاہئے ، اس کے پاس ماسٹر ڈگری یا اس کے مساوی ہونا ضروری ہو ، ریاستی تنظیموں میں انتظامیہ کا کم از کم 4 سالہ تجربہ ہونا چاہئے ، یا وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے چاہئیں تھیں ، یا دو سے زیادہ ملین آبادی والے شہروں کا گورنر ، یا میجر جنرل یا اس سے زیادہ کے عہدے کے حامل مسلح افواج کا ایک اعلی کمانڈر رہا ہو اس سال کا صدارتی انتخاب ایران اور عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک اہم وقت پر آیا ہے جو 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لئے مذاکرات میں مصروف ہے ، جس کا ایران میں قدامت پسندوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ دیکھا جائے تو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے فائنل راؤنڈ میں صرف سات امیدوار باقی بچے ہیں جن میں ابراہیم رئیسئی ، سعید جلیلی ، محسن رضائی ، عبد الناصر ہیمتی ، عامر حسین غاززادہ .علیریزا ذاکانی شامل ہیں۔ اوراکثریت سخت نظریات کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہیں یہ ممکن نہیں لگتاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا آئندہ صدر کوئی لبرل نظریات رکھنے والا شخص ھو. ایران کے صدارتی انتخابات کے لیے سخت گیر نظریات کے حامی امیدواروں کی اکثریت منظورشدہ فہرست پر غالب نظر آ رہی ہیں.ایران کے الیکشن کمیشن نے سات صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے ہیں جبکہ درجنوں دیگر افراد کے کاغذات کو مختلف وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیا گیاہے۔ صدارتی امیدوارابراہیم رئیسی کواسٹیبلیشمنٹ کے پسندیدہ شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہےابراہیم رئیسی پر سنہ 2019 میں امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں.سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ابراہیم رئیسی کے لیے منصب صدارت تک جانے کا راستہ صاف کیا گیا ہے. انھوں نے 2017 کے انتہائی منقسم انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا مگر اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کے حمایت یافتہ امیدوار اور موجودہ صدر حسن روحانی کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔ سولہ ملین ووٹوں کے ساتھ ابراہیم رئیسی دوسرے نمبر پر رہے تھے جبکہ ان کے حریف نے 24 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔جناب ابراہیم رئیسی ایرانی عدلیہ کے سربراہ ہیں اور سخت گیر نظریات کے حامی ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ نہ صرف موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی بلکہ ممکنہ طور پر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے متوقع جانشین ہو سکتے ہیں۔اُن کے ساتھ اس صدارتی انتخاب کی دوڑ میں کوئی دوسرا ایسا امیدوار نہیں جس کا اتنا اثر و رسوخ اور ایرانی معاشرے میں عزت ہو۔جناب ابراہیم رئیسی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ملک میں معاشی مشکلات کے باعث پیدا ہونے والی ’مایوسی اور ناامیدی‘ سے نمٹنے کے وعدوں کے ساتھ کیا ہے۔ایران کے قدامت پسندوں کو یہ جان کر کچھ اطمینان ہوا کہ ملک کی عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی نے صدارتی انتخابات کے لیے خود کو بطور امیدوار پیش کیا ہے۔ سیاسی طور پر بھاری بھرکم شخصیت کے مالک ابراہیم رئیسی قدامت پسند کیمپ میں نمایاں حیثیت رکھتے اور امید ہے کہ انھیں اس کی بھرپور حمایت حاصل ہو جائے گی۔براہیم رئیسی کو 82 سالہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا ممکنہ جانشین تصور کیا جاتا ہے، جنھوں نے انھیں 2019 میں ملک کی عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ انھیں میڈیا اور ایران کے خصوصی فوجی دستے پاسداران انقلاب کے قریبی ذرائع ابلاغ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایران میں رائے عامہ کے جائزے مکمل طور پر قابل اعتبار نہیں ہیں تاہم حالیہ جائزوں کے مطابق وہ صف اول کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ سابق صدرحسن روحانی کو ووٹ دینے والے اعتدال اور اصلاح پسند نالاں ہیں۔ بہت سے لوگ ملک کی معاشی بدحالی کا ذمہ دار حکومت کو سمجھتے ہیں، جس میں امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی نئی پابندیوں کی وجہ سے مزید ابتری آئی ہے.ٹرمپ انتظامیہ نے 2015 میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ہونے والے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر کے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔تہران اور اہم عالمی طاقتیں اب اس معاہدے کو بحال کرنے کی غرض سے ویانا میں مذاکرات کر رہی ہیں۔ لیکن اگر جون کے انتخابات سے پہلے انھیں اس میں کامیابی مل بھی گئی تو انتخابی نتائج پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ معاہدے کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ایران کے پیچیدہ سیاسی نظام اور صدارتی انتخابات نے گزشتہ 25 برس کے دوران مبصرین کو کئی بار ورطۂ حیرت میں ڈالا.اس بارجناب ابراہیم رئیسی کو اپنے مد مقابل امیدواروں، خاص کر اصلاح پسندوں اور روحانی حکومت سے وابستہ حریفوں پر فوقیت حاصل ہو گی۔ صدر حسن روحانی اعتدال پسند عالم ہیں جنھوں نے گذشتہ انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی اصلاح پسند انتخابات سے قبل رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں۔ یہ اس وقت واضح ہو گیا تھا جب 2020 کے پارلیمانی انتخابات میں ان کے حمایت یافتہ امیدوار قدامت پسندوں سے شکست کھا گئے تھے۔ ان انتخاب میں سنہ 1979 کے انقلاب کے بعد رائے دہندگان کی شرکت پہلی بار اتنی نچلی سطح پر آئی۔ جناب ابراہیم رئیسی کو آنے والے دنوں میں ہونے والے مباحثے اور مہم کے دوران بعض مضبوط حریفوں کا سامنا کرنا ہو گا۔سنہ 2013 اور 2017 کے انتخابات میں صدر روحانی کے اصلاح پسند حامی اب عوام کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان کا امیدوار معاشی اور سماجی بحالی کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا. وقع کی جا رہی ہے کہ اصلاح پسند جماعتوں کا اتحاد، اصلاح‌ طلبان، اول نائب صدر اسحاق جہانگیری، جنھوں نے خود کو بھی صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے، نامزد کرے گا۔روحانی کے حامیوں میں نہایت مقبول رہنے والے جہانگیری کی مقبولیت میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔ بہت سے لوگ انھیں ناقص معاشی فیصلوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جن کی وجہ سے ایران میں کرنسی کا بحران پیدا ہوا۔ اس لیے مباحث کے دوران وہ مخالفین کے لیے ایک آسان ہدف ثابت ہوں گےانتخابات سے قبل دو اہم گروپ منشتر قدامت پسندوں کو یکجا کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کونسل آف کولیشن آف دی فورسز آف دی اسلامک ریولوشن (سی سی ایف آئی آر) اور دوسرا پرنسپلسٹ یونٹی کونسل (پی یو سی) ہے۔سی سی ایف آئی آر دسمبر 2019 سے سرگرم ہے اور اس کی سربراہی مجلس شوریٰ (اسمبلی) کے سابق سپیکر اور تجربہ کار سیاستدان غلام علی حدّاد عادل کر رہے ہیں۔پی یو سی کا قیام نومبر 2020 میں عمل میں آیا ہے اور یہ ایک بااثر مذہبی گروہ، جامعۀ روحانیت مبارز، کی سرکردگی میں کام کر رہا ہے۔ پی یو سی کے سربراہ قدامت پسند عالم آیت اللہ محمد علی مواحدی کرمانی ہیں۔ صدر احمدی نژاد کے ایک وزیر منوچہر متقی اس کے ترجمان ہیں۔خیال ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات رائے دہندگان کو راغب نہیں کر سکیں گے کہ وہ اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لیے جوق در جوق میں میدان میں آئیں۔

Nation observes Yaum-e-nation reaffirms its resolve to safeguarding Pakistan’s sovereignty, territorial integrity and independence against any form of aggression

Posted on

Nation observes Yaum-e-Takbeer

By: Asghar Ali Mubarak
Islamabad;On the occasion of Yaum-e-Takbeer, the nation reaffirms its resolve to safeguarding Pakistan’s sovereignty, territorial integrity and independence against any form of aggression. Pakistan is committed to continue working towards the promotion of environment of peace and stability at the regional and global levels. Pakistan has been actively contributing to international efforts for strengthening global norms on arms control, non-proliferation and disarmament and follows latest international standards on export controls, nuclear safety and security at the national level.This year, Youm-e-Takbeer has been marked by the inauguration of 1100 MWe K-2 Nuclear Power Plant in Karachi which adds much valuable, cleaner, reliable and affordable electricity to the national energy mix. This underscores the role of nuclear science and technology in the socio-economic development of the country and the welfare of its people. Besides nuclear power generation, Pakistan has harnessed nuclear technology for public service in diverse areas including cancer diagnosis and treatment, public health, agriculture, environment protection and industry.

