Month: May 2018

ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن ریٹائرڈ صفدرنے 128 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرا دیئے، دفاع میں گواہ پیش کرنے سے انکار …. رپورٹ :اصغر علی مبارک سے )

Posted on

ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن ریٹائرڈ صفدرنے 128 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرا دیئے، دفاع میں گواہ پیش کرنے سے انکارsafder
اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے )
سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران 128 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرا دیئے۔وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران کیپٹن ریٹائرڈ صفدر عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا بیان جاری رکھا۔واضح رہے کہ کیپٹن (ر) صفدر کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 342 کے تحت احتساب عدالت کے سوالات کے جوابات دیئے۔سماعت کے دوران کیپٹن (ر) صفدر نے کہا کہ استغاثہ ان کے خلاف کیس کو مستحکم کرنے میں ناکام رہا ہے لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کیس میں اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش نہیں کریں گے کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پر دباؤ ڈالنے کے لیے انہیں کیس میں گھسیٹا گیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے 20 اپریل 2017 کے فیصلے میں ان کا نام شامل نہیں تھا لیکن جے آئی ٹی نے ان کا نام شامل کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے جے آئی ٹی کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔سماعت کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ان ذرائع کے بارے میں بتائیں جس کے ذریعے مریم نواز نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے تو اس پر جواب دیتے ہوئے کیپٹن (ر) محمد صفدر کا کہنا تھا کہ مریم نواز اس جائیداد کی مالک نہیں تھیں۔عدالت میں اپنے فوجی کیریئر کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور نواز شریف کے سیکیورٹی افسر مقرر ہوئے، 1990 کی دہائی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بتایا کہ ان کے سسر کو مختلف مواقع پر غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور 1993 میں اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان اور 1999 میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔احتساب عدالت میں بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ نواز شریف نے اس خطے کو فوری جنگ سے محفوظ کیا لیکن وہ اپنی حکومت نہیں بچا سکے‘۔کارگل آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس دوران نواز شریف اور پرویز مشرف کے دوران تنازعات شدت اختیار کرگئے تھے، جس کے باعث ایک غیر معروف فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔سماعت کے دوران کیپٹن (ر) صفدر نے ان سے پوچھے گئے مختلف سوالات کو ’ غیر متعلقہ ‘ قرار دیا اور بے گناہ ہونے کا دعویٰ کیا۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات کے جوابات مکمل ہونے پر عدالت نے حتمی اعتراض کے لیے سماعت 5 جون تک ملتوی کردی۔تاہم عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو کل 31 مئی کو طلب کرلیا جہاں نواز شریف کے وکیل ان پر جرح کریں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں کیپٹن (ر) صفدر نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات میں سے 80 کا جواب ریکارڈ کرایا تھا اور کہا تھا کہ جب ان کی اہلیہ مریم نواز نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنی کی ٹرسٹی تھیں تو انہوں نے بطور گواہ آف شور کمپنیوں کی ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے تھے۔انہوں نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی نے مریم نواز کے سامنے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیوں کو سیل نہیں کیا تھا، لہٰذا انہیں معلوم نہیں کہ ٹرسٹ ڈیڈ فرانزک ٹیسٹ کیلئے کیسے اور کس حال میں ریڈلے کی لیبارٹری تک پہنچی۔ اس سے قبل سماعت میں عدالت کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مریم نواز نے تسلیم کیا تھا کہ وہ آف شور کمپنیوں کی ٹرسٹی رہی ہیں لیکن وہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں اور ایون فیلڈ پراپرٹیز کی بینیفشل مالک نہیں تھیں۔انہوں نے کہا تھا کہ وہ نہ ہی ان کمپنیوں یا ایون فیلڈ پراپرٹیز کی بینیفشل مالک رہی اور نہ انہوں نے ان سے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا۔یہ بھی یاد رہے کہ اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرائے تھے۔

اثاثہ جات ریفرنس میں شریک ملزم سعید احمد کی بریت کیلئے درخواست دائر…. رپورٹ :اصغر علی مبارک سے

Posted on

اثاثہ جات ریفرنس میں شریک ملزم سعید احمد کی بریت کیلئے درخواست دائر….
اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سےdar )نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر سعید احمد نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس میں بریت کے لیے درخواست احتساب عدالت میں جمع کرادی۔واضح رہے کہ سعید احمد کو شریک ملزم کے طور پر ریفرنس میں نامزد کیا گیا تھا اور ان پر الزام تھا کہ ان کے کھولے گئے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اسحٰق ڈار نے منی لانڈرنگ کی۔ان کے خلاف پٹیشن میں استغاثہ کی جانب سے بدعنوانی، غیر قانونی معاملات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے قومی احتساب بیورو کے 1999 کے قانون کی دفعہ 9 کی ذیلی دفعات کے تحت 3 الزامات عائد کیے گئے تھے۔بعد ازاں عدالت نے سعید احمد کے خلاف بدعنوانی اور کرپٹ معاملات کا الزام خارج کردیا تھا۔ملزم کی جانب سے دائر کی گئی بریت کی درخواست میں کہا گیا کہ ریفرنس میں ان پر لگائے گئے اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔درخواست میں مزید کہا گیا ریفرنس میں نیشنل بینک کے صدر پر لگائے گئے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام کو استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے کسی گواہ کے بیان سے ثابت نہیں کیا جاسکا، اس بنا پر یہ مقدمہ خارج کر کے درخواست گزار کو بری کردیا جائے۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ جس طرح استغاثہ کے موقف کو مقدس سچ کی طرح سنا گیا ہے اس کے باوجود اس مقدمے میں سعید احمد پر کوئی الزام ثابت ہونے کا امکان نہیں، یہ مقدمہ جہاں عدالت کے قیمتی وقت کے زیاں کا سبب بن رہا ہے وہیں درخواست گزار کو بھی مسلسل پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہے جو آئین کی شق 10 کی بھی خلاف ورزی ہے۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عدالت، انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے انہیں اس ریفرنس سے بری کردیں۔اس حوالے سے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے قومی احتساب بیورو کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس معاملے پر جواب طلب کرلیا۔خیال رہے کہ سعید احمد کی جانب سے مارچ میں بھی بریت کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف درج الزامات مفروضے کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔واضح رہے قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ صدر نیشنل بینک سعید احمد، ہجویری مضاربہ مینیجمنٹ کمپنی کے ڈائریکٹرز میں سے ایک تھے اور انہیں مرکزی ملزم اسحٰق ڈار کی اہلیہ کی جانب سے ہجویری مضاربہ پرائیویٹ لمیٹڈ کے 7 ہزار حصص بھی منتقل کیے گئے۔ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ نیب کی تحقیقات کے مطابق سعید احمد کے نام پر 7 بینک اکاؤنٹس کھولے گئے، بادی النظر میں ان سے اسحٰق ڈار اور ان کی کمپنی کو فائدہ پہنچایا گیا۔نیب کا کہنا تھا کہ سعید احمد نے جان بوجھ کر ملزم کو اپنے نام پر بینک اکاؤنٹ کھولنے اور استعمال کی اجازت دی تا کہ وہ اپنی غیر قانونی رقم منتقل کرسکیں۔..

