Month: May 2019

PBG wins 115th MP Bhandara Memorial Murree Brewery Polo Cup 2019 By-:Asghar Ali Mubarak

Posted on

PBG wins 115th MP Bhandara Memorial Murree Brewery Polo Cup 2019
By-:Asghar Ali Mubarak
Rawalpindi ; The Chief Executive Murree Brewery Company Mr. Isphanyar Bhandara says that sports help in developing the mental and physical abilities of the youth. This builds their character along with improving patience and courage in their personalities,because self-confidence in a person can play an important role in the country’s development. He added that the players are assets of the nation and play an important role in promoting sports for the formation of a healthy society.
He expressed his views while talking to reporters after distributing prizes in the successful team at the 115th M.P. Bhandara Memorial Murree Brewery Polo Cup Final in Rawalpindi. The guests of honours that attended the event were Senator Sitara Ayaz and the Ambassadors of Azerbaijan, Poland, Egypt, Sweden, and Bulgaria.Seven teams that participated in the pilot event.
In the final PBG Team scored 7 goals to beat CLS team by 3.5 goals. Sentor Sitara Ayaz said he appreciated the efforts of the Murree Brewery team for the promotion sports event went on to say that the inaugural M.P. Bhandara Memorial Murree Brewery Polo Tournament was held in 1904. At the end of the match, young army individuals demonstrated tent pegging and there was horse dancing. All the attendees who observed these performances thoroughly enjoyed this display.The President’s Bodyguard (PBG) defeated CLS by seven goals to 3.5 goals in the final of the 115th MP Bhandara Memorial Murree Brewery Polo Cup here at Rawalpindi Polo Club, Rawalpindi.As many as seven top leading teams participated in the tournament.Speaking at the prize distribution ceremony, Chief Executive Murree Brewery Company Mr. Isphanyar Bhandara said sports help in developing the mental and physical abilities of youth.The guests of honour that attended the event included Senator Sitara Ayaz and the ambassadors of Azerbaijan, Poland, Egypt, Sweden and Bulgaria. Senator Sitara Ayaz appreciated the efforts of the Murree Brewery team in promoting sports events.The President’s Bodyguard (PBG) defeated CLS by seven goals to 3.5 goals in the final of the 115th MP Bhandara Memorial Murree Brewery Polo Cup at Rawalpindi .

