Month: November 2018

جادوگرباؤلریاسر شاہ سپین بولنگ کے جال میں دس کیویز پھنس گے ،شاہینوں کو سیریز میں واپس آنے کیلئے آٹھ کیویز کو جلد از جلد شکار کرنا ہوگا ، خصوصی تحریر :اصغر علی مبارک کے قلم سے

Posted on Updated on

جادوگرباؤلریاسر شاہ سپین بولنگ کے جال میں دس کیویز پھنس گے ،شاہینوں کو سیریز میں واپس آنے کیلئے آٹھ کیویز کو جلد از جلد شکار کرنا ہوگا ،
خصوصی تحریر :اصغر علی مبارک کے قلم سے
دبئی ٹیسٹ میں جادوگرباؤلریاسر شاہ سپین بولنگ کے جال میں دس کیویز پھنس گے ،شاہینوں کو سیریز میں واپس آنے کیلئے آٹھ کیویز کو جلد از جلد شکار کرنا ہوگا ، یاسر شاہ کی شاندار باؤلنگ کی بدولت امید پیدا ھوچکی ھے کہ پاکستان دوسرا ٹیسٹ جیت کر سیریز میں واپس آجاۓ گا دبئی ٹیسٹ میں جادوگرباؤلر ہ کی ایک دن میں دس وکٹیں، نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلی اننگز میں 90 رنز پر ڈھیر ھو کر فالوآن کا شکار ہوگئی یاسر شاہ متحدہ عرب امارات میں سو وکٹیں حاصل کرنے والے باؤلر بن گے ھیں پاکستانی لیگ اسپنر یاسر شاہ نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی ریکارڈز اپنے نام کر لیے۔نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن کی تباہی کے ذمے دار پاکستانی اسپنر یاسر شاہ تھے جنہوں نے 41رنز کے عوض 8وکٹیں لے کر کیریئر کی بہترین باؤلنگ کی جو دبئی میں کسی بھی باؤلر کی بہترین باؤلنگ کا ریکارڈ ہے۔اس سے قبل یہ ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے دویندرا بشو کے پاس تھا جنہوں نے دو سال قبل پاکستان کے خلاف 49رنز کے عوض 8وکٹیں لی تھیں۔یاسر شاہ کی پہلی اننگز میں شاندار باؤلنگ کسی بھی پاکستانی باؤلر کی ٹیسٹ اننگز میں تیسری بہترین باؤلنگ کا ریکارڈ ہے جہاں ان سے قبل عبدالقادر اور سرفراز نواز 9، 9 وکٹیں لینے کا اعزاز رکھتے ہیں۔تاہم یاسر شاہ نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں نیوزی لینڈ کے خلاف کسی بھی باؤلر کی بہترین باؤلنگ کا ریکارڈ قائم کردیا، ان سے قبل یہ ریکارڈ جنوبی افریقہ کے گوفی لارنس کے پاس تھا جنہوں نے 62-1961 میں 53رنز کے عوض 8وکٹیں حاصل کی تھیں۔ دوسرے ٹیسٹ میچ میں نیوزی لینڈ کے 6 کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہوئے اور ایک اننگز میں سب سے زیادہ کھلاڑیوں کے صفر پر آؤٹ ہونے کے عالمی ریکارڈ کو برابر کردیا۔اس سے قبل پاکستان، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور بھارت کی ٹیموں کے بھی 6 کھلاڑی ایک اننگز کے دوران صفر پر آؤٹ ہو چکے ہیں جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔تاہم اس سب سے قطع نظر یاسر شاہ نے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن ایک ایسا منفرد ریکارڈ قائم کردیا جو پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں کوئی بھی باؤلر نہ کر سکا۔یاسر شاہ نے میچ کے تیسرے دن پہلی اننگز میں 8 وکٹیں لینے کے بعد دوسری اننگز میں بھی نیوزی لینڈ کے دو بلے بازوں کو چلتا کردیا اور اس طرح پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ایک دن میں 10وکٹیں لینے والے پہلے باؤلر بن گئے۔دبئی ٹیسٹ میں جادوگرباؤلر یاسر شاہ کی شاندار باؤلنگ کی بدولت امید پیدا ھوچکی ھے کہ پاکستان دوسرا ٹیسٹ جیت کر سیریز میں واپس آجاۓ گا مایہ ناز لیگ اسپینر یاسر شاہ نے تباہ کن باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کو 90 رنز پر آل آؤٹ کرکے فالو آن کا شکار کردیا۔دبئی کے انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں سیریز کے دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے روز نیوزی لینڈ نے 24 رنز بغیر کسی نقصان کے شروع کی۔بارش کے باعث میچ کا آغاز تاخیر سے ہوا تاہم نیوزی لینڈ کی جانب سے پاکستان کی طرح ہی سست بیٹنگ کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔تاہم یاسر شاہ نے نیوزی لینڈ کے جیت راول کو 50 کے مجموعی اسکور پر آؤٹ کرکے پاکستان کو پہلی کامیابی دلوائی۔تو دبئی میں بارش کے بعد وکٹوں کی جھڑی لگ گئی لیگ اسپینر کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے 61 کے مجموعی اسکور پرایک ہی اوور میں ٹام لیتھم، روس ٹیلر اور ہینری نکولس کی اننگز کا خاتمہ ہوگیا جس سے میچ پر پاکستان کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔یاسر شاہ کی گھومتی ہوئی گیندوں کے جال میں کیویز ٹیم کے کھلاڑی پھنس کر رہ گے اور کیویز ٹیم 90 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی ۔کیویز ٹیم فالو آن کا شکار ہوئی تو پاکستانی کپتان سرفراز احمد نے اس بار غلطی نہ کی خود بیٹنگ کے بجاۓ مہمان ٹیم کو دوبارہ بیٹنگ کرنے کوکہا، جس کے بعد دوسری اننگز میں نیوزی لینڈ نے محتاط انداز بیٹنگ شروع کی ،واضح رہے اس سے قبل جب میچ کے پہلے دن کا کھیل ختم ہوا تو پاکستان نے 4 وکٹوں کے نقصان پر 207رنز بنائے تھے، حارث سہیل 240 گیندوں پر 81 رنز بنا کر ناقابل شکست ہیں جبکہ بابر اعظم 14رنز کے ساتھ ان کا ساتھ نبھا رہے ہیں۔ میچ کے دوسرے روز پاکستان نے اپنی پہلی اننگز حارث سہیل اور بابراعظم کی شاندار سنچریوں کی مدد سے 5 وکٹوں پر 418 رنز بنا کر ڈیکلیئر کردی تھی۔دوسرے روز جب کھیل کا اختتام ہوا تو نیوزی لینڈ نے بغیر کسی نقصان کے 24 رنز بنائے تھے۔تاھم دوسرے ٹیسٹ کے دوسرے روز پاکستان نے جب کھیل کا آغاز کیا تو اسکور 4 وکٹوں 207 رنز تھا۔حارث سہیل اور بابراعظم نے ذمہ دارانہ مگر سست بلے بازی کا مظاہرہ کیا اور ٹیم کے مجموعے کو اطمینان سے آگے بڑھایا۔پاکستان نے دوسرے روز کھانے کے وقفے تک 274 رنز بنائے تھے اور کوئی وکٹ نہیں گری تھی تاہم اس سے قبل بابراعظم نے اپنی نصف سنچری مکمل کی۔پہلی اننگز میں پاکستان کی پانچویں وکٹ چائے کے وقفے سے پہلے اس وقت گری جب مجموعی اسکور 360 رنز تھا۔حارث سہیل نے 421 گیندوں کا سامنا کیا اور 13 چوکوں کی مدد سے 147 رنز کی اننگز کھیلی اور ٹرینٹ بولٹ کی گیند پر آوٹ ہوئے جو دوسرے روز گرنے والی پاکستانی کی واحد وکٹ تھی۔بابراعظم کا ساتھ دینے کے لیے کپتان سرفراز احمد میدان میں اترے اور قدرے جارحانہ انداز اپنایا اور دونوں بلے بازوں نے مجموعی اسکور کو 5 وکٹوں پر 418 رنز تک پہنچایا اور اننگز ڈیکلیئر کرنے کا اعلان کیا۔پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف جاری ٹیسٹ سیریز کے دوسرے میچ میں اپنی پہلی اننگز حارث سہیل اور بابراعظم کی سنچریوں کی مدد سے 5 وکٹوں پر 418 رنز بنا کر ڈیکلیئر کردی۔بابراعظم نے آوٹ ہوئے بغیر 127 رنز بنائے جس کے لیے انہوں نے 263 گیندوں کا سامنا کیا اور ان کی اننگز میں 12 چوکوں کے علاوہ 2 چھکے بھی شامل تھےکپتان سرفراز احمد نے 30 رنز بنائے۔نیوزی لینڈ کی جانب سے پہلی اننگز میں گرینڈ ہوم نے 2، ٹرینٹ بولٹ اور اعجاز پٹیل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔دوسرے روز جب کھیل کا اختتام ہوا تو نیوزی لینڈ نے بغیر کسی نقصان کے 24 رنز بنائے تھے۔ٹام لیتھام 5 اور جیت راول 17 رنز بنا کر کھیل رہے تھے۔ ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کی پہلی اننگز کے اسکور 418 رنز کے جواب میں صرف 90رنز پر ڈھیر ہو گئی۔نیوزی لینڈ کے اوپنرز نے اپنی ٹیم کو 50رنز کا عمدہ آغاز فراہم کیا جس کے بعد پوری ٹیم محض 40رنز کے اضافے سے پویلین لوٹ گئی۔یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں محض دوسرا موقع ہے کہ کسی ٹیم کے اوپنرز نے اسے کم از کم 50رنز کا آغاز فراہم کیا لیکن اس کے باوجود بقیہ 10وکٹیں 40رنز کے اضافے گر گئی ہوں۔اس سے قبل 2001 میں بھی نیوزی لینڈ کی ٹیم کو اوپنرز نے 91رنز کا آغاز فراہم کیا تھا لیکن پھر بقیہ ٹینم 131رنز پر ڈھیر ہو گئی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ میچ میں ایک ایسا عالمی ریکارڈ بھی بنا جو آج تک نہیں دیکھا گیا تھا اور نیوزی لینڈ کے 4 سے 11 نمبر کے بلے بازوں نے اپنی ٹیم کے رنز میں سب سے کم رنز کا اضافہ کیا۔نیوزی لینڈ کے 4 سے 11 نمبر کے بلے بازوں نے اپنی ٹیم کے مجموعے میں محض 5 رنز جوڑے جو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں عالمی ریکارڈ ہے جو اس سے قبل سری لنکا کے پاس تھا جس کے بلے بازوں نے کُل 8رنز جوڑے تھے۔یاد رہے کہ نیوزی لینڈ نے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد 4 رنز سے شکست دی تھی۔دوسرے ٹیسٹ ،نیوزی لینڈ نے 2وکٹوں پر131رنز بنا لیے اور پاکستان سے اننگز کی شکست سے بچنے کیلئے ایک سو ستا انوے رنز کی ضرورت ھے ،جبکہ شاہینوں کو سیریز میں واپس آنے کیلئے آٹھ کیویز کو جلد از جلد شکار کرنا ہوگا

India again missed golden opportunity? Sushma swaraj will not visit Pakistan to attend Kartarpura ground-breaking ceremony…. By:Asghar Ali Mubarak

Posted on

India again missed golden opportunity? Sushma swaraj will not visit Pakistan to attend Kartarpura ground-breaking ceremony 

By:Asghar Ali Mubarak

 India again missed a golden opportunity to resolves the disputed issues through dialogue among the two nuclear states which are pending for many years.On the historical occasion for the Groundbreaking Ceremony of the Kartarpur Sahib corridor, Indian External Affairs Minister H.E.Ms, Sushma Swaraj was invited to visit Pakistan by her counterpart Shah Mahmood Qureshi on behalf of Pakistani Government. However as usual, citing busy schedule, Indian External Affairs Minister H.E.Ms, Sushma Swaraj has declined the event. Amid increasing signs of a thaw between the two neighbours, two Indian ministers will attend the groundbreaking ceremony of the Kartarpura corridor in Pakistan. Prime Minister Imran Khan will perform the groundbreaking ceremony of the facilities on the Pakistani side of the border on November 28.Earlier on Saturday; Foreign Minister Shah Mehmood Qureshi invited Indian External Affairs Minister Sushma Swaraj to visit the country to attend the groundbreaking ceremony of the Kartarpura corridor. Later in the evening, Sushma Swaraj said she will not visit Pakistan to attend the ground-breaking ceremony for the Kartarpura corridor but two of her cabinet colleagues will attend it, her office in New Delhi said.Thanking Mr Qureshi, Ms Swaraj said she will not be able to attend the ceremony because of prior commitments including campaigning for the Telangana Assembly elections. Indian ministers Harsimrat Kaur Badal and Hardeep Singh Puri will travel to Pakistan instead.Indian Prime Minister Narendra Modi has also expressed the hope that the Kartarpura corridor would act as a bridge between the peoples of India and Pakistan.A long-pending demand of the Sikh community to build a religious corridor linking a historic gurdwara in Pakistani city of Narowal with India’s border district of Gurdaspur may finally be fulfilled with both the countries announcing that stretches would be developed in their respective areas.Apart from Sushma Swaraj, Foreign Minister Qureshi also invited Indian Punjab Chief Minister Amrinder Singh and cabinet minister Navjot Singh Sidhu to the ceremony.Tweeting under the hashtag #PakistanKartarpurSpirit, Qureshi said “On behalf of Pakistan I have extended an invitation to External Affairs Minister Sushma Swaraj @SushmaSwaraj , Capt Amarinder Singh @capt_amarinder & Navjot Singh Sidhu @sherryontopp to attend the groundbreaking ceremony at #Kartarpura on 28 Nov, 2018.” “The world could see Pakistan’s positive approach towards India and its intentions,” Qureshi said.The foreign minister said Islamabad has decided to open the Kartarpura Corridor for the 550th birth anniversary of Baba Guru Nanak in 2019. The corridor opening is also reflective of the importance and primacy that Pakistan gives to all minorities, Qureshi said.He further said the move is in line with the principles of Islam and the Quaid-e-Azam’s vision of a peaceful neighbourhood. Pakistan’s initiative will further facilitate Sikhs, especially from India. Pakistan’s Kartarpura spirit can be a step forward in the right direction from conflict to cooperation, animosity to peace and enmity to friendship, he added.Speaking on the occasion of the birth anniversary of first Sikh Guru Nanak Dev in New Delhi, Indian Prime Minister Narendra Modi hoped the Kartarpura corridor would act as a bridge between the peoples of India and Pakistan that might lead to a better future as he referred to the fall of the Berlin Wall to underline the importance of people-to-people contact. The Indian prime minister also referred to the Partition and said, “What has happened in 1947 has happened.”He said the issues between the governments and the armies would continue and only time will show the way out. Underlining the strength of people-to-people contact, the Indian prime minister said, “Had anyone ever thought that the Berlin Wall would fall. Maybe with the blessings of Guru Nanak Devji, this Kartarpura corridor will not just remain a corridor, but act as a bridge between the peoples of the two countries.”Also on Saturday, Navjot Singh Sidhu confirmed receiving an invitation from Prime Minister Imran Khan’s office to attend the groundbreaking ceremony of the Kartarpura corridor in Pakistan. Speaking to Indian Express, Sidhu said, “I got a call from Pakistan Prime Minister’s office on Friday. It was the same person who had called me when I was invited for the swearing-in ceremony.”“I will go if the Government of India allows me to go. It will be a great honour to be part of history. There will not be a happier moment than the time when my turban touches the ground where Guru Nanak Dev once walked. It was an unfulfilled wish of my parents,” he added.When asked if he will attend the ceremony on the Indian side of the border on November 26th, the Indian Punjab local bodies minister said, “I will certainly go if I am invited.”The former cricketer has often spoken about the need for the two countries to have friendly relations. He visited the swearing-in ceremony of Prime Minister Imran Khan in August 2018. During his visit, Sidhu also met with Army Chief General Qamar Javed Bajwa, which invited vicious criticism and attacks by hardliners in India.General Bajwa had told Sidhu that the Pakistan government will open the Dera Baba Nanak (Kartarpura) corridor on Guru Nanak’s 550th birth anniversary. The former Indian cricketer had later raised the matter with Sushma Swaraj, saying it was India’s responsibility to make a formal request to Pakistan.Indian cabinet on Thursday last gave the go-ahead to Pakistan’s proposal to build Kartarpura corridor to facilitate Sikh pilgrims wishing to visit the Gurdwara Darbar Sahib in Narowal District near the Indian border.The Indian Punjab Chief Minister Captain (r) Amarinder Singh has felicitated Punjab Assembly Speaker Ch Parvez Elahi on opening of Kartarpura corridor and invited him to visit Indian Punjab.His message was conveyed on phone to Ch Parvez by a Senior Minister Rana Gurmeet Singh Sodhi on Saturday. The PA speaker accepted Singh’s invitation. Parvez said that credit for opening of Kartarpura border goes to Prime Minister Imran Khan and COAS General Qamar Javed Bajwa. He also invited Amarinder to visit Punjab.In 2005, on a special invitation by the then Punjab CM Ch Parvez Elahi, Amarinder had visited Lahore and had laid the foundation stone of Wagah to Nankana Sahib dual carriageway. Nankana Sahib was also given district status during Ch Parvez’s term as CM. It mentioned here that the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI), the party now ruling Pakistan is celebrating first 100 days of government, had in the past used very harsh language against former Prime Minister Nawaz Sharif, who had contested the 2013 elections on the promise of improving relations with India. “Modi ka yaar gaddar (Modi’s friend is a traitor)” was a theme that ran for almost the entire campaign period against Mr. Sharif’s Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) in the elections 2018. The PTI had accused the PML-N of establishing personal relations with Mr. Modi and doing personal business with him instead of promoting the national interests of Pakistan. The party had hit Mr. Sharif hard for Mr. Modi’s visit to Lahore in December 2015 and had blasted his government on an Indian businessman’s visit to Pakistan in April 2017.With the controversial elections of July 25,  2018 behind him, PM.Mr.  Imran Khan turned the corner. His first informal acceptance speech offered the olive branch to India. “If India moves one step, we will move two,” Imran Khan said.Islamabad was rife with rumours that he wanted to invite Mr. Modi besides his friends in Bollywood and cricket friends for his oath-taking ceremony on August 18.Somehow Mr. Khan was prevented from inviting Mr. Modi, but one of his cricket buddies, Navjot Singh Sidhu, did turn up. While his seating arrangement and the japha (bear hug) with the Chief of Army Staff, General Qamar Javed Bajwa, created quite a stir in India, Pakistan government circles were bullish on the offer to open the Kartarpur border crossing for Sikh pilgrims. While The New York Times even suggested that the Pakistani military had tried to reach out to the Indian side to discuss outstanding issues, a story never denied by the military, the very ambiguity created a positive atmosphere before the scheduled meeting between the top diplomats of both countries on September 27.All that changed on September 21, with the cancellation of the meeting that almost insulted the Pakistan PM. While the Pakistan Foreign Office and Mr. Qureshi expressed their disappointment, they stayed within the diplomatic ambit and did not attack the Indian side. Mr. Imran Khan on September 22nd 2018 stated without naming and chiding him as the small man holding a big office. As if that was not enough, the statement by the Indian Army Chief threatening Pakistan and the retaliatory statement by the Pakistan Army spokesperson has made the situation more toxic than the pre-election situation.

The India’s Cabinet had cleared a proposal Thursday to develop a corridor from Dera Baba Nanak in Punjab’s Gurdaspur district to the International Border to facilitate Indian pilgrims to visit Gurdwara Darbar Sahib in Kartarpur, Pakistan. In past and present for a better future  Pakistan has always extended an olive branch to India for the resolution of problems and enhancing bilateral ties in an amicable manner, but the latter does not come out of its internal politics.This indian Indian government is facing pressure internally due to future elections. Pakistan sincerely wants resolution of all outstanding issues, including Kashmir, with India through negotiations on the dialogue table Pakistan always ready for talks, but India is reluctant in this regard. The dialogue is the only way forward to resolve all issues confronting the region. The world wants connectivity and promotes regional trade, but India is creating problems in this way. Pakistan wants peace but unfortunately India did not give positive response.It is need of the day that both sides sit together and hold talks for peace and stability in the region.More over the Kashmiri leaders once again demonds to restart a sustained and uninterrupted dialogue process to find solution to all issues, including Kashmir, and also asked the Centre to immediately take steps to restore a sense of security in the state. The Kashmiri leader’s s states that “Cancellation of the meeting between the foreign ministers of India and Pakistan scheduled in New York City is extremely unfortunate.  On September 21, 2018 reacting to the Indian government decision of calling off the meeting, Foreign Minister Shah Mehmood Qureshi state that India has wasted an opportunity of peace by refusing a meeting between foreign ministers of Pakistan and India on the sidelines of UN General Assembly in New York.The Minister Shah Mehmood Qureshi said we can only wish India to come to the negotiating table, but we can neither pressurize anybody nor will accept the same for this purpose. In past on December 09th,2015  at the side line  ‘Heart of Asia’ conference Indian External Affairs Minister Sushma Swaraj visited Pakistan. The Indian External Affairs Minister Sushma Swaraj was the first Indian minister who visited Pakistan since the BJP came to power and the tense bilateral relations became further stressed. In March 2015, Indian Foreign Secretary S. Jaishankar visited Islamabad as part of his tour of SAARC countries. Before Sushma Swaraj the last visit by any Indian external affairs minister to Pakistan was in September 2012 when S.M. Krishna came here for a ministerial review meeting of the bilateral peace dialogue and co-chairing a plenary session of the India-Pakistan Joint Commission. She in a joint press conference along with the prime minister’s adviser on foreign affairs, Sartaj Aziz stated “Instead of composite dialogues, now comprehensive dialogues will be held in which all outstanding issues will be discussed,” . The Pakistan is already assured the Indian side that the government is taking steps being to expedite the early conclusion of the Mumbai trials.