 Youm-e-Takbeer, the celebration of Pakistan’s atomic explosions in 1998, is being observed today (Friday) with a pledge to make the country economically and militarily strong.

The day is commemorated every year on May 28 to remember the conduction of nuclear tests on the very day, in 1998, making seventh nuclear nation of the world and first Islamic state equipped with nuclear arsenal.

Pakistan had conducted nuclear tests in Rasko hills of Chaghi district of Balochistan in response to five nuclear explosions conducted by India, threatening the security of Pakistan.

These nuclear tests gave a clear message to the world that despite Pakistan is a peace loving country but it cannot ignore its defence needs and is capable of meeting any challenge.

The nation pays its tribute to the contributions of its scientists, engineers and technicians for the security and development of Pakistan.

UN Rights Council Votes for Probe into ‘Crimes’ Committed in Israel-Gaza Fighting; Pakistan welcomes the adoption of Organization of Islamic Conference (OIC)-led resolution by the United Nations Human Rights Council (HRC)

Posted on

UN Rights Council Votes for Probe into ‘Crimes’ Committed in Israel-Gaza Fighting; Pakistan welcomes the adoption of Organization of Islamic Conference (OIC)-led resolution by the United Nations Human Rights Council (HRC)

by; ASGHAR ALI MUBARAK

The United Nations Human Rights Council agreed on other day to launch an international investigation into crimes committed during the 11-day conflict between Israel and the Islamist group Hamas in Gaza. By a vote of 24 states in favor, nine against, with 14 abstentions, the 47-member forum adopted a resolution brought by the Organization of Islamic Cooperation (OIC) and the Palestinian delegation to the United Nations. Mean while Pakistan welcomes the adoption of Organization of Islamic Conference (OIC)-led resolution by the United Nations Human Rights Council (HRC) in response to grave violations of international law and human rights by Israel. The HRC special session and its decision to establish a standing international commission of inquiry to investigate human rights violations represent global resolve to end systemic impunity and injustice and begin a process of meaningful accountability. Pakistan stands in solidarity with the Palestinian people and shares the international community’s expectation for effective implementation of this resolution to ensure respect for international law as well as for rights and dignity of the people of Palestine.

Addressing the council’s special session, Michelle Bachelet, the UN high commissioner for human rights said that Israel’s deadly strikes on Gaza might constitute war crimes and that Hamas had violated international humanitarian law by firing rockets into Israel. The decision also authorizes the committee to cover potential human rights violation in Israel itself, including the violence in mixed cities. The committee will therefore be permitted to investigate the escalations starting from April 13, in order to cover events in Sheikh Jarrah and at the Temple Mount. Israel’s Foreign Ministry said that it would refuse to cooperate with the probe. “Israel rejects with disgust the decision adopted today by the Human Rights Council, a hypocritical body with an in-built anti-Israel majority,” the statement said. Israel says it will not cooperate with the investigation, which is also authorized to cover events in Jerusalem, as twenty-four of the forum’s 47 member states voted in favor of the resolution. Israel also boycotted the UN Fact Finding Mission in 2009, headed by South African jurist Richard Goldstone, following its operation in the Strip in 2008-2009.The IDF acts in accordance with international law to protect the citizens of the State of Israel from Hamas’ indiscriminate attacks,” the statement continued. Prime Minister Benjamin Netanyahu said that the council’s decision “whitewashes a genocidal terrorist organization that deliberately targets Israeli civilians while turning Gaza’s civilians into human shields.” He ended his statement by saying the investigation “makes a mockery of international law and encourages terrorists worldwide.”Israel’s ambassador to the U.S. and the UN, Gilad Erdan, went further by adding that “targeting the one and only Jewish state shows that the UNHRC is a politicized and anti-Semitic organization focused on advancing its own agenda. Meanwhile, the U.S. said it deeply regretted a decision by the U.N. Human Rights Council to launch an international investigation into crimes that may have been committed in the conflict between Israel and the Palestinians.”The action today instead threatens to imperil the progress that has been made,” said the statement issued by the U.S. mission to the UN in Geneva.

The United States, Israel’s closest ally, did not sign up to address the council, where it has observer status, appearing to shun the ninth session held on Gaza since 2006.

“Regrettably, the self-professed global champions of human rights continue to shield the occupier from global accountability, and literally provide arms and ammunitions for its widely reported war crimes and crimes of apartheid against the Palestinian people,” Pakistan’s ambassador to the OIC, Khalil Hashmi, said, speaking on behalf of the Islamic group.

Michelle Bachelet said her office had verified the deaths of 270 Palestinians in Gaza, the West Bank and East Jerusalem, including 68 children, during violence this month. Most were killed in Hamas-controlled Gaza, where Israel fought militants for 11 days. Hamas rockets killed 12 people in Israel.

Bachelet said “indiscriminate” strikes from rockets launched by Hamas constituted “a clear violation of international humanitarian law” but stressed that Israel’s strikes in Gaza, including shelling, missile strikes and attacks from the sea, caused widespread destruction of civilian infrastructure and fatalities.

“Despite Israel’s claims that many of these buildings were hosting armed groups or being used for military purposes, we have not seen evidence in this regard,” Bachelet said.

“If found to be indiscriminate and disproportionate, such attacks might constitute war crimes,” she added.

Palestinian Foreign Minister Riyad al-Maliki said: “Israel, the occupation and apartheid authority, continues its crimes, its policies and laws to consolidate a colonial and apartheid system.”

The decisions of the committee have no legal standing in and of themselves, but their conclusions can later be used by courts or other international bodies.

عالمی یوم ماحولیات; میزبانی پاکستان کیلئےاعزاز- اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ، پوپ فرانسس. جرمن چانسلر انجیلا میرکل شرکت کریںگے پاکستانی ماحول دوست پالیسیوں کا اعتراف۔۔۔۔..(اصغرعلی مبارک کالم نگار اندر کی بات )