کرکٹ ورلڈکپ؛ ٹرمپ کارڈ قرار دیئے جانے والےشاداب خان پاکستان ٹیم میں شامل۔۔۔۔۔۔۔۔رپورٹ :اصغر علی مبارک سے شاداب خان پاکستانی کرکٹر کووزیراعظم عمران خان ورلڈکپ 2019 کیلئےپاکستانی ٹیم کا ٹرمپ کارڈ قرار دے چکے ہیں عمران خان کی کرکٹ کے حوالے سے ھر پیشن گوئی درست ثابت ھوئی۔ورلڈکپ کے لیے ٹیم اعلان ھوا تو اس میں شاداب خان کا نام شامل تھالیکن اچانک ایک خبر نے سوالیہ نشان رکھ چھوڑا کہ شاداب شاید ھی کبھی ٹیم کا دوبارہ حصہ بن سکیں۔راقم الحروف سکول لیول سے اپنے علاقےڈھوک حسو راولپنڈی میں ریلوے گراونڈ پرکاونٹی کرکٹ کلب کا حصہ رھےبعدازاں ریلوے ٹیم کی نمائندگی کی جس میں مہدی۔شاہ۔جاوید اختر۔نئیر بشیر۔ماجد محمود۔ارشد گتاوا۔جاوید خان۔ناصر اقبال۔محمد فاروق۔منیر گارنر۔مقصوداحمد ۔سعید خان ۔سجاد احمداور نصیر احمد وغیرہ استاد صدیق کے کلب سےکھیلتے تھے ان باتوں کا تذکرہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ نصیر احمد وہ پلیئر تھے جنہوں نے شاداب خان جیسا ھیرا تراشہ ھے ہے جو قومی ٹیم کے لیے کھیلتا ہے۔ ورلڈکپ سکواڈ کا حصہ بننے والے شاداب خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں انہوں نے اپنی شاندار کارکردگی سے چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم کی فائنل میں فتح میں اہم کردار ادا کیا اور اس طرح کی کارکردگی ورلڈکپ میں دیکھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔شاداب خان کا کرکٹ کیرئیر کیسے شروع ہوا اور ان کوکس نے دریافت کیایہ ایک ایسا سوال ہے جس سے متعلق پاکستان ہی نہیں بلکہ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے سب ہی لوگ جاننا چاہتے تھے۔ شاداب خان کو دریافت ڈھوک(منگٹال) مٹکال راولپنڈی سے عالمی سطح پر پہنچنےوالےنصیر احمد نے کی۔ ان کے ابتدائی کیرئیر کی اھم باتیں پہلے کوچ نصیر احمد کی زبانی منظر عام پر آچکی ہیں جو اس سے قبل کسی کو معلوم نہ تھی۔ شاداب خان کے ابتدائی کوچ نصیر احمد بتاتے ہیں کہ 2010 میں میانوالی سے شاداب خان کی فیملی راولپنڈی کےایک پسماندہ علاقے ڈھوک( منگٹال)مٹکال راولپنڈی منتقل ہوئی، اس وقت شاداب12 سال کا ایک بچہ تھا، شاداب نے صدیق اکبر میموریل کلب کے ساتھ ریلوے گراؤنڈ پر پریکٹس شروع کی۔ ابتدا میں شاداب ٹینس گیند سے میڈیم فاسٹ بولنگ کیا کرتا تھا، کلب کے صدر و کپتان سجاد احمد نے اس کی رہنمائی شروع کی اور لیگ اسپن کرنے کا مشورہ دیا، شاداب خان بہت محنتی تھا اور نیٹ پریکٹس کے لیے ہمیشہ سب سے پہلے آتا،نصیر احمد بھی اس دوران کوچنگ کرتے ہوئے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے رھے یہاں ایک بات تذکرہ کرناضروری استادصدیق اکبر خود بھی مایہ ناز سپن باولر تھے اس علاقے سے انٹر نیشنل کرکٹر محمد اکرم۔محمد نواز اور دیگر نے پہچان بنائی۔ شاداب نے انڈر سولہ اور انڈر انیس کرکٹ بھی کھیلی اور صلاحیتوں کا لوہا منوا کر آگے بڑھتا رہا، میں انگلینڈ چلا گیا تھا مگر جب بھی پاکستان جاتا شاداب کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتا۔چند برس پہلے ریس کورس گراؤنڈ پر بھی اس کے ساتھ کوچنگ سیشنز کیے، اس دوران اسے فرنٹ فٹ کی وجہ سے سائیڈ اسٹرین کا مسئلہ ہوا جسے حل کرایاگیا جس سے فٹنس ٹھیک ہو گئی، پی ایس ایل کے دوران ویوین رچرڈز سے ملاقات ھوئی، جس میں بتایاگیا کہشاداب خان اچھا بیٹسمین بھی ہے اور جلداس شعبے میں بھی صلاحیتوں کا لوہا منوا لے گا، فیلڈنگ سے تو پہلے ہی اس نے سب کو متاثر کر دیا تھا۔چیمپئنز ٹرافی کے دوران شاداب سے ملاقات کے لیے برمنگھم گیا شاداب نے کہا کہ فائنل ضرور کھیلیں گے اور جیتیں گے اور پھر ٹرافی جیتنے کے بعد آپ سے پھر ملاقات ہو ئی‘‘ اور شاداب نے اپنا کہا درست ثابت کیا اس با پھر شاداب خان ورلڈکپ ٹرافی اٹھانے کی نوید سنا رھاھے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کےمایہ ناز لیگ اسپنر شاداب خان کےسو فیصد فٹ ہونے کےبعد ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بن گئے لندن روانگی سے قبل خصوصی انٹرویو میں انہوں نے سینئر سپورٹس جرنلسٹ اصغر علی مبارک کو بتایا کہ وہ قوم کی دعاؤں سے ورلڈ کپ کا حصہ بنے ہیں قوم سے اپیل ھےکہ ورلڈکپ میں ٹیم کی کامیابی کےلیے دعائیں کرے راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں ملاقات کے دوران بتایا کہ دو روز قبل ان کے خون کے نمونے لئے گئے تھے جن میں ہیپاٹائٹس کا وائرس نہیں پایا گیا۔ اب جمعرات 16 مئی کو برطانیہ کے لیے روانہ ہورھے ھیں اور 20 مئی کو برسٹل میں قومی ٹیم کا حصہ بن جائیں گے۔شاداب خان کا کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ سے دوری ایک تکلیف دہ اور مشکل مرحلہ تھا لیکن اللہ تعالٰی کی ذات سے مایوس نہیں تھااور پوری امید تھی کہ مکمل فٹ ہوکر دوبارہ پاکستان ٹیم کا حصہ بنوں گا۔ واضع رھے کہ شاداب خان کو عین اس وقت ہیپاٹائٹس کے وائرس کا خون میں موجودگی کا انکشاف ہوا تھا جب ورلڈ کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں فٹنس ٹیسٹ کے دوران ان کا میڈیکل ٹیسٹ کیا گیا ۔ اس دوران مزید انکشاف ہوا کہ انہوں نے دانت میں تکلیف کے بعد ایک دندان ساز سے علاج کرایا اور اس کے آلات کی وجہ سے ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہوئے۔ شاداب خان کی طرح ٹیم میں شمولیت پر پاکستانی ٹیم مینجمنٹ بہت مسرور ھے کیونکہ لیگ اسپنر کو وزیر اعظم عمران خان نے ٹرمپ کارڈ قرار دیا تھا اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی اس کہے کو پرفارمنس سے درست ثابت کردیں گے ۔لیگ اسپنر کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ سے دوری ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن پوری امید تھی کہ فٹ ہوکر پاکستان ٹیم کو دستیاب ہو جاؤں گا،انہوں نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کی وجہ سے میگا ایونٹس کی اہمیت کو سمجھتا ہوں، ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کیلیے عمدہ پرفارم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے بھی شاداب خان کی دستیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے، جبکہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے کہاکہ اسپنر کی واپسی سے ٹیم متوازن ہوجائے گی،نوجوان کرکٹرز کی موجودگی میں ڈریسنگ روم اور میدان میں ٹیم کا ماحول پُرجوش ہوجاتا ہے،امید ہے کہ ورلڈکپ سے قبل شاداب مکمل طور پر میچ فٹنس حاصل کرلیں گے۔فٹنس کے سوال پر شاداب کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے موسم سے جلد ھم آہنگی حاصل کرلوں گاانگلش کنڈیشن کا مجھے اندازہ ہے کیونکہ میں وہاں کاونٹی کرکٹ کھیلتا رھا ھوں اور مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ شاداب خان بیرون مللک ایک کامیاب پلیئر کی حثیت سے ایک پہچان رکھتے ہیں نیوزی لینڈ کی سرزمین پر جہاں پاکستان کے ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر مستند بلے باز نہ چل سکے، وہاں پاکستان کے لیگ سپنر شاداب خان نے ون ڈے میچز میں مشکل وقت میں دو نصف سنچریاں بنا کر ثابت کر دیا کہ وہ گیند کرنے کے ساتھ ساتھ وقت پڑنے پر بیٹنگ کرنے کی بھی مہارت رکھتے ہیں۔یو اے ای میں بھی سری لنکا کیخلاف شاداب خان نے اپنی شاندار بیٹنگ سے میچ جتوایا ۔ ان کی بیٹنگ صلاحیتیوں پر سب کی نظریں تھیں اور اس میچ کے بعد میچ ریفری نے ان کا ڈوپ ٹیسٹ لینے کیلئے بھی کہا لیکن وہ منفی آیا۔نیوزی لینڈ کیخلاف پہلے ون ڈے ویلنگٹن میں بھی انہوں نے28 رنز بنائے۔ نیلسن کے ون ڈے میں کہ جہاں پاکستان کی ٹاپ اور مڈل آرڈر بیٹنگ پویلین لوٹ چکی تھی۔ حسن علی اور شاداب خان نے کیوی باﺅلرز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سکور کو فائٹنگ ٹارگٹ تک پہنچا دیا۔شاداب خان نے وکٹ کے چاروں طرف منجھے ہوئے بلے باز کی طرح شارٹس کھیلے اور قیمتی 52 رنز بنائے جس میں ایک چھکا اور تین چوکے شامل تھے۔ویلنگٹن کے آخری ون ڈے میں بھی وہ کیوی باﺅلر ز کے آگے ایک مرتبہ پھر ڈٹ گئے اور نصف سنچری بنائی جہاں ٹاپ آرڈر مکمل طور پر ناکام ہو چکی تھی۔ شاداب خان نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے بھرپور مزاحمت دکھائی اور وکٹ پر حارث سہیل کا ساتھ دیا۔ان کی اس استقامت کی تعریف کرتے ھوئے نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن کو کہنا پڑا کہ پاکستان کے لوئر آرڈر کے کم بیک سے پریشان ہیں۔بیٹنگ کے ساتھ ساتھ باﺅلنگ میں بھی شاداب نے اپنا حصہ ڈالا۔ چوتھے ون ڈے میں انہوں نے سب سے اچھی باﺅلنگ کرائی اور تین وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے تاہم ٹی ٹوئنٹی میچز میں انہوں نے اپنی نپی تلی باﺅلنگ کے ذریعے کیوی بلے بازوں کو باندھ کر رکھا۔ تیسرے ٹی ٹونٹی میں اگر میچ کا ٹرننگ پوائنٹ کہا جائے تو وہ عامر یامین اور شاداب خان کی عمدہ اور نپی تلی باﺅلنگ تھی جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی فی اوور رن ریٹ میں اضافہ ہوا اور اس اہم سپیل میں ہی شاداب خان نے مارٹن گپٹل اور کچن کی وکٹیں نکالی جس کی وجہ سے پاکستان میچ میں واپس آیا۔ اسی میچ وننگ کارکردگی کی وجہ سے شاداب خان تیسرے ٹی ٹونٹی میں مین آف دی میچ ٹھہرے۔نیوزی لینڈ کے ٹور کے دوران شاداب خان ایک اچھے آل راﺅنڈر کے روپ میں سامنے آئے۔ ان میں بے پناہ اعتماد ہے، یہ اعتماد نہ صرف باﺅلنگ اور بیٹنگ میں نظر آتا ہے بلکہ وہ فیلڈر بھی اچھے ہیں۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں محمد عامر کی گیند پر بھارتی بلے باز ویرات کوہلی کا پوائنٹ پر شاندار کیچ لے کر انڈین بیٹنگ کی کمر توڑ دی تھی۔ انہوں نے نیوزی لینڈ ٹور میں ناقابل یقین کیچ پکڑے۔ فہیم اشرف کی گیند پر کیوی کپتان کین ولیمسن کا بیک ورڈ پوائنٹ پر جونٹی روڈز کی طرح ڈائیو لگا کر کیچ پکڑا۔ اس کیچ کوبہترین کیچ قرار دیا جاتا ہے۔ اپنی بہترین فیلڈنگ کی وجہ اپنے ابتدائی دور کی بہترین گھاس والی گراﺅنڈ کو قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ بہترین گراﺅنڈ تھی جیسے انٹرنیشنل گراﺅنڈز ہوتی ہیں جس کی وجہ سے فیلڈنگ کرنے میں مزہ آتا تھا اور ڈائیو کر کے گیند پکڑنا ایک مشغلہ تھا۔ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے بھی ان کی آل راﺅنڈ کارکردگی کی تعریف کی۔ ان کا کہنا ھے کہ شاداب خان کی بیٹنگ میں دن بدن بہتری آ رہی ہے۔ شین وارن کو دیکھ کر سپن باﺅلنگ کی طرف آنیوالے میانوالی کے اس نوجوان کو ان کے بڑے بھائی آفتاب نے بہت سپورٹ کیا لیکن فیملی والے ان کا کرکٹ کھیلنا پسند نہیں کرتے تھے۔ کئی بار انہیں گھر سے باہر رہنا پڑا۔ابتدائی کرکٹ میانوالی میں اپنے آبائی گاﺅں ہی میں کھیلی، پھر فیملی راولپنڈی آ گئی۔ اور پھر پنڈی ریجن کی طرف سے کھیلتے رہےکوچ صبیح اظہر سے بھی انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔یہ بات درست ہے کہ پاکستانی ٹیم کو اچھے آل راﺅنڈرز کی بہت ضرورت ہے اور شاداب خان اچھے آل راؤنڈر میں ڈھل چکے ہیں جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے تاہم وہ ٹیم میں بطور باولر رھنا پسند کرتے ہیں ان کا ماننا ھے کہ دعاوں سے اس مقام پر ھوں اور قوم سے اپیل کرونگا ٹیم کی ورلڈکپ 2019ء میں کامیابی کیلئے دعائیں کرتے رھیں۔ھم اپنی پرفارمنس سے قوم کومایوس نہیں کریں گے پاکستان کی ٹیم انشاء اللہ قوم امیدوں پر پورا اترے گی۔۔۔۔۔