The dialogue process, which will start as soon as foreign secretaries agree on a schedule, will include matters related to peace and security, Jammu and Kashmir, Siachen, Sir Creek, Wullar Barrage, Tulbul Navigation Project, economic and commercial cooperation, counter-terrorism, narcotics control and humanitarian issues, people to people exchanges and religious tourism.Indian External Affairs Minister H.E.Ms, Sushma Swaraj was also   met the former Prime Minister Nawaz Sharif on the sidelines of the ‘Heart of Asia’ conference to discuss bilateral issues. At the ‘Heart of Asia’ conference in her speech, Swaraj focused on increased connectivity, regional trade and openness with Afghanistan, and also “extended India’s hand towards Pakistan” in this regard.”It is time we [Pakistan and India] display maturity and self confidence to do business with each other… the entire world is watching and we must not disappoint them,” she stated while addressing the ‘Heart of Asia’ conference.Last week  the Pakistani foreign office Spokesperson Dr. Muhammad Faisal said that Pakistan’s policy of restraint should not be construed as weakness. Pakistan is open to hold dialogue with India but it should be a two way communication Pakistan is confident that this malicious propaganda will neither mislead the international community nor the discerning people in India itself.Replying to a question regarding recent Indian media reports that Ajmal Kassab was an Indian citizen, the spokesperson said such reports give further credence to the concerns already raised by several quarters in this context. Apart from Swaraj, Shah Mahmood Qureshi also invited Punjab Chief Minister Amarinder Singh and cabinet minister Navjot Singh Sidhu to the ceremony.“On behalf of Pakistan I have extended an invitation to External Affairs Minister Sushma Swaraj @SushmaSwaraj, Capt Amarinder Singh @capt_amarinder & Navjot Singh Sidhu @sherryontopp to attend the groundbreaking ceremony at #Kartarpura on 28 Nov, 2018,” Qureshi tweeted on Saturday.This was a long-pending demand of the prominent Sikh community to build a religious corridor linking India’s border district of Gurdaspur with a historic Gurdwara Kartarpur Sahib in Pakistan may finally be fulfilled with both the nations announcing that stretches would be developed in their respective nations.The Pakistani Prime Minister Mr. Imran Khan will inaugurate the groundbreaking ceremony on the Pakistan side on November 28.

پاک چین تعلقات پر بھارتی تعاون سے بی ایل اے کا حملہ ، ایف آئی آر درج……خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک

Posted on

پاک چین تعلقات پر بھارتی تعاون سے بی ایل اے کا حملہ ، ایف آئی آر درج
خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے
سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے کراچی میں قائم چینی قونصل خانے پر ہونے حملے کی ایف آئی آر درج کرادی جس میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے سربراہ حیربیار مری کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے۔ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک چین سے بڑھتے ہوئے سفارتی اور معاشی تعلقات کو خراب کرنے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اس حملے کے لیے حیربیار مری سے تعاون کیا۔سی ٹی ڈی نے ایف آئی آر میں حیربیار مری اور بی ایل اے کے کمانڈر اسلم اچھو عرف میراق بلوچ سمیت دیگر 12 معاونین کو نامزد کیا ہے جبکہ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔سی ٹی ڈی نے سرکار کی مدعیت میں بوٹ بیسن تھانے کے ایس ایچ او کے ذریعے ایف آئی آر درج کی ہے جس میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ‘بی ایل اے نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اورہلاک ہونے والے تینوں حملہ آوروں کی شناخت بمعہ تصاویر ازل خان، رازق اور رئیس کے نام سے ہوگئی ہے’۔ایف آئی آر کے مطابق ‘بی ایل اے کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کا تعاون حاصل تھا اور دہشت گردوں کا چینی قونصل خانے پر حملے کے پیچھے مقصد پاک-چین تعلقات کو نقصان پہنچانا تھا’۔
حملے کے ذمہ داروں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حملے کے مرکزی کردار اور معاونت میں 13 افراد شامل تھے جن میں حیربیار مری، اسلم عرف اچھو، بشیر زیب، نور بخش، کریم مری، رحیم گل، نثار، گیندی، شیخو، شریف، ہمل، منشی اور آغا شیردل شامل ہیں۔سی ٹی ڈی نے مقدمے میں کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد مذکورہ افراد سے مستقل رابطے میں تھے جبکہ دھماکا خیز مواد، اسلحہ اور بارود کے علاوہ بی ایل اے کے پرچم بھی تینوں ملزمان سے برآمد ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ کراچی کے علاقے کلفٹن میں قائم چینی قونصل خانے میں جمعہ کے روز دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا تاہم پولیس کی بروقت کارروائی سے اس حملے کو ناکام بنادیا گیا تھا تاہم حملے میں 2 پولیس اہلکار اور 2 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ تینوں حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا گیا تھا۔کراچی کے علاقے کلفٹن میں قائم چینی قونصل خانے کے قریب فائرنگ سے 2 پولیس اہلکار شہید، 2 افراد جاں بحق اور ایک سیکیورٹی گارڈ زخمی ہوگیا جبکہ جوابی کارروائی میں تینوں حملہ آور مارے گئے۔ چینی قونصل خانے کے قریب حملہ آوروں نے سیکیورٹی گارڈز پر فائرنگ کی تھی اور عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری طلب کی گئی۔ ڈی آئی جی جنوبی کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور بھی مارا گیا، جس کے قبضے سے خودکش جیکٹ اور اسلحہ برآمد کیا گیا۔ پولیس اہلکاروں نے حملہ آوروں کو قونصل خانے میں داخل نہیں ہونے دیا اور بروقت عمارت کے دروازے بند کرلیے گئے۔ شہید پولیس اہلکاروں کی شناخت محمد اشرف اور امیر کے نام سے ہوئی جبکہ زخمی فرد نجی سیکیورٹی گارڈ ہے جس کی شناخت جمعہ کے نام سے ہوئی ہے جو ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
فائرنگ کی اطلاعات کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں، جن میں پولیس، رینجرز اور خصوصی کمانڈوز اہلکار شامل تھے، نے قونصل خانے کے ساتھ ساتھ اطراف کے علاقے کا محاصرہ کیا جبکہ ٹریفک کی آمد و رفت بھی روک دی گئی۔واقعے کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ حملہ پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش ہے کیونکہ دشمن قوتوں کو دونوں ممالک کے قریبی روابط کھٹک رہے ہیں۔چینی قونصل خانے کی سیکیورٹی کی ذمہ دار نجی کمپنی کے سربراہ اکرام سہگل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں نے 2 جانب سے حملہ کیا، تاہم پولیس اہلکاروں نے اپنے جان پر کھیل کر اس حملے کو ناکام بنایا جبکہ بروقت قونصل خانے کے دروازوں کو بند کردیا گیا۔ قونصل خانے میں موجود چینی عملہ محفوظ رہا ،چینی قونصل خانےپر دہشت گردوں کے حملے سے متعلق قانون نافذکرنیوالے اداروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایک ہلاک دہشت گرد عبدالرازق ولد دین محمد تھا اور اس کا تعلق بلوچستان کے علاقے خاران سے تھا۔ عبدالرازق 20 جولائی 1952 میں پیداہوا۔حملہ آور عبدالرازق بلوچستان حکومت کا ملازم تھا دوسری جانب سے سندھ حکومت نے بلوچستان حکومت سے رابطےکا فیصلہ کیا ہے۔اس حوالے سےوزیراعظم عمران خان نے کراچی میں قائم چینی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی مکمل انکوئری کا حکم دیا ھے ۔وزیراعظم نے حملے میں ملوث ملزمان کو سامنے لانے کی ہدایات کیں ھیں ۔ان کا کہنا تھا کہ واقعہ، پاکستان اور چین کے درمیان معاشی اور دو طرفہ تعاون کو سبوتاژ کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات ہرگز ہرگز دونوں ممالک کے تعلقات کو خراب کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور رینجرز نے حملے کو ناکام بنانے کے لیے اقدامات کیے اور قوم شہید اہلکاروں کو سلوٹ پیش کرتی ہے اور ان کا اقدام قابل تعریف ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے لیکن میں اپنے بہادر سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ چین اور پاکستان کو ساتھ دیکھنا نہیں چاہتا لیکن انشااللہ دونوں ممالک ان مذموم مقاصد کو ناکام بنائیں گے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بہت سی قوتیں پاکستان میں امن نہیں چاہتی اور دیکھتی ہیں کہ پاکستان اور چین کے روابط سے پورے خطے کی معیشت اور آمد و رفت، مواصلات میں اضافہ ہوگا، جس سے یہ قوتیں خوفزدہ ہیں۔
قومی اسمبلی میں واقعے کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت قونصل خانے میں 21 چینی شہری موجود تھے جو محفوظ ہیں۔
ادھر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے چینی قونصل خانے پر حملے کی کوشش کی گئی، جس میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق رینجرز اور پولیس نے قونصل خانے کا کنٹرول سنبھال لیا اور قونصل خانے میں موجود تمام چینی عملہ محفوظ ہے جبکہ صورتحال کنٹرول میں ہے۔اس حوالے سے عسکری ذرائع کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی مزاحمت کے باعث دہشت گردوں کو قونصل خانے میں جانے نہیں دیا گیا اور حملے کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا۔عسکری ذرائع کے مطابق رینجرز کے اسنائپرز نے 2 دہشتگردوں کو ٹارگٹ کیا جبکہ قونصل خانے کی عمارت مکمل طور پر محفوظ ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا کہ سیکیورٹی اداروں نے کراچی کو ایک بڑی سازش سے بچا لیا، تمام 3 دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن میں پولیس کے 2 جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ میں کراچی میں قائم چینی قونصل خانے پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی مذمت کی۔ان کا کہنا تھا کہ قونصل خانے میں موجود تمام چینی شہری محفوظ ہیں، سیکیورٹی نے قونصل خانے کا کنٹرول حاصل کرلیا جبکہ 3 دہشت گرد مارے گئے۔سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردی کا منصوبہ ناکام بنائے جانے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ اور انسپکٹر جنرل سندھ پولیس (آئی جی پی) ڈاکٹر سید کلیم امام اور دیگر حکام چینی قونصل خانے میں پہنچے اور چینی قونصل جنرل سے ملاقات کی۔،سندھ پولیس نے خاتون پولیس اہلکار سوھائی عزیز تالپر کو شاباش دی جنکی بروقت کارروائی سے حملہ ناکام ھوا آئی جی سندھ نے کہا کہ ملک کے دفاع کے لیے پولیس اپنی جانیں تک قربان کرنے کے لیے تیار ہے، دہشت گرد یہ جان لیں کہ ان کے مذموم مقاصد اور گھناؤنے ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے اور انہیں نیست ونابود کرنے کے لیے پولیس ہمیشہ فرنٹ لائن پر ہوگی۔آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام نے شہید پولیس اہلکاروں کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ورثاء سے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں سندھ پولیس آپ کے ساتھ ہے آپ خود کو ہرگز تنہا نہ سمجھیں۔آئی جی سندھ نے ہدایات دیں کہ چائینیز سفارت خانہ اور صوبے میں دیگر ترقیاتی منصوبوں سے وابستہ چائینیز باشندوں، ماہرین اور دیگر اسٹاف کی سیکیورٹی کو مزید بڑھایا جائے اور پہلے سے ترتیب کردہ پلان کا ازسر نو جائزہ لے کر مجموعی حکمت عملی اور لائحہ عمل کو فول پروف بنایا جائے۔چینی قونصل خانے کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ترجمان رینجرز نے بتایا کہ حملے کے وقت قونصل خانے پر پولیس اور ایف سی کے اہلکار سیکیورٹی پر موجود تھے، جن کی بروقت کارروائی سے حملے کو ناکام بنایا گیا۔چین اور امریکا نے کراچی میں قائم چینی قونصل خانے پر دہشت گردی کے حملے کی مذمت کی ھے ۔

راولپنڈی جنگلات اراضی قبضہ کیس میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کی …عبوری ضمانت میں 8 دسمبر تک توسیع خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے

Posted on

راولپنڈی جنگلات اراضی قبضہ کیس میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کی عبوری ضمانت میں 8 دسمبر تک توسیع
خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے
راولپنڈی کی انسدادِ بدعنوانی عدالت (اے سی سی) نے بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض اور دیگر ملزمان کی عبوری ضمانت میں 8 دسمبر تک توسیع کردی ھے ۔انسدادِ بدعنوانی عدالت (اے سی سی) کے اسپیشل جج مشتاق احمد تارڑ نے محکمہ جنگلات کی ایک ہزار ایک سو 70 کنال اراضی پر قبضہ کیس میں ملزمان کی درخواست ضمانت کی سماعت کی، ملک ریاض اور دیگر وکیل زاہد بخاری کے ھمراہ انسدادِ بدعنوانی عدالت (اے سی سی) میں پیش ہوئے۔ ابتدا میں مقدمے میں نامزد بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض موجود نہ تھے جبکہ دیگر 10 ملزمان عبوری ضمانت کے لیے انسدادِ بدعنوانی عدالت میں پیش ہوئے
دوران سماعت بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کے وکیل اور جج جناب مشتاق احمد تارڑ کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ کیس ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) قومی احتساب بیورو (نیب) اور ڈی جی انسدادِ بدعنوانی آپس میں بیٹھ کر کیس کے ٹرائل کا فیصلہ کر لیں، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ یکطرفہ بتا رہے ہیں۔اس حوالے سے محکمہ انسدادِ بدعنوانی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (اے ڈی) نے عدالت کو بتایا کہ دونوں ڈی جیز کی ملاقات ہو چکی ہے لیکن ابھی تک اس میں ہونے والے فیصلے سے آگاہ نہیں ہیںَ اے ڈی اینٹی کرپشن نے عدالت سے استدعا کی کہ تاریخ دے دیں تاکہ اس وقت تک کلئیر ہو جائے گا کہ ٹرائل کس نے کروانا ہے۔جس پر عدالت اسپیشل جج مشتاق احمد تارڑ نے ملک ریاض کی عدم حاضری کے بارے میں استفسار کیا کہ کیا مقدمے میں نامزد تمام ملزمان عدالت میں حاضر و موجود ہیں جس پر چیئرمین بحریہ ٹاؤن کے وکیل زاہد بخاری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزم ملک ریاض کو سیکیورٹی خدشات پر پیش نہیں کیا گیا ھے ۔ اسپیشل جج مشتاق احمد تارڑ نے کہا کہ عبوری ضمانت میں ملزم کو پیش ہونا پڑے گا جس پر ملک ریاض کے وکیل نے جواب دیا کہ آپ حکم دیتے ہیں تو ملزم پیش ہو جائے گا، جس پر عدالت نے ملک ریاض کو ساڑھے دس بجے تک عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔بعد ازاں ملک ریاض عدالت میں پیش ہوئے جس پر عدالت کے اسپیشل جج مشتاق احمد تارڑ نے ان کی اور دیگر ملزمان کی عبوری ضمانت میں 8 دسمبر تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔پیشی کے بعد میڈیا کے سوال پر ملک ریاض کا کہنا تھا کہ ’ہم ڈیم فنڈ میں پورا حصہ ڈالیں گے سب سے زیادہ حصہ ہمارا ہی ہوگا‘۔
تاہم جب اراضی پر قبضے کے حوالے سے صحافی نے سوال کیا تو وہ ’اللہ اللہ‘ کہہ کر سوال کو نظر انداز کرگئے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ تھانہ اینٹی کرپشن سرکل راولپنڈی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی سفارشات پر ملک ریاض اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔اس مقدمے میں دھوکا دہی، سرکاری ریکارڈ میں تبدیلی، مجرمانہ غفلت اور جعل سازی کی دفعات شامل کی گئیں تھیں۔مقدمے میں محکمہ جنگلات کے حکام، ریونیو افسران سمیت سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے چیف سیکریٹری جی ایم سکندر کو بھی نامزد کیا گیا تھا، جن پر دھوکا دہی کے ذریعے زمین فراہم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کے خلاف اس سے قبل بھی ’زمین پر قبضے‘ سے متعلق مقدمات درج ہوچکے ہیں جبکہ غیر قانونی طور پر بحریہ ٹاؤن کو زمین کی اراضی دینے پر عدالت عظمیٰ فیصلہ بھی دے چکی ہے۔رواں سال مئی میں عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں اسلام آباد کے قریب تخت پڑی میں جنگلات کی زمین کی از سر نو حد بندی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ تخت پڑی کا علاقہ 2 ہزار 2 سو 10 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، لہٰذا فاریسٹ ریونیو اور سروے آف پاکستان دوبارہ اس کی نشاندہی کرے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کو جنگلات کی زمین پر قبضے کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور مری میں جنگلات اور شاملات کی زمین پر تعمیرات غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مری میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مزید تعمیرات کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا تھا۔مقدمہ درج ہونے کے بعد راولپنڈی کی عدالت نے 23 اکتوبر کو ان کی عبوری ضمانت منظور کی تھی۔جس کے بعد ملک ریاض ضمانت میں توسیع کے لیے 10 نومبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں ان کی ضمانت میں توسیع کردی گئی تھی تاہم جج مشتاق تارڑ کی رخصت کے باعث سماعت 24 نومبر تک ملتوی کردی گئی تھی۔راولپنڈی کے محکمہ اینٹی کرپشن نے جنگلات کی 1170 کینال اراضی پر قبضہ کرنے کے الزام میں بحریہ ٹاؤن، اس کے چیف ایگزیکٹو ملک ریاض اور دیگر ملزمان پر مقدمہ درج کیا ھے ۔یہ مقدمہ تھانہ اینٹی کرپشن سرکل راولپنڈی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) کی سفارشات پر درج کیا گیا۔ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ ٹیکنیکل فارسٹری اینڈ وائلڈ لائف اینڈ فشریز شاہد راشد اعوان کی مدعیت میں درج کیے گئے مقدمے میں دھوکا دہی، سرکاری ریکارڈ میں تبدیلی، مجرمانہ غفلت اور جعل سازی کی دفعات شامل کی گئیں۔مقدمہ محکمہ جنگلات کی سرکاری زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی تعمیر کرنے پر قائم کیا گیا جبکہ اس میں جے آئی ٹی کی تحقیقات کو بھی حصہ بنایا گیا۔اینٹی کرپشن سرکل میں درج مقدمے میں موقف اپنایا گیا کہ 1170 کینال سرکاری زمین کا تبادلہ کرکے ہاؤسنگ سوسائٹی تعمیر کی گئی۔مقدمے میں محکمہ جنگلات اور ریونیو افسران کو بھی نامزد کیا گیا جبکہ سابق سیکریٹری وزیر اعلیٰ پنجاب جی ایم سکندر کو بھی نامزد کیا گیا۔واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کے خلاف اس سے قبل بھی ’زمین پر قبضے‘ سے متعلق مقدمات درج ہوچکے ہیں جبکہ غیر قانونی طور پر بحریہ ٹاؤن کو زمین کی اراضی دینے پر عدالت عظمیٰ فیصلہ بھی دے چکی ہے۔رواں سال مئی میں عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں اسلام آباد کے قریب تخت پڑی میں جنگلات کی زمین کی از سر نو حد بندی کا حکم دیا تھا اور کہا کہ تخت پڑی کا علاقہ 2210 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، لہٰذا فاریسٹ ریونیو اور سروے آف پاکستان دوبارہ اس کی نشاندہی کرے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کو جنگلات کی زمین پر قبضے کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور مری میں جنگلات اور شاملات کی زمین پر تعمیرات غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مری میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مزید تعمیرات کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا تھا۔ساتھ ہی سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کو مزید ہدایت دی گئی کہ وہ راولپنڈی میں غیر قانونی الاٹمنٹ کے معاملے کو دیکھے۔یہ بھی یاد رہے کہ اگست میں راولپنڈی کی مقامی عدالت نے ملک ریاض کو آئندہ اپنی اسکیموں میں بحریہ ٹاؤن کا نام استعمال کرنے سے بھی روک دیا تھا۔