..تاجکستان ، افغانستان ، پاکستان اور بھارت تاپی گیس منصوبےسے 2020 ء تک گیس ملنی شروع ہو جائے گی۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی … رپورٹ :اصغر علی مبارک

Posted on

..تاجکستان ، افغانستان ، پاکستان اور بھارت تاپی گیس منصوبےسے 2020 ء تک گیس ملنی شروع ہو جائے گی۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی

اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے pm media)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران تیل اور گیس کے ایک سو سولہ ذخائر دریافت کئے گئےوزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں تیل اور گیس کے شعبے میں حکومت کی کارکردگی سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک میں گیس کی کمی کے مسئلے پر قابو پالیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے ملک میں تمام صارفین کو کم قیمت اور وافر مقدار میں گیس کی فراہمی یقینی بنائی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کی بڑی کمپنیاں مائع قدرتی گیس کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کررہی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ گیس سے سستی بجلی پیدا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اربوں ڈالر کی بچت میں مدد مل رہی ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ گیس کی مناسب دستیابی کے نتیجے میں ہم نے گزشتہ سال چھ لاکھ ٹن کھاد برآمد کی۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم نے روس اور چین کے تعاون سے شمالی جنوبی پائپ لائن بچھانے کیلئے بھی انتظامات کرلئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ایک شفاف نظام کے تحت بیس لاکھ نئے گیس کنکشنز فراہم کئے گئے۔تاجکستان ، افغانستان ، پاکستان اور بھارت (تاپی منصوبے) کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ اس اہم منصوبے پر کام جاری ہے اور 2020 ء تک اس منصوبے سے گیس ملنی شروع ہو جائے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ وفاق نے 2013ء میں گیس ڈویلپمنٹ سرچارج تحت صوبوں کو تیس ارب روپے فراہم کئے جبکہ گزشتہ سال اسی مد میں صوبوں کو 73 ارب روپے دیئے گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ لاہور کے قریب تین لاکھ بیرل تیل صاف کرنے کی استعداد کار کا حامل ملک کا دوسرا کارخانہ قائم کیا جائے گا جس پر چھ سے سات ارب روپے لاگت آئے گی۔ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ پاکستان نے قطر کے ساتھ گیس کی درآمد کا دنیا کے کم ترین نرخ کا معاہدہ کیا ہے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں تیل درآمد کرنے والے بیشتر ملکوں سے کم ہیں۔وزیراعظم نے ایل پی جی کے حوالے سے کہا کہ موجودہ حکومت میں اس کی پیداوار میں سو فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایل پی جی کے ایئر مکس پلانٹس ان علاقوں میں لگائے جا رہے ہیں جہاں پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے ملک میں معیاری ڈیزل اور پٹرول متعارف کرایا جو ناصرف ماحول دوست اور گاڑیوں کیلئے سازگار ہیں بلکہ سستے بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی سے پشاور تک پائپ لائن کے ذریعے تیل کی ترسیل کا کام بھی شروع کردیا گیا ہے۔وزیراعظم عباسی نے کہا کہ تیل صاف کرنے کے نئے کارخانوں کے علاوہ کراچی میں تیل صاف کرنے کے موجودہ کارخانوں کی صلاحیت پچاس ہزار سے ایک لاکھ بیرل تک بڑھائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ پارکو کی ساحلی ریفائنری پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے تین سال میں مکمل کی جائے گی یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا صنعتی کارخانہ ہوگا۔……..

حکومت آزادی اظہار کے اپنے عزم پر کار بند رہی:وزیراعظم،….اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے

Posted on Updated on

حکومت آزادی اظہار کے اپنے عزم پر کار بند رہی:وزیراعظم،ذرائع ابلاغ ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد میں اپنا کردار ادا کرے :وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اور نگزیبapns

اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے )وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آزادی اظہار یا ذرائع ابلاغ کے کام میں عدم مداخلت کے اپنے عزم پر کار بند رہی ہے۔ بدھ کے روز وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کی تقریب تقسیم اعزازات میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوۓ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ذرائع ابلاغ کے خلاف جبر یادباو کےہتھکنڈے استعمال نہ کرنے کا پختہ عزم کررکھا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ تنقید کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ حکومت کی کامیابیوں اورعوام کی فلاح و بہبود کے لئے اس کے اقدامات کو اجاگرکرے۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ اورمعلومات کی فراہمی کے دوسرے ذرائع کے اس دور میں سنسرشپ بے سود ہوکر رہ گئی ہے تاہم ذرائع ابلاغ کو یقینا اپنے لئے قواعدوضوابط مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ سے متعلق معاملات کے جائزے کےلئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی خواہش ظاہر کی جو ذرائع ابلاغ میں اصلاحات کے لئے سفارشات دے۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک آزاد اورشفاف میڈیا اتنااہم ہے جتنا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہر لحاظ سے پاکستان کو اس سے کہیں بہتر حالت میں چھوڑ کر جارہی ہے جو 2013 میں اسے وراثت میں ملا تھا۔انہوں نے کہا کہ آہنی اور دوسرے چیلنجوں کے باوجود ترقی کاسفر جاری رہا۔وزیراعظم نےامید ظاہر کی کہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ہوں گے کیونکہ ملک کسی ایسی حکومت کا متحمل نہیں ہوسکتا جیسےعوام کااعتماد حاصل نہ ہو۔ انہوں نےکہاکہ ہمیں جمہوریت اور ملک کے لئے مل کر کام کرنا چاہیے اس موقع پر وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اور نگزیب نے کہا ہے کہ ذرائع ابلاغ ملک میں آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں اپنا کردار ادا کریے۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کی تقریب تقسیم اعزازات سے خطاب کررہی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت اور صحافت کا آپس میں گہر ا تعلق ہے۔ انہوں نے اطلاعات تک رسائی کے ایکٹ کی منظوری کو موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی قرار دیا۔……