Posted on

5 جون عالمی یوم ماحولیات: میزبانی پاکستان کیلئےاعزاز- اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ، پوپ فرانسس. جرمن چانسلر انجیلا میرکل شرکت کریںگے پاکستانی ماحول دوست پالیسیوں کا اعتراف۔۔۔۔..(اصغرعلی مبارک کالم نگار اندر کی بات ).. عالمی یوم ماحولیات ، جو ہر سال 5 جون کو ہوتا ہے ، اقوام متحدہ کا عالمی یوم بیداری ہے جو ماحول کے لئے عالمی سطح پر آگاہی اور عمل کو فروغ دیتا ہے۔ اس سال عالمی یوم ماحولیات منانا ‘ماحولیاتی نظام کی بحالی’ کے موضوع پر ہوگا اور ملک کے تعلقات کو فطرت کے ساتھ بحال کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ یہ اقوام متحدہ کے دہائی پر ماحولیاتی نظام کی بحالی 2021 – 2030 کے باضابطہ آغاز کو بھی نشان زد کرے گا۔ عالمی یوم ماحولیات سالوں سے ماحولیاتی عوامی رسائی کے لئے سب سے بڑا عالمی پلیٹ فارم بن گیا ہے اور اسے دنیا بھر کے لاکھوں افراد مناتے ہیں۔ رواں سال 5 جون عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی پاکستان کیلئے ایک اعزاز اور ملک کی ماحول دوست پالیسیوں کا اعتراف ہے۔ میگا ماحولیاتی تقریب 5 جون کو اسلام آباد میں ہوگی۔گذشتہ سال ، عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرنے پر چین کو اعزاز حاصل ہوا تھا۔ پاکستان 5 جون کو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے اشتراک سے عالمی یوم ماحولیات 2021 کی میزبانی کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان 4 جون کی شب اسلام آباد میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی عملی طور پر صدارت کریں گے۔تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب ملک میں باضابطہ طور پر اس دن کی میزبانی کی جائے گی۔ رواں سال عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کے لئے وزیر اعظم عمران خان سمیت صرف چار عالمی شخصیات کا انتخاب کیا گیا ہے اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس ، پوپ فرانسس اور جرمن چانسلر انجیلا میرکل شرکت کریں گے اس موقع پر ، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لئے کیے گئے اقدامات سے متعلق کچھ اہم اعلانات کرے گا ، جن میں 10 بلین درختوں کے سونامی پروگرام ، کلین گرین پاکستان ، الیکٹرک وہیکل پالیسی ، نیشنل پارکس اور گرین ملازمتیں شامل ہیں۔ عالمی حدت کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد کے قریب ہے؛ تاہم پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ دس سر فہرست ممالک میں شامل ہے۔ اس سال عالمی یوم ماحولیات منانا ‘ماحولیاتی نظام کی بحالی’ کے موضوع پر ہوگا اور فطرت کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے پر توجہ دے گا۔ پاکستان میں “عالمی یوم ماحولیات” کی میزبانی عالمی سطح پر وابستگی اور کارنامے کو اجاگر کرنے کے لئے ایک موقع فراہم کرے گی۔یہ اقوام متحدہ کی دہائی سے متعلق ماحولیاتی نظام کی بحالی 2021 – 2030 کے باضابطہ آغاز کا بھی ہوگا گلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس کے مطابق پچھلی دو دہائیوں کے دوران صرف ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے پاکستان کا تین ارب اسی کروڑ ڈالر کے قریب مالی نقصان ہوا اور دس ہزار کے قریب جانیں اس المیے کی نذر ہو گئیں۔ آب و ہوا میں تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ کی سرگرمیاں۔ اس عمل کی سربراہی موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کرے گی۔ اس پروگرام میں عالمی سطح کے معززین ,صدر اور وزیر اعظم موجود ہونگی دریائی پانی کیلئے ہمارا کلیدی انحصار ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے کے گلیشیرز پر ہے مگر بڑھتی ہوئی عالمی حدت ان گلیشیرز پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے ۔نہ صرف یہ کہ گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں بلکہ ہر سال برف کی مقدار میں بھی کمی آ رہی ہے۔ماحولیاتی حدت کی وجہ سے گلیشیر تیزی سے پگھلنے اور پھٹنے کے واقعات سے جو سیلاب اور تباہی آ تی ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔عالمی حدت کے پاکستان پر منفی اثرات نیا مظہر نہیں‘ تاہم اس جانب بروقت توجہ نہیں دی جاسکی جس کی وجہ سے مناسب حکومتی پالیسی اور عوامی رائے بنانے میں تاخیر ہوئی۔ موجودہ دور حکومت میں اس حوالے سے جو کام ہوا‘ مثال کے طور پر بلین ٹری منصوبہ اور گرین پاکستان کا انیشی ایٹو یہ قابل تعریف ہے ‘ اگرچہ یہی کافی نہیں پاکستان کو ماحولیاتی بہتری اور گرین ہاؤس گیسز کی مقدار کم کرنے کیلئے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔جرمن واچ کے مطابق ، گذشتہ 20 سالوں میں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ مذکورہ بالا وجہ میں 2010 کے بعد سے آنے والے سیلابوں کا اثر ، بدترین خشک سالی (1998-2002) تھرپارکر اور چولستان میں حالیہ خشک سالی ، کراچی میں گرمی کی شدید لہر جولائی 2015 ، اسلام آباد جون 2016 میں شدید آندھی کے طوفان , ملک کے شمالی حصوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیر لیک آؤٹ برسٹ سیلاب (جی ایل او ایف) کے واقعات شامل ہیں,پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے چند بڑے خطرات میں. بارش , شدید سیلاب , خشک سالی کا سبب بننے والے غیر معمولی مون سون بارشوں کے ساتھ ساتھ ، موسم کی شدت میں اضافہ۔ ii) گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہندوکش – قراقرم – ہمالیہ گلیشیئروں لیک آؤٹ برسٹ,یاور آلودگی , آلودگی کاربن ذخائر سے دریائے سندھ کے نظام میں آلودگی سےپانی کو خطرہ۔ iii) درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں گرمی اور پانی کے تناؤ میں اضافہ ، خاص طور پر سوکھے اور نیم بنجر علاقوں میں زراعت کی پیداوری پر منفی اثرات پڑنا ۔ iv) آب و ہوا کے حالات میں تیزی سے تبدیلی سے جنگلا ت میں کمی vi) صحت کے خطرات اور آب و ہوا میں تبدیلی کے عوامل شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے اب موسمیاتی تبدیلی کے مختلف پہلوؤں بشمول اہم پالیسی اور آب و ہوا سے متعلقہ مداخلتوں کو حل کرنے کی حکمت عملی ,پالیسی فریم ورک تیار کیے ہیں۔حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ 5 جون 2021 کو اقوام متحدہ کے ماحولیات کے اشتراک سے عالمی یوم ماحولیات 2021 کی میزبانی کرے گا۔سی بی ڈی (کنونشن آف جیو تنوع) اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یو این جی اے کے اعلی مہتواکانکشی اتحاد کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کے اعتراف میں اور نیچر بیسڈ حل اور ایکو سسٹم کی بحالی کے پہل جیسے دس ارب درخت سونامی ، اور پروٹیکٹڈ ایریا انیشی ایٹو میں بین الاقوامی رہنما کی حیثیت سے پاکستان کو عالمی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کے یوم ماحولیات 2021 کی میزبانی کے لئے یو این ای پی نے پاکستان سے رجوع کیا ہے۔ماحولیات اور آب و ہوا کے اثرات کو کم کرنے کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لئے اہم اقدامات مندرجہ ذیل ہیں,ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام (ٹی بی ٹی ٹی پی): 10 بی ٹی ٹی پروجیکٹ کے پی کے کے بلین ٹری افریسٹریشن پروجیکٹ (بی ٹی اے پی) انتہائی کامیاب اقدام بنایا گیا ۔ بی ٹی اے پی کے نتائج کو ورلڈ اکنامک فورم ، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام ، بون چیلنج اور دیگر بین الاقوامی اداروں اور تنظیم کے ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے۔ آزاد مانیٹرنگ اور تصدیق کے بعدحکومت پاکستان نے ملک بھر میں 10 بلین ٹری شجرکاری کا ایک مقصد طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس وسیع منصوبے سے ماحولیاتی صحت کے تحفظ ، گرین ہاؤس گیس کے اثرات کو کم کرنے ، بے ترتیب سیلاب کے واقعات کو کم کرنے ، بارشوں ، خشک سالی کو کم کرنے بے ترتیب سیلاب کے واقعات کو کم کرنے ، بارشوں ، خشک سالی کو کم کرنے اوراور دیگر حیاتیاتی تنوع کے معاون اقدامات میں منافع کی فراہمی کی توقع کی جارہی ہے,اکنامک محرک (گرین جابز): حکومت پاکستان کی ترجیحات پر مبنی کوویڈ 19 اور پوسٹ کے بعد ملازمت کے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے لئے۔ گرین اکنامک محرک اقدام کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ 2019-20 کے لئے؛ 10 بی ٹی ٹی پی نے کم از کم 65،000 گرین جابز پیدا کیں جن کو دسمبر تک 200،000 تک محدود رکھنے کا منصوبہ ہے۔گرین اسٹیمیلس پاکستان کو سبز رنگ کی تعمیر میں مدد فراہم کررہا ہے جبکہ وقفے وقفے سے معاشی ترقی کے لئے بہت سی ملازمتیں فراہم کررہا ہےتحفظ یافتہ علاقوں کا اقدام: وزیر اعظم پاکستان نے 7295.549 مربع کلومیٹر رقبہ کے رقبے کے تحفظ کے لئے ملک بھر میں 15 ماڈل پروٹیکٹڈ ایریاز تیار کرنے کے لئے “محفوظ علاقوں ” کا آغاز کیا نیز گرین اسٹیملز نے 5،500 سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے,وائلڈ لائف مینجمنٹ: وائلڈ لائف پروٹیکشن اینڈ پروجیکشن اور مارگلہ اہلز نیشنل پارک کو درپیش چیلنجز اسلام آباد وائلڈ لائف (پروٹیکشن ، تحفظ و انتظام) آرڈیننس 1979 کی قانون سازی اور ادارہ مضبوطی کے بہتری اور موثر نفاذ کے ذریعے سنبھال سکتے ہیں,نیچرل کیپٹل اکاؤنٹ;حالیہ ترقی میں پاکستان عالمی بینک کے ساتھ شراکت میں ہے تاکہ وہ محفوظ علاقوں کا قدرتی سرمائے کا کھوج لگائے اور مرتب کیا جاسکے جو معیشت کے بہتر انتظام کے لئےتفصیلی اعدادوشمار فراہم کرسکیں۔نیچرل کیپٹل اکاؤنٹ زمین کے استعمال ، جنگل کے احاطہ اور ماحولیاتی نظام کی تقریب میں ہونے والی تبدیلیوں کے تقسیماتی نتائج کی نشاندہی کرنے میں کیا جاسکتا ہے ، جس سے حکومتی پیمائش میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا منصوبہ بند معاشی نمو بھی شامل ہے۔ نتیجہ حکومت کو شواہد پر مبنی قومی جنگلاتی پالیسی اور منصوبوں کے ڈیزائن ، ادارہ جاتی فریم ورک کو بہتر بنانے اور ایس ڈی جی 15 ، ایس ڈی جی 7 ، ایس ڈی جی 12 ، ایس ڈی جی 6 اور ایس ڈی جی 13 پر عمل درآمد کے لئے حکمت عملیوں کے ڈیزائن اور نگرانی میں مددگار ثابت ہوگا,جنگلات کی کٹائی اور جنگلات کے انحطاط سے اخراج کو کم کرنے میں حصہ لینا;جنگلات کے انحطاط سے اخراج کو کم کرنے کی تیاری کی تجویز (آر پی پی) جولائی 2015 سے پاکستان میں نافذ کی جارہی ہے۔ ورلڈ بینک 2018 میں ، ایف سی پی ایف کی طرف سے جون 2020 تک پاکستان میں تیاریوں کی سرگرمیوں کو مزید معاونت کے لئے ایک اضافی گرانٹ بھی دیا گیا پاکستان کے فارسٹ ریفرنس ایویمیشن لیول (ایف ای آر ایل) کو یو این ایف سی سی سی میں پیش کیا گیا ہے۔ نیشنل فارسٹ مانیٹرنگ سسٹم کے ڈیزائن کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہےبلیو کاربن: وزارت موسمیاتی تبدیلی نے عالمی بینک کے تعاون سے بلیو کاربن کے مواقع کی حفاظت اور تقویت کے لئے کیسے کس طرح اور کہاں عمل کرنا ہے,اس کا اندازہ لگانے کے لئے پاکستان کے لئے بلیو کاربن کا تیزی سے جائزہ لیا۔ اس کے ذریعے ، پاکستان نیلے رنگ کے کاربن سے ایسے طریقوں سے قدر حاصل کرنے کا تصور کرتا ہے جو آب و ہوا اور سمندر کی صحت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں,کلین گرین پاکستان انڈیکس اینڈ چیمپینز پروگرام:”کلین گرین پاکستان موومنٹ” کا آغاز پاکستان کے عوام کی طرف سے ملک کے تمام شہریوں کو صاف ستھرا اور سبز ماحول کے لئے ملک گیر تحریک چلانے کے وژن کے ساتھ کیا گیا ہے۔ موثر فضلہ کے انتظام ، صفائی ستھرائی اور شہری جنگلات کے ذریعہ بہتر شہری طرز زندگی کی طرف رخ کرنے کے لئے “کلین گرین سٹیٹس انڈیکس” شروع کیا گیا ہے,قومی موافقت کا منصوبہ (نیپ); پاکستان نے آب و ہوا میں تبدیلی سے لچک پیدا کرنے کے لئے قومی موافقت منصوبہ (این اے پی) بنانے کا عمل باضابطہ طور پر شروع کیا ہے۔ پاکستان پیرس معاہدے کا ایک مرکزی پہلو ، قومی سطح پر طے شدہ شراکت (این ڈی سی) کے موافقت عناصر کو بڑھانے کے لئے قومی موافقت منصوبے کے عمل اور اس کے نتائج کا استعمال کرے گا۔پاکستان آب و ہوا میں لچک پیدا کرنے کے لئے اپنی قومی کوششوں میں فطرت پر مبنی حل اور ‘ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت’ استعمال کرتا رہا ہے۔ قومی موافقت منصوبے پر عمل انہی فطرت پر مبنی موجودہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گا ، جس میں دس بلین درختوں کا سونامی پروگرام ، ایکو سسٹم بحالی فنڈ ، اور ریچارج پاکستان شامل ہے۔(i) ماحولیاتی اہداف اور تخفیف کے ذریعہ ماحولیاتی استحکام اور تخفیف کے ذریعہ ماحولیاتی لچکدار پاکستان کی طرف منتقلی کی سہولت ، جو پاکستان کی قومی سطح پر طے شدہ شراکت (این ڈی سی) میں بیان کردہ مقاصد کے مطابق ہے۔ ماحولیاتی نظام پیدا کرنے کے لئے 2030 تک پاکستان میں کم سے کم جنگل کا کٹاو,زراعت ، 6٪ گھاس کا میدان (رینج لینڈ) ابحال کرکے زمینی انحصار کا حصول۔ پاکستان میں جی ایچ جی کے تخفیف کے لئے خدمات اور اضافی مدد فراہم کرنا ہیں۔تاکہ پہل کے تحت منصوبوں اور پروگراموں کی مالی اعانت کی جا سکے۔ریچارج پاکستان: پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں آب و ہوا کی موافقت کا کوئی انتخاب نہیں ہے کیونکہ اسے زمینی “صفر” کے اثرات کا سامنا ہے۔ ہماری آب و ہوا کی موافقت کی ضروریات سالانہ 7 سے 14 بلین ڈالر کے درمیان ہیں اور یہ سب زبردستی موافقت ہے۔ اس کے نتیجے میں ، آب و ہوا کے موافق مواقع کو ہماری ناقابل تلافی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کمزور معاشروں کے لچک پیدا کرنے کے لئے ایک ناگزیر سمت بنادیتی ہے۔پاکستان اس نئے اقدام کا عنوان دے رہا ہے۔ ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت کے ذریعہ سیلاب سےبچاو, ماحولیاتی تبدیلی کے لئے لچک پیدا کرنے کے ذریعے پاکستان کو ری چارج کریں” منصوبے کے اجزاء انٹیگریٹڈ سیلاب رسک اور واٹر ریسورس منیجمنٹ کے لئے ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت ، ماحولیاتی تبدیلی کے لئے کمزور برادریوں کی لچک کو بڑھانا ،پاکستان میں ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت کی طرف ایک نمونہ شفٹ کو چالو کرنا۔ اس منصوبے سے سال 2030 تک سیلاب سے خطرہ کم ہونے والے 10 ملین کمزور افراد پر اثر پڑے گا اور ماحولیاتی موافقت پذیر معاش سے فائدہ ہوگا۔پاکستان کلین ایئر پروگرام: پیرس معاہدے اور پائیدار ترقیاتی اہداف ایس ڈی جیز 2016 کو منظور کیے جانے سے بہت پہلے 2005 میں پہلا پاکستان کلین ایئر پروگرام پی سی اے پی تشکیل دیا گیا تھا۔ لہذا ، ان کو عملی شکل دینے کے لئے ملک کو پی سی اے پی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی پی سی اے پی کی نظر ثانی میں شامل ہے ، جو آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ماحولیات سے متعلق امور پر صوبوں کے بڑھے ہوئے کرداروں سے گونجتی ہے۔ وبائی صورتحال نے مزید واضح کیا ہے کہ پاکستان کے لئے کلین ایئر پروگرام کو نافذ کرنا کتنا ضروری ہے۔ نظرثانی شدہ پی سی اے پی حالیہ معاہدوں ، نئی ٹکنالوجیوں ، امور اور ترجیحات کے مطابق نئی ترقی پر منحصر ہوگی تاکہ یہ پاکستان کے اہم اہداف سے ہم آہنگ ہو۔این ڈی سی ڈیز اور این ڈی سی عمل پر نظر ثانی:: پیرس معاہدے کے تحت فریقین ہر پانچ سال میں بہتر وعدوں کے ساتھ نظر ثانی شدہ این ڈی سی جمع کروانے کی پابند ہیں۔ نظرثانی شدہ این ڈی سیز کے لئے ، پاکستان کا مقصد ان منصوبوں کو اجاگر کرنا ہے جو گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان نے اپنے دیسی وسائل سے ، ادارہ جاتی انتظامات اور گورننس کے طریقوں کو جو حکومت نے لیا تھا اور جی ایچ جی انوینٹری کو نئی گیسیں اور بلیو کاربن جیسے نئے شعبے شامل ہیں۔بہتر وعدوں کے لئے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں ، صحت ، فضائی آلودگی ، صنف ، نوجوان وغیرہ۔ مشیر ملک امین اسلم کی زیرصدارت ایک قومی اسٹیئرنگ کمیٹی حتمی ترمیم شدہ دستاویز کو پیش کرنے کے لئے جائزہ لینے اور اسے مستحکم کرنے کی ذمہ دار ہے۔