‘خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے کر مہمان خانے میں منتقل کر دیا ہے،وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ٹویٹ،

Posted on

‘خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے کر مہمان خانے میں منتقل کر دیا ہے،وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ٹویٹ،،کارروائی کی تحریک لبیک کے 25 نومبر کی احتجاجی کال واپس نہ لینے کی وجہ سے پیش آئی،

رپورٹ :اصغر علی مبارک سے

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ھے کہ ‘خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے کر مہمان خانے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔’انہوں نے کہا کہ ‘اس کارروائی کی ضرورت تحریک لبیک کے 25 نومبر کی احتجاجی کال واپس نہ لینے کی وجہ سے پیش آئی، کیونکہ عوام کی جان و مال اور املاک کی حفاظت حکومت کا اولین فرض ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہناھے کہ ‘تحریک لبیک مسلسل عوام کی جان و مال کے لیے خطرہ بن گئی ہے اور مذہب کی آڑ لے کر سیاست کر رہی ہے، تاہم موجودہ کارروائی کا آسیہ بی بی کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔’واضح رھے کہ راولپنڈی سے ٹی ایل پی کے 59 رہنماؤں اور کارکنان کو حراست میں لیا گیا ھے جبکہ دیگر کارکنان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے تحریک لبیک کے ڈویژنل صدر سید عنایت الحق شاہ کو نظر بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔نظر بندی کے نوٹی فکیشن کے مطابق سید عنایت الحق شاہ کو 15 روز کے لیے جیل میں نظر بند کیا جائے گا۔واضح رہے کہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کی اطلاعات، سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ ماہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزام سے بری کرنے کے فیصلے کے خلاف تحریک لبیک کے ملک بھر میں تین روز تک جاری احتجاج کے چند ہفتے بعد سامنے آئی ہیں۔مذہبی و سیاسی جماعت نے وفاقی اور پنجاب حکومت سے معاہدے کے بعد یہ احتجاجی دھرنا ختم کیا تھا، خادم رضوی نے 25 نومبر کو یوم شہدا تحریک منانے کا اعلان اور رہنماؤں و کارکنوں کو فیض آباد پہنچنے کا حکم دے رکھا ہے۔پنجاب کے وزیر اطلاعات اور قانون فیاض الحسن چوھان نے رابطہ کرنے پر کہا کہ انہیں خادم حسین رضوی کی گرفتاری سے متعلق کچھ علم نہیں۔دوسری جانب سوشل میڈیا پر گردش اطلاعات کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں تحریک لبیک کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری نے تصدیق کی کہ ان کے رہنماؤں کو مساجد میں چھاپے مار کر گرفتار کر رہی ہے۔سوشل میڈیا پر گردش اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے پارٹی کے 30 کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔خادم حسین رضوی کے اہلخانہ نےمیڈیا کو ٹی ایل پی سربراہ کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی ھے ۔خادم حسین رضوی کے اہلخانہ کے ایک رکن نے نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ ‘انہیں لاہور میں ان کے ہجرے سے گرفتار کیا گیا۔’ٹی ایل پی سربراہ کے صاحبزادے نے سعد نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کے علاوہ تنظیم کے تمام ضلعی سربراہان کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے کر مہمان خانے منتقل کیا گیا گیا ہے۔’انہوں نے کہا کہ ‘اس کارروائی کی ضرورت تحریک لبیک کے 25 نومبر کی احتجاجی کال واپس نہ لینے کی وجہ سے پیش آئی، کیونکہ عوام کی جان و مال اور املاک کی حفاظت حکومت کا اولین فرض ہے۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘تحریک لبیک مسلسل عوام کی جان و مال کے لیے خطرہ بن گئی ہے اور مذہب کی آڑ لے کر سیاست کر رہی ہے، تاہم موجودہ کارروائی کا آسیہ بی بی کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔’واضح رھے کہ خادم رضوی نے 25 نومبر کو یوم شہدا تحریک منانے کا اعلان اور رہنماؤں و کارکنوں کو فیض آباد پہنچنے کا حکم دے رکھا ہے۔راولپنڈی میں فیض آباد کے مقام پر بھی پولیس کے تقریباً 100 اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی زندگی اور جدوجہد آزادی پاکستان … تحریر و تحقیق ؛اصغر علی مبارک کے قلم سے