پاکستان ٹیلی ویژن کانئے چینل پی ٹی وی پارلیمنٹ کی نشریات کاآغاز اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے

Posted on

پاکستان ٹیلی ویژن کانئے چینل پی ٹی وی پارلیمنٹ کی نشریات کاآغاز

اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے )پاکستان ٹیلی ویژن نے بدھ کو اپنے نئے چینل پی ٹی وی پارلیمنٹ کی نشریات کاآغاز کیا ہے۔قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایازصادق نے ایک تقریب میں بٹن دبا کرچینل کی آزمائشی نشریات کا افتتاح کیا۔اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے پارلیمان کی کارروائی سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے ہر ایک کے لئے پارلیمنٹ کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس چینل کے ذریعے عوام یہ دیکھیں گے کہ ان کے منتخب نمائندے ان کے مسائل اجاگر کررہے ہیں یا نہیں۔اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزیر مریم اور نگزیب نے اپنے کلمات میں کہاکہ نیا چینل پارلیمنٹ سمیت قائمہ کمیٹیوں کی کارروائی نشر کرے گا۔

قومی اسمبلی کی سروس، ٹربیونل ترمیمی بل 2018 کی منظوری اسلام آباد: خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے

Posted on

قومی اسمبلی کی سروس، ٹربیونل ترمیمی بل 2018 کی منظوری

اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ :اصغر علی مبارک سے )senat.5jpegقومی اسمبلی نے آج اپنے اجلاس میں سروس، ٹربیونل ترمیمی بل 2018 کی منظوری دی۔ یہ بل پارلیمانی امور کے وزیر شیخ آفتاب احمد نے پیش کیا تھا۔مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے نکات اعتراض اٹھاتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق کی مجموعی کارکردگی کوسراہا۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر نے اپنی مدت کے دوران قانون سازی کا پورا عمل بہتر اورمربوط انداز میں مکمل کرایا۔قومی اسمبلی نے آج اپنے اجلاس میں پشاور میں سماجی کارکن اور تاجر چرن جیت سنگھ کے قتل پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی ۔ایوان کا اجلاس اب کل دن گیارہ بجے ہوگا۔

پاک فوج کا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی کتاب سے متعلق معاملات کیا تحقیقات کا اعلان راولپنڈی: خصوصی رپورٹ ؛اصغر علی مبارک سے

Posted on

پاک فوج کا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی کتاب سے متعلق معاملات کیا تحقیقات کا اعلان

راولپنڈی: (خصوصی رپورٹ ؛اصغر علی مبارک سے )پاک فوج نے پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی کتاب سے متعلق معاملات کی اعلی سطح پر تحقیقات کا اعلان کردیاھے ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کے خلاف حاضر سروس لیفٹننٹ جنرل کی سربراہی میں تحقیقات کی جائے گی۔آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا کہ مجاز اتھارٹی نے اسد درانی کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں شامل کرنے کے لیے رابطہ کرلیاواضح رہے کہ پاک فوج نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو ان کی کتاب ’ دی اسپائی کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ الیوژن آف پیس‘ پر پوزیشن واضح کرنے کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا تھا۔یاد رہے کہ چند روز قبل لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور بھارت کے ریسرچ اینالسز ونگز (را) کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی جانب سے مشترکہ طور پر تحریر کردہ کتاب ’دی اسپائی کرونیکلز‘ کی اشاعت کی گئی ہے، جس میں کئی متنازع موضوعات پر بات کی گئی ہے۔’دی اسپائی کرونیکلز‘ کتاب کے سامنے آنے کے بعد پاک فوج کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسد درانی کو ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر پوزیشن واضح کرنا ہوگی، کیونکہ اس کا اطلاق تمام حاضر اور ریٹائرڈ اہلکاروں پر ہوتا ہے۔واضح رہے کہ اسد درانی کی کتاب میں جو موضوعات زیر بحث آئے ہیں ان میں کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا آپریشن، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی اس کتاب کو سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر رضا ربانی نے اسد درانی کی کتاب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا ’اگر یہ کتاب کسی سویلین یا سیاستدان نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو آسمان سر پر ہوتا اور کتاب لکھنے والے سیاستدان پر غداری کے فتوے لگ رہے ہوتے۔‘انہوں نے سوال کیا تھا کہ ’کیا سابق جنرل اسد درانی نے اپنے ادارے یا وفاقی حکومت سے اس بات کی اجازت لی تھی، یہ چھوٹا مسئلہ نہیں ہے، دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کا ایک سلسلہ ہے اور وفاقی وزیر قانون نے کتاب سے متعلق اجازت مانگنے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔‘.پاکستان اور بھارت کی معروف خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان کی جانب سے لکھی گئی کتاب کے شائع ہونے کے بعد بھارت میں پاکستان کے لیے نئی دہلی کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جبکہ کشمیر میں بھارتی مظالم بند کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور بھارت کے ریسرچ اینالسز ونگز (را) کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی جانب سے مشترکہ طور پر تحریر کردہ کتاب کی اشاعت کے بعد بھارت میں اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کشمیر میں سفاکانہ کارروائیاں بند کرے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پرتنفید کے لیے مشہور سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کتاب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کشمیر میں طاقت کا بے دریغ استعمال کررہی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پالیسی ناکام ہے۔کتاب کے اجراء کی تقریب میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ اور سابق نائب صدر حامد انصاری مہمان خصوصی تھے، جس سے یہ تقریب حزب اختلاف کے اتحاد کا منظر پیش کرنے لگی۔تقریب میں شریک کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے بتایا کہ وہ اپوزیشن کے سابق وزرائے اعلیٰ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جارہے تھے تاہم اس کتاب کی اہمیت کے پیشِ نظر اس تقریب میں آگئے۔واضح رہے کہ ’را، آئی ایس آئی: اینڈ دا الوژن آف پیس‘ نامی کتاب میں زیادہ تر دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر گفتگو کی گئی ہے۔اس موقع پر ایک ویڈیو ریکارڈنگ پیغام میں لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا کہنا تھا کہ مجھے ویزا نہ ملنا بھی ایک طرح سے مہربانی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کتاب ایس اے دولت کا آئیڈیا تھی، تاہم کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ کتاب سنسنی خیز انکشافات پر مبنی ہوگی۔لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے بتایا کہ اکتوبر 2014 میں دہلی کے دورے کے دوران ان کی ملاقات حامد انصاری سے ہوئی تھی جس کے بعد ایک تفصیلی ملاقات میں کتاب میں شمولیت کے امکانات روشن ہوئے، اس وقت بھارت کے نائب صدر حامد انصاری نے مجھ سے سوال کیا کہ ’کہ یہ دیوانگی کب ختم ہوگی؟‘انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بولے گئے اس ایک جملے نے مجھے اس کتاب میں حصہ لینے پر مجبور کردیا۔مصنف ایس اے دولت نے کتاب پر ہونے والی اس تنفید کو رد کردیا کہ ان کی کتاب میں بھارت اور پاکستان کے درمیان قیام امن کو محض ایک خوبصورت خیال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ 2019 کے انتخابات سے قبل دونوں ممالک کے تعلقات میں پیش رفت ہوگی۔تقریب کی میزبان برکھا دت کے جنرل باجوہ کو مدعو کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی سے ان کی ملاقات طے کی جاسکتی ہے، جبکہ امکان ہے کہ وزیراعظم بھی ان سے ملاقات کریں۔اے ایس دولت کا مزید کہنا تھا کہ میرے اندازے کے مطابق پاکستان میں اسوقت سول حکومت کمزور ہے اس لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ مذاکرات کے لیے کس سے رابطہ کیا جائے۔..