Pakistan will host ”World Environment Day ”conference at Islamabad on June 5th – UN Secretary General, Pope Francis. German Chancellor Angela Merkel will attend the event;

Posted on

asgharalimubarakblog

Pakistan will host ”World Environment Day ”conference at Islamabad on June 5th – UN Secretary General, Pope Francis. German Chancellor Angela Merkel will attend the event
By;Asghar Ali Mubarak;
Hosting World Environment Day on June 5 this year is an honor for Pakistan and an acknowledgment of the country’s environmentally friendly policies. The mega environmental event will be held in Islamabad on June 5. Last year, China was honored to host an international conference on the occasion of World Environment Day. Pakistan will host World Environment Day 2021 on June 5 in partnership with the United Nations Environment Program (UNEP). Prime Minister of Pakistan Imran Khan will preside over the World Environment Conference in Islamabad on the night of June 4. This will be the first time in history that the country will officially host the day. Only four international personalities, including Prime Minister Imran Khan, have been selected to…

View original post 1,869 more words

Pakistan will host ”World Environment Day ”conference at Islamabad on June 5th – UN Secretary General, Pope Francis. German Chancellor Angela Merkel will attend the event;

Posted on

Pakistan will host ”World Environment Day ”conference at Islamabad on June 5th – UN Secretary General, Pope Francis. German Chancellor Angela Merkel will attend the event
By;Asghar Ali Mubarak;
Hosting World Environment Day on June 5 this year is an honor for Pakistan and an acknowledgment of the country’s environmentally friendly policies. The mega environmental event will be held in Islamabad on June 5. Last year, China was honored to host an international conference on the occasion of World Environment Day. Pakistan will host World Environment Day 2021 on June 5 in partnership with the United Nations Environment Program (UNEP). Prime Minister of Pakistan Imran Khan will preside over the World Environment Conference in Islamabad on the night of June 4. This will be the first time in history that the country will officially host the day. Only four international personalities, including Prime Minister Imran Khan, have been selected to attend this year’s World Environment Conference. The conference will be attended by UN Secretary General Antonio Guterres, Pope Francis and German Chancellor Angela Merkel. It will make some important announcements about the steps it has taken to mitigate the effects of change, including the 10 Billion Tree Tsunami Program, Clean Green Pakistan, Electric Vehicle Policy, National Parks and Green Jobs. Pakistan’s share in global warming greenhouse gases is close to one percent. However, Pakistan is among the top ten countries affected by global warming. This year’s World Environment Day will focus on “restoring the ecosystem” and will focus on re-establishing our relationship with nature. Hosting “World Environment Day” in Pakistan will provide an opportunity to highlight global commitment and accomplishment. It will also mark the official start of the 2021-2030 UN Ecosystem Rehabilitation. Pakistan’s share in global warming greenhouse gases is close to one percent. However, Pakistan is among the top ten countries affected by global warming. This year’s World Environment Day will focus on “restoring the ecosystem” and will focus on re-establishing our relationship with nature. Hosting “World Environment Day” in Pakistan will provide an opportunity to highlight global commitment and accomplishment. It will also mark the official start of the 2021-2030 UN Ecosystem Restoration. According to the Global Climate Risk Index, over the past two decades, environmental impacts alone have cost Pakistan nearly 3.8 billion in financial losses and nearly 10,000 lives. Climate change and environmental protection activities. The process will be led by the Ministry of Climate Change.
According to German Watch, Pakistan has been ranked in the top ten of the countries most affected by climate change in the past 20 years. The reason for above includes the impact of back-to-back floods since 2010, the worst drought episode (1998-2002) as well as more recent droughts in Tharparkar and Cholistan, the intense heat wave in Karachi (and Southern Pakistan, more generally) in July 2015, severe windstorms in Islamabad in June 2016, increased cyclonic activity and increased incidences of landslides and Glacial Lake Outburst Floods (GLOFs) in the northern parts of the country.
A few of the major climate change threats to Pakistan are ;( i) increase in frequency and intensity of extreme weather events, coupled with erratic monsoon rains causing frequent and intense floods and drought; (ii) recession of Hindu Kush-Karakoram-Himalayan (HKH) glaciers due to global warming and carbon soot deposits from trans-boundary pollution sources, threatening water inflows into Indus River System (IRS); (iii) increased temperature resulting in enhanced heat and water-stressed conditions, particularly in arid and semi-arid regions, impacting agriculture productivity negatively; (iv) decrease in the already scanty forest cover from rapid change in climatic conditions (v) Increased instruction of saline water in the Indus delta, adversely affecting coastal agriculture, mangroves and breeding grounds of fish; vi) increased health risks and climate change induced factors. The Government of Pakistan has by now evolved policy frameworks backed by strategy to address various aspects of the Climate Change including major policy and climate related interventions.
The Government of Pakistan already announced that it will host World Environment Day 2021 in partnership with UN Environment on 5th June 2021. In recognition of the Prime Minister’s Speech during the high ambitious coalition of CBD (Convention of Biodiversity) and United Nations General Assembly UNGA and also considering Pakistan’s global recognition as international leader in Nature Based Solution and Eco-System Restoration initiative like Ten Billion Tree Tsunami, and Protected Area Initiative, UNEP has approached Pakistan for hosting the UN Environment Day 2021.
This year’s observance of World Environment Day will be on the theme of ‘ecosystem restoration’ and focus on resetting our relationship with nature. It will also mark the formal launch of the UN Decade on Ecosystem Restoration 2021 – 2030. Hosting of “World Environment Day” in Pakistan will bring positive projections for the country and provides an opportunity to highlight its commitment and achievement on a global scale to showcase its climate change and environmental protection activities. The process would be led by the Ministry of Climate Change. The event will be featuring high-level presence from global dignitaries and will also require engagement of President and the Prime Minister.
The major initiatives for ecosystem restoration taken by the Government of Pakistan to mitigate the effects of environment and climate are as under:
Ten Billion Tree Tsunami Programme (TBTTP): 10BTT Project is built on highly successful initiative of KPK’s Billion Trees Afforestation Project (BTAP). The outcomes of BTAP have been duly acknowledged by World Economic Forum, United Nations Environment Programme, Bonn Challenge and other international bodies and fora. Following the success and confirmation by the independent monitors, Government of Pakistan decided to set a goal of 10 Billion Tree Plantation across the country. This wider project is expected to deliver dividend in preserving atmospheric health, reducing greenhouse gas effects, lowering cases of random floods, lowering rains, droughts and enhancing other biodiversity supportive actions.
Green Economic Stimulus (Green Jobs): Based on the priorities of the Government of Pakistan for creating greater job opportunities during and post COVID 19; Green Economic Stimulus initiative is being implemented. For 2019-20; the 10BTTP has generated a minimum of 65,000 jobs which are planned to be scaled- up to 200,000 by December 2020. Green Stimulus is helping Pakistan to build back green while creating value chains and providing many jobs for spurring economy in post pandemic down turn.
Protected Areas Initiative: Prime Minister of Pakistan launched “Protected Area Initiative” to develop 15 model Protected Areas across country to conserve over 7295.549 Sq km of land area as well as Green Stimulus creation of over 5,500 jobs.
Wildlife Management: The challenges to wildlife protection & preservation and Margallah Hills National Park (MHNP) could be manage through improvement and effective implementation of Islamabad Wildlife (Protection, Preservation, Conservation and Management) ordinance 1979 legislation and institutional strengthening.
Natural Capital Account: Pakistan in the recent development is partnering with World Bank to explore and formulate Natural Capital Account of protected areas that can provide detailed statistics for better management of the economy. NCA can be used to help identify the distributional consequences of changes to land use, forest cover and ecosystem function, helping government gauge whether planned economic growth is inclusive. The outcome will help the government design the evidence-based national forest policy & plans, improve institutional framework and help design and monitor strategies for implementing SDG 15, SDG 7, SDG 12, SDG 6 and SDG 13.
Participation in Reducing Emissions from Deforestation and Forest Degradation (REDD+):The REDD+ Readiness Preparation Proposal (R-PP) is being implemented in Pakistan since July 2015. Pakistan was awarded the grant through a competitive process by Forest Carbon Partnership Facility (FCPF) of the World Bank. In 2018, an additional grant has also been awarded by FCPF to further support the preparedness activities in Pakistan till June 2020. The Forest Reference Emission Level (FREL) of Pakistan has been submitted to UNFCCC. The design of National Forest Monitoring System has also been finalized.
Blue Carbon: Ministry of Climate Change with the support from the World Bank conducted Blue Carbon rapid assessment for Pakistan to figure out how and where to act to protect and bolster blue carbon opportunities. Through this, Pakistan envisions gaining value from blue carbon in a plethora of ways that can be beneficial for the health of the climate and the ocean.
Clean Green Pakistan Index and Champions Program: “Clean Green Pakistan Movement” has been launched with a vision to drive a nationwide movement by the people of Pakistan for the clean and green environment for all citizens of the country. A “Clean-Green Cities Index” has been initiated to trigger a shift towards improved urban lifestyle through effective waste management, sanitation and urban forestry.
National Adaptation Plan (NAP): Pakistan has officially begun the process of creating a National Adaptation Plan (NAP) for building resilience to climate change. Pakistan will be using the National Adaptation Plan process and its outcomes to enhance the adaptation elements of the Nationally Determined Contributions (NDCs), a central aspect of the Paris Agreement. Pakistan has been using nature-based solutions and ‘ecosystem-based adaptation’ in its national efforts to build climate resilience. The National Adaptation Plan process will be looking to build on these existing nature-based approaches, which include the Ten Billion Trees Tsunami Program, the Ecosystem Restoration Fund, and the Recharge Pakistan initiative.
Eco-system Restoration Initiative: Government of Pakistan has launched the Eco-system Restoration Initiative (ESRI) for (i) facilitating transition towards environmentally resilient Pakistan by main streaming adaptation and mitigation through ecologically targeted initiatives covering afforestation, biodiversity conservation, enabling and enhancing policy environment consistent with the objectives outlined in Pakistan’s Nationally Determined Contribution (NDC); and (ii) attaining Land Degradation Neutrality (LDN) by restoring at least 30% of degraded forest, 5% of degraded cropland, 6% of degraded grassland (rangeland) and 10% of degraded wetlands in Pakistan by 2030 to generate eco-system services and provide additional support to mitigation of GHG in Pakistan. The initiative also seeks to establish an independent, transparent and comprehensive financial mechanism in Pakistan called “Eco-system Restoration Fund (ESRF)” to finance the projects and programmes under the initiative.
Recharge Pakistan: Pakistan is a country without a choice on climate adaptation as it is facing up to the impacts at ground “zero”. Our climate adaptation needs are between $7 to $14 billion per annum and this is all forced adaptation. This, subsequently, makes climate compatible development an inevitable direction to take and building resilience of our vulnerable communities as well as our infrastructure, an undeniable option. Pakistan is launching this new initiative titled; “Recharge Pakistan through Integrated Flood Risk Management and Building Resilience to Climate Change through Ecosystem-based Adaptation”. The components of the project are; a) Ecosystem-based Adaptation for Integrated Flood Risk and Water Resources Management, b) Enhancing Resilience of Vulnerable Communities to Climate Change, c) Enabling a Paradigm Shift towards Ecosystem-based Adaptation in Pakistan. The project would impact around 10 million vulnerable people at reduced risk from floods and benefit from climate-adapted livelihoods by year 2030.
Pakistan Clean Air Program: First Pakistan Clean Air Program PCAP was formulated in 2005, long before the Paris agreement and Sustainable Development Goals SDGs 2016 were adopted. Hence, operationalizing these required the country to revise PCAP. Ministry of Climate Change has been involved in the revision of PCAP that resonates with the enhanced roles of provinces on environment-related issues following the 18th Amendment to the Constitution. The pandemic situation has further highlighted that how vital it is for Pakistan to implement Clean Air Program. Revised PCAP will be dependent on new development tailing the recent agreements, new technologies, issues and priorities so that it aligns with the overarching goals of Pakistan.
Revision of NDCs and NDC implementation: Under the Paris Agreement, Parties are obligated to submit revised NDC every five years with enhanced commitments. For the revised NDCs, Pakistan is aiming to highlight the projects Pakistan has conducted with its indigenous resources in the last five years, institutional arrangements and governance approaches that were taken by the government and include new gases to GHG inventory and new sectors like Blue carbon, Electric Vehicles, Health , Air pollution, Gender, Youth etc. for enhanced commitments. A National Steering Committee chaired by Advisor Malik Amin Aslam is responsible for reviewing and consolidating the final revised document for submission.