Posted on Updated on

”AUSTRALIAN HIGH COMMISSIONER ” HOSTS CRICKET WORLD CUP EXHIBITION (By, ASGHAR ALI MUBARAK) The Australian High Commissioner to Pakistan, H.E.Ms. Margaret Adamson, hosted an exhibition of photographs from the 1992 Cricket World Cup played in Australia.“1992 was a tournament of firsts. The first World Cup played in Australia. The first appearance of colored kit, white balls and night cricket. And, most importantly, the first World Cup collected by Pakistan,” Ms Adamson said.“This wonderful exhibition of photos by Iqbal Munir captures the ecstasy of the Pakistani players during that victory over the English,” she said. H.E.Ms. Margaret Adamson, noted that although Australia and Pakistan were fierce competitors on the field, cricket was a unifying passion for the two countries. “Every summer, more than a million Australians play the game, and you see the same enthusiasm here in Pakistan. On every street, in every open space, youngsters are out hitting the ball, grabbing a wicket, being part of the team,” she said. “Pakistan has produced some of the game’s true champions: Imran Khan, the best of skippers; Shahid Afridi, who hit more sixes than anyone else in one-day internationals; Sarfraz Nawaz, Wasim Akram and Waqar Younis, who pioneered reverse swing,” she said. The exhibition of work by Iqbal Munir, a widely travelled cricket photographer and enthusiast, will be open to public on 14 and 15 May at Dolmen Mall, Karachi. “What happened on the field in 1992 might be etched in the memory of every cricket fan in the country and is refreshed every four years by the barrage of video clips and pictures that flood social media and television screens,” Mr Munir said.“Few know what happened behind the scenes. As the team’s official photographer, I trailed the cricketers closely, capturing every move and emotion that shed light on their state of mind and let us recall the intimate details that led to the momentous victory,” he said.Iqbal Munir is the son of late cricket commentator and journalist Munir Hussain. His World Cup photographs are compiled in the book, Pakistan: World Champions. In 1987, he also wrote An Eye on Imran. The 1992 Cricket World Cup was the fifth staging of the Cricket World Cup, organized by the International Cricket Council (ICC). It was held in Australia and New Zealand from 22 February to 25 March 1992, and finished with Pakistan beating England by 22 runs in the final to become the World Cup champions for the first time. The 1992 World Cup was the first to feature colored player clothing, white cricket balls and black sight screens with a number of matches being played under floodlights. The 1992 World Cup was also the first to be held in the Southern Hemisphere. It was also the first World Cup to include South Africa, who had been allowed to re-join the International Cricket Council as a Test-playing nation after the end of apartheid. The format was changed from previous tournaments, with a complete round-robin replacing the former two qualifying groups. The initial draw was released with eight competing countries and 28 round-robin matches, plus two semi-finals and a final. In late 1991, South Africa were re-admitted to the International Cricket Council after 21 years of exclusion due to apartheid, and the draw was amended to include them, adding another eight matches to the round-robin. The rule for calculating the target score for the team batting second in rain-affected matches was also changed. The previous rule (the Average Run Rate method) simply multiplied the run rate of the team batting first by the number of overs available to the team batting second, but this rule had been deemed to give an unfair advantage to the team batting second. In an attempt to rectify this, the target score would now be calculated by the Most Productive Overs method. In this system, if the team batting second had 44 over available, their target score would be one greater than the 44 highest scoring over of the team batting first. While the reasoning behind the system was sound, the timing of rain interruptions remained problematic: as the semi-final between England and South Africa demonstrated, where a difficult but eminently reachable 22 runs off 13 balls was reduced to 22 runs off 7 (the least productive over, a maiden, being deducted) and finally, a preposterous 21 off 1 ball (the next least productive over having given 1 run). It was seen that, if the interruption came during the second innings, the side batting second was at a significant disadvantage – one which was only overcome once, in fact, in England’s group-stage victory over South Africa. The 1992 World Cup featured the seven Test teams at that time. For the first time; South Africa competed as the eighth full member of the ICC, and would play their first Test in 22 years in the West Indies a month after the World Cup. Zimbabwe appeared for the third time, having qualified by winning the 1990 ICC Trophy defeating the Netherlands in the final for the second time. Zimbabwe would gain full member status following the tournament and play their first Test match later in 1992. Teams who entered were.