‘آئی ایس آئی ”سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور بھارتی ایجنسی ”را” کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی مشترکہ کتاب ’دی اسپائی کرونیکلز‘ کی اشاعت. پر پوزیشن واضح کرنے کیلئے اسد درانی 28 مئی کو جی ایچ. کیو. طلب، اسلام آباد: (اصغرعلی مبارک سے.

Posted on

‘آئی ایس آئی ”سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور بھارتی ایجنسی ”را” کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی مشترکہ کتاب ’دی اسپائی کرونیکلز‘ کی اشاعت. پر پوزیشن واضح کرنے کیلئے اسد درانی 28 مئی کو جی ایچ کیو طلب،
اسلام آباد: (اصغرعلی مبارک سے)
پاک فوج نے پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو ان کی کتاب پر پوزیشن واضح کرنے کے لیے جی ایچ کیو طلب کر لیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اسد درانی کو کتاب کے حوالے سے پوزیشن واضح کرنے کے لیے 28 مئی کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) طلب کیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ اسد درانی کو ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر پوزیشن واضح کرنا ہوگی، جس کا اطلاق تمام حاضر اور ریٹائرڈ اہلکاروں پر ہوتا ہے۔قبل ازیں سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ ’اسد درانی کی کتاب پر فوج کو تحفظات ہیں، جس کے باعث انہیں پوزیشن واضح کرنے کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا جارہا ہے۔‘ذرائع نے کہا کہ ’کتاب میں بہت سے موضوعات حقائق کے برعکس بیان کیے گئے۔‘واضح رہے کہ چند روز قبل لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور بھارت کے ریسرچ اینالسز ونگز (را) کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی جانب سے مشترکہ طور پر تحریر کردہ کتاب ’دی اسپائی کرونیکلز‘ کی اشاعت کی گئی ہے، جس میں کئی متنازع موضوعات پر بات کی گئی ہے۔کتاب میں جو موضوعات زیر بحث آئے ہیں ان میں کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا آپریشن، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔گزشتہ روز ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر رضا ربانی نے اسد درانی کی کتاب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا ’اگر یہ کتاب کسی سویلین یا سیاستدان نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو آسمان سر پر ہوتا اور کتاب لکھنے والے سیاستدان پر غداری کے فتوے لگ رہے ہوتے۔‘انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا سابق جنرل اسد درانی نے اپنے ادارے یا وفاقی حکومت سے اس بات کی اجازت لی تھی، یہ چھوٹا مسئلہ نہیں ہے، دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کا ایک سلسلہ ہے اور وفاقی وزیر قانون نے کتاب سے متعلق اجازت مانگنے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔‘
ئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ کی مشترکہ کتاب ‘دا سپائی کرانیکلز’ کے ٹوٹے!

‘ہم دونوں ایک صفحے پر تو ہیں، پر ہماری کتابیں الگ الگ ہیں’، لمبے قد کے امرجیت سنگھ دلت نے دائیں آنکھ میچتے ہوئے پنجابی زبان میں جملہ کسا تھا. ہم اگست 2017 میں لندن سکول آف اکنامکس میں مایہ ناز صحافی عامر غوری کے تھنک ٹینک ساؤتھ ایشیا فیوچر فورم کے پلیٹ فارم پر را اور آئی ایس آئی کے سربراہان کی پہلی پبلک ملاقات کے بعد گفتگو کر رہے تھے. تھوڑی دیر قبل میرے سامنے، را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دلت اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان الحق، دونوں مہا دشمنوں نے ایک دوسرے کو ہنستے ہوئے گلے سے لگایا تھا. اور اس سے پہلے ایک سوال کے جواب میں دلت سنگھ یہ کھڑکی توڑ انکشاف کرچکے تھے کہ 2006 میں پاکستانی صدر پرویز مشرف کی زندگی را نے بچائ تھی جب ان پر قاتلانہ حملے کا انکشاف آئی ایس آئی کو کیا گیا تھا اور یوں دونوں ملکوں کی تاریخ میں پہلی بار دونوں دشمن جاسوس ایجنسیاں مل کر کام کر رہی تھیں. میرے لیے یہ انکشاف پیٹ میں لات مارنے کے مترادف تھا اور میں دلت سنگھ سے یہی بات کررہا تھا کہ اس بریکنگ نیوز پر تو ہالی ووڈ میں ایک تہلکہ خیز فلم بنائی جا سکتی ہے. میرا سوال یہ تھا کہ کس معاملے پر پرویز مشرف اور بھارت ایک صفحے پر تھے تو دلت نے ترنت جواب دیا تھا کہ صفحہ شاید ایک تھا مگر کتابیں الگ الگ تھیں اور ابلاغ کی زبان میں شاید اس کا مطلب یہ تھا کہ ‘نیم صحافی پپو، یار، جاسوسوں کے بادشاہ کو مزید تنگ مت کرو’.