عالمی یوم ماحولیات: میزبانی پاکستان کیلئےاعزاز- اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ، پوپ فرانسس. جرمن چانسلر انجیلا میرکل شرکت کریںگے

Posted on

5 جون عالمی یوم ماحولیات: میزبانی پاکستان کیلئےاعزاز- اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ، پوپ فرانسس. جرمن چانسلر انجیلا میرکل شرکت کریںگے پاکستانی ماحول دوست پالیسیوں کا اعتراف۔۔۔۔..(اصغرعلی مبارک کالم نگار اندر کی بات ).. عالمی یوم ماحولیات ہر سال 5 جون کو ہوتا ہے ، اقوام متحدہ کا عالمی یوم بیداری ہے جو ماحول کے لئے عالمی سطح پر آگاہی اور عمل کو فروغ دیتا ہے۔ اس سال عالمی یوم ماحولیات منانا ‘ماحولیاتی نظام کی بحالی’ کے موضوع پر ہوگا اور ملک کے تعلقات کو فطرت کے ساتھ بحال کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ یہ اقوام متحدہ کے دہائی پر ماحولیاتی نظام کی بحالی 2021 – 2030 کے باضابطہ آغاز کو بھی نشان زد کرے گا۔ عالمی یوم ماحولیات سالوں سے ماحولیاتی عوامی رسائی کے لئے سب سے بڑا عالمی پلیٹ فارم بن گیا ہے اور اسے دنیا بھر کے لاکھوں افراد مناتے ہیں۔ رواں سال 5 جون عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی پاکستان کیلئے ایک اعزاز اور ملک کی ماحول دوست پالیسیوں کا اعتراف ہے۔ میگا ماحولیاتی تقریب 5 جون کو اسلام آباد میں ہوگی۔ 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کانفرنس کے موقع پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے علاوہ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس. جرمن چانسلر انجیلا میرکل بھی شریک ھوں گے ۔ گذشتہ سال ، عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرنے پر چین کو اعزاز حاصل ہوا تھا۔ پاکستان 5 جون کو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے اشتراک سے عالمی یوم ماحولیات 2021 کی میزبانی کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان 4 جون کی شب اسلام آباد میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی عملی طور پر صدارت کریں گے۔تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب ملک میں باضابطہ طور پر اس دن کی میزبانی کی جائے گی۔ رواں سال عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کے لئے وزیر اعظم عمران خان سمیت صرف چار عالمی شخصیات کا انتخاب کیا گیا ہے اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس ، پوپ فرانسس اور جرمن چانسلر انجیلا میرکل شرکت کریں گے اس موقع پر ، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لئے کیے گئے اقدامات سے متعلق کچھ اہم اعلانات کرے گا ، جن میں 10 بلین درختوں کے سونامی پروگرام ، کلین گرین پاکستان ، الیکٹرک وہیکل پالیسی ، نیشنل پارکس اور گرین ملازمتیں شامل ہیں۔ عالمی حدت کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد کے قریب ہے؛ تاہم پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ دس سر فہرست ممالک میں شامل ہے۔ اس سال عالمی یوم ماحولیات منانا ‘ماحولیاتی نظام کی بحالی’ کے موضوع پر ہوگا اور فطرت کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے پر توجہ دے گا۔ پاکستان میں “عالمی یوم ماحولیات” کی میزبانی عالمی سطح پر وابستگی اور کارنامے کو اجاگر کرنے کے لئے ایک موقع فراہم کرے گی۔یہ اقوام متحدہ کی دہائی سے متعلق ماحولیاتی نظام کی بحالی 2021 – 2030 کے باضابطہ آغاز کا بھی ہوگا گلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس کے مطابق پچھلی دو دہائیوں کے دوران صرف ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے پاکستان کا تین ارب اسی کروڑ ڈالر کے قریب مالی نقصان ہوا اور دس ہزار کے قریب جانیں اس المیے کی نذر ہو گئیں۔ آب و ہوا میں تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ کی سرگرمیاں۔ اس عمل کی سربراہی موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کرے گی۔ اس پروگرام میں عالمی سطح کے معززین ,صدر اور وزیر اعظم موجود ہونگی دریائی پانی کیلئے ہمارا کلیدی انحصار ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے کے گلیشیرز پر ہے مگر بڑھتی ہوئی عالمی حدت ان گلیشیرز پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے ۔نہ صرف یہ کہ گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں بلکہ ہر سال برف کی مقدار میں بھی کمی آ رہی ہے۔ماحولیاتی حدت کی وجہ سے گلیشیر تیزی سے پگھلنے اور پھٹنے کے واقعات سے جو سیلاب اور تباہی آ تی ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔عالمی حدت کے پاکستان پر منفی اثرات نیا مظہر نہیں‘ تاہم اس جانب بروقت توجہ نہیں دی جاسکی جس کی وجہ سے مناسب حکومتی پالیسی اور عوامی رائے بنانے میں تاخیر ہوئی۔ موجودہ دور حکومت میں اس حوالے سے جو کام ہوا‘ مثال کے طور پر بلین ٹری منصوبہ اور گرین پاکستان کا انیشی ایٹو یہ قابل تعریف ہے ‘ اگرچہ یہی کافی نہیں پاکستان کو ماحولیاتی بہتری اور گرین ہاؤس گیسز کی مقدار کم کرنے کیلئے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔جرمن واچ کے مطابق ، گذشتہ 20 سالوں میں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ مذکورہ بالا وجہ میں 2010 کے بعد سے آنے والے سیلابوں کا اثر ، بدترین خشک سالی (1998-2002) تھرپارکر اور چولستان میں حالیہ خشک سالی ، کراچی میں گرمی کی شدید لہر جولائی 2015 ، اسلام آباد جون 2016 میں شدید آندھی کے طوفان , ملک کے شمالی حصوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیر لیک آؤٹ برسٹ سیلاب (جی ایل او ایف) کے واقعات شامل ہیں,پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے چند بڑے خطرات میں. بارش , شدید سیلاب , خشک سالی کا سبب بننے والے غیر معمولی مون سون بارشوں کے ساتھ ساتھ ، موسم کی شدت میں اضافہ۔ ii) گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہندوکش – قراقرم – ہمالیہ گلیشیئروں لیک آؤٹ برسٹ,یاور آلودگی , آلودگی کاربن ذخائر سے دریائے سندھ کے نظام میں آلودگی سےپانی کو خطرہ۔ iii) درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں گرمی اور پانی کے تناؤ میں اضافہ ، خاص طور پر سوکھے اور نیم بنجر علاقوں میں زراعت کی پیداوری پر منفی اثرات پڑنا ۔ iv) آب و ہوا کے حالات میں تیزی سے تبدیلی سے جنگلا ت میں کمی vi) صحت کے خطرات اور آب و ہوا میں تبدیلی کے عوامل شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے اب موسمیاتی تبدیلی کے مختلف پہلوؤں بشمول اہم پالیسی اور آب و ہوا سے متعلقہ مداخلتوں کو حل کرنے کی حکمت عملی ,پالیسی فریم ورک تیار کیے ہیں۔حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ 5 جون 2021 کو اقوام متحدہ کے ماحولیات کے اشتراک سے عالمی یوم ماحولیات 2021 کی میزبانی کرے گا۔سی بی ڈی (کنونشن آف جیو تنوع) اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یو این جی اے کے اعلی مہتواکانکشی اتحاد کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کے اعتراف میں اور نیچر بیسڈ حل اور ایکو سسٹم کی بحالی کے پہل جیسے دس ارب درخت سونامی ، اور پروٹیکٹڈ ایریا انیشی ایٹو میں بین الاقوامی رہنما کی حیثیت سے پاکستان کو عالمی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کے یوم ماحولیات 2021 کی میزبانی کے لئے یو این ای پی نے پاکستان سے رجوع کیا ہے۔ماحولیات اور آب و ہوا کے اثرات کو کم کرنے کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لئے اہم اقدامات مندرجہ ذیل ہیں,ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام (ٹی بی ٹی ٹی پی): 10 بی ٹی ٹی پروجیکٹ کے پی کے کے بلین ٹری افریسٹریشن پروجیکٹ (بی ٹی اے پی) انتہائی کامیاب اقدام بنایا گیا ۔ بی ٹی اے پی کے نتائج کو ورلڈ اکنامک فورم ، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام ، بون چیلنج اور دیگر بین الاقوامی اداروں اور تنظیم کے ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے۔ آزاد مانیٹرنگ اور تصدیق کے بعدحکومت پاکستان نے ملک بھر میں 10 بلین ٹری شجرکاری کا ایک مقصد طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس وسیع منصوبے سے ماحولیاتی صحت کے تحفظ ، گرین ہاؤس گیس کے اثرات کو کم کرنے ، بے ترتیب سیلاب کے واقعات کو کم کرنے ، بارشوں ، خشک سالی کو کم کرنے بے ترتیب سیلاب کے واقعات کو کم کرنے ، بارشوں ، خشک سالی کو کم کرنے اوراور دیگر حیاتیاتی تنوع کے معاون اقدامات میں منافع کی فراہمی کی توقع کی جارہی ہے,اکنامک محرک (گرین جابز): حکومت پاکستان کی ترجیحات پر مبنی کوویڈ 19 اور پوسٹ کے بعد ملازمت کے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے لئے۔ گرین اکنامک محرک اقدام کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ 2019-20 کے لئے؛ 10 بی ٹی ٹی پی نے کم از کم 65،000 گرین جابز پیدا کیں جن کو دسمبر تک 200،000 تک محدود رکھنے کا منصوبہ ہے۔گرین اسٹیمیلس پاکستان کو سبز رنگ کی تعمیر میں مدد فراہم کررہا ہے جبکہ وقفے وقفے سے معاشی ترقی کے لئے بہت سی ملازمتیں فراہم کررہا ہےتحفظ یافتہ علاقوں کا اقدام: وزیر اعظم پاکستان نے 7295.549 مربع کلومیٹر رقبہ کے رقبے کے تحفظ کے لئے ملک بھر میں 15 ماڈل پروٹیکٹڈ ایریاز تیار کرنے کے لئے “محفوظ علاقوں ” کا آغاز کیا نیز گرین اسٹیملز نے 5،500 سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے,وائلڈ لائف مینجمنٹ: وائلڈ لائف پروٹیکشن اینڈ پروجیکشن اور مارگلہ اہلز نیشنل پارک کو درپیش چیلنجز اسلام آباد وائلڈ لائف (پروٹیکشن ، تحفظ و انتظام) آرڈیننس 1979 کی قانون سازی اور ادارہ مضبوطی کے بہتری اور موثر نفاذ کے ذریعے سنبھال سکتے ہیں,نیچرل کیپٹل اکاؤنٹ;حالیہ ترقی میں پاکستان عالمی بینک کے ساتھ شراکت میں ہے تاکہ وہ محفوظ علاقوں کا قدرتی سرمائے کا کھوج لگائے اور مرتب کیا جاسکے جو معیشت کے بہتر انتظام کے لئےتفصیلی اعدادوشمار فراہم کرسکیں۔نیچرل کیپٹل اکاؤنٹ زمین کے استعمال ، جنگل کے احاطہ اور ماحولیاتی نظام کی تقریب میں ہونے والی تبدیلیوں کے تقسیماتی نتائج کی نشاندہی کرنے میں کیا جاسکتا ہے ، جس سے حکومتی پیمائش میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا منصوبہ بند معاشی نمو بھی شامل ہے۔ نتیجہ حکومت کو شواہد پر مبنی قومی جنگلاتی پالیسی اور منصوبوں کے ڈیزائن ، ادارہ جاتی فریم ورک کو بہتر بنانے اور ایس ڈی جی 15 ، ایس ڈی جی 7 ، ایس ڈی جی 12 ، ایس ڈی جی 6 اور ایس ڈی جی 13 پر عمل درآمد کے لئے حکمت عملیوں کے ڈیزائن اور نگرانی میں مددگار ثابت ہوگا,جنگلات کی کٹائی اور جنگلات کے انحطاط سے اخراج کو کم کرنے میں حصہ لینا;جنگلات کے انحطاط سے اخراج کو کم کرنے کی تیاری کی تجویز (آر پی پی) جولائی 2015 سے پاکستان میں نافذ کی جارہی ہے۔ ورلڈ بینک 2018 میں ، ایف سی پی ایف کی طرف سے جون 2020 تک پاکستان میں تیاریوں کی سرگرمیوں کو مزید معاونت کے لئے ایک اضافی گرانٹ بھی دیا گیا پاکستان کے فارسٹ ریفرنس ایویمیشن لیول (ایف ای آر ایل) کو یو این ایف سی سی سی میں پیش کیا گیا ہے۔ نیشنل فارسٹ مانیٹرنگ سسٹم کے ڈیزائن کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہےبلیو کاربن: وزارت موسمیاتی تبدیلی نے عالمی بینک کے تعاون سے بلیو کاربن کے مواقع کی حفاظت اور تقویت کے لئے کیسے کس طرح اور کہاں عمل کرنا ہے,اس کا اندازہ لگانے کے لئے پاکستان کے لئے بلیو کاربن کا تیزی سے جائزہ لیا۔ اس کے ذریعے ، پاکستان نیلے رنگ کے کاربن سے ایسے طریقوں سے قدر حاصل کرنے کا تصور کرتا ہے جو آب و ہوا اور سمندر کی صحت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں,کلین گرین پاکستان انڈیکس اینڈ چیمپینز پروگرام:”کلین گرین پاکستان موومنٹ” کا آغاز پاکستان کے عوام کی طرف سے ملک کے تمام شہریوں کو صاف ستھرا اور سبز ماحول کے لئے ملک گیر تحریک چلانے کے وژن کے ساتھ کیا گیا ہے۔ موثر فضلہ کے انتظام ، صفائی ستھرائی اور شہری جنگلات کے ذریعہ بہتر شہری طرز زندگی کی طرف رخ کرنے کے لئے “کلین گرین سٹیٹس انڈیکس” شروع کیا گیا ہے,قومی موافقت کا منصوبہ (نیپ); پاکستان نے آب و ہوا میں تبدیلی سے لچک پیدا کرنے کے لئے قومی موافقت منصوبہ (این اے پی) بنانے کا عمل باضابطہ طور پر شروع کیا ہے۔ پاکستان پیرس معاہدے کا ایک مرکزی پہلو ، قومی سطح پر طے شدہ شراکت (این ڈی سی) کے موافقت عناصر کو بڑھانے کے لئے قومی موافقت منصوبے کے عمل اور اس کے نتائج کا استعمال کرے گا۔پاکستان آب و ہوا میں لچک پیدا کرنے کے لئے اپنی قومی کوششوں میں فطرت پر مبنی حل اور ‘ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت’ استعمال کرتا رہا ہے۔ قومی موافقت منصوبے پر عمل انہی فطرت پر مبنی موجودہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گا ، جس میں دس بلین درختوں کا سونامی پروگرام ، ایکو سسٹم بحالی فنڈ ، اور ریچارج پاکستان شامل ہے۔(i) ماحولیاتی اہداف اور تخفیف کے ذریعہ ماحولیاتی استحکام اور تخفیف کے ذریعہ ماحولیاتی لچکدار پاکستان کی طرف منتقلی کی سہولت ، جو پاکستان کی قومی سطح پر طے شدہ شراکت (این ڈی سی) میں بیان کردہ مقاصد کے مطابق ہے۔ ماحولیاتی نظام پیدا کرنے کے لئے 2030 تک پاکستان میں کم سے کم جنگل کا کٹاو,زراعت ، 6٪ گھاس کا میدان (رینج لینڈ) ابحال کرکے زمینی انحصار کا حصول۔ پاکستان میں جی ایچ جی کے تخفیف کے لئے خدمات اور اضافی مدد فراہم کرنا ہیں۔تاکہ پہل کے تحت منصوبوں اور پروگراموں کی مالی اعانت کی جا سکے۔ریچارج پاکستان: پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں آب و ہوا کی موافقت کا کوئی انتخاب نہیں ہے کیونکہ اسے زمینی “صفر” کے اثرات کا سامنا ہے۔ ہماری آب و ہوا کی موافقت کی ضروریات سالانہ 7 سے 14 بلین ڈالر کے درمیان ہیں اور یہ سب زبردستی موافقت ہے۔ اس کے نتیجے میں ، آب و ہوا کے موافق مواقع کو ہماری ناقابل تلافی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کمزور معاشروں کے لچک پیدا کرنے کے لئے ایک ناگزیر سمت بنادیتی ہے۔پاکستان اس نئے اقدام کا عنوان دے رہا ہے۔ ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت کے ذریعہ سیلاب سےبچاو, ماحولیاتی تبدیلی کے لئے لچک پیدا کرنے کے ذریعے پاکستان کو ری چارج کریں” منصوبے کے اجزاء انٹیگریٹڈ سیلاب رسک اور واٹر ریسورس منیجمنٹ کے لئے ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت ، ماحولیاتی تبدیلی کے لئے کمزور برادریوں کی لچک کو بڑھانا ،پاکستان میں ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت کی طرف ایک نمونہ شفٹ کو چالو کرنا۔ اس منصوبے سے سال 2030 تک سیلاب سے خطرہ کم ہونے والے 10 ملین کمزور افراد پر اثر پڑے گا اور ماحولیاتی موافقت پذیر معاش سے فائدہ ہوگا۔پاکستان کلین ایئر پروگرام: پیرس معاہدے اور پائیدار ترقیاتی اہداف ایس ڈی جیز 2016 کو منظور کیے جانے سے بہت پہلے 2005 میں پہلا پاکستان کلین ایئر پروگرام پی سی اے پی تشکیل دیا گیا تھا۔ لہذا ، ان کو عملی شکل دینے کے لئے ملک کو پی سی اے پی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی پی سی اے پی کی نظر ثانی میں شامل ہے ، جو آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ماحولیات سے متعلق امور پر صوبوں کے بڑھے ہوئے کرداروں سے گونجتی ہے۔ وبائی صورتحال نے مزید واضح کیا ہے کہ پاکستان کے لئے کلین ایئر پروگرام کو نافذ کرنا کتنا ضروری ہے۔ نظرثانی شدہ پی سی اے پی حالیہ معاہدوں ، نئی ٹکنالوجیوں ، امور اور ترجیحات کے مطابق نئی ترقی پر منحصر ہوگی تاکہ یہ پاکستان کے اہم اہداف سے ہم آہنگ ہو۔این ڈی سی ڈیز اور این ڈی سی عمل پر نظر ثانی:: پیرس معاہدے کے تحت فریقین ہر پانچ سال میں بہتر وعدوں کے ساتھ نظر ثانی شدہ این ڈی سی جمع کروانے کی پابند ہیں۔ نظرثانی شدہ این ڈی سیز کے لئے ، پاکستان کا مقصد ان منصوبوں کو اجاگر کرنا ہے جو گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان نے اپنے دیسی وسائل سے ، ادارہ جاتی انتظامات اور گورننس کے طریقوں کو جو حکومت نے لیا تھا اور جی ایچ جی انوینٹری کو نئی گیسیں اور بلیو کاربن جیسے نئے شعبے شامل ہیں۔بہتر وعدوں کے لئے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں ، صحت ، فضائی آلودگی ، صنف ، نوجوان وغیرہ۔ مشیر ملک امین اسلم کی زیرصدارت ایک قومی اسٹیئرنگ کمیٹی حتمی ترمیم شدہ دستاویز کو پیش کرنے کے لئے جائزہ لینے اور اسے مستحکم کرنے کی ذمہ دار ہے۔

.اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتریس 4 جون کو اسلام آباد پہنچیں گے,,پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر اجاگر

Posted on

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتریس 4 جون کو اسلام آباد پہنچیں گے ……………….. اسلام آباد (اصغرعلی مبارک سے) اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتریس 4 جون کو پاکستان کے دورے پر پہنچیں گےذرائع کے مطابق دورے کے دوران اقوم متحدہ کے جنرل سیکرٹری عالمی یوم ماحولیات پر منعقدہ تقریب سے خطاب بھی کریں گے 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کانفرنس کے موقع پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے علاوہ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس. جرمن چانسلر انجیلا میرکل بھی شریک ھوں گے ۔جبکہ پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو بھی اجاگر کیا جائے گا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے چند دنوں پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی جس کا پاکستان نے خیبر مقدم کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتریس پاکستان کے دورے پر 14 رکنی وفد ہمراہ ہوگا۔عالمی ادارہ کے اعلیٰ عہدیدار اپنے پاکستان میں قیام کے دوران صدر عارف علوی ، وزیر اعظم عمران خان اور دیگر پاکستانی شہریوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پاکستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے دفاتر کا بھی دورہ کریں گے۔ خطے کی صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے دورے کو بہت اہم قرار دیا ہے۔بتایاجاتا ہے کہ دورے کے دوران پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو بی اجاگر کیا جائے گا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیکرٹری جنرل نے کشمیر کی صورتحال پر بار بار اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان اور بھارت کے مابین بامعنی بات چیت کا مشورہ بھی دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے چند دنوں پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی جس کا پاکستان نے خیبر مقدم کیا تھاانہوں نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ نے کشمیر کی صورتحال پر اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