Posted on

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی زندگی اور جدوجہد آزادی پاکستان …
تحریر و تحقیق ؛اصغر علی مبارک کے قلم سے
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 142ویں سالگرہ منائی جارہی ہے، قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کوکراچی میں پیدا ہوئے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے والد کا نام جناح بھائی پونجا اور والدہ کانام مٹھی بائی تھا، قائداعظم کے بہن بھائیوں میں رحمت ، مریم ،احمد علی ، بندے علی ،شیریں اور فاطمہ جناح شامل تھے۔ایمی بائی اور مریم المعروف رتی بائی قائد اعظم کی شریک حیات تھیں، قائد اعظم کی واحد اولادان کی بیٹی دینا جناح تھیں جو مریم المعروف رتی بائی کے بطن سے پیدا ہوئیں ۔لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے قائد اعظم محمد علی جناح نے بمبے ہائیکورٹ میں بطور وکیل خود کو رجسٹرڈ کروایا اور 1896میں اپنی عملی زندگی کا آغاز لندن گراہم ٹریڈنگ کمپنی میں اپرنٹس شپ کرکے کیا۔قائداعظم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1906ءمیں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت سے کیا،قائد اعظم 1913ءمیں آل انڈیامسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کیا، 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔آزادی کےموقع پر آپ 7اگست 1947کو کراچی پہنچے، قائد اعظم آخری باراسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے،انہوں نے 11ستمبر1948میں وفات پاگئے ۔قائد اعظم کی نمازہ جنازہ میں لگ بھگ 6لاکھ افراد نے شرکت کی،انہیں کراچی میں سپردخاک کیا گیا۔بیس سال کی عمر میں قائد اعظم محمّد علی جناح نے بمبئی میں وکالت کی مشق شروع کی وہ اس وقت شہر کے واحد مسلم بیرسٹر تھے۔ وہ عادتاً انگریزی زبان استعمال کرتے تھے اور یہ عادت تمام عمر رہی۔ ان کی وکالت کے ابتدائی تین سال 1897ء تا 1900ء کچھ خاص نا تھے۔ اس میدان میں ان کے روشن مستقبل کا آغاز اس وقت ہوا جب بمبئی کے ایڈوکیٹ جنرل، جان مولسورتھ مک پہتسن، نے انہیں اپنے چیمبر سے کام کرنے کے لیے مدعو کی سال 1900ء میں بمبئی کے پریزیڈنسی مجسٹریٹ پی۔ ایچ۔ داستور، کی نشست وقتی طور پر خالی ہو گئی اور اس نشست کو بطور قائم مقام حاصل کرنے میں جناح کامیاب ٹھہرے۔ چھ ماہ اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد جناح کو 1500 روپے ماہانہ تنخواہ کی مستقل حیثیت ملی۔ جناح نے یہ کہہ کر اسے ٹھکرادیا، کہ وہ روزانہ 1500 روپے کمانا چاہتے ہیں- جو اس دور میں ایک بہت بڑی رقم تھی- اور انہوں ایسا کر کے بھی دکھایا۔ نا صرف یہ بلکہ بطور گورنرجنرل پاکستان انہوں نے زیادہ تنخواہ لینے کی بجائے صرف ماہانہ ایک روپیہ لینا پسند کیا
بطور وکیل جناح کی وکالت نے 1907ء میں بے پناہ شہرت پائی جس کی وجہ ماہرانہ طور پر کاوکس کا مقدمہ لڑنا تھا۔ یہ مسئلہ بمبئی کے میونسپل انتخابات میں کھڑے ہوئے جب یورپیوں نے اپنے کاوکس ”سیاسی جماعت کا نمائندہ” کے ذریعے ہندوستانی عہدیداروں کو دھاندلی پر مجبور کیا تاکہ سر فیروز شاہ مہتہ کو کونسل سے باہر رکھا جاسکے۔ اگرچہ وہ اس مقدمہ کو جیت نہ سکے لیکن ان کے قانونی منطقوں اور وکالتی انداز نے انہیں مشہور کر دیا۔ایک کامیاب وکیل کے طور پر اُن کی بڑھتی شہرت نے کانگریس کے معروف رہنما بال گنگا دھر تلک کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی اور یوں 1905ء میں بال گنگا دھر تلک نے جناح کی خدمات بطور دفاعی مشیرِ قانون حاصل کیں تاکہ وہ اُن پر سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے دائر کیے گئے، نقصِ امن کے مقدمے کی پیروی کریں۔ جناح نے اس مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے، اپنے موکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہندوستانی اگر اپنے ملک میں آزاد اور خود مختار حکومت کے قیام کی بات کرتا ہے تو یہ نقص امن یا غداری کے زمرے میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجود بال گنگا دھر تلک کو اس مقدمے میں قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔
لیکن جب 1916ء میں ان پر دوبارہ یہی الزام عائد کیا گیا تو جناح اس بار ضمانت لینے میں کامیاب ہوئے۔بمبئی ہائی کورٹ کے ایک بیرسٹر جو جناح کے ہم عصر تھے کہتے ہیں کہ جناح کو اپنے آپ پر ناقابل یقین حد تک اعتماد تھا، انہوں نے یہ بات اس واقعے کے تناظر میں کہی جب ایک دن کسی جج نے غصے میں جناح کو کہا کہ مسٹر جناح یاد رکھو کہ تم کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہو جناح نے برجستہ جواب داغ دیا جناب والا مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں آپ کو خبردار کروں کہ آپ بھی کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح کی سیاست کا آغاز”1857ء کی جنگ آزادی میں بہت سے ہندوستانیوں نے حصہ لیا۔ جنگ کے بعد، کچھ انگلو ہندوستانیوں اور برطانیہ میں موجود کچھ ہندوستانیوں نے برصغیر کے لیے ایک وسیع خود مختاری کا مطالبہ کیا، ان مطالبات کے نتیجے میں 1885ء میں آل انڈیا کانگریس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس جماعت کے قائدین میں سے اکثر برطانیہ سے پڑھے ہوئے تھے اور ان کے مطالبوں پر حکومت چھوٹے موٹے اصلاحات سامنے لاتی تھی۔ مسلمان برطانوی ہند میں جمہوری اداروں کے قیام میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، کیونکہ ان کی آبادی مجموعی آبادی کا ایک تہائی تھا جبکہ اکثریت ہندوں کی تھی۔ کانگریس کے ابتدائی اجلاسو ں میں مسلمانوں کی شرکت کم تھی جن میں ،زیادہ تر امیر طبقے کے تھے ۔جناح 1920ء کے ابتدائی برسوں تک وکالت کی مشق کرنے میں مصروف رہے تھے لیکن وہ سیاست میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ جناح نے دسمبر 1904ء میں بمبئی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کا شمار کانگریس کے ان ارکان میں ہوتا تھا جو ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور جدید خیالات کے مالک تھے ان میں مہتہ، ناروجی اور گوپال کرشنا گوکھالے شامل تھے۔ ان ارکان کے خیالات کی مخالفت کرنے والوں میں تلک اور لالا لجپت رائے شامل تھے جو آزادی کے لیے سریع رفتار عمل کے حامی تھے۔ 1906ء میں مسلمان رہنما جن میں آغا خان سوم شامل تھے نے گورنر جنرل ہند لارڈ منٹو سے ملاقات کی اور انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلا کر ان سے دریافت کیا کہ آیا ان سیاسی اصلاحات میں میں انہیں “بے رحم اکثریت ہندو وں” سے بچایا جائے گا۔ اس عمل سے اختلاف کرتے ہوئے جناح نے گجراتی اخبار کہ مدیر کو خط لکھا کہ یہ مسلمان رہنما کس طرح مسلمانوں کی قیادت کر رہے ہیں حالانکہ مسلمانوں نے انہیں نا منتخب کیا ہے بلکہ یہ اپنی تئیں ہی رہنما بن بیٹھے ہیں]۔ جب یہ قائدین ڈھاکہ میں دوبارہ مل بیٹھ کر اپنے برادری کے مسائل کے حوالے سے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام پر عمل کر رہے تھے تب بھی جناح نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ہندوستان کے اسوقت کے وائسرائے بھی مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ماننے کو تیار نا تھے کیونکہ لیگ تقسیم بنگال کی منسوخی(جو لیگ کے نزدیک مسلمانوں کے خلاف تھی) پر خود کو زیادہ پراثر ثابت نا کر پائی تھی،1906ء میں جناح نے آل انڈیا کانگریس میں شمولیت اختیار کی جو اُس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی لیکن اُس وقت کے دیگر کانگریسی رہنماؤں کی طرح جناح نے یکسر آزادی کی حمایت کرنے کی بجائے ہندوستان کی تعلیم، قانون، ثقافت اور صنعت پر برطانوی اثرات کو ہندوستان کے لیے موثر قرار دیا۔ جناح ساٹھ رکنی مرکزی مشاورتی کونسل (امپیریل لیگسلیٹیو کونسل) کے ارکان بن گئے لیکن اس کونسل کی اپنی کوئی حیثیت یا طاقت نہیں تھی اور اس میں شامل زیادہ تر افراد غیر منتخب، سلطنتِ برطانیہ کی زبان بولنے والے یورپی تھے۔ اس کے باوجود جناح متحرک رہے اور کم عمری کی شادی کے لیے قانون اور مسلمانوں کے وقف کے حق کو قانونی شکل دینے کے لیے کام کرتے رہے، انہی کاوشوں کے نتیجے میں سندھرسٹ کمیٹی بنائی گئی، جس نے ڈیرہ دون میں ہندوستانی فوجی اکادمی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا پہلی جنگ عظیم کے دوران میں جناح نے دیگر ہندوستانی ترقی پسندوں کے ساتھ برطانوی جنگ کی تائید کی، اس اُمید کے ساتھ کہ شاید اس کے صلے میں ہندوستانیوں کو سیاسی آزادی سے نوازا جائے۔کانگریس میں جناح جیسے خیالات رکھنے والے ارکان کی کمی ہوئی جب مہتہ اور گوپال کرشنا گھوکھلے 1915ء میں انتقال کرگئے، اس تنہائی میں اسوقت مزید اضافہ ہوا جب دادابھائی نوروجی بھی لندن سدھار گئے جہاں وہ 1917ء یعنی اپنی موت تک رہے۔ اس کے باجود جناح نے مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان میں فاصلوں کو مٹانے کی کوشش کی۔ 1916ء میں جب وہ مسلم لیگ کے صدر تھے، دونوں تنظیموں نے متفقہ طور پر میثاق لکھنو پر رضامندی ظاہر کی، اس کے تحت مختلف علاقوں میں ہندوں اور مسلمانوں کے لیے خاص کوٹے رکھے گئے۔ اگرچہ اس معاہدے پر مکمل عمل درآمد نا ہو سکا لیکن اس نے دونوں جماعتوں میں تعاون کی راہ ہموار کی،جنگ کے دوران میں جناح نے ان ہندوستانیوں سے اتفاق کیا جنکا خیال تھا کہ برطانیہ کی ہمایت کرنے سے شاید گورے بطور انعام ہندوستانیوں کو آزادی دے دیں۔ 1916ء میں جناح نے آل انڈیا ہوم رول لیگ کے قیام کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے دیگر سیاسی رہنماوں جیسے اینی بیسنٹ اور بال گنگا دھر تلک کے ساتھ “ہوم رول” کا مطالبہ کیا جس کا مقصد ہندوستان کو سلطنت برطانیہ میں رہتے ہوئے کینیڈا، نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا جیسی خومختاری حاصل کرنی تھی لیکن جنگ کے بعد گوروں کی دلچسپیاں ان ہندوستانی قانونی اصلاحات میں سرد پڑ گئی۔ برطانوی کیبنٹ وزیر ایڈون مونٹیگو اس دور کے جناح کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں” جوان، مکمل طور پر باتمیز، متاثر کن- چہرہ، تیز لہجوں سے مسلح اور اپنے تمام منصوبے پر مصّر”۔1918ء میں جناح نے خود سے پچیس سال کم عمر مریم جناح سے شادی کی۔ وہ ان کے دوست سر دینشاہ پیٹٹ کی جواں سال فیشن پسند بیٹی تھی جنکا تعلق بمبئی کے ایک امیر پارسی گھرانے سے تھا۔اس شادی کی مخالفت مریم جناح کے گھر والوں اور پارسی برادری کی جانب سے خوب کی گئی ساتھ ہی کئی دیگر مسلم مذہبی رہنما بھی اس شادی کے خلاف تھے۔ رتن بھائی اپنے خاندان والوں کی مخالفت کے باوجود اسلام میں داخل ہوئیں اور انہوں نے مریم جناح کا نام اپنایا اگرچہ کبھی وہ اسے استمعا ل نہیں کرتی تھی اس طرح وہ اپنے خاندان اور پارسی برادری سے ہمیشہ کے لیے تعلق گنوا بیٹھی۔ اس جوڑے نے اپنی رہائش بمبئی میں رکھی اور وہ شادی کے بعد ہندوستان اور یورپ کے کئی علاقوں میں تفریح کے لیے گئے۔ ان کی واحد اولاد جو بیٹی دینا واڈیا تھی 15 اگست 1919ء کو پیدا ہوئی۔1929ء میں جناح کی بیوی کا انتقال ہوا اور فاطمہ جناح انکی اور ان کی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے لگی۔
1919ء کے دوران میں برطانیوں اور ہندوستانیوں کے مابین تعلقات کشیدہ ہوئے جب انہوں نے جنگ کے دوران میں عوامی آزادیوں پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کی۔ جناح نے اس دور میں استعفی دیا۔ جلیانوالہ باغ امرتسر کے واقعہ کے بعد سارے ہندوستان میں بے چینی پھیلی جس میں برطانوی فوجیوں نے ہجوم پر فائرنگ کرکے کئی سو لوگوں کا قتل کیا تھا۔ جلیانوالہ باغ سانحے کے تناظر میں گاندھی کی ہندوستان واپسی ہوئی اور انہیں ہندوستان میں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا اس دور میں وہ کانگریس کے ایک پر اثر اور قابل احترام رہنما ثابت ہوئے اور اسی دور میں انہوں نے برطانیوں کے خلاف ستیاگرا کی مہم چلائی وہ کئی مسلمانوں کے سامنے بھی متاثرکن شخصیت رکھتے تھے۔ جس کی وجہ تحریک خلافت میں گاندھی کی جانب سے مسلمانوں کے موقف کی حمایت تھی یہ مسلمان خلافت عثمانیہ سے روحانی طور پر منسلک تھے۔لیکن پہلی جنگ عظیم میں عثمانی خلیفہ کو شکست کی وجہ سے اپنے تخت سے محروم ہونا پڑا۔ اس کے بعد اس مہم سے منسلک کئی مسلمان قتل یا قید کیے گئے اور ان مسلمانوں کی حمایت کی وجہ سے گاندھی نے مسمانوں میں اچھی خاصی شہرت کمائی۔ جناح کے برعکس گاندھی اور آل انڈیا کانگریس کے اکثر رہنما ہندوستانی لباس پہننا فخر سمجھتے تھے اور یہ لوگ ہندوستانی زبان کو انگریزی پر فوقیت دیتے تھے۔گاندھی کے مقامی انداز میں کی گئی سیاست نے برصغیر میں کافی شہرت حاصل کی۔ جناح نے گاندھی کے خلافت کے معاملے کو غلط سمجھتے تھے وہ اسے “مذہبی جذبات کا بے جا اظہار ” کہتے۔ جناح نے گاندھی کے ستیاگرا مہم کو “سیاسی انارکی” سے تشبیہ دی وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ خود مختار حکومت کا حصول قانونی طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے گاندھی کی مخالفت کی، لیکن ہندوستانیوں کے نظریات کی موجیں انکے مخالف رہی۔ 1920ء میں ناگپور میں ہونے والے کانگریس کے سالانہ اجلاس میں کئی رہنماوں نے جناح کے نظریات کی سخت مخالفت کی وہ اس بات پر مصّر تھے کہ گاندھی کی ستیاگرا مہم کو ہندوستان کی آزادی تک چلایا جانا چاہئے۔ جناح نے اسی عرصے میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی یہ اجلاس بھی اسی شہر میں منعقد ہوئی تھی اور انہوں نے بھی اسی قسم کی قرارداد منظور کی۔ کانگریس کی جانب سے گاندھی کی مسلسل حمایت کی وجہ سے انہوں نے اس جماعت کے تمام عہدوں سے استعفاء دے دیا، لیکن وہ مسلم لیگ کے عہدوں پر فائز رہے۔گاندھی اور تحریک خلافت کے مابین موجود اتحاد زیادہ عرصے نا چل سکی اور مزاحمت کی یہ مہم امید سے کم ہی پر اثر ثابت ہوئی، جیسا کہ برطانوی ادارے بدستور کام کرتے رہے۔ جناح اس دور میں کانگریس کے مخالف میں ایک جماعت کھڑی کرنے اور نئے سیاسی خیالات کے متعلق سوچتے رہے۔ ستمبر 1923ء میں جناح بمبئی کے سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی کے مسلم رکن منتخب ہوئے۔ وہ ایک فعال رکن پارلیمنٹ بن کر سامنے آ ئے اور انہوں نے کئی ہندوستانی ارکان کو سورج پارٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے منظم کیا، انہوں اس دور میں انہوں نے ایک زمہ دار حکومت کا مطالبہ جاری رکھا ۔1925ء میں ان کے خدمات کے اعتراف کے طور پر روفس آئزکس جو وائسرائے کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے تھے نے انھیں شہہ سوار کے خطاب سے نوازنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن جناح نے جواب دیا،” میں مسٹر جناح کو استعمال کرنا ترجیح دیتا ہوں”،1927ء میں کنزرویٹو پارٹی (برطانیہ) کے منتخب وزیر اعظم سٹینلی بالڈون نے گوررنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 کے تناظر میں ہندوستانیوں کے حقوق کا ازسر نو جائزہ لیا۔ سٹینلی نے اگلے انتخابات میں شکست کے خوف سے یہ جائزہ دو سال قبل شروع کیا۔ اس وقت کیبنٹ اپنے وزیر ونسٹن چرچل سے متاثر تھی جو ہندوستان کو خود مختاری دینے کے مخالف تھے، دیگر ارکان کا خیال تھا کہ اس کام کو جلد کرنے سے ان کی حکومت برقرار رہے گی۔ اس فیصلے کے بعد 1928ء میں لبرل پارٹی کے رکن پارلیمنٹ جاہن سمن کی قیادت میں جس میں کنزرویٹو پارٹی (برطانیہ) کی اکثریت نے مارچ میں ہندوستان کا دورہ کیا۔ لیکن انہیں مسلم و ہندو رہنماؤں سے بائیکاٹ کے سوا کچھ نا ملا کیونکہ انہوں نے ان رہنماوں کو کمیشن میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کچھ مسلم رہنماوں نے مسلم لیگ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا کیونکہ مسلم لیگ نے اس کمیشن کو خوش آمدید کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اکثریت نے جناح سے وفاداری دکھائی اور انہوں نے دسمبر 1927ءاور جنوری 1928ء کے اجلاسوں میں شرکت کی، ان اجلاسوں نے جناح کو آل انڈیا مسلم لیگ کی مستقل صدرات سونپ دی۔ جناح نے کمیشن کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”برطانیہ پر ایک قانونی جنگ مسلط کی جاچکی ہے۔ مسئلے کے حل پر مفاہمت کا مطالبہ ہمارے طرف سے نہیں آیا۔۔۔ گوروں سے پُر ایک کمیشن کے قیام سے لارڈ برکنہڈ نے ہمیں خود مختار حکومت کو چلانے سے نا اہل قرار دیا ہے۔”1928ء میں برکنہڈ نے ہندوستانیوں کو اپنی جانب سے ہندوستان کے لیے قانونی تبدیلی کے لیے تجاویز تیار کرنے کا حکم دیا، جواب میں آل انڈیا کانگریس نے موتی لال نہرو کی قیادت میں ایک رپورٹ پیش کی۔ کمیٹی کا مقصد ہندوستان کے لیے ہندوستانیوں کے ذریعے ایک ایسے آئینی ڈھانچے کو تشکیل دینا تھا جو ہندوستان میں آباد تمام قومیتوں کے لیے قابل قبول ہو یا جس کو کم از کم کانفرنس میں شریک تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل ہو۔ اس کمیٹی نے جو آئینی رپورٹ تیار کی، ہندوستان کی تاریخ میں اسے نہرو رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جناح کے نزدیک یہ رپورٹ مسلمانوں کے حقوق کا موثر حل نا تھی لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک الگ رپورٹ شائع کی جو جناح کے چودہ نکات کے نام سے معروف ہوئی۔ اس نکات کے ذریعے جناح کو امید تھی کی لیگ کے باقی ماندہ ارکان بھی متحد ہوجائیں گے ۔ لیکن کانگریس اور انگریزوں نے ان کے ان نکات کو تسلیم نا کیا۔بالڈون 1929ء کے برطانوی انتخابات میں ہار گئے اور لبرل پارٹی کے رامسے مکڈونالڈ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے ہندوستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے لندن میں ہندوستانی اور برطانوی سیاست دانوں کو مدعو کیا اس عمل کی حمایت جناح بھی کر چکے تھے۔ اس سلسلے میں تین گول میز کانفرنسیں اگلے کچھ سالوں تک ہوتےی رہیں۔ جناح کو آخری کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا ان کانفرنسوں سے مسئلے کے حل میں کوئی پیش رفت نا ہو سکی۔ جناح 1930ء تا 1934ء تک لندن میں قیام پزیر رہے اس دوران میں وہ پریوی کونسل میں بیرسٹر کی مشق کرتے رہے، وہ اس دوران میں ہندوستان سے متعلق کئی معاملات کو بھی نبٹاتے رہے۔ انکی زندگی کے متعلق لکھنے والوں کے نزدیک یہ بحث طلب موضوع ہے کہ آخر وہ اتنا عرصہ وہاں کیوں رہے۔ معروف مؤرخ اسٹینلے ولپرٹ لکھتے ہیں کہ شاید وہ مستقل سکونت اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بننے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ البتہ انکے اولین سوانح نگار اس بات سے متفق نہیں کہ وہ اس متعلق کچھ ارادہ رکھتے تھےجبکہ جسونت سنگھ کے نزدیک وہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سے رخصت پر تھے۔ ہیکٹر بولیتھو ان ایام کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “جناح کہ یہ ادوار غورفکر اور تیاری کے سال تھے ابتدائی جدوجہد کے بعد ایک آخری فتح کے طوفان کی تیاری”۔1931ء میں فاطمہ جناح اپنے بھائی جناح کے ہاں لندن منتقل ہوگئیں۔ وہ ان کی دیکھ بھال کرتی تھی کیونکہ وہ اب بوڑھے ہوچکے تھے نیز وہ پھیپھڑوں کی بیماری میں بھی مبتلا تھے جو جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی، فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کی قریبی مشیر کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ جناح کی بیٹی ڈینا نے تعلیم برطانیہ اور ہندوستان میں حاصل کی۔ جناح اور ان کی بیٹی کے مابین تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب ان کی بیٹی نے نیوائل واڈیہ سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جو ایک پارسی امیر تاجر گھرانے تعلق رکھتا تھا۔ جبکہ جناح کی خواہش تھی کہ وہ ایک مسلمان سے شادی کرے لیکن ان کی بیٹی جناح کو یہ کہتی کہ “آپ نے بھی اپنے ہم مسلک سے شادی نہیں کی”۔ جناح نے اس معاملے کو نرمی سے حل کرنے کی کوشش کی لیکن باپ بیٹی کے رشتے میں فاصلے موجود رہے اور ان کی بیٹی نے قیام پاکستان کے بعد جناح سے ملاقات نا کی، البتہ وہ جنازے میں شریک تھیں،علامہ محمد اقبال کے نظریات کا جناح پر بہت زیادہ اثر تھا ،اور اسی اثر کے نتیجے میں پاکستان کے قائم ہونے کی راہ ہموار ہوئی اور اس اثر کو مصنفین نے زبردست،طاقتور اور ناقابل انکار تک لکھا ہے۔علامہ محمد اقبال کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جناح کو لندن میں خودساختہ جلاوطنی کو ختم کر کے ہندوستان کی سیاست میں شامل ہونے پر بھی رضامند کر لیا تھا۔اگرچہ ابتدا میں اقبال اور جناح دو مختلف خیالات کے مالک تھے جناح کے بارے میں اقبال کا خیال تھا کہ وہ ہندوستان میں موجود اپنے مسلم برادری کے بحران سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اکبر صلاح الدین احمد کے مطابق اقبال کے خیالات میں بدلاؤ ان کے 1938ء میں وفات سے قبل نمودار ہوئے۔ اقبال آہستہ آہستہ جناح کے خیالات میں تبدیلی لانے میں کامیاب ٹھہرے اور جناح نے ان کی صلاح قبول کر لی۔ احمد نے جناح کی طرف سے اقبال کو بھیجے گئے خط کا حوالہ دیا جس میں جناح نے اقبال کہ اس نظرئے کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن ہونی چاہئے پر اتفاق کیا
اقبال کی وجہ سے جناح کے نزدیک مسلم تشخص ایک قابل ستائش چیز بھی ٹھہری۔احمد کہتے ہیں کہ جناح ناصرف اقبال سے اپنی سیاسی بلکہ ذاتی عقائد ہر بھی متفق ہو گئے تھےان اثرات کے ثبوت 1937ء سے ظاہر ہونے شروع ہوئے، اس دور میں جناح اپنے تقاریر میں اسلام کے نظریات پر بات کرتے، وہ عوامی مقامات میں اسلامی روایات کا ذکر کرتے۔ احمد کے نزدیک جناح کے قول و عمل میں “کچھ چیزیں بالکل بدل گئی تھیں”۔ لیکن جناح اب بھی اپنی تقاریر میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی بات کرتے وہ پیغمبر اسلام محمدﷺ کی طرزِ حکمرانی کو نمونہ عمل سمجھتے۔ احمد کا دعویٰ ہے کہ جو مصنفین جناح کا ایک سیکولر خاکہ کھینچتے ہیں کو چاہئے کہ وہ ان کی تقاریر سنیں اور اسے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے تناظر میں پرکھیں۔ یہی تبدیلی تھی جس نے جناح کی گفتگو میں ایک واضح فطری اسلامی مملکت کا سوال پیدا کیا تھا۔ اسی تبدیلی نے جناح کے آخری ایام تک انہیں اقبال کے نظریات کا طالب بنا دیا، وہ اقبالی نظریات جو کے اسلامی اتحاد، اسلامی نظریہ آزادی، انصاف اور مساوات ،معیشت اور حتیٰ کہ نماز کے پڑھنے تک سے متاثر نظر آنے لگے
جناح اقبال کی سوچ سے کس حد تک متاثر تھے کا اندازہ 1940ء میں کی گئی ان کی ایک عوامی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ”اگر مستقبل میں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی مملکت قائم ہوئی اور مجھ سے کہا جائے کہ اس طرز حکمرانی اور اقبال کے کام میں بہتر کونسا ہے تو میں مؤخر الذکر کو ہی چنوں گا،1933ء میں ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص متحدہ صوبوں کے مسلموں نے جناح سے دوبارہ آکر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کا کہنے لگے جو اب قدرے غیر متحرک ہوچکی تھی۔ وہ اب صرف نام کے ہی صدر تھے [ب]جب انہیں 1933ء کے سیشن کی صدارت کے لیے مدعو کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اس سال کے اختتام سے قبل حاضر نہیں ہوسکتے۔ لکھنو میں لیگی اجلاس میں جن رہنماوں نے جناح سے ملاقات کی ان میں لیاقت علی خان بھی شامل تھے جو بعد میں جناح کے قریبی مشیر طور پر سامنے آئے اور وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ جناح کی واپسی کے حوالے سے لیاقت علی خان نے کئی مسلم رہنماوں سے مشاورت کی اور ان کے پیغامات جناح تک پہنچائے۔ 1934ء کے ابتدا میں جناح نے ہیمپسٹیڈ میں موجود اپنا مکان بیچ دیا اور اپنے قانونی مشق ختم کردی تاکہ وہ واپس ہندوستان جاسکیں۔بمبئی کے مسلمانوں نے اکتوبر 1934ء میں جناح کو مرکزی قانون ساز اسمبلی کے لیے اپنا نمائندہ نامزد کیا۔ برطانوی پارلیمنٹ نے حکومت ہند ایکٹ 1935 کے تحت صوبوں کو کچھ اختیارات دئے، جبکہ دلی میں مرکزی اسمبلی بنائی گئی جس کے پاس اختیارات نا تھے مثلاً اس اسمبلی کو دفاع، خارجی امور اور بجٹ جیسے معاملات میں دخل کا حق حاصل نا تھا۔ وائسرائے کو اختیار کل کا مالک بنایا گیا اور وہ اپنی مرضی سے اسمبلی اور قوانین کو جب چاہیں تحلیل کر سکتے تھے۔ لیگ نے اس منصوبے کو قبول کیا لیکن ساتھ ہی کمزور پارلیمنٹ کے معاملے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ کانگریس نے 1937ء کے انتخابات کے لیے خوب تیاری کر رکھی تھی جبکہ مسلم لیگ ان انتخابات میں بری طرح ناکام ہوئی حتیٰ کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی انہیں قابل ذکر کامیابی نا مل سکی۔ اس جماعت نے دہلی میں اکثریت حاصل کی اور بنگال میں یہ فاتح جماعت کی اتحادی بنی۔ کانگریس اور ان کے اتحادی جماعتوں نے شمال مغربی سرحدی صوبہ (1901–1955) میں بھی حکومت بنائی حالانکہ اس صوبے میں رہنے والے تمام لوگ مسلمان تھے،سنگھ کے مطابق یہ نتائج جناح کے لیے زبردست اور تقریباً صدمے تک کا باعث تھے۔ باوجود 20 سال تک جناح کے اس خیال کہ مسلمان متحدہ ہندوستان میں باوجود اقلیت میں ہونے کہ کچھ قانونی اصلاحات ،مسلم صوبوں کی حد بندی سے اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتے ہیں ،جنکے متعلق جناح نے کبھی سوچا تھا کہ یہ مسلمانوں کی گروہی جھگڑوں سے ناکام ہوسکتا ہے۔” سنگھ مسلم رہنماوں پر 1937ء کے انتخابات میں ناکامی کے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے”جب کانگریس نے تقریباً تمام مسلم سیٹوں سمیت حکمت بنائی تو غیر کانگریسی مسلمان رہنما جب ان کے مخالف اپوزیشن کرسیوں پر بیٹھے تو انہیں اچانک اس تلخ حقیقت کا ادراک ہوا کہ وہ کتنے بے اختیار ہیں۔ اگر کانگریس ایک بھی مسلم نشست نا جیتتی تو یہ ان کے لیے بے حد اطمینان کا سبب ہوتا ۔۔ جیسا کہ انہوں نے اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی تھی لہٰذا وہ بلا شراکت غیر ے حکومت بنانے کے مجازتھے۔اگلے دو سالوں تک جناح مسلم لیگ کے لیے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کام کرتے رہے۔ وہ بنگال اور پنجاب کی حکومت میں موجود تھے لہٰذا وہ وہاں سے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ نیز انہوں نے مسلم لیگ کو وسیع کرنے پر بھی کام کیا۔ انہوں نے جماعت کے رکن بننے کی فیس کم کر کے دو آنے (⅛ روپے) کردی جو پھر بھی کانگریس کے ممبرشپ فیس سے آدھے سے زیادہ تھے۔ انہوں نے کانگریس کی طرز پر مسلم لیگ کی ساخت تبدیل کی اور ورکنگ کمیٹی کو بااختیار بنایا جنہیں وہ خود منتخب کیا کرتے تھے۔ دسمبر 1939ء میں لیاقت علی خان کے اندازے کے مطابق دو آنے والے ارکان کی تعداد تین ملین (تیس لاکھ) تھی۔1930ء تک اکثر مسلمانان ہند آزادی کے صورت میں ہندوں کے ساتھ ایک متحد مملکت میں رہنے کا خیال رکھتے تھے جیسا کہ وہ صدیوں سے رہتے آئے تھے اور یہی خیال ہندوؤں کا بھی تھا جو خود مختار حکومت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ قوم پرستانہ بنیادوں پر بھی تجاویز بنائی گئی تھیں۔ 1930ء میں خطبہ الہ آباد میں سر محمد اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ ریاست کا مطالبہ کیا۔ چوہدری رحمت علی نے 1933ء میں ایک اعلامیہ پاکستان نامی پمفلٹ شائع کی جس میں انہوں نے وادی سندھ کی جانب موجود علاقوں اور دیگر ہندوستانی مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کا نام دیا۔ جناح اور اقبال 1936ءاور 1938ء میں ملاقات کرتے رہے اور جناح نے اپنی تقاریر میں اقبال کے خواب کی حمایت کی۔اگرچہ تمام کانگریسی رہنما ایک متحد طاقتور ملک کے لیے کام کر رہے تھے، کچھ مسلم رہنما جن میں جناح بھی شامل تھے، اس کے مخالف تھے۔ وہ ان نظریات کی حمایت اپنی مسلک کے حقوق کی تحفظ کے یقین دہانی نا مل سکنے کے سبب کر رہے تھے۔ اگرچہ تمام کانگریسی رہنما ایک متحد طاقتور ملک کے لیے کام کر رہے تھے ،کچھ مسلم رہنما جن میں جناح بھی شامل اس کے مخالف تھے وہ ان نظریات کی حمایت اپنی مسلک کے حقوق کی تحفظ کے یقین دہانی نا مل سکنے کے سبب کر رہے تھے۔ اس کے علا وہ کچھ مسلم سیاست دان کانگریس کے ہم خیال بھی تھے ان سب کے باوجود اس منظر میں ایسے کئی ہندو سیاست دان بھی تھے جو آزادی کی صورت میں ہندوستان کو ہندو ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے ان کے نزدیک آزاد ہندوستان میں گائے کی قربانی پر پابندی اور ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ ملنا تھا۔ ہندو نواز کالم نگاروں کو روکنے سے قاصر کانگریسی حمایتی مسلمانوں کو کئی طرح کے خدشات کو سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی 1937ء تک کانگریس کے حمایتی مسلم تعداد قابل قدر حالت میں تھی۔ان دو گروہوں میں مزید جدائی سامنے آئی جب یہ دونوں جماعتیں 1937ء کے انتخابات میں متحدہ صوبوں میں اتحادی جماعت بنانے میں ناکام نظر آئے۔مورخ آیان ٹالبوٹ لکھتے ہیں” کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلم آبادی کو سمجھنے اور ان کے مذہبی حساسیت کو احترام کرنے کے لیے کوئی بھی اقدام نا اٹھائے۔ جبکہ اس دور میں مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کا دعویٰ کرتی تھی۔ اور بڑی بات یہ کہ مسلم لیگ نے اسی کانگریسی حکومتی ادوار کے فورا بعد پاکستان کا مطالبہ اٹھایا۔”بالراج پوری جناح کے بارے میں لکھتے ہیں کہ”1937ء کے ووٹ کے بعد مسلم لیگ کے صدر کی توجہ تقسیم کی طرف گئی”۔ تاریخ دان اکبر صلاح الدین احمد کی تجویز ہے کہ ان ادوار میں جناح کو کانگریس سے مزید مفاہمت کرنا بے سود لگ رہا تھا نیز ان دنوں وہ اسلامی تشخص کے بھی گرویدہ ہوتے چلے گئے تھے اور یہی ان کے نزدیک ایک الگ ،کافی اور مکمل پہچان تھی اور یہ بات ان کی اگلی زندگی سے بھی جھلکتی رہی۔ 1930 کے بعد سے وہ مشرقی لباس زیب تن کیے دکھائی دینے لگے تھے1937 کے الیکشن کے بعد جناح کا مطالبہ تھا کہ طاقت کی تقسیم کو پورے ہندوستان میں نافظ کیا جائے اور انہیں تمام مسلمانان ہند کے واحد ترجمان کے طور پر لیا جائے۔برطانوی وزیر اعظم نوائل چیمبرلین نے 3 ستمبر 1939ء کو نازی جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی وائسرائے ہند وکٹر ہوپ نے ہندوستانی سیاست دانوں کو کسی خاطر میں لائے بغیرجنگ میں برطانیہ کا بھر پور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اس عمل پر برصغیر میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ جناح سے ملاقات کے بعد وائسرائے نے یہ موقف اپنایا کہ جنگ کی وجہ سے خود مختار حکومت کا معاملہ معطل کیا گیا ہے۔کانگریس نے ایک قانونی اسمبلی سے قانون کو بنانے اور آزادی کا مطالبہ کیا، جب اس مطالبے کو مسترد کیا گیا تو کانگریس 10 نومبر کو اپنے آٹھ صوبائی حکومتوں سے مستعفی ہو گئی ان صوبوں میں جنگ کے دوران معاملات کو گورنر چلاتے رہے۔ اس دوران میں جناح دوسری طرف انگریزوں کی حمایت کرنے لگے جس کے سبب انگریز انہیں مسلم آبادی کا نمائندہ سمجھنے لگے جناح بعد میں کہتے ہیں کہ جنگ کے شروع ہونے کے بعد انگریز انہیں گاندھی کے برابر اہمیت دینے لگے۔ میں حیران تھا کہ مجھے گاندھی کی ساتھ والے نشست پر بٹھایا جاتا۔اگرچہ مسلم لیگ نے جنگ میں برطانیہ کی متحرک طور پر حمایت نا کی اور نا ہی انہوں نے اس میں رکاوٹ ڈالی۔جب مسلمان گوروں سے مکمل تعاون کرنے لگے تو وائسرائے نے جناح سے حکومتی خود مختاری کے متعلق مسلم لیگ کی رائے پوچھی یہ سوچ کر کہ لیگ کے خیالات کانگریس سے مکمل مختلف ہونگے۔ اس مقام پر پہنچ کر لیگ کے ورکنگ کمیٹی نے فروری 1940ء میں چار دن قانونی کمیٹی کو بھیجنے والی سفارشات پر کام کیا۔ اس کمیٹی نے جو مطالبے سب کمیٹی کوبھیجے اسمیں کہا گیا کہ” مسلم اکثریتی علاقوں میں آزاد ریاست قائم ہو اور یہ معاملات سیدھے برطانیہ کی انتظام میں مکمل ہوں” 6 فروری کو جناح نے وائسرائے کو آگاہ کیا کہ لیگ 1935 ایکٹ پر چلتے ہوئے وفاق کے ماتحت بننے کے تقسیم کا مطالبہ پیش کرے گی۔ قرارداد لاہور جو قرداد پاکستان کے نام سے معروف ہےاسی سب کمیٹی کے کام پر مشتمل تھی نیز اس نے دو قومی نظریہ شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقوں کے انضمام کے لیے اپنایا، جس میں انہیں مکمل خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی طرح کے حقوق کا مطالبہ مشرقی علاقوں کے لیے بھی مانگا گیا اس میں دیگر صوبوں میں موجود اقلیتوں کا بھی خاص ذکر کا گیا۔ اسے مسلم لیگ کے لاہور سیشن میں 23 مارچ 1940ء کو منظور کیا گیا۔گاندھی نے اس عمل کو خاموش رہتے ہوئے “حیران کن” قرار دیا لیکن انہوں نے ساتھ ہی اپنے پیروکاروں سے کہا کہ مسلم اقوام بھی اپنے خود مختاری کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔جب کہ کانگریس کے دیگر رہنما نے اس پر بہت رد عمل دکھایا، جواہر لعل نہرو اسے جناح کے “تخیلاتی تجاویز” قرار دی جبکہ چکرورتی راجگوپال آچاریہ نے جناح کے تقسیم کی تجویز کو “ذہنی بیماری کی علامت” قرار دی۔1940ء میں جناح کے وائسرائے سے ملاقات ہوئی اور اسی دوران میں ونسٹن چرچل وزیر اعظم بنے،انہوں نے اگست میں کانگریس اور لیگ دونوں کو یہ یقین دہانی کرائی کہ جنگ میں تعاون کرنے کے صلے میں وائسرائے ہندوستانی نمائندوں کو برطانیہ کے سامنے اپنے تجاویز رکھنے کی اجازت فراہم کرے گا۔ وائسرائے نے ان نمائندوں سے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا اور کسی بھی بڑی آبادی کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا، اگرچہ کانگریس اور لیگ کو ان وعدوں پر زیادہ اعتبار ناتھا لیکن جناح خوش تھے کہ گورے انہیں مسلمانوں کے معاملات میں ان کا نمائندہ سمجھ کر شریک کرتے ہیں ، جناح پاکستان کی سرحدی حدبندی، برطانیہ سے باقی برصغیر سے تعلق کے حوالے سے تجاویز دینے پر تذبذب کا شکار تھے کہ کہیں اس سے لیگ میں کہیں فرقہ نا بن پڑے۔جاپانیوں نے دسمبر 1941ء کو پرل ہاربر حملہ کر کے امریکہ کو جنگ میں کودنے کا موقع فراہم کیا اور انہی ادوار میں جاپانی فوجوں نے جنوب مشرقی ایشیا کی جانب پیش قدمی شروع کی تو برطانوی کیبنٹ نے ایک مشن جس کی قیادت سر سٹیفورڈ کرپس کر رہے تھے ہندوستان میں بھیجی اس مشن کا مقصد ہندوستانی رہنماؤں سے جنگ کے لیے بھرپور تعاون مانگنا تھا۔ کرپس نے کچھ صوبوں کو یہ بھی تجویز دی کہ ان کی مرضی آیا وہ کچھ عرصے کے لیے خود مختار رہیں یا ہمیشہ کے لیے یا مستقبل میں کسی بھی ملک کے ساتھ ضم ہوجائیں۔ چونکہ مسلم لیگ مشرقی بنگال کے ہندو علاقوں میں ووٹ نا لے سکتی تھی لہٰذا جناح نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ کانگریس نے بھی اس تجاویز کی مخالفت کی اور فوری مراعات دینے کا مطالبہ کیا جس کے لیے کرپس تیار نا تھے۔اس کے باوجود جناح اور لیگ کے رہنما کرپس کے معاملے کو پاکستان کے بنیادی مطالبے کوتسلیم کرنے سے تشبیہ دی۔کرپس مشن کے ناکام ہونے پر کانگریس نے اگست 1942ء کو کوائٹ انڈیا مہم چلائی اور آزادی تک ستیاگرا کی مہم دوبارہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ برطانیہ نے بدلے میں جنگ کے خاتمے تک تمام کانگریسی رہنماوں کو قید کیے رکھا۔ گاندھی کو گوروں نے آغا خان کے ایک محل سے گرفتار کیا اور انہیں گھر میں نظر بند رکھاگیا لیکن انکی طبیعت کی ناسازی کے سبب انہیں 1944ء میں رہا کر دیا گیا۔ کانگریس کے رہنماوں کی سیاسی منظرنامے سے گمشدگی کے دوران میں جناح نے تحریک پاکستان خوب چلائی۔ جناح نے اس دوران میں صوبوں میں بھی لیگ کو سیاسی طور پر مضبوط کیا انہوں نے دلی سے 1940ء میں انگریزی اخبار ڈان کا اجرا کیا جس میں وہ لیگ کے پیغامات کو پھیلاتے اور بعد میں یہ پاکستان کے بڑے انگریزی اخبارات میں شامل ہوئی،گاندھی نے 1944ء میں اپنی رہائی کے بعد بمبئی کے مالابار پہاڑی میں موجود جناح کے گھر میں ان سے ملاقات کی۔ دو ہفتے چلنے والی اس ملاقات سے کوئی نتیجہ برآمد نا ہو سکا۔ جناح کو اصرار تھا کہ گوروں کے انخلا سے قبل ہی بر صغیر کو تقسیم کیا جانا چاہئے اور انکے انخلا کے فورا بعد ہی پاکستان کو آزادی حاصل ہونی چاہئے جبکہ گاندھی کا موقف یہ تھا کے انگریزوں کے انخلا کے بعد تقسیم کے لیے استصواب رائے معلوم کی جائے 1945 میں جنگ کے بعد لیاقت علی خان اور بھلابھائی دیسائی میں ملاقات ہوئی دونوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ کانگریس اور لیگ ایک قائم مقام حکومت بنائی گی اور وائسرائے کے ایکزیکٹیو کونسل میں دونوں جماعت کے ارکان کی تعداد برابر ہوگی۔ جب 1945ء میں کانگریس کے دیگر ارکان جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے دیسائی کے عمل کی مخالفت کی اور کہا کہ دیسائی نے اپنے اختیار سے بڑھ کر کام کیا ہے،جنگ کے بعد آرچیبالڈ ویول نے 1943ء میں سبکدوش ہونے والے وائسرائے کی جگہ لی۔ اس نئے وائسرائے نے جون 1945ء میں تمام جماعتوں کے معروف رہنماؤں کو شملہ میں مدعو کر کے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ انہوں نے لیاقت اور دیسائی کی طرز پر ایک وقتی حکومت کی تجویز دی۔ لیکن وہ اس بات پر رضامند نہ تھے کہ مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں پر صرف مسلم امیدوار کھڑے کیے جائیں۔ تمام مدعو رہنماؤں نے اپنی اپنی جماعت کے امیدواروں کی فہرست وائسرائے کے ہاں جمع کی۔ لیکن انہوں نے جولائی کے وسط میں اس عمل کو روک دیا، جس کی وجہ چرچل حکومت کا خیال تھا کہ یہ عمل کامیاب نا ہو سکے گا،برطانوی عوام نے اگلے انتخابات میں لیبر پارٹی کے کلیمنٹ ایٹلی کو منتخب کیا۔ ایٹلی اور انکے مشیر برائے ہندوستان لارڈ پیتھک لارنس نے ہندوستانی حالات کے جائزے کے لیے ایک جائزہ لینے کا حکم جاری کی۔ جناح نے برطانوی حکومت کی تبدیلی پر کوئی تبصرہ دینے کی بجائے ،اپنی ورکنگ کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا جس میں انہوں نے ہندوستان کے لیے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اسوقت لیگ صوبائی سطح پر کافی جڑیں پکڑ چکی تھی نیز جناح کا خیال تھا کہ وہ اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ انتخابات میں مسلم علاقوں کی نشستوں میں اکثریت حاصل کرکے اپنے مسلم اقوام کے واحد نمائندہ جماعت ہونے کے اس دعویٰ کو سچ ثابت کر سکے گی۔ وائسرائے نے لندن میں اپنے حکام سے مشارت کے بعد ستمبر میں ہندوستان کا رخ کیا اور اس کے فوراََ بعد صوبائی اور مرکز کے انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ برطانیہ کا یہ عمل اس بات کا اشارہ تھا کہ قانون بننے کا عمل ووٹنگ کے بعد ہی شروع کیا جائے گا،مسلم لیگ نے یہ بات واضح کردی کہ وہ صرف پاکستان کے مطالبہ پر ہی انتخابی مہم چلائی گی۔احمد آباد میں جسلے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا” پاکستان ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے”۔ دسمبر 1945ء کے کونسٹیٹیوینٹ اسمبلی آف انڈیا کے انتخابت میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے مختص تمام نشستیں جیت لیں۔ جبکہ صوبائی نشستوں میں اس نے 75 فیصد زائد نشستیں جیتی جبکہ انہیں انتخابات میں اس نے 1937ء میں صرف 4۔4 فیصد جیتی تھی۔انکے سوانح نگار ہیکٹربولیتھو لکھتے ہیں” یہ جناح کے انتہائی خوش کن لمحے تھے،انکے انتھک سیاسی مہمات، ان کا یقین اور دعوے، تمام کا ہی فیصلہ ہوچکا تھا”۔ ولپرٹ کا خیال ہے” انتخابات میں لیگ کی واضح جیت نے مسلمانوں کے مطالبہ آذادی کو ایک کائناتی حقیقت ثابت کر دیا تھا۔”کانگریس اگرچہ اب بھی جنرل اسمبلی میں اکثریت میں تھی لیکن اب ان کے پچھلے چار نشستیں کم ہوگئیں تھی۔ اس دوران میں محمد اقبال نے جناح کو غلام احمد پرویز سے متعارف کروایا جنہیں جناح نے ایک میگزین طلوع اسلام کی ادارت کی زمہ داری سونپی، اس رسالے میں مسلمانوں کے علاحدہ ریاست کے مطالبے کا پرچار کیا جاتا تھا،فروری 1946ء میں برطانوی کیبنٹ نے ایک وفد ہندوستان بھیجا جس کا مقصد یہاں کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنا تھا۔ اس کیبنٹ مشن پلان، 1946ء میں کرپس اور پیتھک لارنس بھی شامل تھے۔ اس اعلیٰ سطحی وفد نے مارچ میں دلی پہنچ کر مزاکرات میں موجود جمود ختم کرنے کی کوشش کی۔ ہندوستانی انتخابات کی وجہ سے پچھلے اکتوبر کے بعد سے کم ہی مذاکراتی عمل آگے بڑھ پایا تھا۔ برطانوی حکومت نے مئی میں ایک منصوبہ جاری کیا جس کے تحت متحدہ ہندوستان جس میں کئی خود مختار ریاستیں بھی شامل تھی، نیز انہوں نے مذہب کی بنیاد پر کچھ صوبوں کے گروپ کو بنانے کی بات کی۔ بعض معاملات جیسے دفاع خارجہ امور اور آمدورفت کو ایک مرکزی حکومت کی ذمہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ صوبوں کو یہ مرضی دی گئی کہ وہ کسی بھی ریاست سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں اور اس پلان میں کہا گیا کہ لیگ اور کانگریس کے نمائندوں سے ایک قائم مقام حکومت بنائی جائے۔ جناح اور ان کے ورکنگ کمیٹی کے رہنماؤں نے اس پلان کو جون میں قبول کر لیا، لیکن وہ اس سوال پراٹک گئے کہ قائم مقام حکومت میں لیگ اورکانگریس کے نمائندوں کی کیا تعداد ہوگی نیزوہ کانگریس کا فیصلہ کہ ان کے نمائندوں میں ایک مسلم بھی موجود ہوگا پر پریشان تھے۔ اس وفد نے برطانیہ روانگی سے قبل یہ بات بھی کہی کہ اگرایک جماعت اس فیصلہ پر راضی نا بھی ہوتو وہ ضرور ایک ہی جماعت سے قائم مقام حکومت بنائی گی۔کانگریس نے جلد ہی ہندوستانی وزارت میں شمولیت اختیار کر لی۔ البتہ لیگ نے اس معاملے میں سستی کا مظاہرہ کیا اور اکتوبر 1946ء سے پہلے وہ اس میں شامل نہ ہوئی۔ لیگ کی حکومت میں شامل ہونے کی رضامندی کے سبب جناح کو کانگریس سے برابری اور مسلم معاملات میں ویٹو کے مطالبے سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس نئی وزارت کی بنیاد مختلف فسادات خاص کر یوم راست اقدام کے منظر نامے میں رکھی گئی۔ کانگریس چاہتی تھی کہ وائسرائے قانونی اسمبلی کو سمن جاری کر کے قانون بنانے کا کہے نیز وہ محسوس کرتے تھے کہ لیگ کے وزراء کو اس معاملے میں ان کا ساتھ دینا چاہے یا مستعفی ہوجانا چاہئے۔ صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے وائسرائے نے جناح ،لیاقت ،نہرو کو دسمبر 1946ء میں لندن روانہ کیا۔ مذ ا کرات کے آخر میں یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ قانون کو ہندوستان کے کسی بھی علاقے کی منشا کے بغیر نافذ نہیں کیا جائے گا۔واپسی پر جناح اور لیاقت کئی دنوں کے لیے قاہرہ میں پان اسلامک اجلاس میں شرکت کے واسطے ٹھہر گئے۔ کانگریس نے کچھ معاملات کی وجہ سے ہونے والے اختلاف رائے پرلندن کے اس مذاکرات کی توثیق کردی۔ لیکن لیگ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور انہوں نے قانونی اجلاس میں شرکت نہ کی، جناح اسوقت ہندوستان سے کچھ تعلقات جیسے مشترکہ دفاع یا آمدورفت کے ساتھ رکھنے کا خیال رکھتے تھے۔ لیکن دسمبر 1946ء میں انہوں نے ایک خود مختار پاکستان پر زور دیا،لندن معاہدے کی ناکامی کے بعد، جناح کو مذاکرات کرنے کی کوئی جلدی نہ تھی وہ سمجھتے تھے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ غیر منقسم پنجاب اور بنگال کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن ان دولت مند، بڑے اور گنجان علاقوں کے بعض حصوں میں مسلم اقلیت میں تھے اور یہی ان کے خیال کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ تھےاٹیلی منسٹری نے اس دوران میں خواہش کی کہ وہ برطانیہ کے ہندوستان میں سے جلد انخلا کی خواہش رکھتے ہیں،لیکن ویول کی وجہ سے وہ کم حوصلہ مند تھے۔ دسمبر 1946ء کے ابتدا میں برطانیہ نے وائسرائے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور جلد ان کی جگہ لوئس ماؤنٹ بیٹن نے لے لی، جو ایک جنگی رہنما اور ملکہ وکٹوریہ کے پوتے ہونے کے سبب کونزرویٹو کے ہاں مقبولیت رکھتے تھے نیز وہ اپنی سیاسی نظریات کے سبب لیبر پارٹی میں بھی مقبول تھے۔20 فروری 1947ء کو اٹیلی نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے منتخب ہونے کا اعلان کیا،اور کہا کہ برطانیہ جون 1948 سے قبل ہندوستان کو طاقت منتقل کرنے کا عمل شروع نہیں کرے گا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 24 فروری 1947ء کو اپنے آمد کے دو دن بعد عہدے کا حلف اٹھایا۔ اسی دوران میں کانگریس تقسیم کے معاہدے پر غور کرنے لگی۔ نہرو نے 1960 میں کہا کہ ” ہم تھکے ماندے تھے اور وقت گزرتا جا رہا تھا ۔۔ تقسیم کا منصوبے ہی واحد راستہ فراہم کر رہا تھا لہذا ہم نے اسے اپنا لیا”کانگریس بجائے جدا جدا مسلم صوبوں کے پیچھے پڑے رہنے کے وفاق میں زیادہ باختیار اسمبلی کے لیے کوشش کرنا چاہتی تھی لیکن کانگریس نے فیصلہ کیا کہ اگر پاکستان آزاد ہو تو بنگال اور پنجاب کو تقسیم کیا جانا چاہئے۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے حکومتی بریفنگ میں جناح کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے انہیں سب سے “مشکل ترین گاہک” قرار دیا اوربقول ان کے “انہوں نے سب سے بڑی پرشانی کھڑی کر رکھی تھی” نیز وہ کہتے” اس ملک ہندوستان میں اب تک کوئی بھی جناح کے دماغ میں نہیں جھانک سکا تھا” ۔5 اپریل سے پہلے یہ لوگ چھ مرتبہ ملے۔ اس ملاقات میں موجود تناؤ کی کیفیت میں اس وقت کمی آئی جب جناح نے وائسرائے اور ان کی بیگم کے درمیان میں کھڑے ہوکر تصویر کھینچوائی اور ازراہِ مذاق کہا “دو کانٹوں کے درمیان میں ایک گلاب”۔ اگرچہ وائسرائے نے اپنی بیگم کو درمیان میں رکھنے کا فیصلہ کیا ۔لیکن جناح کے اس مذاق کو وہ اس سے قبل ہی بھانپ گئے تھے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن جناح سے مثبت طور پر متاثر نا تھے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے بھی مایوسی کا اظہا کیا تھا وہ جناح کے پاکستان پر کیے جانے والے اصرار پر بیزار ہو گئے تھے۔ جناح کو خوف تھا کہ برطانیہ ہندوستان میں اپنے آخری ایام میں اختیارات کو کانگریس کی طرف موڑ دے گی اور اس سے مسلمانوں کی خود مختاری کے مطالبے کو نقصان پہچے گا۔ جناح نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے برطانوی ہندی فوج کو آزادی سے قبل تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا جو ان کے خیال میں ایک سال تک وقت لے سکتی تھی۔ وائسرائے نے اس تقسیم کو آزادی کے بعد کرنے کا سوچا تھا لیکن جناح آذادی سے قبل اس کا اصرار کر رہے تھے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جناح سے ملاقات کے بعد لیاقت علی خان سے ملاقات کی اور جو نتائج اخذ کیے انہیں وزیر اعظم کے ارسال کیے۔ انہوں نے لکھا کہ” ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ فوج کی جانب رجوع کرے گی اگر پاکستان اپنے اصل حال میں آذادی حاصل نا کر پائی۔” وائسرائے اسمبلی کے رپورٹ پر منفی مسلم رد عمل سے بھی متاثر تھے جو مرکز ی اسمبلی کو زیادہ اختیارا تفویض کرنے کا کہہ رہے تھے2 جون کو، وائسرائے نے منتقی منصوبہ ہندوستانی رہنماؤں کے سامنے پیش کیا:15 اگست کو، حکومت برطانیہ دو ملکوں کو اختیارات منتقل کر دے گی۔ صوبائی اسمبلیوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ مرکزی اسمبلی کے ساتھ رہیں یا نئے کو اپنائے ،جو پاکستان مین شامل ہونا ہے۔ بنگال اور پنجاب بھی اس سوال پر ووٹ ڈالے گی کہ آیا اس کا موقف تقسیم پر اور کس اسمبلی میں شامل ہونے کا ہے۔ ایک سرحدی کمیشن دو ملکوں کی سرحد کا فیصلہ کرے گی۔ شمال مغربی صوبے اور آسام کے مسلم اکثریتی علاقے سلہٹ جو مشرقی بنگال متصل تھی میں بھی رائے دہی کی جائے گی (جس پر لیگ راضی نا تھی باوجود اکثریتی مسلم ہونے کہ)، 3 جون کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن، جواہر لعل نہرو، جناح اور سکھ رہنما بالدیو سنگھ نے ریڈیو پر رسمی طور پر اعلان کیا۔جناح نے اپنی تقریر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا جو انکی تحریرمیں شامل نہ تھا ۔ کچھ ہفتے پنجاب اور بنگال میں ووٹنگ ہوئی جس میں تقسیم کا فیصلہ ہوا جبکہ آسام کے علاقے سلہٹ اور صوبہ سرحد والوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ سنایا اور سندھ بلوچستان اسمبلیوں نے بھی پاکستان کے حق میں رائے دی۔
4 جولائی 1947ء کو لیاقت نے وائسرائے سے جناح کی جانب سے گزارش کی کہ وہ برطانوی بادشاہ جارج ششم سے جناح کو پاکستان کا گورنر جنرل بنانے کی سفارش کریں۔ اس سفارش نے وائسرائے کو سیخ پا کر دیا جو ان دونوں ملکوں میں بیک وقت یہ عہدہ رکھنا چاہتے تھے- وہ دونوں ملکوں کی آزادی پر انکا سب سے پہلا گورنر جنرل کہلانے کے خواہشمند تھے لیکن جناح کا خیال تھا کہ ان کے گورنر جنرل بننے کی صورت میں وہ نہرو کے قریب ہونے کے سبب ہندو اکثریت کا ساتھ دیں گے۔ مزید برآں گورنر جنرل کو ابتدائی طور پر طاقتور اختیارات کا مالک بنایا گیا تھا اور جناح اس بات سے متفق نا تھے کہ کوئی دوسرا اس دفتر کو سنبھالے۔ اگرچہ سر سیریل ریڈکلف نے اطلاع ارسال نہ کی، لیکن تقسیم سے قبل ہی بڑی تعداد میں ہجرت اور کئی علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ جناح نے بمبئی میں موجود اپنی کوٹھی بیچنے کا منصوبہ بنایا اور کراچی میں ایک اور خرید لی۔7 اگست کو جناح، انکی ہمشیرہ اور خاص ملازمین دلی سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے جہاز میں کراچی روانہ ہوئے اور جب کرائے کے اس جہاز نے اڑان بھرنا شروع کیا تو وہ کچھ سرگوشی میں کہہ رہے تھے “that is the end of that”(یہ اس کا انجام ہے) 11 اگست کو کراچی میں اسمبلی کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے خطاب کیا”آپ آزاد ہیں؛ آپ ریاست پاکستان میں آزاد ہیں کہ چاہیں تو اپنے مندر میں جائیں یا اپنے مسجد میں اور یا اپنے کسی دوسرے عبادت کے جگے میں۔۔۔ آپکا تعلق بھلے ہی کس مسلک یا عقیدے سے ہو ۔۔ اس سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے سامنے اس بات کو نظریہ سمجھ کر رکھنا چاہیے اور آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو اور مسلمان، مسلمان رہیں گے کیونکہ یہ ہر انفرادی بندے کا ذاتی عقیدہ ہے ،جبکہ سیاسی نظر میں وہ ریاست کے شہری ہیں”۔14 اگست کو پاکستان وجود میں آیا اور جناح نے کراچی میں خوشی منائی۔ مؤرخ لکھتا ہے”یہاں واقعی پاکستان کے بادشاہ، ہاتھ میں کتاب اٹھائے مولوی، اسپیکر اور وزیراعظم کھڑے ہیں جنکی توجہ ایک مضبوط قائد اعظم کی جانب ہے”۔ریڈکلف سرحدی کمیشن نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا کام مکمل کر کے رپورٹ 12 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھجوا دی۔ اس آخری وائسرائے نے یہ نقشے اور رپورٹ 17 اگست تک اپنے پاس رکھے، کیونکہ وہ انہیں سامنے لاکر دونوں قوموں کی آزادی کی جشن کو خراب کرنا نہیں چاہتے تھے۔ چونکہ پہلے ہی سے ہجرت اور فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ لہذا ریڈکلف سرحدی کمیشن رپورٹ کا سامنے لانا ان فسادات میں اضافے کا سبب بن سکتا تھا۔ جو لوگ “غلط حصے” میں تھے یا تو قتل ہوئے یا قاتل بنے یا وہاں سے کوچ کرگئے، وہ واقعات کو پیدا کر کے کمیشن کے فیصلے کو بدلنا چاہتے تھے۔ ریڈ کلف نے لکھا کہ چونکہ انھیں معلوم تھا کہ دونوں ہی طرف سے اس تقسیم پر لوگ خوش نہیں ہونگے لہذا انہوں نے اپنے کام کا معاوضہ لینے سے انکار کر دیاریڈکلف کے ذاتی مشیر بیومونٹ لکھتے ہیں کہ لارڈ ماونٹ بیٹن کو بھی اس الزام کو اپنے سر لینی چاہئے- اگرچہ تمام کو نہی- ان پانچ لاکھ سے دس لاکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کا جو پنجاب سے گزرتے ہوئے فنا ہوئے۔” تقسیم کے بعد 14500،000 لوگوں نے بھارت اور پاکستان میں ہجرت کی۔ جناح نے پاکستان میں داخل ہونے والے اسی لاکھ لوگوں کی آباد کاری کے لیے جو ممکن ہوا وہ کیا باوجود 70 کی عمر میں ہونے اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کے انہوں نے مغربی پاکستان میں مہاجر کیمپوں کا دورہ کیا۔بقول احمد کہ” جس چیز کی اس دور میں پاکستانیوں کو ضرورت تھی وہ ایک ریاست کی علامت تھی،جوانہیں متحد رکھتی اور کامیاب ہونے تک کا حوصلہ فراہم کرتی”
جناح کو صوبہ سرحد کی جانب سے کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1947ء میں کیے گئے رائے دہی میں وہاں کی آبادی میں سے صرف دس فیصد لوگوں نے ہی ووٹ ڈالے تھے۔ ۔ 22 اگست 1947ء کو گورنر جنرل بننے کے صرف دو ہفتے بعد ہی جناح نے ڈاکٹر خان عبدالغفار خان کی حکومت کو تحلیل کر دیابعد میں پشتون اکثریتی اس صوبے میں ایک کشمیری خان عبدالقیوم خان کواس مقام پر فائز کیا۔12 اگست 1948ء کو چارسدہ میں خدائی خدمتگار سے منسلک 400 بابرا واقعے میں ہلاک ہوئے۔
پاکستان نے عوامی املاک کو پاکستان اور بھارت کے مابین تقسیم کرنے والے کمیشن میں لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشترکو نمائندہ بنا کر بھیجا پاکستان نے ان سرکاری املاک میں سے چھٹا حصہ لینا تھا اور اس میں بڑی احتیاط سے کام لیا گیا تھا اور یہاں تک کہ یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ کس ملک نے کاغذوں میں کتنا حصہ لینا ہے۔ لیکن دوسری طرف نئی بھارتی حکومت سستی دکھا رہی تھی اور اس امید سے تھی کہ نوزائیدہ پاکستانی حکومت کب ٹوٹے اور دوبارہ بھارت میں شامل ہو۔ انڈین سول سروس اور انڈین پولیس سروس کے کچھ ہی لوگوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تھا لہذا پاکستان میں عملے کی کمی سامنے آئی۔ جبکہ کاشت کار جہاں اپنے اناج فروخت کرتے تھے وہ اب ایک عالمی سرحد میں تبدیل ہوچکی تھی۔ پاکستان میں اس وقت مشینری کی بھی کمی تھی۔ نئے آنے والے مہاجروں کے مسئلے کے ساتھ ،نئی حکومت نے خوراک کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی کام کرنا پڑا،ان حالات میں سیکیورٹی کا نظام بنالیا گیا اور جیسے تیسے بنیادی خدمات فراہم کی گئی۔ ماہر معاشیات یاسین نیاز محی الدین لکھتے ہیں،”اگرچہ پاکستان کو وجود بحرانوں اور خونریزی کے دوران ملی تھی لیکن تقسیم کے بعد اس کا وجود صرف اس کے لوگوں کی قربانیوں اور قائدین کی بے غرض کوششوں سے برقرار رہ سکی”۔
نوابی ریاستیں کو برطانیہ نے جاتے ہوئے یہ مرضی دے رکھی تھی کہ آیا وہ پاکستان میں شمولیت اختیار کریں یا بھارت میں۔ اکثر نے آزادی سے قبل ہی اپنی شمولیت ظاہر کردی تھی لیکن کچھ بڑی ریاستوں کا معاملہ لٹکا رہا۔ ہندو رہنما جناح سے اس بات پر خائف تھے کہ انہوں نے جودھ پور، ریاست بھوپال،اور اندور کی ریاستوں کے شہزادوں کو پاکستان میں شامل ہونے پر رضامند کر لیا تھاان ریاستوں کی سرحدیں پاکستان سے متصل نہ تھیں اور نہ انکی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھے۔ جوناگڑھ کی ریاست جو ہندو اکثریت تھی نے ستمبر 1947ء میں پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اس ریاست کے حکمران دیوان کی موجودگی میں سر شاہ نواز بھٹو نے شمولیت کے کاغذات جناح کے حوالے کیے۔ بھارتی فوجوں نے نومبر میں اس علاقے میں داخل ہوکر یہاں کے نواب اور سر شاہنواز بھٹو کو پاکستان جانے پر مجبور کیا اور انھی بھٹو سے پاکستان کے ایک طاقتور سیاسی خاندان بھٹو خاندان کی ابتدا ہوئ ۔
ان تمام تنازعوں میں ریاست جموں و کشمیر کا تنازع سب سے بڑا ہونے ہونے والا تھا۔ اس ریاست کی آبادی میں مسلمان اکثریت میں تھے جس پر ایک ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی اور انہوں نے اپنی شمولیت کا فیصلہ تعطل میں رکھا ہوا تھا۔ مقامی آبادی نے قبائلیوں کی مدد سے اکتوبر 1947ء میں بغاوت کھڑی کردی جسے دیکھتے ہوئے مہاراجہ نے بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جناح نے اس عمل کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستانی فوجوں کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ پاک فوج کے سربراہ اسوقت ایک برطانوی افسر جنرل سر ڈوگلاس گریسی تھے، جنھوں نے یہ حکم اس جملوں کو ادا کرتے ہوئے ماننے سے انکار کیا کہ وہ ایسے علاقوں میں داخل نہ ہونگے جب تک برطانیہ سے کوئی حکم نہ آئے اس پر جناح نے اپنے احکامات واپس لے لیے۔
کچھ مورخین جناح پر جوناگڑھ جیسی ہندو اکثریتی علاقوں کو حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے بدنیتی کا الزام دھرتے ہیں کیونکہ جناح نے مسلک کی بنیاد پر تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔پٹیل اے لائف میں راج موہن گاندھی لکھتے ہیں کہ “جناح نے جوناگڑھ میں عوامی استصواب رائے معلوم کروانی تھی جس میں انھیں یقینی شکست تھی لہذ ا وہ اسی بنیاد پر بعد میں کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ کرنا چاہتے تھے”ا قوام متحدہ کی 47 ویں قرارداد جو بھارت کی استصواب رائے کی خواہش پر منظور کی گئی لیکن اس پر کبھی عمل نا ہو سکا
جنوری 1947ء میں بھارت نے پاکستان کو برطانوی وراثت میں حصہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان پر ذور گاندھی نے ڈالا تھا جنھوں نے تادم مرگ روزہ رکھنے کی دھمکی دی تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد گاندھی کو قتل کر دیا گیا انکے قاتل ناتھورام گودسے تھے جو ایک ہندو قوم پرست تھے اور ان کے خیال میں گاندھی ایک مسلم حمایتی تھے۔ جناح نے اپنے تعزیتی پیغام میں گاندھی کے بارے میں کہا” ہندو مسلک میں پیدا ہونے والے عظیم اشخاص میں سے ایک”
فروری 1948 میں امریکی عوام کو ریڈیو کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے جناح نے کہا:” پاکستانی قانون کو ابھی پاکستانی اسمبلی نے بنانا ہے، مجھے یہ بات معلوم نہی کہ قانون کی اصل وضع کیا ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک جمہوری قسم کی ہو گی،جس میں اسلام کے بنیادی اصول بھی شامل کئے جائیں گے۔ آج بھی یہ قانون ایسے ہی قابل عمل ہیں جیسے کہ وہ 13 سو سال قبل تھے۔اسلام اوراسکے نظرئے نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ یہ ہمیں آدمی،انصاف کے مساوات اور دوسروں سے اچھائی کا درس دیتی ہے۔ہم ان اقدار کے وارثین ہیں اور مستقبل کے پاکستانی قانون کو بنانے کی مکمل ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں۔
مارچ میں جناح نے باوجود اپنی طبیعت کے خراب ہونے کہ مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ جناح نے انگریزی میں تین لاکھ لوگوں سے خطاب میں کہا، اردو پاکستان کی واحد قومی زبان ہوگی،اور وہ یقین رکھتے تھے کہ ایسا کرنے سے قوم متحد رہ پائے گی۔ لیکن مشرقی پاکستان کے بنگالی زبان بولنے والے لوگوں نے بعد میں اس کی سخت مخالفت کی اور اس معاملے نے 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا
قیام پاکستان کے بعد پاکستانی نوٹوں پر جارج پنجم کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ یہ نوٹ 30 جون 1949ء تک استعمال میں رہے۔ لیکن اپریل 1949ء کو ان نوٹوں پر حکومت پاکستان کے سٹیمپ ثبت کیے گئے اور انھیں قانونی اجازت فراہم کی گئی۔ اسی دن پاکستان کے وزیر خزانہ پاکستان ملک غلام محمد نے سات سکوں کا سیٹ گورنمنٹ ہاوس میں جناح کے سامنے متعارف کروایا یہ سکے حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے پہلے سکے تھے۔