میں نے تب پہلی بار سوچا تھا، کیا کمال ہوجائے اگر یہ دونوں جاسوس بادشاہ مل کر ایک کتاب میں اکٹھے ہوجائیں اور غیر روایتی انداز میں گپ شپ کرلیں تاکہ ان دونوں کی جزبات میں تپتی ہوئی قوموں کو چیزوں کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ مل جائے. پچھلے دو ہفتوں سے ابلاغ کی انگوروں کی بیل پر خبریں چلنے لگ گئیں کہ یہ کام ہو چکا ہے، امرجیت سنگھ دلت تو وہی رہے، تاہم معاون اداکاراپنے جنرل اسد درانی نکلے. ویسے بھی جنرل احسان الحق سے اتنی فرینک گپ شپ نہیں کی جا سکتی کہ اسد درانی زرا وکھری ٹائپ کے جاسوس بادشاہ رہے ہیں. حال ہی میں بالآخر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف امرجیت سنگھ دلت اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل اسد درانی کہ مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب ‘ دا سپائی کرانیکلز’ شائع ہو گئی ۔ اس کتاب کا خیال دونوں جاسوس بادشاہوں کو 2016 میں استبول ، بنکاک اور کھٹمنڈو میں مختلف تھنک ٹینکس کی طرف سے ترتیب دی گئی ملاقاتوں کے دوران آیا اور پھر اس پر کام شروع کیا گیا ۔ یہ غالباً اپنی نوعیت پہلی کتاب ہے جو دو متحارب خفیہ ایجنسیوں کےسابق سربراہوں نے مشترکہ طور پر لکھی ہے۔ معروف لکھاری اور مصنف ادتیا سنہا نے اس کتاب کے معاون مصنف یا وچولن ہیں مشہور طباعتی ادارے ہارپر کولنز کی شائع کردہ یہ کتاب 312 صفحات اور آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ۔

سپائی کرانیکلز کئ اعتبار سے بارودی مواد سے بھرپور کتاب ہے. سچ کہا جائے تو شاید پروفیشنل جاسوسی کے اعتبار سے اس میں کوئی خبر نہیں ہے. جاسوس ایجنسیاں یہی کچھ کرتی ہیں، کچھ ٹھنڈے کمروں میں دروازوں کے پیچھے کچھ لوگ قومی مفاد کا تعین کرتے ہیں، ایک بیانیہ تشکیل دیتے ہیں، پھر اس بیانیے کو مزہب، ملک، روایت کے ساتھ چھاجوں ڈالرز اور پاؤنڈز کے دیسی گھی گہرا تڑکہ لگایا جاتا ہے اور پبلک کو بیچ دیا جاتا ہے، اسی دوران لوگ بکتے ہیں، خریدوفروخت ہوتی ہے، بم پھٹتے ہیں، لاشیں اٹھتی ہیں، گھاتیں لگتی ہیں اور ہار جیت کا فیصلہ ہوتا ہے. یہ سب ایک گیم کی طرح کھیلا جاتا ہے، ہاں کچھ لوگ اس میں ضرورت سے زیادہ انوالو ہوجاتے ہیں.
پبلک کے اعتبار سے سپائ کرونیکلز میں کھڑکی توڑ خبریں ہیں اور ان پر اگلے چند دنوں میں خوب گرد اڑتی رہے گی تو ہم اسی حوالے سے کتاب کا جائزہ لیتے ہیں.

خبر بنتی ہے جب دونوں جاسوس بادشاہ ایک دوسرے کو بھائی کہتے ہیں. اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2015ء میں جنرل درانی کے بیٹے عثمان درانی جرمن کمپنی کے کام کے سلسے میں بھارتی شہر کوچے پہنچے۔ ویزا قوانین کے اعتبار سے عثمان درانی جس شہر سے داخل ہوئے تھے انہیں وہیں سے واپس جانا تھا.لیکن اس کپمنی نے ممبئی سے عثمان درانی کی فلائٹ کی بکنگ کی۔ عثمان درانی کو ممبئی میں حکام نے روکا۔اور اس کے بعد 24 گھنٹوں تک انہیں ویزا کی خلاف ورزی کے باوجود بھارت سے باہر نکالنے کے راستے تلاش کیے جاتے رہے۔ جنرل درانی نے بتایا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اب کیا ہو گا،لیکن اس کے باوجود ممبئی اسپیشل برانچ کے لوگوں نے عثمان سے یہ نہیں کہا کہ تمہارے پاس ممبئی کا ویزا نہیں ہے، تم یہاں کیا کر رہے ہو، پکڑو ، اندر کرو اسے۔ ایسا ہو سکتا تھا لیکن نہیں ہوا۔جنرل درانی نے بتایاکہ اس تمام عرصے کےدوران میں اور میری بیوی کی جان پر بنی رہی کہ اگر کسی نے یہ بات ظاہر کر دی کہ سابق آئی ایس آئی چیف کا بیٹا ممبئی میں گھوم رہا ہے۔جب جنرل درانی کو عثمان کی گرفتاری کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے ساتھی کھلاڑی امرجیت سنگھ دلت دولت سے رابطہ کیا ۔جنھوں نے تب کے را چیف راجیندر کھنّہ سمیت کئی لوگوں سے رابطہ کیا جس کے ایک دن بعد عثمان درانی کو واپس جرمنی جانے دیا گیا۔ دولت کا کہنا تھا کہ سب سے اہم موقع وہ تھا جب میں نے کھنّہ سے رابطہ کرکے ان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے درانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو ہمارا فرض تھا کیونکہ آخر کار جنرل درانی بھی ہمارے ساتھی ہی ہیں۔ شاید اس ٹکڑے پر بہت شور مچے، لیکن پروفیشنل کرٹسی کے اعتبار سے اسے اعلیٰ درجے کی اخلاقیات ہی کہا جاسکتا ہے.

خبر بنتی ہے جب جنرل درانی نے بتایا کہ سروس کے دنوں میں پاکستان میں ایک ہائی پروفائل ڈنر ہوا جہاں شراب وکباب کا اہتمام تھا. تاہم انہیں وہاں دیکھ کر کچھ لوگوں کو تھرتھراہٹ شروع ہوگئی کہ وہاں آئی ایس آئی کا سربراہ موجود ہے جب کہ مہمانوں میں کئ جرنیل حضرات شامل تھے جن کی گھبراہٹ کو رفع دفع کیا گیا. اس ضمن میں جنرل درانی کا سب سے کارآمد جملہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق ایسے ہی (شرابی، کبابی) لوگوں میں گھرے رہتے تھے. یہ جملہ ضیاء الحقی اسلامی انقلاب کی بہت سی پرتوں کو کھولتا ہے.