Posted on

”AUSTRALIAN HIGH COMMISSIONER ” HOSTS CRICKET WORLD CUP EXHIBITION (By, ASGHAR ALI MUBARAK) The Australian High Commissioner to Pakistan, H.E.Ms. Margaret Adamson, hosted an exhibition of photographs from the 1992 Cricket World Cup played in Australia.“1992 was a tournament of firsts. The first World Cup played in Australia. The first appearance of colored kit, white balls and night cricket. And, most importantly, the first World Cup collected by Pakistan,” Ms Adamson said.“This wonderful exhibition of photos by Iqbal Munir captures the ecstasy of the Pakistani players during that victory over the English,” she said. H.E.Ms. Margaret Adamson, noted that although Australia and Pakistan were fierce competitors on the field, cricket was a unifying passion for the two countries. “Every summer, more than a million Australians play the game, and you see the same enthusiasm here in Pakistan. On every street, in every open space, youngsters are out hitting the ball, grabbing a wicket, being part of the team,” she said. “Pakistan has produced some of the game’s true champions: Imran Khan, the best of skippers; Shahid Afridi, who hit more sixes than anyone else in one-day internationals; Sarfraz Nawaz, Wasim Akram and Waqar Younis, who pioneered reverse swing,” she said. The exhibition of work by Iqbal Munir, a widely travelled cricket photographer and enthusiast, will be open to public on 14 and 15 May at Dolmen Mall, Karachi. “What happened on the field in 1992 might be etched in the memory of every cricket fan in the country and is refreshed every four years by the barrage of video clips and pictures that flood social media and television screens,” Mr Munir said.“Few know what happened behind the scenes. As the team’s official photographer, I trailed the cricketers closely, capturing every move and emotion that shed light on their state of mind and let us recall the intimate details that led to the momentous victory,” he said.Iqbal Munir is the son of late cricket commentator and journalist Munir Hussain. His World Cup photographs are compiled in the book, Pakistan: World Champions. In 1987, he also wrote An Eye on Imran. The 1992 Cricket World Cup was the fifth staging of the Cricket World Cup, organized by the International Cricket Council (ICC). It was held in Australia and New Zealand from 22 February to 25 March 1992, and finished with Pakistan beating England by 22 runs in the final to become the World Cup champions for the first time. The 1992 World Cup was the first to feature colored player clothing, white cricket balls and black sight screens with a number of matches being played under floodlights. The 1992 World Cup was also the first to be held in the Southern Hemisphere. It was also the first World Cup to include South Africa, who had been allowed to re-join the International Cricket Council as a Test-playing nation after the end of apartheid. The format was changed from previous tournaments, with a complete round-robin replacing the former two qualifying groups. The initial draw was released with eight competing countries and 28 round-robin matches, plus two semi-finals and a final. In late 1991, South Africa were re-admitted to the International Cricket Council after 21 years of exclusion due to apartheid, and the draw was amended to include them, adding another eight matches to the round-robin. The rule for calculating the target score for the team batting second in rain-affected matches was also changed. The previous rule (the Average Run Rate method) simply multiplied the run rate of the team batting first by the number of overs available to the team batting second, but this rule had been deemed to give an unfair advantage to the team batting second. In an attempt to rectify this, the target score would now be calculated by the Most Productive Overs method. In this system, if the team batting second had 44 over available, their target score would be one greater than the 44 highest scoring over of the team batting first. While the reasoning behind the system was sound, the timing of rain interruptions remained problematic: as the semi-final between England and South Africa demonstrated, where a difficult but eminently reachable 22 runs off 13 balls was reduced to 22 runs off 7 (the least productive over, a maiden, being deducted) and finally, a preposterous 21 off 1 ball (the next least productive over having given 1 run). It was seen that, if the interruption came during the second innings, the side batting second was at a significant disadvantage – one which was only overcome once, in fact, in England’s group-stage victory over South Africa. The 1992 World Cup featured the seven Test teams at that time. For the first time; South Africa competed as the eighth full member of the ICC, and would play their first Test in 22 years in the West Indies a month after the World Cup. Zimbabwe appeared for the third time, having qualified by winning the 1990 ICC Trophy defeating the Netherlands in the final for the second time. Zimbabwe would gain full member status following the tournament and play their first Test match later in 1992. Teams who entered were.

Posted on Updated on

Pakistani off-spinner Sana Mir becomes most successful women ODI’s spinner in the world By: ASGHAR ALI MUBARAK The Pakistan’s off-spinner Sana Mir has become the most successful women’s ODI spinner in the world when she dismissed South Africa’s Sune Luus in the third One-Day International of the ICC Women’s Championship in Benoni. In doing so, she claimed her 147th ODI wicket in her 118th appearance, which has helped her leapfrog Anisa Mohammed of the Windies and Australia’s Lisa Sthalekar into third place on the all-time list of most successful bowlers, behind fast bowlers Jhulan Goswami of India (218) and Australia’s Cathryn Fitzpatrick (180).Sana Mir is presently the third ranked ICC bowler, but is expected to make an upward movement when the new rankings are released on Monday, 13 May. In October last year, she had become the first Pakistan bowler to top the ICC rankings.Sana Mir made her ODI debut, eight days shy of her 20th birthday against Sri Lanka at the National Stadium in the ACC Women’s Asia Cup match. She remained wicket-less, but scored 23 runs with the bat. In her exclusive interview Sana Mir said, “My father was in Army, so, we had to move around a lot. This meant making new friends, but at the same time proving my cricket abilities to them again and again,” recalls Sana.Recalling her early days, Sana Mir said she had to overcome a number of challenges. “The journey started by proving at every street, where I played cricket, that girls could play this sport. We didn’t have any role models, girls taking part in cricket was not that common? “From street cricket to playing on the grounds and moving to stadia donning the Pakistan kit were moments of immense pride. From there, my goals started getting bigger and bigger as I started achieving results on the field. “The more your intention is to contribute for the team; the more success comes to you. This journey has taught me that keeping the team goal ahead of everything else brings satisfaction along with fame, recognition and success.” The chief selector and former captain Urooj Mumtaz stated “Sana Mir has been a great role model for our cricket, her hard work, dedication and humility is absolutely admirable”.Current chief selector Urooj Mumtaz, who captained Sana in 26 ODIs, congratulated her former colleague and called her a true inspiration for women cricketers not only in Pakistan but around the world. “Sana has been a great role model for our cricket, in fact, world cricket, her hard work, dedication and humility is absolutely admirable.“I captained Pakistan when we were just starting and it was a great help having her in my side. Sana was a calm and composed character, and these qualities have made her such a great performer.“I have really enjoyed captaining her as she had a great cricketing mind. Her achievements as a bowler don’t surprise me much since I have always felt she would go a long way considering the talent and the ability she had of applying herself under pressure.“I really want to wish her the best and hope that she continues to inspire youngsters and continues to bring laurels to the country.”Sana captained Pakistan from 2009 to 2017 and also inspired her side to Asian Games Gold medals in 2010 and 2014. As captain, she took 83 wickets in 72 ODI matches besides scoring 1069 runs.In 100 T20Is, Sana has dismissed 84 batters, including Ireland’s Laura Delany off a delivery that pitched outside the leg stump and hit top of the middle stump. The deliver was later voted as Play of ICC Women’s T20 World Cup 2018.Sana has completed her Bachelors in Science.Pakistani woman cricket team off-spinner Sana Mir bagged the title of the most successful women ODI’s spinner in the world after she dismissed Sune Luus from South Africa in the third ODI of ICC Women’s Championship. After taking the 147th ODI wicket in her 118th appearance, the former Pakistan women’s team captain has jumped to top sending West Indies’ player Anisa Mohammed and Australia’s Lisa Sthalekar on number three on the list of all-time successful bowlers.Overall, the Pakistan off-spinner is the third highest wicket-taker after pacers Jhulan Goswami of India (218 wickets) and Cathryn Fitzpatrick of Australia (180).Currently Sana Mir holds the third rank of ICC bowler and as per the buzz, it is likely for her to progress higher on the new rankings which will be released tomorrow, May 13, 2019.Prior to this, Mir had also become the first Pakistani bowler to head the ICC rankings in October of 2018. Sana Mir was born on 5th January 1986 is a cricketer and the former captain of the Pakistan national women’s cricket team in ODIs and T20Is. In October 2018, she became the first Pakistani women cricketer to rank number 1 in ICC ODI bowler ranking. She has led Pakistan to two Gold medals in Asian Games 2010 and 2014. She was announced Player of the Tournament at the 2008 Women’s Cricket World Cup Qualifier, and currently ranks 1st in the Women’s ODI Bowlers in the ICC Player Rankings. She has been in Top 20 ICC rankings for last 9 years. During her Captaincy 8 players from Pakistan have made their way into the top 20 ICC rankings. In February 2017, during the 2017 Women’s Cricket World Cup Qualifier, she became the first Pakistan woman to take 100 wickets in WODIs. In September 2017, Bismah Maroof was made captain of Pakistan women’s ODI team, after Mir stepped down from the role. In February 2019, she became the first woman for Pakistan to play in 100 Women’s Twenty20 International matches. She is from Gilgit-Baltistan Hunza district. Sana Mir has completed her Bachelors in Statistics and Economics. Her favorites’ cricketers are Waqar Younis, Imran Khan and Jonty Rhodes. On 4 May 2009, Mir was handed the Pakistan captaincy for the Women’s World Twent20. She had formerly been vice-captain under Urooj Mumtaz, who remained in the squad. Mir’s duties as vice-captain were handed over to Nain Abidi. Mir retained the captaincy for the forthcoming ICC Women’s Cricket Challenge in South Africa. At the 2010 Asian Games, Mir led the team to a gold medal. By Winning the National Championship for the fourth time in a row, Sana Mir has become the most successful captain of Pakistan at domestic level. Her team has yet to lose a game at domestic level in the past four years. Sana Mir also led the Pakistan team to their first ever tournament wins in both the T20 and ODI formats when they played in Sri Lanka in 2011. The teams in the quadrangular cup were Sri Lanka, Pakistan, Ireland, and the Netherlands. She was also awarded the Women of the Match title in the T20 quadrangular-cup final against the Netherlands. World Cup Qualifiers 2012: The women’s team has qualified for the 2012 T20 and 2013 Women’s ODI world cup under her captaincy. For the first time ever, the team also beat South Africa, thereby, improving their world ranking from 8 to 6. At Domestic cricket, the ZTBL team has won the second BB tournament and 8th National championship under her Captaincy. This makes it 6 in a row. Sana Mir became the first woman cricketer to receive PCB Woman cricketer of the Year Award 2013. Pakistan women team showed their best performance on a European tour in 2013. The team has beaten England for the first time in any format and leveled the t20 series. The team has won 11 matches in a row. After the completion of this tour Pakistan women’s team has 6 members in ICC top 20 players ranking. At Domestic cricket, the ZTBL team has won the first ever BB tournament and 7th National championship under her Captaincy. This makes it 5 in a, Mir has become the first ever female cricketer from Pakistan to be awarded Tamgha-e-Imtiaz on 23 March 2012, for her services in cricket. In October 2018, she was named in Pakistan’s squad for the 2018 ICC Women’s World Twenty20 tournament in the West Indies. She has become No. 1 bowler in Women Cricket Rankings.

Posted on

Watch “راولپنڈی میں بندریا کے اغوا ھو نے والے بلی کے بچے کی بازیابی۔ ۔رپورٹ۔۔اصغر علی مبارک” on YouTube

Posted on

https://youtu.be/tcqVdeqHkRQراولپنڈی میں بندریا کے اغوا ھو نے والے بلی کے بچے کی بازیابی۔
۔رپورٹ۔۔اصغر علی مبارک
راولپنڈی کی پرانی کچہری میں عرصہ دراز سے پرانے درختوں پر بندروں کے چند جوڑےآباد ھیں جو بالخصوص لیڈی بار کے ارد گرد منڈلاتے نظرآتے کبھی کبھارآنے والے سائلین کے لیے یہ منظربڑا خوش نما اور دلفریب دکھائی دیتا ہے مگرگزشتہ روزکے ایک واقعہ نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ بندر گردی کا شکار کوئی حضرت انسان نہ ھو جائےگزشتہ روز دن کے تقریبا اڑھائی بجے میں اخبارات خریدنے کی غرض سے ایک ھاکر کے پاس موجود تھا کہ اچانک ایک خوبصورت سی نیلی آنکھوں والی بلی نے معمول سے ذیادہ چیخنا چلانا شروع کر دیا گرمی کی شدت کی وجہ موجود لوگوں نے اس کوپیاسا سمجھ کر پانی دیا اس دوران بلی کی نگاہیں مسلسل ایک جانب اوپر کی طرف تھیں جب میں نے غور سے دیکھا تو ایک بندریا بلی کے معصوم بچے کو یرغمال بنائے بیٹھی ھے اور بلی کا بچہ ماں کی پاس آنے کی کوشش کر رھاھے بچے کی آہوبکاہ سے بلی بھی شدید جذبات سے اپنی زبان میں بندریا سے التجا کررھی تھی کہ بچے کو اللہ واسطےچھوڑ دے مگر بندریا کسی قیمت پر بلی کابچہ واپس کرنے پر راضی نہ تھی اسدوران لاکھوں جتن کیے گئے راقم الحروف نے اخبار والے ھاکر کی مدد سے چپس۔بسکٹ وغیرہ کی لالچ بی بندریا کو آفر لیکن تمام حربے ناکام ہوتےدکھائی دے رھے چند لوگوں نے پتھر پھینکے تو بندریا مشتمل ھوکر بجلی کے ھائی وولٹیج پول پر چڑھ دوڑی اور عین ممکن تھا مغویہ بلی کا بچہ اور اغوا کار بندریا بجلی کے کرنٹ لگنے سے ہلاک ھو سکتے ہیں مگر پھر چند افراد نے گھبرا ڈال کر بندریا کو بلی کا بچ چھوڑنے پر مجبور کردیابندریا کے بارے میں مشہور ہے کہ گرمیوں پاوں جلنے پر اپنے بچوں کو بھی پاوں تلے دبہ دیتی ہے اس واقعہ کے بعد لوگوں نے بتایا کہ بندرہا اپنےایک بچے کو کھو چکی ہے ایک تیز رفتار کار نے بندریا کے بچے کو کچل ڈالا جس کے بعد سے وہ ذہنی طور نیم پاگل ہو گئی ہےاس تازہ ترین واقعہ نے ماضی میں بھارتی ریاست کرناٹک کے واقعہ کی یاد تازہ کردی جب ایک دور افتادہ گاﺅ ں میں ایک بندریا نے گاﺅں کے ایک گھر میں گھس کر نوزائیدہ بچے کو اٹھالیا اور پھر وہاں سے لیجاکر کسی کنویں میں پھینک دیا جہاں سے واقعہ کے دوسرے دن بچے کی لاش برآمد ہوئی۔ عینی شاہدین کا کہناہے کہ بندر نے گھر میں گھس کر موقع ملتے ہی پلنگ پر لیٹے ہوئے نوزائیدہ کو پکڑا ۔ بندر کی آمد کی آہٹ سے ماں ذرا چونکی مگر اس وقت تک بندریا بچے کو لیکر دیوار پر اور پھر دیوار سے قریبی درخت پر چلی گئی اور پھر ایک درخت سے دوسرے درخت پر بچے سمیت چھلانگ لگاتی ہوئی چلی گئی۔ آخر ایک جگہ بندریا نے اس بچے کو لٹا دیا مگر اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کوئی بچے کے قریب نہ آئے۔ مقامی لوگوں نے بچے کو بندر سے چھیننے کی بھی کوشش کی مگر بندریا اس بات پر راضی نہیں تھی وہ پھر اسے لیکر غائب ہوگئی۔ اس واقعہ نے پورے علاقے میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ چند سال قبل اوڈیشہ کے بانکی نامی گاﺅں میں بھی ایک ایسا واقعہ ھوا تھا جب ایک بچہ بندریا نے چھین لیا اور اسکے بعد سے غائب ہوگئی۔ اور بچے کا کچھ پتا نہیں ملا کہ وہ کہاں گیا ایک اور واقعہ میں یہاں شیئر کرنا چاھوں گا جو امریکہ میں ایک گلی میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے نے ریکارڈ اور سوشل میڈیا پر کافی مقبول ھوا ۔جس میں بلی کی بہادری دیکھی جاسکتی ھےکتے عمومی طور پر ہمدرد اور گھر کے رکھوالے سمجھے جاتے ہیں، جبکہ بلیوں کی وفاداری پر کبھی یقین نہیں کیا جاتا۔لیکن امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں ایک بلی نے اپنی بہادری سے سب کو حیرت میں ڈال دیا ۔رپورٹ کے مطابق کیلی فورنیا میں ایک بچہ اپنے گھر کے باہر کھیل رہا تھا کہ ایک کتے نے اچانک بچے پر حملہ کر دیا۔قریب ہی کہیں ایک بلی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی اور کتے کو دیکھ کر بھاگ جانے کے بجائے بلی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کتے پر حملہ کر دیا۔ کتا اس اچانک حملے سے سراسیمہ ہو کر بچے کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔
بلی کتے کا پیچھا کرتے کچھ دور گئی اور پھر واپس زخمی بچے کے پاس لوٹ آئی۔اس آوارہ بلی کو بچے کے گھر والوں نے پانچ سال پہلے پالا تھا اور وہ اس کو تارا کہہ کر پکارتے تھے۔
یہ سارا منظر گھر کے باہر سی سی سی ٹی وی کیمرے پر محفوظ ہو گیا۔ بچے کی والدہ کو کیمرے کی ریکارڈنگ سے یہ معلوم ہوا کہ آخر ہوا کیا ہے اور بلی نے کتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔کتے کو اس واقعے کے بعد مقامی حکام کے حوالے کر دیاگیا بلی حلال نہیں ہے لیکن اس کو پاکیزہ اور طاہر حیوانات میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو بلیاں کسى کى ملکیت نہ ہوں انہیں پالنے میں کوئى حرج نہیں۔ صحیح بخارى اور صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر سے حدیث ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
” ایک عورت کو بلى کى وجہ سے عذاب دیا گیا، اس عورت نے بلى کو باندھ دیا حتى کہ وہ مر گئى وہ اسے نہ تو کھانے کے لیے کچھ دیتى اور نہ ہى پینے کے لیے اور نہ ہى اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھائے، تو وہ عورت بلى کى وجہ سے آگ میں داخل ہو گئى ”

اور بلى اگر کھانے میں سے کچھ کھا جائے یا پانى پى جائے تو وہ پلید اور نجس نہیں ہو جاتا، کیونکہ ابوداود وغیرہ میں حدیث ہے : ایک عورت نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا کو ہریسہ بھیجا تو وہ نماز پڑھ رہى تھیں، انہوں نے نماز میں ہى اشارہ کیا کہ وہ اسے رکھ دے، تو بلى آئى اور آکر اس میں سے کھا گئى، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نماز کے بعد اسى جگہ سے ہریسہ کھایا جہاں سے بلى نے کھایا تھا اور فرمایا: بلا شبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے :

” یہ ( بلى ) پلید اور نجس نہیں، بلکہ یہ تو تم پر آنے جانے والیاں ہیں ”

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بیان کرتى ہیں۔
میں نے رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو بلى کے بچے ہوئے پانى سے وضوء کرتے ہوئے دیکھا ہے ”
اور ایک روایت میں ہے : کبشہ بنت کعب بن مالک جو ابن ابى قتادہ کى بیوى ہیں وہ بیان کرتى ہیں کہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ ہمارے گھر آئے تو میں نے ان کے وضوء کے لیے پانى برتن میں ڈالا تو بلى آئى اور اس سے پینے لگى، تو انہوں نے اس کے لیے برتن ٹیڑھا کر دیا حتى کہ اس نے پانى پى لیا۔ کبشہ بیان کرتى ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کى طرف دیکھے جارہى ہوں تو وہ فرمانے لگے : میرى بھتیجى کیا تم تعجب کر رہى ہو؟ تو میں نے جواب دیا: جى ہاں۔ تو وہ کہنے لگے : رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے :
” یہ نجس اور پلید نہیں، بلکہ یہ تو تم پر گھومنے پھرنے والیاں ہیں “ان دونوں روایتوں کو امام بخارى اور دار قطنى وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔شریعت اسلامیہ میں بلیوں کى خرید و فروخت منع ہے۔ صحیح مسلم میں ابو زبیر سے حدیث مروى ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے کتے اور بلى کى قیمت کے متعلق دریافت کیا تو وہ کہنے لگے :
” نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے ”

Error
This video doesn’t exist

اسلام آباد:محمد(ص) گیلری میں موئے مبارک۔نعلین مبارک۔ قدیم ترین قرآنی نسخوں کی زیارت ایک یادگار لحمہ۔۔۔ رپورٹ:اصغر علی مبارک سے۔۔۔۔ قرآنِ مجيدکے بارے میں فرمان باری تعالی ہے:  ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں(الحجر: 9)، الله تعالى كا ارشاد ہے: تیری جانب جو تیرے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے اسے پڑھتا ره، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں تو اس کے سوا ہرگز ہرگز کوئی پناه کی جگہ نہ پائے گا۔(الکہف: 27)۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک وشبہ میں پڑتے، بلکہ یہ (قرآن) تو روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں، ہماری آیتوں کا منکر بجز ﻇالموں کے اور کوئی نہیں۔(العنکبوت: 48،49) گزشتہ روز اسلام آباد کے مضافات میں موئے مبارک۔نعلین مبارک۔خلافت عثمانیہ کے990 کے سلطان سلیمان بن عثمان کی طرف سےدی جانے والی روضہ رسول اللہ کیلئے سونے کی تاروں سے تیار کردہ چادر مبارک اور دیگر تبرکات کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ماضی میں بتوں کو بیچ کر ایمان خریدنے والے پروفیسر ذاھد پرویز بٹ المعروف سائیں بابا موجودہ صدی میں کسی قدیم دور کی شخصیت دکھائی دیتے ہیں گزشتہ دنوں راقم الحروف نے شہر رسول نگر میں تاریخی مقامات اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حویلی اوربارہ دری کی زبوں حالی کے بارے میں رپورٹ پیش کی جسکو دیکھنے کے بعد پی سی سی این این کے چیف ایڈیٹر جناب چوہدری الیاس سکندر نے عرب ٹی وی چینل کے ھمراہ مجھے بھی تاریخی قدیم و نادر اسلامی فن اور مختلف ممالک سے نادر قرآن پاک کے نسخوں کی زیارت کرنے کی دعوت دی اور ماہ رمضان کے بابرکت مہینے میں قرآن مجید محفل۔محمد(ص) گیلری۔اللہ رب العالمین گیلری اور دیگر کے دورے کا شرف حاصل ہوا اسلام آباد بہارہ کہو کے نواح میں سملی ڈیم روڈپر واقع شمال مغربی پہاڑی سلسلوں کے درمیان میرا بیگوال گاؤں کے بیچوں بیچ ایک پر شکوہ ۔سحر انگیز اور خوبصورت جدید و قدیم ڈیزائن 35 ایکڑ پر مشتمل محل نما شاہکار عمارت ثوبیہ محل ۔محمد(ص) گیلری موجود ھے اس محفل کی اپنی ایک الگ داستان ھے تاہم میں ابھی صرف اس محفل کے پانچ فیصد حصہ کا وزٹ کر سکا کیونکہ تاخیر وجہ بھی میری اپنی تھی جس تحریر کو مختصر کرنے پر قارئین کرام سے معذرت خواہ کیونکہ میری ھر ممکن کوشش ھوتی ھے کہ حقائق پر مبنی دلچسپ معلومات کو جامع انداز میں پیش کیا جائےایسی ہی ایک نامور اور تاریخی شخصیت پروفیسر ذاھد پرویز بٹ ھیں جو سائیں بابا کے نام سے بھی مشہورو معروف ھیں تقریباً سو کنال کے احاطے میں قدیم انداز میں بنی ہوئی کئی عمارتیں کئی تاریخی ناموں کے ساتھ منسوب ہیں ۔ثوبیہ محل اور محمد(ص) گیلری قدرے نمایاں ہیں ان تمام عمارتوں کے درمیان سکھ گردوارے کی طرح کی ایک عمارت موجود ہے بقول پروفیسرذاھد پرویز بٹ المعروف سائیں بابا یہ عمارت انکا متوقع مزار ہے زمانہ قدیم بزرگوں ، بادشاہوں اور حکمرانوں کا یہ طریقہ کار رھاھے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنا مزار تعمیر کرواتے اور اس میں وصیت کے مطابق مدفن ھوتے بقولِ پروفیسر ذاھد پرویز صاحبانہوں نے غریب خاندان میں آنکھ کھولی اور والدین سے امانت۔دیانت۔شرافت کے اصولوں پر زندگی بسر کی۔ان کی زندگی نگر نگر قریہ قریہ فن کو ڈھونڈتے ہوئے گزری کسی بھی ہنر کی تلاش میں اگر اللہ رب العزت کی تلاش نہیں تو کچھ بھی نہیں انکا کہنا ہے کہ اس صحرا نوردی میں انہوں نےملکوں ملکوں فن پارے اکٹھے کیے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے زاہد پرویز بٹ کے والد فن پاروں کی خریدوفروخت سے وابستہ تھے اگر یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ذاھد پرویز بٹ کی زندگی ایک کھلی کتاب ھےیہی حقیقت ان کی کتاب” بت فروشی سے ایمان تک کے سفر” میں نمایاں نظرآتی ھے انکی محبت کی جھلک ثوبیہ محل میں نظردکھائی دیتی ہے ثوبیہ محل ان کی شریک حیات کے نام سے منسوب ھےجو اسلام آباد میں ھی رہائش پذیر ہیں جن کے لئے انہوں نے یہ خوبصورت شاھکار بنوایا قدیم طرز کے جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ محل محل تعمیر کیا ہےثوبیہ محل کی عمارت اسلام آباد کے قدرتی مناظر ایک خوبصورت اضافہ ھے اس محل کے دورے پر مختلف ممالک کے سربراہان مملکت۔پاکستانی صدر اور درجنوں سفارتکار تشریف لا چکے ہیں۔خصوصی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ قرآن پاک کے قیمتی اور نادر نسخے جمع کرنے کے حوالے سے بتایا کہ ایک بزرگ شخصیت تشریف لائےجن کے جاہ و جلال کو میں برداشت نہ کر پایاتاہم انکی راہنمائی میں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ قدیم انداز کی میناکاری والی عمارت داخل ہونے والے کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے محل کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا تالاب ہے اور تالاب کے اردگرد بدھا کے مجسمے آویزاں ہیں اس عمارت کے چاروں جانب برآمدے ہیں۔جن میں قدیم انداز کے لکڑی کے صوفےرکھے ہیں دو منزلہ عمارت میں بیسیوں کمرے ہیں ثوبیہ محل کےدائیں جانب ایک خوبصورت بارہ دری ھےجو کس شاہی فن موسیقی کا دربار دکھائی دے رہی ھے اسی عمارت کے بغلی سائیڈپر ایک راستہ ایک اور عمارت کی جانب لے گیا جہاں بے شمار ستونوں کے نیچے ایک الگ انداز کی عمارت دکھائی دی یہ ہندو طرز کی عمارت ھے عمارت سے باہر نکلنے کے بعد سامنے ایک لمبا برآمدہ ھےجس کے ستونوں پر کانسی کے بڑے بڑے ٹرےلگے ہوئے تھے ہرٹرے کے اوپر میناکاری کے انداز میں قرآن پاک کا ایک ایک پارہ کندا کیا ہوا تھا قرآن پاک کا اس انداز کا کوئی نسخہ آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا برآمدے کے پاس سے ہوتے ہوئے میزبان جناب پروفیسر ذاھد بٹ کی رہنمائی میں ہم محمد(ص) گیلری میں داخل ہوئے یہ گیلری مقفل تھی جس کا دروازہ کھلنے کے بعد اس میں دبیز قالین دکھائی دئیے جہاں ہم نے اپنے جوتے اتارےآہستہ آہستہ چلتے ہوئے جب ہم اندر پہنچے تو آنکھوں کے ساتھ ساتھ ہمارا دل بھی روشن ہو گیا ۔ ایک بڑےگول ستون کے چاروں جانب دائرے کی شکل میں پڑے ہوئے لاتعداد قدیم ترین نادر قرآنی نسخے دکھائی دئیے جو ایشا ۔یورپ افریقہ اور عرب ممالک سے پروفیسر ذاھد پرویز بٹ نے قرآن محفل کی زینت بنے مجھے پاکستان کے کئی میوزیم دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن اتنے زیادہ نادر اور اتنی پاکیزگی سے آویزاں قرآنی نسخے اور کیلی گرافی کے نمونے آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرے ان کو دیکھنے کے بعد ہمارے دل میں جو خیال پیدا ہوا کہ حکومت پاکستان کو ایسی کاوشوں میں مدد کرنی چاہئے تاکہ آنے والی نسلوں تک یہ پیغام منتقل ھوسکے اس موقع پر پروفیسر ذاھد پرویز بٹ نے بتایا کہ اس رمضان المبارک میں سینٹورس مال اسلام آباد میں نادر قرآن مجید کے نسخوں کی نمائش جاری ہے انہوں نے بتایا کہ فیصل مسجد اسلام آباد کو بھی درجنوں نادر و قیمتی نسخے فی سبیل اللہ تحفہ میں دئیے لیکن ان کو لینے کے لئے کوئی رابطہ نہیں کر رہا انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے تعلیمی و تحقیقی یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند اقدام ھے انہوں نے کہا عمران خان سے ملاقات میں نادر قیمتی قرآن مجید نادر نسخے جامعہ القادر یونیورسٹی سوہاوہ کی نظر کرنا چاہتا ہوں محمد(ص) قرآن محفل میں قیمتی نادر قرآنی نسخےشیشے کے بنے ہوئے کیسو ں اور الماریوں میں محفوظ ھیں اور ہر نسخے کے ساتھ اس کی تاریخ درج ھےجو عقیدت اور کیلی گرافی کے ہنر سے دلچسپی رکھنے والے کے لئے کسی خزانے سے کم نہیں اس خزانے کے مکمل زیارت کے لئے کئی ہفتے بھی ناکافی معلوم ھوتے ھیں ھر قرانی نسخہ دیکھنے کے بعد دلچسپی اور خوشگوار حیرت میں اضافہ ہوتا ھے۔ قرآنی نسخے محمد گیلری اور اللہ گیلری میں الگ الگ رکھے ھوئے ھیں محمد (ص)گیلری کے اوپر اللہ گیلری موجود ھے یہاں پر کئی قرآنی نسخے ایسے بھی موجود ھیں جن کو سونے کے تاروں سے لکھا گیا ہے ان دونوں گیلریوں کو دیکھنے کے بعد جناب پروفیسر ذاھدبٹ کی اسلام سے محبت کا اظہار ھوتا ھے انہوں نے بتایا میرے شب و روز ان گیلری میں گزرتے ہیں اور جب وقت ملتا ہے قرانی نسخے کی سونے کی روشنائی سے خطاطی کر تے ہیں ۔ گیلری کی چھت سے چاروں جانب تمام عمارتیں بہت واضح دکھائی دیتے ھیں۔ جناب پروفیسر ذاھد پرویز بٹ المعروف سائیں بابا کی بے انتہا محبت اور خلوص کی جھلک محمد(ص) اور اللہ گیلری سےکی خدمت کرتے ھوئے دیکھی جا سکتی ہے عرصہ دراز سے شہر اقتدار اسلام آباد میں رہنے کے باوجود پہلی بار اسلامی گیلری دورے کی دعوت جناب چوہدری الیاس سکندر چیف ایڈیٹر پاکستان کیپیٹل سٹی نیوز نیٹ ورک کی بدولت ملی اور ہم اس خزانے کو دریافت کرنےمیں کامیاب ہوئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسرذاھد پرویز بٹ دنیا کی ایسی شخصیت ھیں جن کو حضرت محمد( ص) کی محبت کے صدقے وہ مرتبہ و مقام حاصل ہوا جس خواہش ہر مسلمان کے دل میں موجزن رہتی ھے۔قرآن مجید ۔احادیث کے لاتعداد قیمتی نادر اور نایاب نسخے انکے قائم کردہ قرآن محل کی زینت ھیں۔

Posted on Updated on