قائد اعظم بیماری اور وفات

1930ء سے جناح تپ دق کے شکار چلے آ رہے تھے اور یہ بات صرف ان کی بہن اور چند دیگر ساتھیوں کو معلوم تھی۔ جناح نے اس کا اعلان عوام میں نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ انہیں سیاسی طور پر نقصان دے سکتی تھی۔ 1938ء میں اپنے ایک حامی کو خط میں وہ لکھتے ہیں”تم نے اخبار میں میرے دوروں کے بارے میں پڑھا ہوگا۔۔ میں اپنی خرابی صحت کی وجہ سے اپنے دوروں میں بے قاعدگیوں کا شکار تھا جس کی وجہ میری خراب صحت تھی”کئی سال بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا کہ اگر انہیں جناح کی خرابی صحت کا معلوم ہوتا تو یقینا وہ انکی موت تک انتظار کرتے اور اس طرح تقسیم سے بچا جاسکتا تھا، فاطمہ جناح بعد میں لکھتی ہیں کہ،” جناح اپنے کامیابیوں کے دور میں بھی سخت بیمار تھے۔۔ وہ جنون کی حد تک پاکستان کو سہارا دینے کے لیے کام کرتے رہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے اپنی صحت کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا”۔ جناح اپنے میز پر کراؤن اے سگریٹ اور کیوبا کا سگار رکھتے تھے اور پچھلے تیس سال میں انہوں نے سگریٹ نوشی بہت زیادہ کردی تھی۔ گورنمنٹ ہاوس کراچی کے پرائیویٹ حصے میں وہ لمبے وقفے آرام کے واسطے لینے لگے تھے اور فاطمہ جناح اور ذاتی عملے کو ہی ان کے قریب رہنے کی اجازت تھی
جون 1948ء میں وہ اور فاطمہ جناح کوئٹہ روانہ ہوئے جہاں کی ہوا کراچی کے مقابل سرد تھی۔ وہاں بھی انہوں نے مکمل آرام نا کیا بلکہ انہوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے آفسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا “آپ دیگر افواج کے ساتھ پاکستان کے لوگوں کی جانوں، املاک اور عزت کے محافظ ہیں”۔ وہ یکم جولائی کو کراچی روانہ ہوئے جہاں انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جلسے سے خطاب کیا،اسی شام کینیڈا کے تجارتی کمیشن کی جانب سے آذادی کے حوالے سے منعقد تقریب میں شرکت کی جو انکا آخری عوامی جلسہ ثابت ہوا۔
6 جولائی 1948ء کو جناح واپس کوئٹہ روانہ ہوئے اور ڈاکٹروں کے مشورے پر آپ مزید اونچے مقام زیارت منتقل ہوئے۔ اس دوران میں جناح کا مسلسل طبی معائنہ کیا گیا اور حکومت پاکستان نے بہترین ڈاکٹروں کو ان کے علاج کے لیے روانہ کیا۔ مختلف ٹیسٹ ہوئے جنہوں نے ٹی بی کی موجودگی اور پھیپھڑوں کے سرطان کا بتایا۔ جناح کو ان کی صحت بابت بتایا گیا اور انھیں ڈاکٹروں کو اپنی حالت کے حوالے سے آگاہ رکھنے کا کہا گیا فاطمہ جناح کو بھی انکا خیال رکھنے کا کہا گیا۔ انھیں اس دور کے نئے ” دوائی “سٹریپٹو مائیسن” دی گئی لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا۔ لوگوں کی نماز عید میں انکے لیے کی گئی خصوصی دعاؤں کے باوجود انکی صحت برابر گرتی رہی۔ انہیں آزادی سے ایک دن قبل 13 اگست کو کوئٹہ لایا گیا انہوں نے اس دن کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا۔ ان کا اسوقت وزن گر کر محض 36 کلو رہ گیا تھا ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ اگر اس حالت میں انہیں کراچی زندہ حالت میں لے جایا گیا تو تب بھی وہ کم عرصہ ہی زندہ رہ پائیں گے۔ لیکن جناح کراچی جانے پر تذبذب کا شکار تھے ،وہ نہی چاہتے تھے کہ ان کے معالج انہیں بے کار اسٹریچر پر بیٹھا معذ ور خیال کریں
9 ستمبر کو جناح کو نمونیہ نے آگھیرا۔ ڈاکٹروں نے انہیں کراچی کا مشورہ دیاجہاں وہ بہتر علاج کروا سکتے تھے اور ان کی رضامندی پر وہ 11 ستمبر کو کراچی روا نہ ہوئے۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر الہٰی بخش کا اندازہ تھا کہ جناح کی کراچی جانے کی رضامندی انہیں اپنے زندگی سے مایوس ہونے کی وجہ سے تھی۔ جب اس طیارے نے کراچی میں لینڈنگ کی تو فوراً جناح کو ایک ایمبولیس میں لٹایا گیا۔ لیکن یہ ایمبولینس راستے میں خراب ہو گئی تب تک جناح اور ان کے رفقاءمتبادل ایمبولینس کا انتظار کرتے رہے، انہیں کار میں بھٹایا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ وہ سیدھے بیٹھنے کی حالت میں نہ تھے۔ وہ لوگ وہاں انتظار کرتے رہے اور ان کے سامنے سے گاڑیاں اور ٹرکیں گزرتی رہی جنہیں اس قریب المرگ شخص کی پہچانا نہ تھا ۔ ایک گھنٹے کی انتظار کے بعد ایک ایمبولینس پہنچی اور جناح کو سرکاری گھر میں منتقل کیا گیا۔ جناح صبح کے 10:20 منٹ پر اپنے کراچی گھر میں 11 ستمبر 1948ء کو پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد انتقال کر گئے۔
بھارتی وزیر اعظم نہرو نے جناح کی وفات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،”ہمیں انہیں کیسے پرکھنا چاہئے؟ میں پچھلے کئی سالوں کے دوران میں ان پر سخت غصہ رہا تھا۔ لیکن اب میرے خیالوں میں ان کے لیے کوئی کڑواہٹ باقی نہی رہی،لیکن جو کچھ ہونے پر بڑی ندامت کے سوا۔۔ وہ اپنے مطالبے کو حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرا، لیکن کس قیمت پر اور کس اختلاف سے جو کچھ اس نے سوچا تھا”
جناح کو 12 ستمبر 1948ء کو دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان میں سرکاری سوگ کے درمیان میں دفنا دیا گیا۔ ان کے جنازے پر لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ بھارت کے گورنر جنرل راجہ گوپال اچاری نے اس دن ایک سرکاری تقریب کو اس مرحوم قائد کے اعزاز میں منسوخ کیا۔ آج جناح کراچی میں سنگ مرمر کے ایک مقبرے مزار قائد میں آسودہ خاک ہیں جناح کی بیٹی دینا واڈیہ آزادی کے بعد میں نیویارک مستقل طور پر منتقل ہونے سے قبل بھارت میں قیام پزیر رہیں۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں مادر ملت فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مخالف جماعتوں کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ کیا لیکن کامیابی حاصل نا کر پائی
مالابار پہاڑی بمبئی میں موجود جناح کا مکان آج بھارتی حکومت کے انتظام میں ہے لیکن اس کی ملکیت کے بارے میں پاکستان اور بھارت تنازع کا شکار ہیں۔جناح نے وزیراعظم نہرو سے درخواست کی تھی کہ وہ اس مکان کو حکومتی تحفظ دیں اس امید پر کہ جناح ایک دن ممبئی جائیں گے۔ اس عمارت کو پاکستانی قونصل خانے میں بدلنے کی تجاویز بھی گردش کرتی رہی ہیں، لیکن دینا واڈیہ نے بھی اس پر حق ملکیت کا دعوٰی کا ہےجناح کی وفات کے بعد فاطمہ جناح نے جناح کے قانونی کاروائیوں کو شیعہ فقہ کے مطابق مکمل کرنے کا کہا، اس عمل سے جناح کے مسلک کے بارے میں پاکستان میں بحث چھڑی۔ ولی نثر کہتے ہیں” جناح اگرچہ پیدائشی اسماعیلی (شیعہ) اور اعترافاََ بارہ امامی (شیعہ) تھے، لیکن وہ مذہب پر ظاہراََ نہیں چلتے تھے، 1970ء میں حسنین علی گنجی ولجی نے قانونی دعویٰ کیا کہ جناح نے سنی مسلک اختیار کر لیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے اسے مسترد کرتے ہوئے 1976ء میں جناح کے خاندان کے شیعہ مسلک پر ہونے کا فیصلہ دیا۔معروف صحافی خالد احمد کے نزدیک جناح فرقہ پرستی کے مخالف تھے اور “جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بنیادی اسلامی تشخص پر لانے کے لیے تکالیف اٹھائی “

جناح کی وراثت پاکستان ہے۔ محی الدین کے بقول “پاکستان میں جناح کا احترام و اہمیت ویسی ہی رہے گی جیسے امریکہ میں جارج واشنگٹن کی “پاکستان اپنے وجود کا حق انکے پرکھنے، چلانے اور استحکام کی وجہ سے رکھ پایا۔۔۔ قیام پاکستان میں جناح کی اہمیت ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے اوراسے ناپنا ممکن نہیں۔”

اسٹینلی وولپرٹ نے 1998ء میں انکے اعزاز میں تقریر کرتے ہوئے انھیں پاکستان کا سب سے عظیم قائد قرار دیا۔

بقول سنگھ” جناح کے وفات سے پاکستان نے اپنے صبح گنو ا دئے۔ جیسے بھارت میں گاندھی آسانی سے پیدا نہی ہوسکتا ،اسی طرح نا پاکستان میں کوئی جناح” ملک لکھتے ہیں “جناح جب تک زندہ تھے، وہ علاقائی رہنماوں کو مشترکہ تجارت پر متفق اور حتیٰ کہ مجبور بھی کر سکتے تھے،لیکن انکے انتقال کے بعد، اتفاق رائے نا ہونے کے سبب سیاسی طاقت اور معاشی ذرائع تنازع کی جانب مڑ گئیں”۔ محی الدین کے نزدیک،” جناح کی وفات سے پاکستان ایک ایسے رہنما سے محروم ہوا جو توازن اور جمہوری حکومت کو برقرار رکھ سکتا تھا۔۔ پاکستان کی پتھریلی اور اس کے مقابل بھارت کی قدرے ہموار جمہوری سٹرک کے فرق کو اس نہایت قابل احترام اور کرپشن سے پاک قائد کو آزادی کے بعد بہت جلدی کھونے سے منسوب کیا جاسکتا ہے”۔

جناح کی تصویر تمام پاکستانی کرنسیوں پر موجود ہے اور انکے نام پر کئی سرکاری ادارے ہیں۔ کراچی کا پرانا ہوائی اڈا قائد اعظم انٹرنیشنل ائیر پورٹ اب جناح عالمی ہوئی اڈا کہلاتا ہے، جو پاکستان کا سب سے مصروف ہوائی اڈا ہے۔ ترکی کا سب سے بڑا شاہراہ شارع جناح کے نام سے موسوم ہے، جبکہ تہران میں ایک سڑک کا نام محمد علی جناح ایکسپریس وے رکھا گیا ہے۔ 1976ء میں ایران کی شاہی حکومت نے جناح کی تاریخ پیدائش پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا۔ امریکی شہر شکاگو میں دیون ایوینیوں کا ایک حصہ “محمد علی جناح” سے منسوب ہے۔ مزار قائد کراچی کا ایک مشہور عوامی مقام ہے۔”جناح مینار” گنٹور اندھراپردیش میں جناح کی یاد میں تعمیر کیا گیا،

پاکستان میں جناح پر تحقیق کرنے والے عالموں کی کمی نہیں ہے اکبر۔ ایس۔ احمد کے نزدیک مقامی لکھاریوں کا کام بیرون ملک زیادہ مقبولیت نہیں رکھتا کیونکہ انکے کاموں میں جناح پر بہت کم تنقید کی جاتی ہے احمد کے نزدیک بیرون ملک کتابوں میں کہا جاتا ہے کہ جناح شراب نوشی کرتے تھے جبکہ پاکستان میں اس بات کو کتابوں سے حزف کر دیا گیا ہے۔ احمد کے نزدیک شراب نوشی کے قصے کو سامنے لانے سے جناح کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچے گا،لیکن جو لوگ اس پر بات بھی کرتے ہیں تو ان کے نزدیک جناح نے عمر کے آخری حصے میں اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
مورخ عائشہ جلال کے نزدیک پاکستان میں جناح کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے جبکہ بھارت میں انھیں منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ احمد کے نزدیک “بھارت کی نئی تاریخ میں جناح بدنام ترین شخصیت ہیں”۔۔ بھارت میں بہت سے لوگ انھیں زمین تقسیم کرنے والے بھوت کے طور پر دیکھتے ہیں”حتیٰ کہ بہت سے بھارتی اقلیتی مسلم انھیں اپنے رنج الم کا سبب سمجھتے ہیں۔کچھ لکھاریوں جلال، ایچ ایم سروائی اور جسونت سنگھ کے نزدیک جناح کبھی بھی تقسیم کے حامی نا تھے- یہ کانگریسی رہنماوں کی ضد تھی جو وہ مسلمانوں کے ساتھ اختیارات کی شراکت پر راضی نا تھے۔ انکے نزدیک جناح کی جانب سے مطالبہ پاکستان صرف مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ سیاسی حقوق دلانے کی خاطر تھا۔بھارتی قوم پرست رہنما لال کرشن اڈوانی نے جناح کی توصیف بھی کی جس کی وجہ سے انکی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں کافی ہلچل ہوئی۔

مغرب کے لوگ جناح کے بارے میں کسی حد تک 1982ء کے فلم گاندھی میں موجود انکے کردار سر رچرڈ اٹنبورو سے بھی متاثر ہیں۔ اس فلم کو نہرو اور ماونٹ بیٹن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس فلم کی حمایت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے بھی کی تھی۔ اس فلم میں جناح کا کردار ( جسے لکھا الائق پدسی نے ہے) ایک ایسے شخص کا دکھایا گیا ہے جو گاندھی سے حسد کا شکار نظر آتا ہے۔ پدمسی نے بعد میں اقرار کیا کہ جناح کے کردار کو تاریخی تناظر میں درست نہی دکھایا گیا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل پر لکھے گئے ایک مضمون میں تاریخ دان آر جے موری، لکھتا ہے قیام پاکستان میں جناح کا مرکزی کردار کائناتی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ ولپرٹ دنیا پر جناح کے اثر کو مختصراََ لکھتے ہیں:

” کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیتے ہیں۔جبکہ ان میں سے بھی کچھ دنیا کے نقشے میں ترمیم کرتے ہیں۔ان میں بہت ہی کم لوگ نئی قومیت پر ملک تعمیر کرنے کا سہرا سر پرسجاتے ہیں۔اور جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے ہیں۔ “
ایک تحقیق جناح میں یوسف لکھتے ہیں کہ جناح کی طرز رہنمائی انکی سیاست کے بعد اور آزادی کے بعد بھی تمام ہندوستانی مسلمانوں کے واحد نمائندے کے طور پر رہی……

…….دھشت گردی کی نئی لہر،چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سبوتاز کرنے کی بھیانک سازش …… اصغر علی مبارک کا کالم ”اندر کی بات ”

Posted on

….دھشت گردی کی نئی لہر،چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سبوتاز کرنے کی بھیانک سازش ……
اصغر علی مبارک کا کالم ”اندر کی بات ”
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دشمن، پاکستان کے دشمن ہیں. سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا اہم منصوبہ ہے.پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کو منصوبے کو سبوتاز کرنے کیلئے دشمن نے اس بار کراچی میں چینی قونصل خانے کا انتخاب کیا دھشت گردی کی نئی لہر قومی منصوبہ جات کو سبوتاز کرنے کی سازش ھےچینی قونصل خانے پر حملہ ملک دشمن عناصر کی بھیانک سازش ھے جسے ناکام بنانے میں قانون نافذکرنے والے اداروں نے اہم کردار ادا کیاعلاوہ ازیں دہشتگردوں نے اپنے ناپاک عزائم کے لیے ہنگو میں بے گناہ لو گوں کو نشانہ بنایا جس میں تیس سے زیادہ معصوم شہری شہید هوے اس میں کوئی شک نہیں کہ ھزاروں پاکستانیوں کی قربانیوں کے باوجود ہمارے حوصلے بلند ہیں اور دفاعی ادارے دہشتگری کے خاتمے کے لیے کوشاں نظر ہیں،دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں سے کبھی بھی ہمارے حوصلے پست نہیں ہوے اور ہم پہلے سے زیادہ جذبہ کے ساتھ میدان عمل میں نظر آتے ھیں دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے اور انشاء اللہ دہشتگردی کے اس ناسور کا قلع قمع کر کے دم لیں گےتاھم ضرورت اس امر کی ھے کا قومی سلامتی کیلئے قائم ادارے نیکٹا کو فعال و متحرک کیا جاۓ چین پاکستان اقتصادی راہداری 46 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے جس پر کام تیزی سے جاری ہے۔پاکستان کو اگلے بیس سال میں 100بلین ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہوں گے۔پاکستان کے بیرونی اور اندرونی دشمن سی پیک کو متاثر کرنے اور پاکستان اور چین کے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرنے کے درپے ہیں پاکستان کواس منصوبے کے حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ سی پیک منصوبہ پاکستان میں سکیورٹی کے دیگر اقدامات کے علاوہ بلوچستان کے ان علاقوں میں فضائی نگرانی بھی کی جاتی ھے اطلاعات ھیں بلوچستان میں علیحد گی پسند ایک بھارت نواز جماعت ملوث ہونے کے شوا ھد ملے ھیں بلوچستان میں کنٹینر خیبر پختونخوا سے متصل ضلع ژوب سے داخل ہوکر مجوزہ مغربی روٹ کے علاقوں کوئٹہ ، قلات، سوراب ، پنجگور اور کیچ سے ہوتے ہوئے گوادر پہنچتے ھیں ۔چینی کنٹینروں سے سامان لایا گیا سامان گوادر سے بذریعہ بحری جہاز مشرقی وسطیٰ اور افریقی ممالک کو بھجوایا جاتا ھے سی پیک پر انڈیا کواعتراض رہا ہے انڈین وزیرِ خارجہ نے اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات میں اقتصادی راہداری منصوبے میں تحفظات کا اظہار کیا تھاواضح رھے کہ پاکستان کے سدرن کمانڈر لیفٹننٹ جنرل عامر ریاض نےکوئٹہ کی ایک تقریب میں دوران خطاب میں انڈیا کو پیشکش کی تھی کہ وہ ایران اور افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک کی طرح سی پیک میں شامل ہو اور دشمنی ختم کرے۔۔سی پیک منصوبے سے نہ صرف دونوں ملکوں میں معاشی اور سماجی ترقی ہو گی بلکہ اس کا علاقائی تعلقات، امن، استحکام اور خوشحالی میں بھی کردار ہوگا۔سی پیک منصوبہ ستمبر میں ایران نے شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ھے پاک چین اقتصادی راہداری باہمی تعلقات کے فریم ورک کی بنیاد ہے جو مختلف شعبوں میں دوطرفہ طور پر طویل المدتی تعاون اور ترقی پر مرکوز ہے۔کراچی میں چائنہ کونسل خانہ اور لوئر اورکزئی (کلایہ) پر حملہ کرنے والے ایک ہی مائنڈسیٹ کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ انڈیا افغانستان گٹھ جوڑ خطے کی امن کے لئے خطرناک ہیں۔دشمن ملک میں دہشتگردی کے ذریعے سی پیک منصوبے میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتاہے۔دہشتگرد و ں کیخلاف فیصلہ کن اقدامات ناگزیر ہو چکا ہےکیوں کہ ملک میں جب تک دہشتگردوں کے سیاسی سرپرست آزاد ہیں اس ناسور سے نجات ملنا ممکن نہیں،۔پاکستان میں اس منصوبے سے معاشی انقلاب برپا ھوگاحالیہ دورہ چین میں وزیر اعظم عمران خان پاکستان دنیا کی عظیم معاشی قوت چین سے معاشی معاہدے کرکے آے ھیں جو پاکستان دشمن قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور حالیہ دھشت گردی کی کاروائیاں اسکا ثبوت ھیں قوم افواج پاکستان اور سیکورٹی ادروں کی پشت پر ھے قوم کو متحد ھوکر دشمن کو دندان شکن جواب دینا ہوگا تاکہ پاک چین اقتصادی راہداریمنصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے جس سے پاکستان کو بےحد معاشی فائدہ ہوگا اور پاکستان میں عوام خوشحال ہوگی جس کا خواب حضرت قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا پاک چین اقتصادی راہداری سے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ھے پاکستان کو ملائشیا کی طرح اس معاملے کو ہینڈل نہیں کرنا چاہتا۔ ملائشیا نے چین کے تعاون سے جاری پائپ لائن پروجیکٹ بند کردیئے ھیں اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شامل ریل لنک معاہدے پر نظر ثانی کررہا ہے۔
واضح رھے کہ سال2018 کراچی،گوادر کیلئے اہم ترین سال قرار دیا جا چکا ھے حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے سی پیک منصوبوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک 9 رکنی کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کا چیئرمین وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کو مقرر کیا گیا ، کمیٹی میں وزیر خارجہ، وزیر قانون اور انصاف، وزیر خزانہ، وزیر پیٹرولیم، وزیر ریلوے، وزیر مملکت برائے داخلہ اور مشیر برائے تجارت و ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار و سرمایہ کاری شامل ہیں۔
چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ اور جی ڈی پی 12کھرب ڈالر ہے جو جاپان، روس، بھارت اور برازیل کی مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ عالمی رینکنگ میں چین امریکہ (19کھرب) کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ چین نے 1970ءکی دہائی میں ڈینگ زیاﺅ پینگ کی عظیم قیادت میں جو ترقی کی اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 1978ءسے 2018ءتک (40سال)کے دوران چین کی جی ڈی پی (گروتھ) کی شرح 10فیصد رہی۔ چین کے لیڈروں نے 800ملین افراد کو خط غربت سے باہر نکال کردنیا کو حیران کردیا۔ حیران کن معاشی ترقی کے باوجود چین کو چیلنج بھی درپیش ہیں۔ دیکھا جاۓ تو چین کی کامیابی کا راز سیاسی معاشی استحکام، پالیسیوں کا تسلسل، پرامن انتقال اقتدار، گڈ گورنینس، کرپٹ عناصر کا کڑا اور بے رحم احتساب، نظم و ضبط اور سستی لیبر میں نظر ہے۔ چین کے سفارت خانے نقومی جذبے سے سرشار ہیں۔ سفارتی اہلکاروں کا انتخاب میرٹ پر کیا جاتا ہے جو دنیا کے مختلف ممالک کو چین میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔چین دوسرے ملکوں کے ساتھ تنازعات کے باوجود تجارتی تعلقات بحال رکھتا ہے۔ چین کی بھارت کے ساتھ تجارت 85بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ ہے۔ گروتھ ریٹ تاریخی اعتبار سے 5فیصد سے کم رہا ہے۔ پاکستان کے لیڈر اور بزنس مین عالمی اور علاقائی ملکوں سے تجارت بڑھانے اور برآمدات میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان کو 1947ءسے 2018ءتک جنگوں کا سامنا رہا۔ 1948، 1965، 1971، افغان وار اور دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ جو ہنوز جاری ہے۔ موجودہ حکومت پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیداکرنے کیلئے کوشاں ھے ۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتیں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے متحد ہونے کی کوششیں کرتی رہتی ھیں ماضی میں اسی بناءپر کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکااور پالیسیوں کا تسلسل نہ رہا۔ گڈ گورننس نہ ہونے سے مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستان کی معدنیات ترقی اور روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہیں۔ جیو سٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سے مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کو سی پیک سے پورا فائدہ اُٹھانے کے لیے مواقع میسر ھیں۔بیلٹ اینڈ روڈ پلان (2017) چین کے صدر شی جن پنگ کا عظیم خواب ہے جو دنیا کے 69ممالک تک پھیلا ہوا ہےاور سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ پلان کا اہم جز ہے جس کا موجودہ حجم 45بلین ڈالر ہے۔ انفراسٹرکچر، انرجی اور گوادر سی پورٹ سی پیک کے کلیدی منصوبے ہیں۔ ایشیا کو انفراسٹرکچر کے لیے 900ملین ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے جو چین پوری کرسکتا ہے پاکستان عمران خان نے چینی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین تعلقات کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہوسکتی. وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چینی قونصل خانےکراچی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیاہےجاری کردہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ حملے کے پیچھے موجود عناصر اور محرکات کو فوری بے نقاب کیاجانا چاہیے.وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ یہ حملہ پاک چین معاشی اور اسٹریٹیجک تعاون کے خلاف سازش ہے، لیکن اس طرح کے واقعات دونوں ملکوں کے تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتے. وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ پولیس اور رینجرز نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعدی کے ساتھ دہشت گرد حملہ ناکام بنایا جس پر پوری قوم کو فخر ہے. وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحریہ عرب سے گہری ہے، پاکستان اور چین کے معاشی، اسٹریٹیجک تعلقات کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہوسکتی. ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چینی قونصل خانے پر حملے سے متعلق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ 21چینی کراچی کے قونصل خانے میں موجود تھے جو تمام محفوظ ہیں، تینوں حملہ آور مارے گئے ہیں. حملہ آور کون تھے بخوبی واقف ہیں ،شاہ محمود قریشی نے کراچی میں آج صبح ہونے والے چینی قونصل خانے پر حملے کے متعلق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ دہشت گردوں کا یہ بزدلانہ عمل تھا،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سندھ پولیس اور رینجرز بروقت پہنچی اور انہوں نے فوری کارروائی کی،چینی عملہ محفوظ ہے، معاملہ کنٹرول میں ہے، علاقے کو کلیئر کر دیا گیا. شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حملے کے متعلق چینی سفیر و قونصل جنرل سے بات ہوئی ہے، چینی سفیر پاکستان کی کارروائی سے مطمئن ہیں. وزیر خارجہ نے کہا کہ کراچی میں چین کے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے متعلق چینی وزیر خارجہ سے بھی رابطہ کیا ھے .دوسری جانب دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے ردعمل میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے صورت حال پر مکمل قابو پا لیا ہے. ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ حملے کے واقعے میں تمام قونصل خانے کا تمام چینی عملہ محفوظ ہے. واضح رہے کہ آج صبح کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گروں کے حملے کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار شہید اور ایک سیکورٹی گارڈ شدید زخمی ہوا ہے.پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں 3دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جن کے قبضے سے خود کش جیکٹس، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے. دہشت گردوں نے جمعہ صبح سوا نو بجے کے قریب کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا، حملہ آور سفید کار چینی قونصلیٹ کے قریب پہنچے اور قونصل خانے کے دروازے پر تعینات پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا.بہادراہلکاروں نے مقابلہ کیا جس پر دہشت گردوں نے دستی بموں سے حملہ کردیا، جس میں دو اہلکار شہید ہوگئے، جس کے بعد دہشت گرد قونصل خانے کے احاطے میں داخل ہوئے اور ویزا سیکشن کی طرف بڑھنے کی کوشش کی، یہاں بھی اہلکار موجود تھا، جس نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا. فورسز کے فوری ایکشن کی وجہ سے دہشت گرد احاطے ہی میں محصور رہے اور عمارت کے اندر داخل نہیں ہوسکے ، کارروائی کے دوران تین دہشت گرد باہراحاطے ہی میں مارے گئے، جن سے بھاری اسلحہ اور خود کش جیکٹ برآمد ہوئے.وفاقی ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ پولیس اور رینجرز نے قونصل خانے میں موجود دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا جس کے نتیجے میں ایک دہشتگرد ہلاک ہو گیا ۔
جبکہ پولیس حکام کی جانب سے جاری بیان میں دو دہشتگردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی گئی۔ ڈی آئی جی ساؤتھ نے بتایا کہ دہشتگرد کے قبضے سے اسلحہ اور خود کُش جیکٹ بھی برآمد ہوئی جسے ناکارہ بنانے کے لیے بم ڈسپوزل اسکواڈ کو چینی قونصل خانے طلب کر لیا گیا ہے۔
، ایس ایس پی پیر محمد شاہ نے بتایا کہ کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشتگردوں نے حملہ کیا۔چین کے قونصل خانے کے قریب دہشتگردوں نے سکیورٹی گارڈز پر حملہ کیا جس پر پولیس کی بھاری نفری کو چینی قونصل خانے طلب کر لیا گیا ۔ عینی شاہدین کے مطابق دونوں اطراف سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ قونصل خانے کی عمارت سے دھواں اُٹھتا ہوا بھی دیکھا گیا۔قونصل خانے کے اندر سے دو دستی بم بھی پھینکے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہشتگردوں کے حملے کے بعد چینی سفارتخانے کو جانے والی ٹریفک کو روک دیا گیا ہے ذرائع کے مطابق چینی قونصل خانے کے پاس سے ایک مشکوک گاڑی بھی برآمد ہوئی ہے جس کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دہشتگرد اسی گاڑی میں سوار ہو کر آئے۔۔چینی قونصل خانے پر دہشتگرد حملے کے بعد ملک بھر میں موجود قونصل خانوں کی سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے..

چینی قونصل خانے پر حملہ ؛ اسٹریٹیجک تعاون کے خلاف سازش ہے. وزیراعظم عمران خان،قونصل خانے کا عملہ محفوظ ہے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل،سیکورٹی اداروں نے بڑی سازش سے بچا لیا. وفاقی وزیراطلاعات، تینوں حملہ آور مارے گئے ہیں. وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ..

Posted on

چینی قونصل خانے پر حملہ ؛ اسٹریٹیجک تعاون کے خلاف سازش ہے. وزیراعظم عمران خان،قونصل خانے کا عملہ محفوظ ہے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل،سیکورٹی اداروں نے بڑی سازش سے بچا لیا. وفاقی وزیراطلاعات، تینوں حملہ آور مارے گئے ہیں. وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
..
اسلام آباد( خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے….) وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چینی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین تعلقات کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہوسکتی. وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چینی قونصل خانےکراچی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیاہےجاری کردہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ حملے کے پیچھے موجود عناصر اور محرکات کو فوری بے نقاب کیاجانا چاہیے.وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ یہ حملہ پاک چین معاشی اور اسٹریٹیجک تعاون کے خلاف سازش ہے، لیکن اس طرح کے واقعات دونوں ملکوں کے تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتے. وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ پولیس اور رینجرز نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعدی کے ساتھ دہشت گرد حملہ ناکام بنایا جس پر پوری قوم کو فخر ہے. وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحریہ عرب سے گہری ہے، پاکستان اور چین کے معاشی، اسٹریٹیجک تعلقات کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہوسکتی. ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چینی قونصل خانے پر حملے سے متعلق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ 21چینی کراچی کے قونصل خانے میں موجود تھے جو تمام محفوظ ہیں، تینوں حملہ آور مارے گئے ہیں. حملہ آور کون تھے بخوبی واقف ہیں ،شاہ محمود قریشی نے کراچی میں آج صبح ہونے والے چینی قونصل خانے پر حملے کے متعلق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ دہشت گردوں کا یہ بزدلانہ عمل تھا،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سندھ پولیس اور رینجرز بروقت پہنچی اور انہوں نے فوری کارروائی کی،چینی عملہ محفوظ ہے، معاملہ کنٹرول میں ہے، علاقے کو کلیئر کر دیا گیا. شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حملے کے متعلق چینی سفیر و قونصل جنرل سے بات ہوئی ہے، چینی سفیر پاکستان کی کارروائی سے مطمئن ہیں. وزیر خارجہ نے کہا کہ کراچی میں چین کے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے متعلق چینی وزیر خارجہ سے بھی رابطہ کیا ھے .دوسری جانب دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے ردعمل میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے صورت حال پر مکمل قابو پا لیا ہے. ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ حملے کے واقعے میں تمام قونصل خانے کا تمام چینی عملہ محفوظ ہے. واضح رہے کہ آج صبح کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گروں کے حملے کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار شہید اور ایک سیکورٹی گارڈ شدید زخمی ہوا ہے.پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں 3دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جن کے قبضے سے خود کش جیکٹس، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے. دہشت گردوں نے جمعہ صبح سوا نو بجے کے قریب کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا، حملہ آور سفید کار چینی قونصلیٹ کے قریب پہنچے اور قونصل خانے کے دروازے پر تعینات پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا.بہادراہلکاروں نے مقابلہ کیا جس پر دہشت گردوں نے دستی بموں سے حملہ کردیا، جس میں دو اہلکار شہید ہوگئے، جس کے بعد دہشت گرد قونصل خانے کے احاطے میں داخل ہوئے اور ویزا سیکشن کی طرف بڑھنے کی کوشش کی، یہاں بھی اہلکار موجود تھا، جس نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا. فورسز کے فوری ایکشن کی وجہ سے دہشت گرد احاطے ہی میں محصور رہے اور عمارت کے اندر داخل نہیں ہوسکے ، کارروائی کے دوران تین دہشت گرد باہراحاطے ہی میں مارے گئے، جن سے بھاری اسلحہ اور خود کش جیکٹ برآمد ہوئے.وفاقی ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ پولیس اور رینجرز نے قونصل خانے میں موجود دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا جس کے نتیجے میں ایک دہشتگرد ہلاک ہو گیا ۔
جبکہ پولیس حکام کی جانب سے جاری بیان میں دو دہشتگردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی گئی۔ ڈی آئی جی ساؤتھ نے بتایا کہ دہشتگرد کے قبضے سے اسلحہ اور خود کُش جیکٹ بھی برآمد ہوئی جسے ناکارہ بنانے کے لیے بم ڈسپوزل اسکواڈ کو چینی قونصل خانے طلب کر لیا گیا ہے۔
، ایس ایس پی پیر محمد شاہ نے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دہشتگرد 3 سے 4 ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ آج صبح کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشتگردوں نے حملہ کیا۔چین کے قونصل خانے کے قریب دہشتگردوں نے سکیورٹی گارڈز پر حملہ کیا جس پر پولیس کی بھاری نفری کو چینی قونصل خانے طلب کر لیا گیا ۔ عینی شاہدین کے مطابق دونوں اطراف سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ قونصل خانے کی عمارت سے دھواں اُٹھتا ہوا بھی دیکھا گیا۔
قونصل خانے کے اندر سے دو دستی بم بھی پھینکے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہشتگردوں کے حملے کے بعد چینی سفارتخانے کو جانے والی ٹریفک کو روک دیا گیا ہے ذرائع کے مطابق چینی قونصل خانے کے پاس سے ایک مشکوک گاڑی بھی برآمد ہوئی ہے جس کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دہشتگرد اسی گاڑی میں سوار ہو کر آئے۔ دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق فائرنگ کے فوری بعد علاقہ سے دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں حملے میں ایک شخص زخمی بھی ہوا۔ قونصلیٹ کے آس پاس کے علاقہ کو پولیس نے سیل کر دیا ہے ۔ دوسری جانب ایس ایس پی ساؤتھ میر محمد شاہ کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے آپریشن شروع کردیا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی چینی قونصل خانے پر دہشتگرد حملے کا نوٹس لیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس حوالے سے ایڈشنل آئی جی کراچی سے رابطہ کیا اور انہیں ہدایت کی کہ پولیس کی مزید نفری کو چینی قونصل خانے بھجوایا جائے۔۔چینی قونصل خانے پر دہشتگرد حملے کے بعد ملک بھر میں موجود قونصل خانوں کی سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔

چینی قونصل خانے پر حملہ اسٹریٹیجک تعاون کے خلاف سازش ہے. وزیراعظم عمران خان،قونصل خانے کا عملہ محفوظ ہے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل،سیکورٹی اداروں نے بڑی سازش سے بچا لیا. وفاقی وزیراطلاعات، تینوں حملہ آور مارے گئے ہیں. وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی .

Posted on

چینی قونصل خانے پر حملہ ؛ اسٹریٹیجک تعاون کے خلاف سازش ہے. وزیراعظم عمران خان،قونصل خانے کا عملہ محفوظ ہے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل،سیکورٹی اداروں نے بڑی سازش سے بچا لیا. وفاقی وزیراطلاعات، تینوں حملہ آور مارے گئے ہیں. وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
..
اسلام آباد( خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے….) وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چینی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین تعلقات کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہوسکتی. وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چینی قونصل خانےکراچی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیاہےجاری کردہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ حملے کے پیچھے موجود عناصر اور محرکات کو فوری بے نقاب کیاجانا چاہیے.وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ یہ حملہ پاک چین معاشی اور اسٹریٹیجک تعاون کے خلاف سازش ہے، لیکن اس طرح کے واقعات دونوں ملکوں کے تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتے. وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ پولیس اور رینجرز نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعدی کے ساتھ دہشت گرد حملہ ناکام بنایا جس پر پوری قوم کو فخر ہے. وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحریہ عرب سے گہری ہے، پاکستان اور چین کے معاشی، اسٹریٹیجک تعلقات کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہوسکتی. ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چینی قونصل خانے پر حملے سے متعلق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ 21چینی کراچی کے قونصل خانے میں موجود تھے جو تمام محفوظ ہیں، تینوں حملہ آور مارے گئے ہیں. حملہ آور کون تھے بخوبی واقف ہیں ،شاہ محمود قریشی نے کراچی میں آج صبح ہونے والے چینی قونصل خانے پر حملے کے متعلق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ دہشت گردوں کا یہ بزدلانہ عمل تھا،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سندھ پولیس اور رینجرز بروقت پہنچی اور انہوں نے فوری کارروائی کی،چینی عملہ محفوظ ہے، معاملہ کنٹرول میں ہے، علاقے کو کلیئر کر دیا گیا. شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حملے کے متعلق چینی سفیر و قونصل جنرل سے بات ہوئی ہے، چینی سفیر پاکستان کی کارروائی سے مطمئن ہیں. وزیر خارجہ نے کہا کہ کراچی میں چین کے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے متعلق چینی وزیر خارجہ سے بھی رابطہ کیا ھے .دوسری جانب دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے ردعمل میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے صورت حال پر مکمل قابو پا لیا ہے. ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ حملے کے واقعے میں تمام قونصل خانے کا تمام چینی عملہ محفوظ ہے. واضح رہے کہ آج صبح کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گروں کے حملے کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار شہید اور ایک سیکورٹی گارڈ شدید زخمی ہوا ہے.پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں 3دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جن کے قبضے سے خود کش جیکٹس، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے. دہشت گردوں نے جمعہ صبح سوا نو بجے کے قریب کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا، حملہ آور سفید کار چینی قونصلیٹ کے قریب پہنچے اور قونصل خانے کے دروازے پر تعینات پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا.بہادراہلکاروں نے مقابلہ کیا جس پر دہشت گردوں نے دستی بموں سے حملہ کردیا، جس میں دو اہلکار شہید ہوگئے، جس کے بعد دہشت گرد قونصل خانے کے احاطے میں داخل ہوئے اور ویزا سیکشن کی طرف بڑھنے کی کوشش کی، یہاں بھی اہلکار موجود تھا، جس نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا. فورسز کے فوری ایکشن کی وجہ سے دہشت گرد احاطے ہی میں محصور رہے اور عمارت کے اندر داخل نہیں ہوسکے ، کارروائی کے دوران تین دہشت گرد باہراحاطے ہی میں مارے گئے، جن سے بھاری اسلحہ اور خود کش جیکٹ برآمد ہوئے.وفاقی ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ پولیس اور رینجرز نے قونصل خانے میں موجود دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا جس کے نتیجے میں ایک دہشتگرد ہلاک ہو گیا ۔
جبکہ پولیس حکام کی جانب سے جاری بیان میں دو دہشتگردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی گئی۔ ڈی آئی جی ساؤتھ نے بتایا کہ دہشتگرد کے قبضے سے اسلحہ اور خود کُش جیکٹ بھی برآمد ہوئی جسے ناکارہ بنانے کے لیے بم ڈسپوزل اسکواڈ کو چینی قونصل خانے طلب کر لیا گیا ہے۔
، ایس ایس پی پیر محمد شاہ نے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دہشتگرد 3 سے 4 ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ آج صبح کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشتگردوں نے حملہ کیا۔چین کے قونصل خانے کے قریب دہشتگردوں نے سکیورٹی گارڈز پر حملہ کیا جس پر پولیس کی بھاری نفری کو چینی قونصل خانے طلب کر لیا گیا ۔ عینی شاہدین کے مطابق دونوں اطراف سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ قونصل خانے کی عمارت سے دھواں اُٹھتا ہوا بھی دیکھا گیا۔
قونصل خانے کے اندر سے دو دستی بم بھی پھینکے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہشتگردوں کے حملے کے بعد چینی سفارتخانے کو جانے والی ٹریفک کو روک دیا گیا ہے ذرائع کے مطابق چینی قونصل خانے کے پاس سے ایک مشکوک گاڑی بھی برآمد ہوئی ہے جس کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دہشتگرد اسی گاڑی میں سوار ہو کر آئے۔ دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق فائرنگ کے فوری بعد علاقہ سے دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں حملے میں ایک شخص زخمی بھی ہوا۔ قونصلیٹ کے آس پاس کے علاقہ کو پولیس نے سیل کر دیا ہے ۔ دوسری جانب ایس ایس پی ساؤتھ میر محمد شاہ کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے آپریشن شروع کردیا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی چینی قونصل خانے پر دہشتگرد حملے کا نوٹس لیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس حوالے سے ایڈشنل آئی جی کراچی سے رابطہ کیا اور انہیں ہدایت کی کہ پولیس کی مزید نفری کو چینی قونصل خانے بھجوایا جائے۔۔چینی قونصل خانے پر دہشتگرد حملے کے بعد ملک بھر میں موجود قونصل خانوں کی سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔

شارجہ میں .ٹی10 لیگ کے سنسنی خیز مقابلے سندھیز اور بنگال کامیاب، دوسرے روز دو ہیٹرک، رپورٹ :اصغر علی مبارک سے..

Posted on

شارجہ میں .ٹی10 لیگ کے سنسنی خیز مقابلے سندھیز اور بنگال کامیاب، دوسرے روز دو ہیٹرک،
رپورٹ :اصغر علی مبارک سے……………
شارجہ میں .ٹی10 لیگ کے سنسنی خیز مقابلے جاری ھیں سندھیز اور بنگال کی ٹیمیں کامیاب ہوئیں ، ایونٹ کے دوسرے روز دو ہیٹرک بنی ، بلاشبہ ٹی10 لیگ کا دوسرا دن باؤلرز کے نام رہا اور پراوین ٹامبے اور عامر یامین کی ہیٹ ٹرک کی بدولت بنگال ٹائیگرز اور سندھیز نے کامیابیاں حاصل کر لیں ۔دوسرے روزٹی10 لیگ کا پہلا میچ بنگال ٹائیگرز اور ناردرن وارئیرز کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جہاں واریئرز نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا جو غلط ثابت ہوا۔جیسن رائے اور شرفین ردرفورڈ کی جارحانہ بیٹنگ کی بدولت بنگلا ٹائیگرز نے صرف ایک وکٹ گنوا کر مقررہ اوورز میں 130رنز بنائے۔جیسن رائے نے 29گیندوں پر تین چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے 60 جبکہ ردرفورڈ نے 21 گیندوں پر 4 چھکوں اور اتنے ہی چوکوں کی مدد سے 47رنز بنائے۔ہدف کے تعاقب میں واریئرز کے اوپنرز نے اپنی ٹیم کو 33رنز کا آغاز فراہم کیا لیکن سنیل نارائن نے لگاتار دو گیندوں پر ہم وطن ڈیوین اسمتھ اور آندرے رسل کو آوٹ کر دیا۔ویسٹ انڈیز کے نکولس پوران اور لینڈل سمنز کی جوڑی نے اسکور کو 81تک پہنچایا لیکن علی خان نے پوران کی 14رنز کی اننگز کے آگے فل اسٹاپ لگا دیا۔تاہم میچکا اصل ڈرامہ اگلے اوور کی پہلی گیند سے شروع ہوا جب عامر یامین نے پہلی گیند پر 4 چھکوں اور 3 چوکوں کی مدد سے 44رنز بنانے والے لینڈل سمنز کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔عامر یامین نے تباہ کن باؤلنگ کرتے ہوئے اگلی دو گیندوں پر روومین پاول اور روی بوپارہ کو آوٹ کر کے ناصرف ہیٹ ٹرک مکمل کی بلکہ اگلی ہی گیند پر ہرڈس ولجوئن کو بھی آؤٹ کر کے چار گیندوں پر 4 وکٹیں لینے کا منفرد ریکارڈ ساز کارنامہسر انجام دیا۔
واریئرز کی ٹیم مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 94رنز ہی بنا سکی اور بنگال ٹائیگر نے میچ میں 36رنز سے فتح اپنے نام کر لی۔عامر یامین نے میچ میں ٹی10 کی تاریخ کا پہلا میڈن اوور کرا کر نئی تاریخ رقم کردی اور میچ میں کرائے گئے دو اوورز میں 4 رنز کے عوض چار وکٹیں لیں جس پر انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ایونٹ کے دوسرے روز کا دوسرا میچ کیرالہ کنگز اور سندھیز کے درمیان کھیلا گیا جس میں 47 سالہ بھارتی باؤلر پراوین ٹامبے کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت سندھیز نے میچ میں باآسانی فتح حاصل کر لی۔بھارتی باؤلر پراوین ٹامبے نے میچ کے پہلے ہی اوور کی دوسری گیند پر کرس گیل کو آؤٹ کرنے کے بعد چوتھی، پانچویں اور چھٹی گیند پر آئن مورگن، کیرون پولارڈ اور فیبیئن ایلن کو آؤٹ کر کے ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ایک موقع پر کیرالہ کی ٹیم 21رنز پر 6 وکٹوں سے محروم ہو چکی تھی لیکن اس موقع پر وین پارنیل اور سہیل تنویر نے 49رنز کی شراکت قائم کر کے اپنی ٹیم کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔
پارنیل نے 24 گیندوں پر 4 چوکوں اور 7 چھکوں کی مدد سے ناقابل شکست 59رنز کی اننگز کھیلی جبکہ سہیل تنویر 27رنز بنائے۔کیرالہ کنگز نے مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 103رنز بنا مجموعہ اسکور بورڈ کی زینت بنایا۔ہدف کے تعاقب میں شین واٹسن اور اینٹن ڈیوسچ نے اپنی ٹیم کو 32 گیندوں پر 80رنز کا آغاز فراہم کر کے کیرالہ کو میچ سے باہر کردیا۔شین واٹسن نے 50 اور ڈیوسچ نے 49رنز کی اننگز کھیلی اور دونوں کھلاڑیوں نے بالترتیب چار، چار چوکے اور اتنے ہی چھکے بھی لگائے جس کی بدولت سندھیز نے ہدف 14گیندوں قبل ہی حاصل کر لیا۔15رنز کے عوض 5 وکٹیں لینے والے پروین ٹامبے مین آف دی میچ قرار پائے۔ تیسرے میچ میں پنجابی لیجنڈز نے مراٹھا عریبینز کو 43رنز سے شکست دی۔.