خبر بنتی ہے جب آئی ایس آئی کا سابقہ سربراہ اعتراف کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس پاکستانی ٹیم تھی جسے بھارت کو زچ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا. جنرل درانی نے کہا کہ حریت کانفرنس کو اس لیے پیدا کیا گیا تاکہ کشمیری ناراضگی کو سیاسی طاقت میں بدلا جاسکے. تاہم جنرل نے اس امر پر مایوسی کا اظہار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے مطالبے کا جن بوتل سے باہر نکل آیا تھا اور ایک وقت آیا جب حریت کے خالق اپنی مخلوق پر مزید قابو نہیں رکھ سکے اور ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی معاملات اپنے گڑبڑ ہوگئے کہ بہت سے لوگوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ کوئی بھی فل سکیل جنگ نہیں چاہتا تھا. جنرل درانی اپنی گفتگو میں حریت کے ہینڈل پر اپنی گرفت کھونے کو آئی ایس آئی کی سب سے بڑی ناکامی گردانتے ہیں. انہوں نے تھرڈ آپشن کے خالق امان اللہ گلگتی پر بھی اپنی گرفت نہ ہونے کا اعتراف کیا، جس نے بعد میں بھاری نقصان پہنچایا. کتاب میں را چیف امرجیت نے اعتراف کیا کہ کشمیر میں بھارتی سیاسی ناکامیوں نے آج پھر وہ دن دکھا دیا ہے کہ پاکستان پھر سے انوالو ہوگیا ہے. ‘حریت پاکستانی ٹیم ہے، انڈیا کے پاس اپنی ٹیم ہے اور بےچارے کشمیری درمیان میں ہیں.’

خبر اس وقت زیادہ بنتی ہے جب جنرل درانی، آئی ایس آئی کے ایک اور سربراہ جنرل کیانی کے حوالے سے کچھ شکوک کا اظہار کرتے ہیں کہ شاید امریکیوں سے اسامہ بن لادن کے حوالے سے وہ کسی ڈیل میں شامل ہیں. ‘کیانی نیشنل ڈیفنس کورس میں میرا فیورٹ سٹوڈنٹ تھا، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد وہ میرے سامنے آنے سے کتراتا رہا ہے کہ شاید میں اس سے پوچھ نہ بیٹھوں کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا سودا کتنے ارب ڈالرز میں طے ہوا ہے. جس دن مجھے یقین ہوگیا میں خود کیانی کے خلاف مہم چلاؤں گا، جس کو میں پاکستانی فوج کے پرمغز سربراہان میں سے ایک سمجھتا ہوں. ‘کتاب میں اس امر پر بحث مباحثہ کیا گیا کہ اسامہ بن لادن کی موت سے چند دن پہلے ان کی ایک ائیر بیس پر افغانستان میں امریکی فوج کے جنرل ڈیوڈ پٹریاس سے ملاقات ہوئی تھی. جنرل درانی نے ایک اور تہلکہ خیز انکشاف یہ بھی کیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی خاص کردار نہیں ہے، بلکہ پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ایک آفیسر پہلے ہی سی آئی اے کو اس حوالے سے خبردار کرچکا تھا اور شاید اس مخبری کے عوض پچیس ملین ڈالرز بھی بوریوں میں بھر چکا ہے اور آج کل امریکہ خفیہ ارادوں میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے. سیمورہرش نے اپنی کہانی میں اسی مرکزی کردار کا زکر کیا تھا. نام جنرل درانی یہ کہ کر گول کرگیے کہ وہ خواہمخواہ اسے مشہور نہیں کرنا چاہتے.

بڑی خبر اس وقت بنتی ہے جب جنرل اسد درانی اپنے ادارے کی سب سے بڑی ٹرافی کلبھوشن یادیو کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہتے ہیں کہ کہ یادیو کو بھارت کو واپس کردیا جائے گا. ‘ہم (پاکستانیوں) نے اس معاملے کو صحیح طور پر پر ہینڈل نہیں کیا. اصل چیز را پر یہ ثابت کرنا تھا کہ ہم ان کو کہاں پکڑ سکتے ہیں (اور ان کی ناک رگڑ سکتے ہیں). اس سے اگلے مراحل اور کلبھوشن کو لٹکائے جانے کے مراحل کو وہ تضیع اوقات خیال کرتے ہیں.

سپائی کرانیکلز پر پاکستان بھارت دونوں میں خوب شور شرابا مچنے کا امکان ہے اور دونوں ‘اہل کتاب’ سابق سربراہان کو آڑے ہاتھوں لیا جائے گا. . تاہم یہ کتاب شطرنج کے دونوں اطراف میں بیٹھے دشمن اسٹیبلشمنٹ اور دشمنی کی انڈسٹری کے شہ دماغوں کے اندر جھانکنے کی کامیاب کوشش ہے اور شاید دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا کوئی دروازہ بھی کھول سکے. تاہم خفیہ ملکی رازوں کے افشاء کے حوالے سے جو سیاست دان زیر عتاب ہیں وہ کتاب پڑھتے ہوئے یہ شعر گنگنا سکتے ہیں :
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا.

’ایون فیلڈ ریفرنس میں نام شامل کرنے کیلئے جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کو غلط قرار دیا‘ اسلام آباد: (اصغرعلی مبارک سے

Posted on

’ایون فیلڈ ریفرنس میں نام شامل کرنے کیلئے جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کو غلط قرار دیا‘
اسلام آباد: (اصغرعلی مبارک سے)سابق وزیراعظم انواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز

نے احتساب عدالت کو بتایا کہ نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ٹرسٹ ڈیڈ اصل ہے تاہم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے انہیں جان بوجھ کر غلط ثابت کرنے کی کوشش کی تاکہ میرا اور میرے خاوند کیپٹن(ر) محمد صفدر کا نام ایون فیلڈ ریفرنس میں شامل کیا جاسکے۔وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر پیش ہوئے، جہاں مریم نواز نے عدالتی سوالات پر اپنے جوابات ریکارڈ کرائے۔واضح رہے کہ مریم نواز کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 342 کے تحت احتساب عدالت کے سوالات کے جواب دے رہی ہیں۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ مجھے اور میرے خاوند کو کیس میں ملوث کرنے کے لیے اختر راجہ کے ذریعے رابرٹ ریڈلے کی خدمات لی گئیں جبکہ رابرٹ ریڈلے کی خدمات براہ راست یا پھر دفتر خارجہ کے ذریعے بھی لی جاسکتی تھیں‘انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی پہلی رپورٹ فرانزک میعار پر پورا نہیں اترتی اور اسے شواہد کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا، ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں پیشی کے وقت مجھے ریڈلے کی پہلی رپورٹ سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں وصول کیے جانے کے وقت کوئی سیزر میمو نہیں بنایا گیا اور میری موجودگی میں ٹرسٹ ڈیڈز کو سربمہر لفافے میں بھی بند نہیں کیا گیا، نہیں معلوم کہ ٹرسٹ ڈیڈ کب، کیسے اور کس حالات میں ریڈلے تک پہنچی۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی واضح نہیں کی ٹرسٹ ڈیڈ لندن کون لے کر گیا اور کس نے وصول کی، رپورٹ تعطیل والے دن بھجوائی گئی جبکہ یہ ایک غیر معمولی عمل تھا۔سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ ریڈلے نے اعتراف کیا تھا کہ وسٹا کا بیٹا ون ورژن اپریل اور ٹو ورژن اکتوبر 2005 میں دستیاب تھا جبکہ ریڈلے نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے 2005 میں ڈاؤن لوڈ کرکے کیلبری فونٹ استعمال کیے تھے۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ رابرٹ ریڈلے نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے سافٹ وئیر یا کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل نہیں کی اور ریڈلے کی سی وی میں یہ بھی ظاہر نہیں کہ وہ فونٹ کی شناخت کا ماہر ہے۔انہوں نے کہا کہ ریڈلے کی دوسری رپورٹ بھی قابل اعتبار نہیں جبکہ ریڈلے کی دوسری رپورٹ یکطرفہ اور جانبدار ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ ریڈلے کے پاس اس کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ پہلے فراہم کی گئی کاپیوں سے ٹرسٹ ڈیڈ کا موازنہ کرتا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اختر راجہ کو معلوم تھا کہ پہلے فراہم کی گئی کاپیاں غلطی سے مکس اپ ہوگئی تھیں اور معلوم ہونے کے باجود اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے معاملہ اچھالا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ رابرٹ ریڈلے کی یہ رائے بدنیتی پر مبنی ہے کہ کمرشل دستیابی سے پہلے کیلبری کا استعمال ممکن نہیں تھا جبکہ جرح کے دوران خود ریڈلے نے بتایا تھا کہ 2007 سے پہلے کن ذرائع سے بیٹا ورژن ڈاون لوڈ کیا جاسکتا تھا۔احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی جاری سماعت کے دوران مریم نواز نے قطری شہزادے کے خط کے حوالے سے بتایا کہ قطری خطوط اور منی ٹریل سے متعلق ورک شیٹ کے حوالے سے سوال مجھ سے متعلق نہیں، ’قطری خطوط اور ورک شیٹ کے حوالے سے متفرق درخواستوں میں فریق نہیں ہوں‘۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ قطری خاندان کے ساتھ کاروبار اور کسی ٹرانزکشن سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا، استغاثہ کے شواہد سے بھی میرا قطری خاندان کے ساتھ کاروبار سے کوئی تعلق ظاہر نہیں ہوتا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ قطری شہزادے نے جے آئی ٹی میں شامل تفتیش ہونے سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنے محل میں بیان قلمبند کرانے کے لیے تیار تھے۔اس موقع پر مریم نواز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرا تو کیس ہی یہی ہے کہ میری موکل کا کردار صرف ٹرسٹی کا تھا، باقی جو جس نے پیش کیا ہے وہ اس کا جواب دے گا۔گزشتہ روز احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات میں سے 47 کے جوابات ریکارڈ کرائے تھے۔واضح رہے کہ اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات کے جوابات مکمل کیے تھے۔

فاٹاکو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے ترمیم قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظور، حمایت میں 71ووٹ ، , مخالفت میں5ووٹ

Posted on Updated on

فاٹاکو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے ترمیم قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظور، حمایت میں 71ووٹ ،اعظم خان موسیٰ خیل ،عثمان کاکڑ ،گل بشریٰ ،سردار احمد شفیق ترین ،عابدہ موسیٰ نے مخالفت میں ووٹ دیا

اسلام آباد: (اصغرعلی مبارک سے)وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگئی۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا، جہاں وفاقی وزیر قانون محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق بل پیش کیا۔مذکورہ ترمیم کو منظوری کے لیے ایوان بالا میں بل پیش کیے جانے پر جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی اور جے یو آئی (ف) نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔اعظم خان موسیٰ خیل ،عثمان کاکڑ ،گل بشریٰ ،سردار احمد شفیق ترین ،عابدہ موسیٰ نے مخالفت میں ووٹ دیا بعد ازاں فاٹا انضمام بل کی شق پر رائے شماری کی گئی، پہلا ووٹ وھیل چیئر پر آنے والے سعدیہ عباسی نے کاسٹ کیا جس کی حمایت میں 71 جبکہ مخالفت میں 5 ووٹ آئے، جس کے بعد یہ بل دو تہائی اکثریت سے ایوان سے منظور ہوگیا۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام کے بل کی منظوری پر کہا کہ آج کے تاریخی دن پر فاٹا کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق بل پیش کیا گیا تھا جو بھاری اکثریت سے منظور ہوا۔قومی اسمبلی میں بل کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔جمعیت علماء اسلام اور پی کے میپ نے ایوان زیریں میں بھی اس بل کی مخالفت کی تھی اور پی کے میپ نے بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دی تھیں۔واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محصولات سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے اور فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔
فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔واضح رھے کہ گزشتہ روز وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کا خیبرپختونخوا میں انضام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں منظور کرلیا گیا۔وزیرِ قانون محمود بشیر ورک کی جانب سے مذکورہ بل حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم کے بعد پیش کیا گیا تھا۔قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کے حوالے سے ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی شرکت کی۔قومی اسمبلی اجلاس میں فاٹا اصلاحات بل کی منظوری کے لیے رائے شماری کی گئی جس کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج قومی اسمبلی نے جو بل پاس کیا ہے اس کے نتائج پاکستان کے لیے بہت مثبت ہوں گے اور میں اپوزیشن کا مشکور ہوں جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے حوالے سے ڈھائی سال پہلے ایک کمیٹی بنی جس کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا اور ایک بل بنا، جو آج سب کے سامنے آیا ہے، میں اس بل پر خورشید شاہ، فاروق ستار کا مشکور ہوں جنہوں نے بل پر رائے دی۔انہوں نے کہا کہ آج اس ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن نشستوں نے مل کر اس بل کو پاس کیا، لیکن مجھے افسوس ہے کہ جو تقریر ہوئی اس میں ایسی باتوں کا ذکر کیا گیا جس کی آج ضرورت نہیں تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، جس سے تنازعات کا پہلو سامنے آئے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کسی کو منی لانڈرر کہنا اخلاقی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے، خاص طور پر اس دن جب ایوان نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، اس دن ایسی متنازع بات کو سامنے لانے کی ضرورت نہیں تھی۔انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ مذکورہ بل کی وجہ سے پاکستان میں عام انتخابات تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے، اور یہ وقت پر ہی منعقد کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس بل میں بلدیاتی، صوبائی انتخابات کی بھی بات رکھی گئی، اس کے علاوہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے متعلق بھی بات موجود ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد فاٹا میں جو ترقیاتی کاموں کی کمی ہے، اسے دور کیا جائے اور اس بل میں یہ بات رکھی گئی تھی کہ ہم نے فاٹا کے لوگوں کو وہی سب چیزیں دینی ہیں جو پاکستان کے دیگر لوگوں کو میسر ہیں۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج ایوان نے یہ ثابت کیا کہ قومی معاملات پر یکجہتی ہوسکتی ہے لہٰذا جو بھی قومی معاملات ہیں انہیں مل کر ہی حل کرنا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی بہت بڑی جیت ہوئی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں جب پاکستانی قانون کا اطلاق ہوگا تو اس میں مشکلات آئیں گی، تاہم فاٹا بل منظور کرکے قبائلی عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا گیا۔ا نہوں نے کہا کہ فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانا قابلِ قبول تجویز نہیں ہے، کیونکہ یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کروا کر ان کو اختیارات دے کر وہاں ترقی کی جائے لیکن یہ آسان نہیں ہوگا، اس کی مخالفت کی جائے گی۔عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک بہت زبردست قدم لے رہا ہے لیکن اس میں مشکلات آئیں گی، جس سے نمٹنے کے لیے ایک کمیٹی بنانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو اپنے ملک کے وزیرِاعظم سے منی لانڈرنگ کے کیس میں یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آیا اور ملک سے باہر کیسے گیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا ضمیر واضح ہے کہ میں لوگوں کے مفاد میں کھڑا ہوا، لیکن میں اراکینِ اسمبلی سے پوچھتا ہوں کہ جو منی لانڈر کی حمایت کر رہے تھے کیا ان کا ضمیر ٹھیک تھا‘۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہاں ایک رکن اسمبلی نے بیٹھ کر مجھے کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے لیکن آج وہ رکنِ اسمبلی یہاں موجود ہی نہیں ہے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے فخر ہے کہ ہم نے جدو جہد کی جس میں ہم کامیاب ہوئے اور ایک بدعنوان وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا گیا‘ا پوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ آج فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کا بل منظور ہونا پاکستان کے لیے بہت بڑا دن ہے اور خوشی ہے کہ یہ بل بھاری اکثریت سے منظور ہوا ہے۔پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے فاٹا بل کی منظوری کو پاکستان کی تاریخ میں اہم سیاسی سنگِ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی نے کالونی کے نظام کو فاٹا سے ختم کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ آج کا بل منظور ہونا پاکستان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے۔فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے حوالے سے بل پر جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے اراکین نے مخالفت کی اور اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا، جبکہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی بلال رحمٰن نے بھی اس بل کی مخالفت کی۔اس دوران انتہائی جذباتی انداز میں تقریر کرتے ہوئے فاٹا سے تعلق رکھنے والے رکنِ قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے الزام عائد کیا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی جو اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے انضمام کی وجہ سے انہیں فنڈز ملنا مشکل ہوجائے گا‘۔انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو فاٹا کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کی مخالفت کرتے رہے ہیں، ان کے چہرے آج پارلیمنٹ میں سب کے سامنے آگئے۔شاہ جی گل آفریدی کا مزید کہا کہ جو لوگ اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں انہوں نے کبھی اس علاقے کا دورہ ہی نہیں کیا کہ یہاں پر لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنی قربانی دی ہے۔ادھر جمیعت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی نے اپنی تقریر کے دوران آج کے دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کے آئین سے ’فاٹا‘ کا لفظ نکالنے والی ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ فاٹا کو بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکنِ اسمبلی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے ایک دوسرے کو سرِ عام گالیاں نکالیں لیکن آج فاٹا کے عوام کے حقوق کا استحصال کرنے کے لیے دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملالیا۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہونے کی صورت میں ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب، ہزارہ اور فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے سے متعلق بل ایوان میں پیش کیا جبکہ ملک میں انتظامی بنیادوں پر 19 صوبے بنانے کا مطالبہ کیا۔ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت فاٹا اور خیبر پختونخوا کے انضمام کی حمایت قومی اتحاد کے تناظر میں کر رہی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے سے متعلق اپنے موقف سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے رکنِ اسمبلی کی جانب سے جب کراچی سمیت ملک میں مزید 19 صوبے بنانے کا مطالبہ کیا گیا تو اس وقت ان کی پیپلز پارٹی کے اراکینِ اسمبلی سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ڈاکٹر فاروق ستار نے خبردار کیا کہ اگر کراچی میں پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو کراچی میں عدم برداشت کی فضا پھیل جائے گی۔انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا جائے گا تو مستقبل میں اسے علیحدہ صوبہ بنانا مشکل ہوجائے گا۔واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محاصل سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔فاٹا بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشتیں 12 سے کم ہوکر 6 ہوجائیں گی، جبکہ خیبر پختونخواہ کا قومی اسمبلی میں موجودہ حصہ 39 سے بڑھ کر 45 نشستیں ہو جائے گا۔سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے، اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے، اور فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی